سیاسی و سماجی

سیاسی انتخابات سے ایک اہم سبق

افادات: عارف بالله حضرت مولانا شاہ محمد جمال الرحمن مفتاحی، جمع و ترتیب:مولانا محمد موسیٰ خان ندوی

اس وقت  انتخابات (election) کی تیاریاں زوروںپر ہیں، ہر طرف اسی کا چرچہ ہے، گروپ میٹنگس، کارنرمیٹنگس، ریالیاں اور جلسوں کی دھوم ہے، جس کی وجہ سے ذہن اسی طرف متوجہ رہتا ہے، یہ فطرت انسانی ہے کہ جس چیز کا تذکرہ اس کے سامنے کثرت سے ہوتا ہے، وہ اسی جانب متوجہ رہتا ہے، ان دنیاوی وسیاسی انتخابات کے تذکرہ سے دین کی جانب اپنے ذہن کو متوجہ کرنے میں اس سے مدد ملے گی۔ لیکن یہاں جن انتخابات کا تذکرہ مقصود ہے، یہ دوسری سمت کے انتخابات ہیں، یہ دنیا کے انتخابات عارضی ہیں، دینی واخروی انتخابات دائمی ہیں، ایک ظنی ہیں اور دوسرے حقیقی ویقینی ہیں، دنیاوی انتخابات میں فرد کا اور پارٹی کا انتخاب ہوتا ہے تو دینی واخروی انتخابات میں (۱) مقصد زندگی (۲) راستہ (۳) رہبر اور (۴) منزل کا انتخابات ہوتا ہے۔ اہل اللہ اور بزرگان دین کی مجالس میں اصل کام ذہن کو خلق سے خالق کی طرف متوجہ کرنے کا ہوتا ہے،اگر چہ وہ بظاہہر خود کو دنیوی امور سے دور رکھے ہوئے ہوتے ہیں، مگر دنیا میں رونما ہونے والے واقعات وحالات سے عبرت وسبق حاصل کرتے ہوئے لوگوں کو دنیا سے دین کی جانب متوجہ کرتے ہیں، اسی طرح وہ دنیا کے سیاسی انتخابات سے حود کو عملی طور پر علیحدہ رکھے ہوئے ہوتے ہیں، مگر اس سے سبق حاصل کرکے دنیاوی وسیاسی انتخابات سے مذہبی واخروی انتخابات کی طرف لوگوں کو متوجہ کرتے ہیں تاکہ لوگ اس وقتی انتخابات کی وجہ سے اصل وحقیقی انتخابات غافل نہ ہوجائیں، یہی کام حضرت انبیاء کرام ؑ نے کیا ہے، اللہ کے بندوں کو اللہ سے جوڑنا ان کی بعثت کا مقصد اور ان کی ز ندگی کا اہم مشن ہوتا ہے ؎
اللہ سے رشتے کو جوڑا

باطل کے طلسموں کو توڑا
خود وقت کے دھارے کو موڑا

طوفاں میں سفینے تیرائے
آنحضرت ﷺ کی بعثت کے وقت لوگ دنیا ہی میں پھنسے ہوئے تھے، ایمان کے ذریعہ ان کے اندر اللہ کی یاد پیدا کردی، خواہشات میں پڑے ہوئے تھے تو اللہ کے احکام میں لگایا، اخلاق بہت بگڑچکے تھے، ان کے اخلاق کو سنوار ا دوسروں کے حقوق دبانے والوں کو حقوق کی ادائیکی اہمیت کو سمجھایا تو لوگ حقوق ادا کرنے والے بن گئے، دوسروں کو ذلیل کرنے والوں کو احترام آدمیت ومقام انسانیت بتلایا تو ایک دوسر کا احترام کرنے والے بن گئے، مال پر جان چھڑکنے والوں کو اعمال کی اہمیت بتائی تو اعمال پر جان نچھاور کرنے والے بن گئے اور جان ہی کو سب کچھ سمجھنے والے ایمان کو سب کچھ سمجھنے والے بن گئے، اس طرح نبی رحمت ﷺ نے لوگوں کو دنیا سے دین کی جانب متوجہ کیا، یہی کام اہل اللہ نے کیا اور کر رہے ہیں۔
اللہ تبارک وتعالی نے دنیا میں دو طرح کے راستے رکھے ہیں، ایک حق کا راستہ، دوسرا باطل کا: ”ہم نے انسان کو دو راستے بتلائے“ (سورۃ البلد:۰۱)۔ ”اس (اللہ)نے ان سان کے نفس کو برائی کا راستہ بھی بتلایا اور نیکی کا بھی“ (سورۃ الشمس:۸)۔ ”یقینا ہم نے انسان کو راستہ بتلادیا، اب یا تو وہ شکر گزار بنے یا ناشکرا بنے“۔ ”جو چاہے ایمان لائے اور جو چاہے کفر کرے“ (سورۃالکہف:۹۲)
دنیا میں اللہ نے انسان کو اسی مقصد سے بھیجا ہے کہ یہ دیکھے کہ وہ حق وباطل میں سے کس چیز کا انتخاب کرتا ہے؟ کس کو اپنا رہبر بناتا ہے؟ کون سا راستہ اختیار کرتا ہے؟ اپنا مقصود کیا بناتا ہے؟ اور کون سی منزل چنتا ہے؟ اور یہ انتخاب پنچ سالہ منصوبہ نہیں ہے، (جیسا کہ جمہوریت میں ریاستی واسمبلی اور ملکی سطح کے پارلیمانی انتخابات صرف پانچ سالہ میقاتی ہوتے ہیں)، بلکہ یہ عمر بھر کا انتخاب اور زندگی بھرکا سلسلہ ہے۔
پہلا انتخاب:
انسان کو اپنی زندگی کے انتخاب میں جن چار چیزوں کو منتحب کرنا اور چننا ہوتا ہے، ان میں سب سے پہلی چیز مقصد زندگی کا انتخاب ہے، دنیاوی وسیاسی انتخابات میں امیدواروں کی ان کی اپنی دلچسپی کے اعتبار سے مختلف مقاصد ہوتے ہیں کسی کا مقصد نام وشہرت ہوتا ہے کہ کامیاب ہوں یا ناکام، ان سے ان کو کوئی بحث نہیں ہوتی، البتہ انتخابی مہم کے درمیان چند دن پوری ریاست اور پورے ملک میں اپنا نام ہوتا ہے، اخبارات میں نام آتا ہے، تصاویر شائع ہوجاتی ہیں ٹی وی کے چینلوں میں تذکرہ ہوجاتا ہے اور کسی کا مقصد دنیا بنانا ہوتا ہے، عوام کی خدمت سے انہیں کوئی سرورکا نہیں ہوتا، ایک لطیفہ اسی مناسبت سے یاد آیا کہ ایک صاحب اسی مقصد سے انتخابات لڑنے کے لئے کھڑے ہوئے اور ٹکٹ حاصل کرکے مہم چلانا شروع کردیا لوگوں نے پوچھا کہ جناب! آپ کا کیا مقصد ہے؟ انہوں نے بتلایا کہ میں اپنے حلقہ سے غریبی دور کرنا چاہتا ہوں، خیر انتخابات ہوگئے ان کو کامیابی بھی مل گئی،مگر پورے پانچ سال میں اپنے حلقہ کی عوام کی طرف کبھی پلٹ کر نہیں دیکھا، یہاں تک کہ پھر انتخابات کا وقت آیا تو یہ صاحب پھر ٹھہرے اور مہم چلانی شروع کردی، عوام نے پوچھا: جناب عالی! آپ نے پچھلے انتخابات میں غربت دور کرنے کا وعدہ کیا تھا وہ تو آپ نے پورا نہیں کیا اب کیا کروگے؟ امیدوار نے کہا کہ ایک آدمی کی غربت تو میں نے ضرور دور کردی ہے لوگوں نے پوچھا وہ کون خوش نصیب ہے؟ تو انہوں نے کہا: میں اپنی خود کی غربت دور کرلی ہے، انسان کے مقصد زندگی کے انتخاب میں اللہ تعالی کی عبادت وبندگی ہے: ”اور میں نے جنات اور انسانوں کو محض اپنی عبادت کیلئے پیدا کیا۔“ (الذاریات:۰۵)۔ ”آپ فرمادیجئے کیا خدا کے غیر کی عبادت کرنے کا تم مجھ کو حکم دیتے ہو اے جاہلو!۔“(الزمر:۴۶)اسی پہلے انتخاب کا ایک اہم حصہ اللہ کی رضا وخوشنودی بھی ہے، آں حضرت ﷺ نے طائف کے سفر سے واپسی کے موقع پر فرمایا تھا کہ: ”اے اللہ! اگر تو راضی ہے تو مجھے ان لوگوں کی تکلیف کی کوئی پرواہ نہیں ہے (مصنف ابن ابی شیبہ: ۸۲۵۹۲، باب ماجاء من عبد اللہ بن مسعود ؓ)اور دوسرا حصہ فکر آخرت ہے، حدیث شریف میں ہے ”جس نے اپنے سامان تجارت کے بارے میں اندیشہ محسوس کیا اور رات میں ایک محفوظ مقام میں پناہ لے لیا تو وہ بحفاظت منزل تک پہنچ گیا سن لو اللہ کا سرمایہ بڑا قیمتی ہے، آگاہ ہوجاؤ! اللہ کا سرمایہ جنت ہے۔
(مستدرک حاکم کتاب الرقاب:۱۵۸۷)
دوسراانتخاب:
مقصد زندگی منتخب کرلینے کے بعد راستہ کا انتخاب کرلینا آسان ہوجاتا ہے وہ راستہ جس پر زندگی بھر چلنے کے لئے بندہ کو منتخب کرنا ہے وہ صرف اسلام ہی ہوسکتا ہے: اور اے مومنو! میں تمہارے لئے اسلام سے راضی ہوچکا ہوں۔(المائدہ:۳) تو کیا یہ لوگ اللہ کے دین کے سوا کسی دوسرے مذہب کی طلب رکھتے ہیں؟ حالاں کہ زمین وآسمان کی ساری مخلوق چاہتے ہوئے یا نہ چاہتے ہوئے (ہر حال میں) اس کی تابعداری کرتی ہے۔(آل عمران:۳۸) جو کوئی بھی اسلام کے سوا کسی دوسرے مذہب کو طلب کرے گا تو ہر گز اس کو قبول نہ کیا جائے گا اور وہ آخرت میں رسوا ہوگا (آل عمران:۵۸)جو لوگ دنیا میں اسلام ہی کے راستہ کو اپنے لئے منتحب کرکے اسی پر اپنی زندگی بسر کرتے ہیں، ان ہی کے لئے قبر کے سوالات کے جوابات میں آسانی ہوگی، قبر میں دوسرا سوال دین سے متعلق ہوگا، ما دینک (تیرا دین کیا ہے) اس کا جواب ہوگا دینی اسلام (یعنی میرا دین اسلام ہے) اور جس لوگوں نے دنیا میں راہ اسلام کو اپنی ز ندگی کے لئے منتخب نہیں کیا، ان کا جواب ہوگا: ہا ہ لا ادری، ہائے افسوس! میں نہیں جانتا کہ اسلام کیا ہے؟ (ابو داؤد:۳۵۷، باب فی المسئلۃ فی القبر)۔
تیسرا انتخاب
جب مقصد زندگی طے ہوگیا اور راستہ کا بھی انتخاب ہوگیا تو اس راستہ پر چلنے کے لئے کسی رہبر کی ضروت پڑتی ہے، کیوں کہ رہبر کے بغیر راستہ پر چلنے کی صورت میں بھٹکنے کا قوی امکان ہوتا ہے اور رہبر کی رہبری میں چلنے کی وجہ سے راستہ بھٹکے بغیر بسہولت وعافیت منزل تک پہنچنا آسان ہوتا ہے، راہ اسلام کے سب سے بڑے اور سچے رہبر حضرت سیدنا محمد رسول اللہ ہیں، قرآن میں ہے: ہر قوم کے لئے ایک ہادی ورہبر (الرعد:۷)آں حضرت ﷺ کی صفات بتلائی گئی ہیں:اے پیغمبر! ہم نے آپ کو اللہ کے حکم سے اللہ کی جانب بلانے والا اور روشن سورج بنا کر بھیجا ہے(الا حزاب:۶۸)سفر ہجرت کے دوران حضرت سیدنا صدیق اکبر ؓ آنحضرت ﷺ کے ہمراہ تھے، راستہ میں کسی نے انسے نبی رحمت ﷺ کے بارے میں پوچھا کہ کون ہیں؟ انہوں نے جواب دیا: یہ میرے رہبر ہیں، مجھے راستہ بتلاتے ہیں، (بخاری:۱۱۹۳، باب ہجرۃ النبی ؐ)، سائل سمجھ رہا تھا کہ دنیا کی منزل کی راہ دکھانے والے اور حضرت صدیق ؓ اکبر سمجھ رہے تھے ملک بقا(آخرت) کے رہبر ہیں۔انسان کو چاہئے کہ نبی رحمتؐ ؐ کو اپنا رہبر زندگی کے ہر شعبہ میں بنائے، صورت وشکل ان جیسی بنانے میں، لباس وپوشاک میں، نشست وبرخواست میں، رزم وبزم میں، خوشی وغم میں، عقائد وعبادات میں، معاملات ومعاشرت میں اور اخلاق غرض تمام چیزوں میں، کیوں کہ انسان کامل صرف نبی رحمت ؐ ہیں اس لئے حیات انسانی میں مکمل رہبری بھی صرف انہی کی زندگی میں مل سکتی ہے۔
چوتھا انتخاب:
چوتھی چیز جس کا انتخاب دنیا میں انسان کو کرنا ہے وہ ہے منزل قرآن وسنت کا فہم وتعلیمات بتلاتی ہیں کہ:
ایک مسلمان کی منزل جنت ہوسکتی ہے، جہاں ہر قسم کی خواہش پوری ہوگی اور ہر قسم کی راحت حاصل ہوگی۔ (الزخرف:۱۷)
جہاں اہل ایمان جنتیوں کو فرشتے پورے اعزاز کے ساتھ لے جائیں گے اور رضوان جنت بڑا پرتپاک استقبال اور خیر مقدم کریں گے۔(الزمر:۳۷)
حضرت عمار بن یاسر ؓ کو جب کفار مکہ سخت شدائد وایذائیں دے رہے تھے ان کی بے چینی وبے قراری میں تسلی دیتے ہوئے آپ ؐ نے یہی فرمایا:اے یاسر کے گھروالو! خوش ہوجاؤ، بلاشبہ تمہاری منزل جنت ہے۔ (المعجم الاوسلط:۸۰۵۱)
جہاں اللہ تعالی اپنے بندوں کے نیک اعمال کا پورا پورا بدلہ دیں گے کسی قسم کی کمی اور ظلم وزیادتی نہیں ہوگی، یہ تو نیک لوگوں کی منزل ہے۔
اور برے لوگوں کی منزل جہنم ہے، جہاں طرح طرح کے عذابات ہوں گے نہ چین کی ز ندگی اور نہ موت ہوگی۔ (الاعلی:۴۱)
جہاں کفر وشرک کی سزامیں ہمیشہ پڑے رہنا ہے۔(النساء:۸۴)اور جس گناہ کی سزا میں اللہ تعالی جتنی دیر چاہیں گے جہنم میں رکھ کر پھر جنت میں داخل کریں گے، اللہ تعالی کی مرضی ہے مگر وہ دیر اور لمحہ بھی بہت سخت تکلیف دہ ہوگا۔
اب اگر دنیا کے اندر انسان اپنے حق میں جنت کا انتخاب کرلیتا ہے تو دنیا میں سب سے پہلے ایمان، اعمال صالحہ، احکام شریعت اپناتے ہوئے اللہ کی ہر قسم کی نا فرمانی سے بچنا ضروری ہے اور اگر کفر شرک اور معصیت زندگی میں ہو یا مومن ہو کر اعمال وفرائض میں کوتاہی کرتا ہے جہنم رسید کرنے والے اعمال بداپناتا ہے، جیسے جھوٹ دھوکہ مال حرام کا حصول، چغلی بخالت اور قطع رحمی وغیرہ کہ جن کے بارے میں صراحت کے ساتھ جہنم کی وعیدیں قرآن وحدیث میں آئی ہیں، تو اس کا مطلب یہ ہے کہ اس نے اپنے حق میں جہنم کا انتخاب کیا ہے، اس لئے زندگی میں صحیح منزل کا انتخاب ضروری ہے تاکہ انسان کی زندگی صحیح سمت چل سکے، منزل کے اچھے یا خراب ہونے پر انسان کی زندگی کا غلط یا صحیح ہونا موقوف ہے۔
یہی ہیں وہ چار چیزیں
جن کے صحیح انتخاب پر آخرت کی ہمیشہ کی زندگی کی کامیابی وراحت اور عزت ملتی ہے، اور دنیا کی زندگی بھی اچھی ہوجاتی ہے، پریشانیاں اور الجھنیں نہیں ستاتیں۔ اور ناکامی وتکلیف اور ذلت سے بھی حفاظت ہوتی ہے، جب کہ دنیا کے انتخاب والیکشن میں صحیح پارٹی وصحیح فرد وامیدوار کا انتخاب ہوتا ہے، تو پانچ سال تک کی عبوری راحت ملتی ہے۔ جس کے بعد غلط پارٹی اور غلط امیدوار کے انتخاب کا اور اس کے نتیجہ میں مشکلات وپریشانیوں کا امکان باقی رہتا ہے۔ اس لئے ہم کو ان انتخابات سے سبق حاصل کرتے ہوئے دنیاکی وقتی زندگی اور آخرت کی ہمیشہ کی زندگی کو بہتر سے بہتر بنانے کے لئے ان چار مذکورہ چیزوں کا صحیح انتخاب کرلینا چاہئیکہ پھر اس کے مطابق زندگی گزار نے کا اہتمام ہو اللہ تعالی ہم سب کو علم صحیح اور عمل صالح کی توفیق نصیب فرمائے۔آمین۔
گر انتخاب عام کی تقوی نہ ہو اساس
جمہوریت جنون ہے سودائے خام ہے
ہر نفس کا امام تھا پہلے امام اب
ہر نفس کا غلام ہی صدر عوام ہے
(کلام غلام:۲۵)

 

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
×