اسلامیاتسیرت و تاریخ

سیرتِ نبوی میں فقراء اور مساکین پر رحم وکرم کے تابندہ نقوش

از مفتی محمد سعید احمد قاسمی (استاذ مدرسہ قاسم العلوم تانڈور)

فخرِ موجودات باعث تخلیق کائنات ، محسن انسانیت، پیغمبر اعظم ﷺ کی حیاتِ پاک کا ہر گوشہ انسانوں کی ہدایت کا باعث اور اقوامِ عالم کے لیے نمونۂ عمل ہے آپﷺ کے نقوشِ حیات کا مطالعہ لاکھوں کروڑوں گم گشتگانِ راہ کے لیے حق آشنائی اور وصول الی اللہ کا ذریعہ ہے، رسولِ اکرمﷺ کی حیاتِ مبارکہ کا ایک خاص پہلو یہ ہے کہ آپﷺ جہاں اللہ کے سب سے مکرم ومعظم رسول تھے وہیں آپ صحیح معنوں میں نبی رحمت، پوری انسانیت کے لیے مجسمۂ رحم وکرم مرکزِ جود وسخا اور منبع الطاف وعنایات ہیں، اللہ نے آپﷺ کو رحمت سے معمور دل عطا فرمایا تھاجو کمزورں کے لیے تڑپ اٹھتا تھا،جو مسکینوں اور یتیموں کی حالت زار پر غم سے بھر جاتا تھا،سارے جہاں کا درد آپ کے دل میں سمٹ آیا تھا،آپﷺ کے رحم وکرم کے فیضان سے انسانی سماج کا کوئی بھی طبقہ محروم نہیں رہا ، فقراء ومساکین پر رحم وکرم کے حوالہ سے سیرتِ نبوی کا مطالعہ کیا جائے تو سیرتِ طیبہ کا یہ زاویہ بھی رحم وکرم کے جلوؤں سے منور وتاباں نظر آتا ہے رسول اللہﷺ نے جس طرح انسانی سماج کے دیگر افراد کے حقوق کا تذکرہ فرمایا اور ان کے حقوق کی یاددہانی کروائی وہیں آپ نے فقراء ومساکین پر رحم اور ان کے ساتھ شفقت ومحبت کا مظاہرہ کرنے پر ابھارا۔
فقراو مساکین اور حاجت مندوں کے ساتھ رحم و کرم ہی کا داعیہ تھا کہ آپ نے اپنے ایک صحابی کو حکم دیا کہ اپنے سالن میں شوربہ بڑھالینا تاکہ اس سے تمھارے پریشان حال پڑوسی بھی مستفید ہوں، آقائے کریم نے حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ سے ارشادفرمایا:يا اباذر اذاطبخت مرقة فأكثر ماءها، وتعاهدجيرانك(بخاری: کتاب الاطعمة)اے ابوذر ! جب سالن پکاؤ توشوربے میں اضافہ کر لو اور اپنے پڑوسیوں کا خیال کرو۔حاجت مندوں کی امدادواعانت ہی کی غرض سے آپ عورتوں کواپنے پڑوسیوں پر صدقہ کاحکم دیا کرتے تھے، آپ نے ارشادفرمایا: يانساء المسلمات لا تحقرن جارة لجارتها ولو فرسن شاة (1) ترجمہ: اے مسلمان عور تو! تم میں سے کوئی عورت اپنی ہمسامیہ کو حقیر نہ سمجھے ، خواہ وہ اسے بکری کا ایک کھر دے(بخاری، کتاب الھبۃ وفضلھا)
تنگدست اور پریشان حال پر کرم
نبی رحمت ﷺ کی خدمت میں جب کوئی تنگ دست اور پریشان حال حاضر ہو تا اور آپ کے پاس اگر کچھ موجود ہوتا تو اسے ضرور عنایت فرماتے اگر اس وقت آپ کے پاس ضرورت مند کو دینے کے لیے کچھ موجود نہ ہو تا تواپنے صحابہ کو صدقہ کی ترغیب فرماتے ، صحابہ کرام آپ کے حکم پرجان ومال قربان کرنے کے لیے تیار رہتے، جن کو جو میسر آتا لے کر سر کار دوعالم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوتے ، اس طرح ضرورت مند کی ضرورت پوری ہوتی اور صحابہ کرام اجروثواب کے مستحق ہوتے۔ حضرت جریر بن عبد اللہ فرماتے ہیں کہ ایک اعرابی پریشان حال سر کار دوعالم صﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا، ان کے جسم پر بوسیدہ لباس تھا، غربت کے آثار اس کے چہرے سے ظاہر ہورہے تھے ، جب آپ نے اس اعرابی کی اس کیفیت کو ملاحظہ فرمایا تو وہاں موجود صحابہ کرام کو صدقہ پر ابھارا، صحابہ کرام نے کچھ تاخیر کی ، اس اعرابی کا چہرہ مزید پژمردہ ہو گیا ،اس در میان ایک انصاری صحابی ورق (چاندی کے سکوں)کا تھیلا لے کر حاضر ہوئے، پھر دوسرے آئے ، پھر یکے بعد دیگرے متعدد صحابہ صدقہ لے کر حاضر ہوئے ، حضرت جریر بن عبد اللہ فرماتے ہیں کہ جب اس نے یہ کیفیت دیکھی تو اس کا چہرہ کھل اٹھا اور وہ مسرور ہو گیا، رسول کریمﷺ نے ارشادفرمایا:من سن في الاسلام سنة حسنة، اجرها و اجر من عمل بها بعدها من غير ان ينقص من اجورهم شئى،کہ جس آدمی نے مسلمانوں میں کسی نیک طریقہ کی ابتدا کی اور اس کے بعد اس طریقہ پر عمل کیا تو اس طریقہ پر عمل کرنے والوں کا اجر بھی اس کے نامہ اعمال میں لکھا جائے گا اور عمل کرنے والوں کے اجر میں کوئی کمی نہیں ہوگی(مسلم : کتاب العلم ، باب من سن سنة حسنة سيئة ومن دعا إلى هده او ضلالة)
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی روایت ہے کہ ایک پریشان حال شخص نبی کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا، آپ نے اپنی ازواج مطہرات میں سے کسی کے پاس بھیجا کہ اگر گھر میں کچھ ہو تو سائل کی ضیافت کی جائے ، اس نے عرض کیا: قسم ہے اس ذات کی جس نے آپ کو حق کے ساتھ بھیجا میرے پاس پانی کے سوا کچھ نہیں ہے ، پھر دوسری زوجہ کے یہاں بھیجا اس نے بھی وہی جواب دیا، یہاں تک کہ تمام ازواج مطہرات نے یہی جواب دیا۔ تو آپ نے ارشاد فرمایا: کون ہے جو آج کی رات اس مہمان کی ضیافت کرے ، اللہ اس پر رحم فرمائے۔ ایک انصاری صحابی کھڑے ہوئے ، عرض کیا یارسول اللہ میں اس کی ضیافت کروں گا، وہ صحابی اس مہمان کو لے کر اپنے گھر پہنچے، اپنی بیوی سے پوچھا، کیا گھر میں کھانے کا کچھ سامان ہے ؟ بیوی نے کہا کہ اتنا ہے کہ بچے کھاسکیں، صحابی نے فرمایا کہ بچوں کو بہلا کر سلا دو، اور جب کھانے کا وقت ہو تو چراغ کو بجھا دینا اور ایسا ظاہر کر ناکہ ہم بھی ان کے ساتھ کھارہے ہیں ، تاکہ مہمان کو کسی قسم کی وحشت نہ ہو ، چنانچہ بیوی نے شوہر کے منصوبے کے مطابق ویسا ہی کیا، مہمان نے شکم سیر ہو کر کھانا کھایا، جب صبح ہوئی اور یہ صحابی سر کار دوعالم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے تو آپ نے ارشادفرمایا: عجب الله من صنيعكمابضيفكما الليلة تم نے مہمان کے ساتھ جس حسن سلوک کے ساتھ رات میں ضیافت کی اللہ تعالی اس پر بہت خوش ہوا۔(مسلم : کتاب الاشربة، باب اكرام الضيف و فضل ايثاره)
مانگنے والوں پر رحم وکرم
حضرت سہل رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک عورت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں ایک بُنی ہوئی حاشیہ دار چادر آپ کے لیے تحفہ لائی ۔سہل بن سعد رضی اللہ عنہ نے (حاضرین سے پوچھا کہ تم جانتے ہوچادر کیا؟ لوگوں نے کہا کہ جی ہاں! شملہ ۔ سہل رضی اللہ عنہ نے کہا ہاں شملہ (تم نے ٹھیک بتایا) خیر اس عورت نے کہا کہ میں نے اپنے ہاتھ سے اسے بُنا ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو پہنانے کے لیے لائی ہوں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے وہ کپڑا قبول کیا۔ آپ کو اس کی اس وقت ضرورت بھی تھی پھر اسے ازار کے طور پر باندھ کر آپ باہر تشریف لائے تو ایک صاحب نے کہا کہ یہ تو بڑی اچھی چادر ہے ، یہ آپ مجھے پہنا دیجیے ۔ لوگوں نے کہا کہ آپ نے (مانگ کر ) کچھ اچھا نہیں کیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے اپنی ضرورت کی وجہ سے پہنا تھا اور تم نے یہ مانگ لیا حالاں کہ تم کو معلوم ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کسی کا سوال رد نہیں کرتے ۔ صحابی رسول نے جواب دیا کہ خدا کی قسم! میں نے اپنے پہننے کے لیے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ چادر نہیں مانگی تھی۔ بلکہ میں اسے اپنا کفن بناؤں گا۔ سہل رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ وہی حپا در ان کاکفن بنی۔( مسلم : کتاب الجنائز ،باب من استعد الكفن في زمن النبی ﷺ ولم ينكر عليه) یہ حدیث پاک اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ رحمتِ دوعالمﷺ کسی سائل کے سوال کو رد نہیں فرماتے تھے، دوسروں کی حاجت کو اپنی حاجت پر مقدم رکھتے تھے، تحفے میں پیش کی گئی چادر کی آپ کو ضرورت بھی تھی لیکن آپ نے اپنی ضرورت بتاکر سائل کو نامراد کرنا مناسب نہیں سمجھا یہ آپ کی شانِ رحیمی، کریمی اور فیاضی کی واضح دلیل ہے۔
اپنے حاجت مند اصحاب کا خیال
آپ کا منشایہ تھا کہ کوئی بھی فرد محتاج اور تنگ دست نہ ر ہے ، اگر کوئی اس مصیبت میں مبتلا ہے تو سماج و معاشرے کے دوسرے لوگ ان کی مالی امداد کے ذریعہ انہیں اس پریشانی سے نجات دلائیں ، اس کے لیے آپ نے متعدد طریقے رائج فرمائے ، کبھی صدقات کے ذریعہ ان کی اعانت ہوتی توکبھی کفارات کے ذریعہ ان کی ضرورتیں پوری کی جاتیں اورکبھی دیگر ذرائع سے ان کا خیال رکھا جاتا۔اپنے حاجت مند اصحاب سے آپ کس قدر محبت فرماتے تھے اور ان کی ضرورتوں کا آپ کو کس قدر خیال تھا اس کا اندازہ جنگ احزاب کے موقع پر حضرت جابر رضی اللہ عنہ کی جانب سے ہونے والی دعوت کی تفصیلات سے لگایا جاسکتا ہے ۔ جنگ احزاب کے موقع پر جب حضرت جابر رضی اللہ تعالی عنہ نےرسول اللہﷺکے شکم مبارک پر کئی پتھر بندھے دیکھے تو آپ کو بڑا افسوس ہوا، گھر آکر اپنی شریک حیات سے مشورے کے بعد سر ور کائنات ﷺ کی دعوت کی لیکن نبی کریم ﷺﷺ نے بھوک و پیاس کی شدت میں مبتلا صحابہ کرام کو چھوڑ کر تنہادعوت میں جانا پسند نہیں فرمایا، آپ کو یہ گوارا نہیں ہوا کہ آپ تو حضرت جابر کے گھر جاکر شکم سیر ہو جائیں اور آپ کے پریشان حال اصحاب بھوک کی شدت میں مبتلا ہیں ۔ چنانچہ آپ نے تمام صحابہ کرام میں حضرت جابرؓ کی دعوت کا اعلان کر دیا، حضرت جابرؓ کے لیے یہ پریشانی کی بات تھی کہ تھوڑے کھانے میں اتنے افراد کیسے کھائیں گے لیکن جب قاسمِ نعمت خود ہی مہمان ہوں توان کی ضیافت کے لیے فکر کی کیا ضروت ہے، سر کار اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کو حضرت جابرؓ نے دعوت دی تھی ، اور تمام صحابہ کو خود سرکار نے اپنی طرف سے دعوت پیش کی تھی ، لہذا تمام صحابہ کی ضیافت کا انتظام بھی آپ ہی کے لعاب مبارک کی برکت سے ہوا، تھوڑے سے آٹے اور بکری کے ایک چھوٹے بچے کے گوشت میں آپ نے لعاب مبارک ڈال دیا، پھر اس قدر برکت ہوئی کہ تقریبا ایک ہزار صحابہ نے شکم سیر ہو کر کھایا اور کھانے میں کوئی کمی بھی نہ ہوئی۔(بخاری کتاب المغازی باب غزوۃ الخندق)
پسماندہ افراد کو معاش سے جوڑنے کی فکر
نبی کریمﷺ سماج کے پسماندہ افراد کو معاش سے جوڑنا چاہتے تھے آپﷺ کی خواہش تھی کہ رزق اس قدر کشادہ ہوجائے کہ کسی کو کسی کے سامنے ہاتھ پھیلانے کی ضرورت نہ رہے، اس کے لیے آپ نے ایسے افراد کو متعدد طریقوں سے رہنمائی فرماتے ان کے لیے اسباب مہیا کرتے چنانچہ حضرت انسؓ سے مروی ہے کہ:ایک انصاری شخص رسول اللہ ﷺ کے پاس سوال کرنے کی غرض سے آیا آپ نے اس سے پوچھا کیا تیرے گھر میں کچھ نہیں ہے ، وہ بولا کیوں نہیں ایک کمبل ہے جس کا ایک حصہ ہم بچھا لیتے ہیں اور ایک حصہ اوڑھ لیتے ہیں اور ایک پانی پینے کا پیالہ ہے جس سے ہم پانی پیتے ہیں، آپ نے فرمایاوہ دونوں چیزیں میرے پاس لے آ،وہ گیا اور اپنی دونوں چیزیں لے آیا، نبی کریم ﷺ نے ان دونوں کو ہاتھ میں لے کر فرمایا: ان کا خریدار کون ہے ؟ ایک شخص بولا میںایک دینار میں خرید تا ہوں ، آپ نے فرمایا ایک دینار سے زائد میں کون خرید تا ہے( اور اس طرح آپ نے دو یا تین مرتبہ فرمایا ) ایک شخص نے کہا میں ان دونوں چیزوں کو دو در ہم میں لینے کو تیار ہوں، پس آپ نے وہ دونوں چیزیں اس شخص کے حوالے کر دیں اور اس سے دو در ہم لے کر اس انصاری کو دے دیا اور فرمایا کہ ایک درہم کی کچھ کھانے پینے کی چیزیں اہل و عیال کو دے دواور ایک در ہم میں ایک کلہاڑی خرید لو ،وہ کلہاڑی لے کر آپ کے پاس آیا آپ نے اس میں ایک لکڑی دست مبارک سے ٹھونکی اور فرمایا جا لکڑیاں کاٹ اور بیچ اور پندرہ دن میں تجھے یہاں نہ دیکھوں ، پس وہ شخص چلا گیا ، وہ لکڑیاں کاٹتا اور ان کو بیچتا، کچھ دنوں بعد وہ شخص آیا اور اس نے دس درہم کمائے تھے جس میں سے کچھ کا کپڑا خریدا تھا اور کچھ کا کھانے پینے کا سامان، نبی کریمﷺ نے فرمایا: تیرے حق میں یہ بہتر ہے ، اس بات سے کہ قیامت کے دن تیرے منھ پر ایک داغ لگا ہو، سوال کر نادرست نہیں مگر تین طرح کے آدمیوں کے لیے ایک وہ جو نہایت مفلس ہو،خاک میں لوٹتا ہو، دوسرے وہ جو پریشان کن قرضوں کے بوجھ تلے دبا ہوا ہو، تیسرے وہ جس نے کوئی قتل کر ڈالا ہو اور اب اس پر دیت لازم آئی ہو۔(سنن ابی دائود ،کتاب الزکوۃ)
دعوت فکر وعمل
آج ہمارے معاشرے میں جس قدر اخلاقی بحران اور نفسانفسی کی کیفیت پیدا ہو گئی ہے اس کی وجہ سنت نبوی سے دوری اور اپنے نبی کی تعلیمات سے بے توجہی ہے ، ہم میں سے ہر شخص اپنی دنیا میں مست اور اپنی ہی ذات میں مگن ہے ، ہمیں اپنے مفادات بہت عزیز ہیں ، اپنے نفع و نقصان کا بڑا خیال ہے ،لیکن اپنے اردگرد کے لوگوں کی کوئی فکر نہیں ، معاشرے میں بے چارگی کی زندگی گزار نے والے ،بھوک و پیاس کی شدت برداشت کرنے والے غریبوں ، فقیروں اور محتاجوں کی خبر گیری کرنے والا کوئی نہیں، ۔نبی کریم ﷺ کی سیرت طیبہ ہم سے تقاضہ کرتی ہے کہ ہم اپنے احباب ،اپنے سماج کے افرادا ور معاشرے کےدیگر انسانوں کے ساتھ شفقت و محبت کا برتاؤ کریں، محتاجوں کی امداد واعانت کریں ، بیماروں کی عیادت کریں ، مصیبت زدوں کے ساتھ شفقت کے ساتھ پیش آئیں ہمیں اس حوالہ سے اپنے آقا ومولی صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات پاک کے مختلف گوشوں کا مطالعہ کرکے اسے اپنے لیے نمونہ عمل بنانا چاہیے ۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
×