اسلامیات

شکستہ دلی تری شان نہیں !

مفتی عبدالمنعم فاروقی

تاریخ گواہ ہے کہ زمانہ نبوت سے لے کر خلافت راشدہ تک اور خلافت راشدہ سے لے کر آج تک ان چودہ صدیوں میں باطل کئی مرتبہ حق سے متصادم ہوا ، سیکڑوں مرتبہ آمنا سامنا ہوا اور پوری قوت سے حق کو مٹانے اور اُسے بے نام ونشان کرنے کی کوشش کی مگر اللہ تعالیٰ نے ہر موڑ پر اسلام ،شریعت اسلام اور اہل اسلام کی مددونصرت فرمائی اور دشمنوں کے ناپاک عزائم کو خاک میں ملادیا ، اسلام کو عزت و سر بلندی عطاکی اور کفر وشرک اور طاغوتی طاقتوں کو جو باوجود مادی اسباب ووسائل کے ہزیمت سے دوچار کیا ،اور یقیناسنت اللہ بھی یہی ہے کہ حق وباطل کی کشمکش ہر زمانہ اور ہر دور میں چلتی رہے گی ، اس کے ذریعہ اہل ایمان کی جانچ پڑتال اور ان کا امتحان ہوتا رہے گا ، باطل آلات جدیدہ سے لیس ہوکر حق کی حقانیت کو مٹانے ،اس کی صداقت کو بدنام کرنے ، اس کی شجاعت کو کمزور کرنے اور اس کے دستور وقانون میں دخل اندازی کرنے کے لئے عدل ومساوات کا ڈھونگ رچاکر اور سبز باغ دکھانے کا بہانا لے کر قصر اسلام کی مضبوط دیواروں میں شگاف ڈالنے اور اسے نقصان پہنچانے کیلئے ہاتھ پیر مارتا رہے گا لیکن خدا ئے واحد کا وعدہ ہے کہ وہ دشمنوں کو چھوٹ تو دیتا ہے مگر لوٹنے نہیں دیتا ۔
ہندوستان جسے سیکولر ملک کہا جاتا ہے ،یہاں کا جمہوری نظام نہایت مضبوط ومستحکم ہے ، یہاں بہت سے مذاہب کے ماننے والے رہتے ہیں ،یہاں ملی جلی گنگا جمنی تہذیب کے لوگ آباد ہیں ،ایسا خوبصورت باغیچہ ہے جس میں الگ الگ بولیاں بولنے والے رہتے ہیں ،ایسا گلدستہ ہے جس میں ہر رنگ کا پھول موجود ہے، ان کے درمیان آپسی بھائی چارگی قابل دید ہے،جب ملک کو غاصب انگریزوں کے چنگل سے آزاد کیا گیا تو اسے جمہوریت کا نام د یا گیا اور اس کے قانون میں ہر شہری کو اپنے مذہب پر عمل اور اس کے تبلیغ کی آزادی دی گئی اور پر سنل لاء میں مداخلت نہ کرنے کا تیقن دیا گیا،لیکن یہ ملک کی بد قسمتی ہے کہ ان دنوں ایک مخصوص نظریات کا حامل طبقہ جو کہ حکومت کی کرسی پر براجمان ہے ملک میں ایک نیا قانون لاگو کرتے ہوئے یہاں کے باشندگان سے ان کے جمہوری حق کو سلب کرتا چاہتا ہے جس کے لئے وہ پوری قوت صرف کر رہا ہے ، یہ لوگ ایک ملک ایک قانون کا نعرہ لگا کر قوم کو دھوکہ دے رہے ہیں ،اس طرح کے قانون کے نافذ کرنے کی باتوں سے نہ صرف ملک کے جمہوری قانون کو خطرہ لاحق ہوگیا ہے بلکہ اس ملک میں جتنے مذاہب کے لوگ بستے ہیں ان سب کے لئے خطرہ کی گھنٹی بج رہی ہے وہ اس طور پر کہ اس قانون کے ذریعہ ان سے ان کی مذہبی آزادی چھین لی جائے گی اور اس کے مقابلہ میں ان پر ایک نیا قانون مسلط کردیا جائے گا جو ان کی مذہبی آزادی کے خلاف ہے ،یہ شدت پسند اور مخصوص نظریات کے حامل مذہبی پر سنل لا اور خصوصیت کے ساتھ مسلم پر سنل لاء پر ڈاکہ ڈالنے کی جرأت کرتے ہوئے بالخصوص مسلمانوں سے ان کا مذہبی حق چھینے کی کوشش کر رہے ہیں ۔
مخصوص نظریات کے حامل لوگوں کی کوششیں برسوں پرانی ہیں چند سال قبل اس میں شدت پیدا ہوئی ہے ،ان لوگوں نے ابتدا میں پُر زور تائدی انداز میں آوازیں بلند ،پھر دھیرے دھیرے لوگوں کی ذہن سازی کی اور اسی ذہن سازی کے ذریعہ آگے چل کر حکومت کی کرسیاں حاصل کی اس کے بعد سوریا نمسکار اور وندے ماترم کے ذریعہ توحید و عقائد پر براہ راست حملے کئے ،پھر ورزش اور اکسر سائز کے نام پر یوگا مسلط کرتے ہوئے شرکیہ افعال مسلط کرنے کی سازش رچی اور پھر حقوق نسواں کے نام پر طلاق ثلاثہ کو بہانہ بناکر طلاق بل پاس کیا اور اس وقت براہ راست شریعت میں مداخلت کرتے ہوئے یکساں سول کوڈ کی راہ ہموار کرنے کی کوشش کر رہے ہیں ، اس وقت لا کمیشن لوگوں سے رائے حاصل کر رہی ہے اور اس کے ذریعہ پورے ملک کی عوام سے ان کی رائے جاننا چاہتی ہے تا کہ اس کے بعد وہ اس قانون کے نفاذ پر فیصلہ کر سکے مگر یہ بات سمجھ سے بالاتر ہے کہ اس ملک میں مختلف مذاہب کے ماننے والے رہتے ہیں اور قانون سازی کے موقع پر اس بات کو مد نظر رکھتے ہوئے ایسا قانون بنایا گیا ہے کہ جس سے تمام مذہب کے ماننے والوں کو ان کے مذہب پر عمل کرنے کی آزادی حاصل رہے گی پھر اس قانون کے نفاذ کا مقصد کیا ہے؟ ،مطلب واضح ہے کہ اقلیتوں اور بالخصوص مسلمانوں سے ان کی مذہبی آزادی کے حق کو چھننا اور انہیں بے دخل کرنا ہے ،نیزاس غیر منصفانہ اور ظالمانہ قانون کے ذریعہ مسلمانوں کو اپنے رنگ میں رنگنے کیلئے مجبور کیا جانا ہے اور آنے والی ان کی نسلوں کو اسلام سے محروم یا کم ازکم دین سے دور کرنا ہے۔
ایک صاحب بصیرت عالم دین کا قول ہے کہ:اس ملک میں برسوں سے اسلام اور مسلمانوں کو مٹانے کی جس منظم طریقے سے کوششیں اور سازشیں کی جا رہی ہیں اور جس طرح شکاری جال بچھا کر پرندوں کو قید کرتے ہوئے ان سے آزادی چھین لیتا ہے اسی طرح اسلام دشمن طاقتیں کفرو شرک کا جال بچھا کر مسلمانوں کو اس میں قید کرنا چاہتی ہیں اور ان سے انکی مذہبی آزادی کو سلب کرنا چاہتے ہیں،سچ یہ ہے کہ اس ملک کے مسلمانوں پر اگر خدا کا خاص فضل وکرم نہ ہوتا اور اس کی مدد ونصرت نہ ہوتی تو یہ ملک دوسرا اسپین بن گیا ہوتا، مسلمانوں کو چاہئے کہ وہ ان حالات سے باخبر رہیں اور باطل طاقتوں اور بد باطن لوگوں کی چالا کیوں سے چوکنا رہیں اور اس ظالمانہ اور غیر منصفانہ آئین کے خلاف جمہوری انداز میں اور قانون کے دائرہ میں رہتے ہوئے اپنی ناراضگی درج کروائیں ،اس کے نقصانات سے لوگوں کو واقف کرائیں اور یہ بھی بتائیں کہ اس طرح کا قانون نافذ کرنا ملک کے جمہوری نظام کا تانا بانا بکھیردینا ہے ،امن وامان کو نقصان پہنچانا ہے اور آپسی اتحاد جو اس ملک کی علامت ہے اسے مٹانا ہے ،اس کے نقصانات سے واقف کرانے میں اپنے ساتھ ان لوگوں کو شامل کریں جو سنجیدہ مزاج رکھتے ہیں اور عدل وانصاف چاہتے ہیں اور ملک کے جمہوری نظام سے محبت رکھتے ہیں ،امید ہے کہ جمہوری اور ملکی حق رکھنے والوں کی جدجہد کامیاب ہوگی اور باطل قوتوں کا تلسم ٹوٹ کر بکھر جائے گا ۔
اسی کے ساتھ مسلمانوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ شریعت مطہرہ پر جانثاری کے ساتھ عمل کرتے ہوئے عملی پیغام دیں اور لوگوں کو بتائیں کہ مسلمان سب کچھ سہ سکتا ہے اوربرداشت کر سکتا ہے لیکن اپنے وطن میں بد امنی اور شریعت مطہرہ میں مداخلت برداشت نہیں کر سکتا ،مسلمانوں کو چاہئے کہ وہ خود کو دین متین کے تابع اور جناب محمد مصطفی ؐ کے عملی غلام بنائیں ، خود کو شرعی وعائلی مسائل میں شرعی عدالتوں کے پابند بنائیں اور پوری عظمت کے ساتھ نبوی سنتوں پر عمل پیرا ہوجائیں اور اپنے دل ودماغ سے کم ہمتی اور شکستگی کو دور کردیں ، ناگفتہ بہ حالات آنے پر صبر وثبات سے کام لیں کیونکہ حالات کا ادلتے بدلتے رہنا دنیوی نظام کا ایک حصہ ہے ، فی الوقت جو حالات کڑی دھوپ بن کر بے چین کئے ہوئے ہیں یہ حالا ت ان پر ہمیشہ رہنے والے نہیں ہیں،خدا تو مظلوموں کا حامی وناصر ہے اور جو حق پر ہیں ان کے ساتھ ہے ، اہل ایمان خدا کی رحمت کو اپنی طرف متوجہ کرنے والے کام کریں اور اس بات کا یقین رکھیں کہ خدا کی مدد ونصرت ان کے ساتھ ہے،خدا اپنے کلام پاک کے ذریعہ اہل ایمان سے کہتا ہے کہ :وَلاَ تَہِنُوْا وَلاَ تَحْزَنُوْا وَأَنْتُمُ الأَعْلَوْنَ إِنْ کُنْتُمْ مُّؤْمِنِیْنَ(آل عمران۱۳۹)اور (مسلمانو! حالت کے شکار ہونے پر) تم ہمت مت ہارو اور رنج مت کرو اور آخر تم ہی غالب رہوگے اگر تم پورے مومن رہے۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
×