اسلامیات

شب معراج میں بیان کی جانے والی چند موضوع و من گھڑت احادیث

از:محسن احسان رحمانی، مبلغ: جامعہ اسلامیہ دارالعلوم رحمانیہ حیدرآباد 

محدث جلیل ناقدِ حدیث حضرت مولانا حبیب الرحمٰن صاحب اعظمیؒ کے مقالات ومضامین کامجموعہ "مقالاتِ ابوالمآثر” کی تیسری جلد میں موضوع ومن گھڑت احادیث کے سلسلے میں ابناۓ دارالعلوم دیوبند کویہ ضروری ہدایت کی گئی ہے:
آپؒ رقم طراز ہیں: ” بے تحقیق روایات بیان کرنے میں وعظ گو طبقہ ہمیشہ سے بدنام ہے اور یہ بدنامی کچھ بے وجہ نہیں ہے؛ اس لیے کہ آج بھی مشاہدہ کیا جاتا ہے کہ کم استعداد و بے سواد واعظ ہی نہیں ؛ بل کہ اچھی استعداد کے بعض بعض مقرر حضرات بھی اس کا خیال نہیں رکھتے کہ اپنی تقریروں میں صرف وہی روایتیں بیان کریں، جو اہل فن کے معیارِ تحقیق
پر پوری اتر چکی ہوں۔
دارالعلوم دیوبند، ہندوستان میں درس حدیث کا سب سے بڑا مرکز ہے، اس سے تعلق رکھنے والے حضرات پر روایات کی تحقیق کی ذمے داری سب سے زیادہ عائد ہوتی ہے؛ اس لیے ابنائے دارالعلوم کو اس ذمے داری کا بہت زیادہ احساس کرنے کی ضرورت ہے۔”
(3/34)

اسی طرح
محدث کبیر حضرت مفتی سعید احمد پالن پوری رحمہ اللہ نے موضوع ومن گھڑت احادیث پر "مروجہ موضوع احادیث کا علمی جائزہ” نامی کتاب میں چھ صفحات پر مشتمل تقریظ تحریر کی ہے جس میں حضرتؒ نےاس بات کی بھی صراحت کی کہ کس طرح قرون اولی سے موجودہ زمانے تک موضوع و من گھڑت احادیث کا جال پھیلا اور اساطین واکابرینِ امت سے بھی اس سلسلے میں تسامح ہوا ہے – مقدمہ کا خلاصہ درج ذیل ہے_
تحریر فرماتے ہیں:

حدیث وضع کرنا٬ یا وضع کردہ احادیث کو بیانات وغیرہ میں سنانا یا کتابوں میں نقل کرنا٬ یہ نازک و حساس مسئلہ ہے……. اس جرم کی دفعہ جہاں دین کے دشمنوں پر عائد ہوتی ہے وہیں اس کی زَد میں دین کے بعض مخلص خدام بھی آتے ہیں….. (جو) اپنی تقریر و تحریر میں موضوع احادیث سے استفادہ کرنے میں محتاط نہیں ہے…… موجودہ دور کے بعض اساطینِ امت کے مواعظ و خطبات میں بھی یہ تسامح دیکھا جا رہا ہے ان بزرگوں کی کتابوں کی معرفت یہ چیزیں تیزی کے ساتھ فروغ پا رہی ہیں اور ان کی عالی نسبت کی وجہ سے ان کو رسوخ و استناد بھی مل رہا ہے
( مروجہ موضوع احادیث کا علمی جائزہ: ص34-30)

راقم نے شب معراج کی مناسبت سے صرف رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب کی ہوئی چند مشہورموضوع و من گھڑت احادیث اور ان کا حکم مستند ومحقق علماء کی کتابوں سے اختصار کے ساتھ نقل کرنے کی کوشش کی ہے جنہیں ہم واعظین ومقررین بر سرِمنبر ومحراب وبر سرِ عام برسہا برس سے بیان کرتے چلے آرہے ہیں-

ذیل میں مختصر اور اہم تمہید کے بعد 15 موضوع یا انتہائی ضعیف احادیث اور ان کا حکم درج ہے اورمضمون کے اخیر میں ان موضوعات پر لکھی گئی چند کتابوں کے نام بھی رقم کردیے گئے ہیں-

حافظ ابن حجر عسقلانیؒ فرماتے ہیں: روایات کے سلسلے میں جس شخص نے سب سے پہلےجھوٹ چلایا وہ عبداللہ بن سبا تھا (فن اسماء الرجال: ص:28)

موضوع و من گھڑت احادیث پر لکھی گئ کتاب "الاسرار المرفوعہ فی الاخبار الموضوعہ” میں ملا علی قاریؒ نے رقم کیا ہے:

وضعت الرافضة في فضائل علي واهل البيت نحو ثلاثمائةألف حديث-(ص:455: مکتب الاسلامی)
"روافض نے حضرت علی رضی اللہ عنہ اور ان کے اہل خانہ کے فضائل میں تقریبا تین لاکھ حدیثیں وضع کیں”__

من گھڑت احادیث پر لکھی گئ کتاب "الاثار المرفوعہ فی الاخبار الموضوعہ” میں علامہ عبدالحی لکھنویؒ نے رقم کیا ہے:

روافض کے شیوخ یہ کہا کرتے کہ جب ہمیں کوئی بات اچھی لگتی تو "جعلناہ حدیثا” ہم اس کو حدیث بنا لیتے(ص:45)

حدیثِ موضوع کی تعریف:
حدیثِ موضوع کی تعریفات میں محدثین کی الگ الگ تعبیرات ملتی ہیں-
ان تعریفات کا حاصل وخلاصہ یہ ہے کہ جو قول، یا عمل، یا حال ، یا وصف آپ ﷺ سے ثابت نہیں، اس کو آپ ﷺ کی جانب منسوب کر کے جس کلام میں بیان کیا گیا ہو، خواہ جان بوجھ کر ہو یا خطاوغلطی سے ہو ایسے کلام کو حدیثِ موضوع کہا جاتا ہے
(مروجہ موضوع احادیث کا علمی جائزہ: 75)

حدیثیں گھڑنے اور من گھڑت حدیثیں سنانے سے متعلق ائمہ اسلام کے فتاوی:
امام الہند علامہ عبدالحی لکھنویؒ پوری وضاحت وقوت کے ساتھ تحریر فرماتے ہیں:

اعلم إنه قد صرح الفقهاء والمحدثون بأجمعهم في كتبهم بأنه تحرم رواية الموضوع وذكره ونقله والعمل بما فاده مع إعتقاد ثبوته إلا مع التنبيه على أنه موضوع ويحرم التساهل فيه سواء كان في الأحكام والقصص أو الترغيب والترهيب أو غير ذلك ، ويحرم التقليد في ذكره ونقله إلا مقروناً ببيان وضعه۔
( جان لو کہ تمام فقہا ومحد ثین نے اپنی اپنی کتابوں میں تصریح فرمائی ہے کہ موضوع حدیث کو بیان کرنا، اس کا نقل کرنا اور اس کے ثبوت کا اعتقادر کھتے ہوئے اُس پر عمل کرنا یہ سب حرام و نا جائز ہے ۔ ہاں حرام اس وقت نہیں، جب کہ اس کے موضوع ہونے پر تنبیہ کر دی جائے۔ اسی طرح اس سلسلے میں تساہل برتنا; چاہے احکام و قصص کے باب میں ، چاہے ترغیب و ترہیب یا کسی اور باب میں حرام ہے اور اس کو نقل کرنے میں تقلید کرنا بھی حرام و نا جائز ہے؛ مگر اس کا موضوع ہونا بیان کر دیا جائے تودرست ہے)
(الآثار المرفوعہ فی الاخبار الموضوعہ: ص:22)

ناواقفیت کی بنا پر موضوع حدیث بیان کرنا؟

اگر کسی شخص نے موضوع حدیث سن کر دوسروں سے نقل کردی، اُس کو پہلے سے حدیث کے موضوع ہونے کا علم نہیں تھا، تو وہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف غلط بات منسوب کرنے کی وعید میں داخل نہیں ہوگا؛ جن لوگوں تک اس نے موضوع حدیث نقل کی ہے ، حتی الامکان اُن تک صحیح بات بتانے کی کوشش جاری رکھے اور اللہ سے توبہ استغفار بھی کرتا رہے_واللہ تعالیٰ اعلم (دارالافتاء:دارالعلوم دیوبند)

درج ذیل احادیث یا تو من گھڑت ہیں یا پھر انتہائی ضعیف جو بیان کے قابل نہیں اگربیان کی جارہی ہیں تو اس روایت کے نقص کو (جو سند کے اعتبار سے معنی کے اعتبار سےیا الفاظ کے اعتبار سے ہو) واضح کر کے بیان کیا جائے-

(1) محمدؐ نام پر گھڑی ہوئی احادیث:

اس بات میں کوئی شک نہیں کہ سرورِ کونین ﷺ کا اسمِ گرامی زمین پر ”محمد“ اور آسمان پر ”احمد“ ہے، جس طرح رسولِ اکرم ﷺ کی ذات اَعلی، اَرفع اور ممتاز ہے ، ایسے ہی  آپ ﷺ کا نامِ نامی، اسم گرامی بھی اَعلی ، اَرفع اور ممتاز ہے، جیسے اللہ  تعالیٰ نے آپ ﷺ کی ذات کے لیے ساری مخلوق میں محبوبیت رکھ دی ہے، ایسے ہی آپ  ﷺ کے اسمِ گرامی کی  محبوبیت بھی  سب  کے  دلوں میں  پیدا فرمادی ہے_
لیکن آپؐ کے نام پر بھت سی من گھڑت باتیں بھی حدیث کے نام پر مشہور ہوچکی
کتابوں میں ”محمد“ نام رکھنے کے فضائل پر متعدد روایات نقل کی گئی ہیں ، لیکن چوں کہ ان پر شدید جرح ہوئی ہے اور بعض روایات کو موضوع اور بعض کو کذب بھی لکھا گیا ہے؛ جیسے
حدیث: قیامت کے دن ایک آواز دینے والا آواز دے گا کہ "اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم اٹھیے اور جنت میں بغیر حساب کے تشریف لے جائیے پس ہر وہ شخص جس کا نام محمد ہوگا وہ یہ گمان کرتے ہوئے کھڑا ہو جائے گا کہ آواز اس کو دی گئی ہے پس حضرت محمدؐ کے اعزاز میں ان لوگوں کو بھی جنت میں داخل ہونے سے نہیں روکا جائے گا” –

تحقیق: علامہ جلال الدین سیوطیؒ نے لکھا ہے کہ محدثین نے اس حدیث کو موضوع کہا ہے-

إذا كان يوم القيامة نادى مناد يامحمدؐ! قم فادخل الجنة بغير حساب فيقوم كل من اسمه محمد فيتوهم أن النداء له فلكرامة محمد لا يمنعون . هذا معضل سقط منه عدة رجال- واللہ اعلم
(اللآلی المصنوعہ فی الأحاديث الموضوعہ105/1دار المعرفة)

اسی طرح سیرت حلبیہ کے حوالے سے یہ حدیث نقل کی جاتی ہے:

حدیث: ” جس شخص کے ہاں لڑکا پیدا ہوا اور وہ میری محبت کی وجہ سے اور میرے نام سے برکت حاصل کرنے کے لیے اس بچے کا نام ”محمد“ رکھے تو وہ شخص اور اس کا بچہ دونوں جنتی ہوں گے”۔

تحقیق: اس روایت پر کلام موجود ہے، بعض علماء نے اسے حسن کہا ہے، تاہم حافظ ذہبیؒ ابن حجرؒ ملاعلی قاری رحمہ اللہ اور دیگر نے اسے موضوع قرار دیا(اس روایت کو بیان کرنا درست نہیں)
(الأسرار المرفوعہ:415المکتب الاسلامی)

(2) أول ما خلق اللہ نوری:

حدیث: سب سے پہلے اللہ نے میرا نور پیدا کیا:

تحقیق: محدث کبیر شیخ یونس جونپوری علیہ الرحمہ فرماتے ہیں:
حديث "أول ما خلق اللہ نوری” کسی حدیث کی کتاب میں نہیں ہے امام قسطلانیؒ نے "مواہب لدنیہ” میں ایک حدیث بحوالہ "عبدالرزاق” حضرت جابرؓ سے نقل کی ہے جس میں "یاجابرؓأول ما خلق الله نور نبیک” ہے- اس کی سند باوجود تتبعِ بلیغ کے نہیں ملی٬ الفاظ کی بندش یہ بتاتی ہے کہ موضوع ہے-
(اللآلی المنثورہ: ص:338)

محدثِ جلیل مفتی سعید احمد پالنپوریؒ فرماتے ہیں:
"سب سے پہلے اللہ نے میرا نور پیدا کیا” یہ حدیث قطعاً باطل ہے۔ امام زرقانیؒ نے "مصنف عبد الرزاق” کا حوالہ دیا ہے، "مصنف عبد الرزاق” گیارہ جلدوں میں چھپ چکی ہے، میں نے گیارہ طلبہ کو ایک ایک جلد دے کر بٹھایا کہ اس کا ایک ایک حرف پڑھو اور تلاش کرو کہ یہ حدیث کہاں ہے؟مصنف عبدالرزاق میں طلباء کو یہ حدیث نہیں ملی۔ (علمی خطبات 90/1)

واعظین مذکورہ الفاظ "حدیث” کے نام سے نقل کرتے ہیں اور بعض "اصحابِ سیرت” نے اپنی کتابوں میں بھی نقل کیا ہے، مگر محدثین کی تحقیق کے مطابق یہ روایت موضوع ہے۔

(3) محمدؐ نہ ہوتے تو میں آدمؑ کو جنت اور جہنم کو پیدا نہ کرتا:

احادیث: *لولا محمدما خلقت ادم لولا محمد ماخلقت الجنۃ لولا محمد ما خلقت النار
*لولاک ماخلقت الدنیا
*لولا محمد لما خلقتک

*اگر محمدؐ نہ ہوتے تو میں آدمؑ کو پیدا نہ کرتا محمدؐ نہ ہوتے تو میں جنت اور دوزخ کو پیدا نہ کرتا
*اگر آپؐ نہ ہوتے تو میں دنیا کو پیدا نہ کرتا
*اگر آپؐ نہ ہوتے تو میں آدم کو پیدا نہ کرتا

تحقیق: محدث کبیر علامہ شیخ یونس جونپوریؒ نے ان تینوں احادیث کو ذکر کرنے کے بعد اپنی تحقیق درج کی ہے کہ یہ روایات محدثانہ حیثیت سے پایۂ ثبوت کو نہیں پہنچتیں مگر ملا علی قاریؒ کے سامنے چونکہ ان روایات کی اسانید موجود نہیں اس لیے انہوں نے حسن ظن کرتے ہوئے حدیثِ مشہور کی صحت کا دعوی کردیا اور جن حضرات نے بھی صحت کا دعوی کر دیا انہیں بھی یہی صورت پیش آئی یا پھر ملا قاریؒ پر اعتماد کیا ہے-
(اللآلی المنثورہ: 457)
(فتاوی دارالعلوم وفتاوی بنوری ٹاؤن میں ان احادیث کو معنا صحيح کہا گیا ہے)

(4) کیا نبیؐ کا حسن عرشِ الہی سے سجایا گیا ہے:

حدیث: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میرے پاس جبرائیل علیہ السلام آسمان سے تشریف لائے اور انہوں نے کہا: محمد! بے شک اللہ آپ کو سلام سناتے ہیں اور فرماتے ہیں:
” حبيبي ! إني كسوتُ حسن يوسف من نور الكرسي ، كسوت حسن وجهك من نُور عَرشِي ، وما خلقت خلقاً أحسن منك يامحمد”

( میرے محبوب میں نے یوسفؑ کے حسن کو کرسی کے نور سے سجایا ہے اور آپؐ کی ذات کے حسن کو اپنے عرش کے نور سے سجایا ہے اوراے محمدؐ! میں نے کوئی بھی مخلوق ایسی پیدا نہیں کی، جو آپ سے زیادہ حسین و جمیل ہو-)

تحقیق: یہ روایت حضرت جابر، حضرت ابو ہریرہ اور حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالی عنھم سے نقل کی گئی ہے؛ مگر بہ اتفاقِ محدثین یہ موضوع اور من گھڑت ہے کیونکہ اس کی سند کا ایک راوی: ابو بکر محمد بن عبد اللہ بن ابراہیم اشنانی ہے- یہ بڑا ہی خطرناک جھوٹا شخص تھا،چناں چہ امام دار قطنیؒ کہتے ہیں: یہ میرے نزدیک بہت بڑا د جال ہے۔ خطیب بغدادیؒ کہتے ہیں: کہ اس کی ایک مصیبت یہ تھی کہ نہایت نا پسندیدہ روایات گھڑتا تھا، مگر اس سے بھی بڑی مصیبت یہ تھی کہ اپنی خانہ ساز روایات کو صحیح و معتبر اسانید سے پیش کرتا تھا اور اپنی گھڑی ہوئی بات کے لیے کبھی یہ سند لے لیتا اور کبھی وہ سند لے لیتا٬ اسی لئے محدثین نے اس کو موضوع اور باطل قرار دیا ہے-
(مروجہ موضوع احادیث کا علمی جائزہ: ص: 204)

(5) گلاب کو نبیؐ کے پسینے سے بنایاگیا:

حدیث: سفید گلاب کو معراج کی رات میں میرے پسینے سے بنایا گیا اور سرخ گلاب کو جبریلؑ کے پسینے سے اور پیلے گلاب کو براق گھوڑے کے پسینے سے بنایا گیا-
الورد الأبيض خُلق من عرقي ليلة المعراج ، وخلق الورد الأحمر من عرق جبريل ، وخلق الورد الأصفر من عرق البراق (وهو موضوع) .
اسی طرح موضوع حدیث: شب معراج کی رات میرا کچھ پسینہ زمین پر گرا، تو اس سے گلاب نکلا ہے؛ لہذا جو میری خوشبوسو نگھنا چاہتا ہے؛ اس کو چاہیے کہ وہ گلاب سونگھ لے ۔
ليلة أسرى بي إلى السماء سقط إلى الأرض من عرقي فنبت منه الورد-
تحقیق: ان احادیث کی سندوں میں سے ہر ایک سند میں ایسے رواۃ ہیں، جو کذاب ووضاع اور متہم و متروک ہیں؛ اس لیے مذکورہ بالا ہر ایک روایت موضوع اور من گھڑت قرار دی گئی ہے؛ چناں چہ امام ابن الجوزی رحمہ اللہ نے ” الموضوعات” میں ان سب کی تحقیق کرنے کے بعد موضوع و خود ساختہ ہونے کا فیصلہ کیا ہے اور امام ابن الجوزیؒ کی موافقت میں امام ابن عساکر، امام نووی، حافظ ابن حجر عسقلانی، امام ذہبی ، امام ابن القیم ، حافظ سیوطی، حافظ سخاوی ، علامہ ابن عراق کنانی، ملاعلی قاری، علامہ شوکانی، علامہ عجلونی ، و دیگر محقق ومستندائمہ تحقیق نے ان روایات کو موضوع قرار دیا ہے۔
(الفوائد المجموعہ:196 دارالکتب العلمیہ) (الاسرار المرفوعہ: 464)

(6) چہرہ انورؐکی روشنی میں سوئی کی تلاش:

حدیث: ایک شب ام المؤمنین حضرت عائشہؓ کے ہاتھ سے سوئی نیچے گر پڑی ، آپؓ نے سوئی کو تلاش کیا لیکن سوئی نہیں ملی ، پھر آپؐ ہنسے، اور آپ کے دانتوں سے یا آپؐ کے چہرے سے ایک روشنی اور چمک نکلی٬ جس نے حجرے کو روشن کر دیا، اور اس کی روشنی میں حضرت عائشہؓ کوسوئی مل گئی۔

تحقیق: آپﷺ کی تعریف کے لیےکسی من گھڑت اور بے اصل روایت کی قطعاً ضرورت نہیں ہے؛
لہذا زیر بحث یہ حدیثِ عائشہؓ اگر ضعیف بھی ہوتی ؛ تو دیگر بے شمار احادیث کی تائید وتقویت کی بناپر یقینا مقبول ومعتبر ہوتی ، مگر کیا کریں کہ یہ حدیث ضعیف نہیں ہے؛ بل کہ "مسعد بن بکر فرغانی” کی وجہ سے امام دار قطنی کے بقول "باطل” کہی جائے گی یا پھر امام ذہبیؒ، امام ابن حجر عسقلانیؒ اور امام ابن عراق کنانیؒ کے بقول "خَبَرٌ كَذِبٌ” یعنی جھوٹی و بناوٹی کہلائے گی ۔
علماءِ جرح و تعدیل نے اس حدیث کی سند پر کلام کیا ہے اور اسے باطل و من گھڑت قرار دیتے ہوئے "مسعد بن بکر” راوی کو جھوٹا قرار دیا ہے۔ یہ قصہ اگر چہ "معارج النبوۃ” اور سیرت کی دیگر کتب میں مذکور ہے۔ جو رطب و یا بس پر مشتمل ہے،
ان کتب کی ہر چیز پر اعتماد صرف وہی شخص کر سکتا ہے جو سورہا ہو اور اُونگھ رہا ہو۔ لیکن عقل و نقل کسی حیثیت سے یہ روایت ثابت نہیں ہے۔

وهذا وإن كان مذكوراً في معارج النبوة وغيره من كتب السير – الجامعة للرطب واليابس فلا یستند بكل ما فيها إلا النائم والنَّاعِس – ولكنه لم يثبت رواية ودراية –
(الآثار المرفوعہ ص:45-46)

(7) حضورؐ شب معراج عرش پر نعلین پہن کر تشریف لے گئے تھے؟

حدیث: ” ایک روایت بڑے اہتمام سے سنائی جاتی ہے کہ سرکار دو عالمؐ نے شب معراج میں عروج فرمایا تو اس وقت آپ نعلین پہنے ہوئے تھے۔ آپ نے سوچا کہ قرآن سے معلوم ہوتا ہے کہ جب حضرت موسیٰؑ "وادی طوی” میں تشریف لائے، تو اللہ تعالی نے ان سے فرمایا: کہ اے موسی ! اپنے جوتے اتار دو۔ (ارشادِ باری ہے: بیشک میں تیرا رب ہوں تو اپنے جوتے اتار دے بیشک تو پاک وادی طویٰ میں ہے(سورہ طہ :آیت:12)) یہ سوچ کر آپ ﷺ نے بھی اپنے جوتے اتارنے کا ارادہ فرمایا تواللہ تعالیٰ نے فرمایا: اے محمدؐ ! اپنے نعلین مت اتارو، بے شک تمھارے قدموں کے جوتوں سمیت آنے سے آسمان مشرف ہوگا اور برکت حاصل کر کے دوسروں پر فخر کرے گا۔ اس کے بعد آپ ﷺ عرش پر چڑھ گئے ، اس حال میں کہ آپ کے پاوں میں نعلین تھے۔

تحقیق: یہ من گھڑت اور موضوع قصہ ہے، اس کا حقیقتِ حال سے کوئی تعلق نہیں ہے،امام مقری مالکی، علامہ رضی الدین قزوینی اور امام زرقانی رحمہم اللہ نے تصریح کی ہے کہ یہ قصہ موضوع ومن گھڑت ہے اور معراج کے بیان کو لے کر جتنی کثیر روایات آئی ہیں، ان میں کہیں ثابت نہیں ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا معراج کا سفر تفصیلًا کتب میں مذکور ہے، لیکن اس قصے کا معتبر اور مستند کتب میں کہیں بھی ذکر نہیں ملتا کہ آپ جوتے پہن کر گئے ہوں؛ لہذا اس طرح کے من گھڑت اور موضوع واقعات کو بیان کرنے سے اجتناب کرنا لازم ہے۔
(الآثار المرفوعہ:39-37 دارالکتاب العلمیہ)

احمد رضا خان صاحب نے بھی سوال کے جواب میں عرض کیا کہ:
نعلین مقدس پہنے ہوئے عرش پر جانا جھوٹ اور موضوع ہے۔
(عرفان شریعت حصہ دوم ص:۹)

(8) سدرۃ المنتہی کے پاس حضرت جبرئیل علیہ السلام کا ساتھ چھوڑنا:
نبی اکرمؐ شب معراج میں جب مقام سدرۃ المنتہی کے پاس پہنچے تو حضرت جبرئیلؑ رک گئے٬ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کہ اے جبرئيل! کیا اس مقام میں آکر ایک دوست اپنے دوست کو چھوڑ دیتا ہے حضرت جبرئیل علیہ السلام نے فرمایا: یا رسول اللہ! میں اس سے آگے نہیں جا سکتا کیونکہ اگر میں ایک قدم بھی آگے بڑھایا تو تجلیاتِ نور کی وجہ سے جل جاؤں گا_ ایک نعت بڑی مشہور ہے جس کا مطلع ہے؂

سدرۃ المنتہی پر جو پہنچے نبی
سر جھکا کر یہ جبرئيل کہنے لگے
اے حبیب خدا! بس سوا آپ کے
اس کے آگے جو جائے گا جل جائے گا
اس کے علاوہ بھی نعتوں نظموں میں اکابرین سے بھی تسامح ہوا ہے

تحقیق; اس روایت کے متعلق امام قسطلانیؒ علامہ زرقانیؒ ملا علی قاریؒ وغیرہ حضرات محققین کی صراحت کے بعد یہ کہا گیا ہے کہ: یہ (مذکورہ روایت) موضوع ومن گھڑت ہے٬اس لیے اس جیسی روایات کو بیان کرنا اور وہ بھی موضوع وبے اصل ہونے کی تصریح کیے بغیر کسی کے لیے جائز نہیں_
(مروجہ موضوع احادیث کا علمی جائزہ 3:50)

(9) "تشہد” کے پسِ منظر میں بیان کیا جانے والامکالمہ:

حدیث: سرور کائناتؐ "سدرۃ المنتہی” کے پاس جب تشریف لے گئے، تو در بارالہی میں عرض کیا : التحيات لله و الصلوات والطیبات“۔ اس کے جواب میں اللہ رب العزت نے فرمایا : ” السلام عليك أيها النبي و رحمۃاللہ و برکاتہ“۔ وہاں جتنے بھی مقرب فرشتے موجود تھے سبھی نے کہا: ” السلام علینا وعلى عباد الله الصالحين”. یا اسی واقعے کو بعض اس طرح بھی سناتے ہیں کہ: اللہ تعالیٰ کے جواب کے بعد آپ ﷺ نے فرمایا : ” السلام علينا وعلى عباد الله الصالحين“۔ (یعنی)وہاں بھی جب کوئی نہیں تھا ، آپ ﷺ نے اپنی امت کو یا درکھا اور صرف اپنے لیے سلامتی کی درخواست نہیں فرمائی ؛ بل کہ اپنے ساتھ اپنی امت کو بھی شامل فرمالیا۔

تحقيق: بیس سے زائد صحابہؓ سے صحیح وحسن اور ضعیف روایات میں معراج کا واقعہ کہیں مختصر کہیں طویل مروی ہے، مگر کسی میں بھی اس واقعہ کا نشان تک نہیں ملا۔ اس طرح حضرت ابن مسعود کو آپ ﷺ نے جو تشہد سکھ لایا ، اس میں بھی اس واقعے کا ذکر نہیں ہے۔ اس طرح آپ ﷺ نے اپنے صحابہ کو درود و سلام کا طریقہ سکھ لایا، ان میں بھی اس کا پتا نہیں ملا اور جہاں اس قصے کا ذکر ہے، وہاں اس کی کوئی سند ذکر نہیں کی گئی ہے اور بلا سند محض کسی کا ذکر کر دینا ثبوتِ حدیث کی کوئی دلیل قطعا نہیں ہے۔
(مروجہ موضوع احادیث کا علمی جائزہ: 351_352)

جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن کا فتوی بھی ملاحظہ ہو:
واضح رہے کہ "تشہد” کے حوالہ سے جو یہ بات مشہور ہے کہ "معراج کے موقع پر اللہ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے درمیان یہ مکالمہ ہوا تھا”، ایسی کوئی روایت سندِ متصل کے ساتھ نہ حدیث کی کسی مستند کتاب میں ملتی ہے اور نہ ہی ضعیف سند کے ساتھ ملتی ہے، تاہم ملا علی قاریؒ نے "مشکاۃ المصابیح” کی شرح "مرقاۃ المفاتیح” میں بغیر سند کے ابن ملک کے حوالہ سے مذکورہ واقعہ بصیغہ مجہول نقل کیا ہے، نیز "مظاہرِ حق جدید” میں بھی مذکورہ واقعہ معلق نقل کیا گیا ہے، علامہ آلوسی رحمہ اللہ نے بھی قدرِ اختصار کے ساتھ "سورہ یس” کی آیت نمبر 58 کی تفسیر کے ذیل میں "روح المعانی” میں اس واقعہ کو ذکر کیا ہے، اسی طرح "کنز الدقائق” کی شرح "تبیین الحقائق” میں بھی اس واقعہ کی طرف اشارہ ملتا ہے، نیز علامہ بدر الدین عینیؒ نے بھی "شرح سننِ ابی داؤد” میں اس واقعہ کی طرف بلا سند اشارہ کیا ہے، تاہم اس واقعہ کو تفصیل و اختصار کے ساتھ نقل کرنے والوں میں سے کسی نے بھی اس کی سند بیان نہیں کی ہے، لہذا اس واقعہ کو رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب کرکے بیان نہیں کرنا چاہیے، اگر بیان ہی کرنا ہو تو مذکورہ اہلِ علم کے حوالے سے نیز سند نہ ہونے کی صراحت کے ساتھ بیان کیا جائے-
( فتوی نمبر: 144004201428 )

(10)جس چیز کو محمدؐ کا ہاتھ لگ جائے اسے آگ نہیں چھو سکتی:

روایت: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ایک مرتبہ حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالی عنہا کے پاس تشریف لائے(یہ واقعہ امی عائشہ صدیقہ ؓکے نام سے بھی ذکر کیاجاتاہے)حضرت فاطمہؓ روٹیاں پکا رہیں تھیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کہ میں بھی تمہارے ساتھ روٹیاں پکاؤں گا آپ نے ایک روٹی تنور میں لگائی اور حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالی عنہ نے بھی روٹیاں تنور میں لگائیں حضرت فاطمہ کی روٹیاں تو تیار ہو گئیں لیکن اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک ہی روٹی تیار نہیں ہوئی٬ حضرت فاطمہؓ نے عرض کیا: کہ میری تو روٹیاں پک گئیں آپ ہی کی نہیں پکی٬ جس پر اللہ کے رسولؐ نے مسکراتے ہوئے فرمایا: کہ جس چیز کو محمدؐ کا ہاتھ لگ جائے اس کو آگ نہیں چھو سکتی_
روایت کاحکم: تلاش بسیار کے باوجود یہ روایت سندا تا حال ہمیں کہیں نہیں ملی٬ اور جب تک اس روایت کی کوئی معتبر سند نہ ملے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے انتساب سے بیان کرنے کو موقوف رکھا جائے کیونکہ اپ کی جانب ایسا ہی واقعہ منسوب کیا جا سکتا ہے جو معتبر سند سے ثابت ہو واللہ اعلم بالصواب

تاریخِ بغداد میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے رومال نہ جلنے کا ذکر ہے، مگر وہ بھی شدید ضعیف ہے، اس کا بیان کرنا درست نہیں ہے،
(غیر معتبر روایات کا فنی جائزہ: جلدسوم ص315)

(11) حضورؐ کا سایہ تھا یا نہیں:

حدیث: "حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا سایہ زمین پر نہیں پڑتا تھا نہ دھوپ میں نہ چاندنی میں”
تحقیق:
راجح قول کے مطابق نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا سایہ تھا ، یہی اصل ہے، عوام میں جو مشہور ہے کہ حضور ﷺ کا سایہ نہ تھا یہ کسی صحیح وصریح روایات سے ثابت نہیں ہے، اس کے برخلاف احادیثِ صحیحہ سے ثابت ہوتا ہے کہ حضور ﷺ کا سایہ تھا۔ ام المومنین حضرت عائشہؓ و حضرت صفیہؓ اور أنس بن مالکؓ کی اسانیدِ معتبرہ و حسنہ سے احادیث موجود ہیں
بلکہ حضرت انسؓ کی حدیث میں تو حضور اقدس ﷺ کا فرمان: رأيت ظلی وظلكم . صاف وارد ہوا ہے،
نیز اگر جسد انور کا سایہ نہ ہوتا تو جس طرح اور شمائل نبو یہ بیان کئے جاتے ہیں اور روایات صحیحہ معتبرہ میں وارد ہوئے ہیں اسکا بھی ذکر ہوتا بلکہ یہ تو خلاف عادت ہونے کی وجہ سے اور بھی زیادہ قابل اہتمام ہوتا ، اور صحابہ جیسے شق قمر، تسلیم حجروغیرہ ذکر فرماتے ہیں اسے بھی ذکر فرماتے ،
حالانکہ حقیقی طور پر ایک روایت بھی نفیِ ظل نبویؐ میں پایۂ ثبوت کو نہیں پہنچتی ہے-
(الیواقیت الغالیہ 69/1)

مزید شیخ یونس جونپوریؒ تحریر فرماتے ہیں: ایسی کوئی حدیث ثابت نہیں ہے ، بلکہ اس کے خلاف ایسی روایتیں موجود ہیں جن میں حضور اقدس ا کے سایۂ انور کا ذکر ہے ، حضرت عائشہ ؓ ، حضرت صفیہؓ اور حضرت انس ؓ کی احادیث میں ظلِ رسول اللہ اکا تذکرہ آیا ہے ۔( نوادرالفقہ ص ۲۵۷)(سایہ والی احادیث کی اسناد و متون کو تفصیل سے جاننے کے لئے حضرت مولانا یونس صاحب کی کتاب’’ نوادر الفقہ ‘‘کی طرف رجوع کریں )
سیرۃ النبی امیں لکھاہے : عوام میں مشہور ہے کہ آپ کا سایہ نہ تھا لیکن یہ کسی روایت سے ثابت نہیں ہے۔(سیرۃ النبی ا ۳؍۴۱۹)
اس سے اس بات کی وضاحت بھی ہو گئی کہ رسول اللہ پر دھوپ پڑتی تھی، اور ان لوگوں کے خیال کی تردید بھی ہوگئی جو یہ سمجھتے ہیں کہ رسول اللہ پر بادل ہر وقت سایہ فگن رہتاتھا، ابن تیمیہؒ فرماتے ہیں : ان الغمام کان یظل النبی ﷺ دائما ، ھذا لا یوجد فی شییٔ من کتب المسلمین بل ھو کذب عندھم ۔
( الفوائد الموضوعۃ للکرمی ۷۱) ’’بادل ہمیشہ رسول اللہ پر سایہ فگن رہتا تھا،یہ روایت مسلمانوں کی کسی کتاب میں نہیں ہے ، بلکہ یہ جھوٹ ہے علماء کے نزدیک ‘‘ ۔

(دارالعلوم دیوبند کا فتوی بھی یہی ہے)

(12) والدہ کی آواز پرنماز توڑ دینا:

حدیث: اگر میں اپنے والدین یا ان میں سے کسی ایک کو اس حالت میں پاؤں کہ میں عشاء کی نماز میں مشغول ہوں اور سورہ فاتحہ پڑھ چکا ہوں، اسی دوران میری والدہ مجھے پکار کر کہے: اے محمد! تو میں جواب میں اپنی والدہ سے کہوں گا: حاضر ہوں!”۔
تحقیق: اس روایت کاراوی یاسین بن معاذ "منکر الحدیث” ہے زیر تبصرہ روایت، بہر صورت ضعف شدید پر مشتمل ہے، اور اسے حافظ ابن جوزیؒ، حافظ ذہبیؒ اور امام شوکانیؒ نے من گھڑت کہا ہے، اور حافظ ابن حجرؓ کی تصریح کے مطابق جمہور علماء کے نزدیک فضائل کے باب میں بھی ایسی روایت بیان کرنا جائز نہیں ہے،
(غیر معتبر روایات کا فنی جائزہ: 152)

(13) ابوجہل کے ہاتھ میں سنگریزوں کی گواہی :

حدیث: مولانارومیؒ نے فارسی کی مشہور کتاب "مثنوی” میں ابوجہل اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے درمیان ہونے والے مباحثے کو15اشعار میں بیان کیا ہے- خلاصہ درج ذیل ہے-
سنگ ریزے ابو جہل کی مٹھی میں تھے ، ابوجہل نے کہا:اے احمد جلد بتا یہ کیا ہے؟ اگر تو رسول ہے تو بتا میرے ہاتھ میں کیا چھپا ہے؟ جبکہ آسمان کے راز کا تو خبر دار ہے-
رسولؐ نے فرمایا: تو کیا چاہتا ہے، میں بتاؤں کہ (وہ تیری مٹھی میں)کیا ہے ؟ یا وہ (مٹھی میں موجود کنکریاں )کہیں کہ ہم برحق اور سچے ہیں،
ابو جہل نے کہا: دوسری بات زیادہ انوکھی ہے (یعنی ہاتھ میں موجود کنکریاں بتائیں)
آپؐ نےفرمایا: تیرے ہاتھ میں پتھر کے چھ ٹکڑے ہیں، اور ہر ایک سے تو صحیح تسبیح سن لے، اس کی مٹھی میں ہر سنگریزے نے فورا کلمہ شہادت پڑھنا شروع کر دیا،
(مثنوی مولوی معنوی ص:35 :234 حامد اینڈ کمپنی اردو بازار لاہور)
تحقیق:
تلاش بسیار کے باوجود مذکورہ روایت سندا تا حال ہمیں کہیں نہیں مل سکی، اور جب تک اس کی کوئی معتبر سند نہ ملے اسے آپؐ کے انتساب سے بیان کرنا موقوف رکھا جائے، کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی جانب صرف ایسا کلام اور واقعہ ہی منسوب کیا جا سکتا ہے جو معتبر سند سے ثابت ہو، واللہ اعلم۔
(غیر معتبر روایات کا فنی جائزہ:4/:370)

(15-14) دو بوڑھی عورتوں کےقصے:

حدیث: حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم روزانہ جس راستے سے جاتے اسی راستے میں ایک بڑھیا کچرا ڈالتی٬ ایک دفعہ اللہ کے رسولؐ اسی راستے سے گئے اور آپ پر کچرا نہ ڈالا گیا تو آپ حیران ہوئے اسی غرض سے آپ اس بڑھیا کےحجرے میں اجازت لے کر داخل ہوئے تو معلوم ہوا کہ وہ بیمار ہے اللہ کے رسولؐ نے اس کی عیادت کی٬ اس نے آپؐ کے اخلاق دیکھ کر ایمان قبول کر لیا-

حدیث: ایک عورت جو مکے کے باہر رہتی تھی ، ایک دن خریداری کرنے مکہ آتی ہے، اس کو بتایا جاتا ہے کہ یہاں ایک شاعر ساحر رہتا ہے، جو اپنی باتیں سنا کر لوگوں کو اپنا بنا لیتا ہے اور لوگ اس کی باتوں میں آکر اپنا دین چھوڑ دیتے ہیں، تم اس کی بات نہ سنتا۔ وہ عورت چوکنی ہو کر خریداری کرتی ہے اور پھر اپنی بھاری بھر کم گھری اٹھا کر مکہ سے باہر نکلنے کو ہوتی ہے کہ وہاں سے نبی اکرم ﷺ کا گزر ہوتا ہے۔ آپ اس کی تکلیف و پریشانی کو دیکھتے ہیں اور پوچھتے ہیں کہ اگر آپ چاہیں، تو میں یہ گٹھری اٹھالوں اور آپ کے گھر تک پہنچادوں ۔ وہ عورت مان جاتی ہے اور سرکار مدینہ وہ گھٹری اٹھا لیتے ہیں۔ جب اس عورت کو اس کے گھر تک پہنچا دیتے ہیں، تو وہ کہتی ہے کہ تم اچھے و بھلے آدمی معلوم ہوتے ہو، میری تمھیں نصیحت ہے کہ یہاں ایک شخص ہے، جو نبی ہونےکا دعوی کرتا ہے، وہ جادوگر ہے، اس سے بچ کر رہنا۔ آپ ﷺ اس کی پوری بات سنتے ہیں اور فرماتے ہیں : اماں جان ! وہ شخص میں ہی ہوں، جس کے بارے میں لوگ ایسا ویسا کہتے ہیں ۔ وہ عورت حیران ہو جاتی ہے اور کہتی ہے کہ جس کے اخلاق اتنے بلند اور اچھے ہیں ، اس کا دین بھی بہت بلند اور اچھا ہی ہوگا۔ اے خدا کے پیغمبر مجھے بھی آپ اپنے دین میں داخل کر لیجیے۔ اس طرح یہ خاتون آپ ﷺ پر ایمان لے آتی ہے۔

تحقيق:
اس میں کوئی شک نہیں کہ آپ ﷺ جس طرح سید الانبیاء ہیں ، اسی طرح آپ کے اخلاق بھی سید الاخلاق ہیں٬ احادیث نبویہ میں اپنوں غیروں ، دوستوں دشمنوں حتی کہ انسانوں اور جانوروں کے ساتھ آپ کا حسن سلوک منقول ہے لیکن حضور ﷺ کی شان عالی میں کسی کو اپنی طرف سے گھڑ کر، بنا کر مزید کچھ جتانے و بتانے کی چنداں ضرورت نہیں ہے لہذا یہ جو دو واقعات آج کل سنائے جاتے ہیں ، حدیث کی مستند کتابوں میں ان کا ذکر تک نہیں ہے؛ بل کہ جو من گھڑت روایات کی نقاب کشائی کے لیے کتابیں لکھی گئی ہیں، اُن میں بھی ان دو قصوں کا نام و نشان تک نہیں ہے۔ یہ نئے من گھڑت ، جھوٹے واقعات میں سے ہیں ؛ اس لئے ان کا نقل کرنا جائز نہیں۔
(مروجہ موضوع احادیث کا علمی جائزہ: 241)

موضوع و من گھڑت احادیث پر لکھی گئی چندکتابوں کے نام:
درج ذیل کتابیں معروف کتب خانوں سے دستیاب ہوسکتے ہیں یا پی ڈی ایف کی شکل میں انٹرنیٹ سے بآسانی دستیاب ہو سکتی ہیں٬ کم از کم ان کتابوں میں سے کسی ایک کتاب کی فہرست پر ضرور نظر ڈالیں تاکہ معلوم ہو ہماری زبان اور قلم سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب جو الفاظ ادا ہوتے ہیں وہ حقیقت میں حدیث ہے یا نہیں-

(1)علامہ شیخ محمد بن طاہر پٹنیؒ کی "تذکرۃ الموضوعات” (2)عبدالرحمن بن علی معروف بہ ابن الجوزیؒ کی "کتاب الموضوعات من الاحادیث المرفوعات”
(3)علامہ جلال الدین سیوطیؒ کی "اللآلی المصنوعہ فی الأحاديث الموضوعہ”٬(4) علی بن سلطان محمد معروف بہ ملا علی قاریؒ کی "الاسرار المرفوعہ فی الاخبار الموضوعہ”(5) علامہ عبدالحی لکھنویؒ کی "الآثار المرفوعہ فی الاخبار الموضوعہ”(6) علامہ شوکانی کی "الفوائد المجموعہ فی الاحادیث الموضوعہ” (7)محدث کبیر شیخ یونس جونپوریؒ کی "الیواقیت الغالیہ” (9)”نوادر الحدیث مع اللآلی المنثورہ” (10)”نوادر الفقہ”
(11)مولانا طارق امیر خان صاحب جامعہ فاروقیہ کراچی کی "غیر معتبر روایات کا فنی جائزہ” (12)”حضرت حکیم الامتؒ کا من گھڑت روایات پر تعاقب” (13)مفتی یاسین خان صاحب قاسمی کی "مروجہ موضوع احادیث کا علمی جائزہ” (14)مفتی سعید احمد گجراتی صاحب کی "موضوع احادیث سے بچئے”
اللہ تبارک و تعالی احادیث رسولؐ کو تحقیق و تفتیش کے بعد بیان کرنے اور لکھنے کی توفیق عطا فرمائے اورموضوع و من گھڑت احادیث کو بیان کرنے پر موجود وعیدِ شدید سے محفوظ رہنےکی توفیق عطا فرمائے۔آمین

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
×