اسلامیات

سوریہ نمسکار اسلامی تعلیمات کی روشنی میں

مولانا محمد غیاث الدین حسامی

قرآن و حدیث میں عقیدۂ توحید کو سب سے زیادہ بیان کیا گیا ہے، توحید کامطلب یہ ہے کہ ہر انسان یہ عقیدہ رکھے کہ اللہ تعالیٰ اپنی ذات ا ور اپنی صفات میں یکتاہے،جب کہ شرک کہتے ہیں اللہ کی ذات اور صفات میں کسی مخلوق کو شامل کرنا ، یہ عقیدہ صرف مسلمانوں کا عقیدہ نہیں ہے ؛ بلکہ جتنے آسمانی مذاہب ہیں سب کامشترکہ عقیدہ ہے کہ اللہ اپنی ذات و صفات میں صرف ایک ہے اورعبادت کے مستحق وہی ہے اس کے علاوہ کسی دوسرے کی عبادت نہیں کی جاسکتی ہے؛ چنانچہ بائبل میں بھی ہے کہ خد اصرف ایک ہے ۔(مارک:۱۲:۲۹، اسحق:۴۳:۱۱،۴۵:۵، ۴۶:۹) ہندوازم کی کتاب اپونیشد میں ہے کہ وہ صرف ایک ہے دوسرانہیں ہے۔(۶:۲:۱) رگوید میں بھی ہے کہ خداایک ہے۔ (رگوید:۱۶۴:۴۶)
ہمارے ملک میں بعض لوگوں کی جانب سےہر سال یہ مطالبہ کیا جارہا ہے کہ سوریہ نمسکار کو اسکولوںاور کالجوں میں لازم کردیاجائے ، اس طرح کے اعلانات آئےدن اخبارات میں آتے رہتےہیں ؛ لیکن سوریہ نمسکار کی حقیقت اسلامی تعلیمات کے روشنی میں کیا ہے اور سوریہ نمسکار ہندوستانی تہدیب ہےیا ہندو دھرم کا عقیدہ اس پر کچھ باتیںذیل میںذکر کی جائیں گی، تاکہ مسلمان اپنے دین و ایمان کی حفاظت کرسکے ۔
سوریہ نمسکار سورج کے طلوع و غروب ہوتے وقت اس کی پوجا کرنے کا قدیم طریقہ ہے،اور یوگا کے آسنوں میں سے ایک آسن ہے، صبح کے وقت ہندودھرم کے ماننے والےمردو خواتین کھڑے ہو کر سورج کی پوجا کرتے ہیں،اور مختلف آسنوں کے ذریعہ سورج کو سلام اور سجدہ کیاجاتاہے، سوریہ نمسکار ہزارتاویلات کے باوجود بنیادی طور پر سورج کی عبادت کرنا ہے،جیساکہ سناتن دھرم یعنی ہندو مذہب کی مقدس کتابیں اس کے اعتراف سے بھری پڑی ہیں اور موجودہ دور کےہندو مذہبی رہنما اس کا برملا اعتراف کرتے ہیں، لیکن چونکہ اس شرکیہ عبادت کو علی الاعلان مسلط کرنا ہندوستان جیسے جمہوری ملک میں ممکن نہیں ہے اس لئے فرقہ پرست تنظیموںنے مختلف گمراہ کن حیلے بہانے تراشتے ہوئےاور اس حقیقت کو چھپانے کےلئے یہ کہا کہ سوریہ نمسکار کاتعلق مذہب سے نہیں بلکہ ہندوستانی تہذیب یاجسمانی ورزش سے ہے اور ہرآدمی کو اپنی تہذیبی اقدار نیز صحت کا خیال رکھتے ہوئے سوریہ نمسکار کرنا چاہئے۔
سوریہ نمسکار ہو یا یوگا قدیم زمانے سے چلا آرہا ہے،یوگا کے سلسلے میں ہندو مذہبی کتابوں میں مستند مواد میں نصوص صریحہ موجود ہے، جس سے پتہ چلتا ہے کہ یوگا کی بنیاد خالص کفر و شرک پر ہے، بھگوت گیتا میں یوگا کی سند موجود ہے اور یوگا میں پڑھے جانے والے سنسکرت کے اشلوک اس بات کی دلیل کے لئے کافی ہیں،یوگااور سوریہ نمسکار کے بارے میں یہ کہنا کہ اس کا تعلق مذہب سے نہیں ہے تاریخی حقائق کو مسخ کرنے کے مرادف ہے ،شیطان نے ہر زمانے میں لوگوں کو سورج کی عبادت کی طرف دعوت دی ہے ، اور انسانوں کے مابین سورج کے بارے میں عجیب و غریب قسم کے تصورات دلوں میں پیوست کیا ، جب کہ سورج کی حقیقت بس اتنی سی ہے کہ وہ اللہ کی من جملہ مخلوقات میں سے ایک ہے ،اللہ نےاس کو پیدا کیااور اس کے لئے ایک متعینہ رفتار رکھی ، چنانچہ قرآن مجید میں ہے’’وهو الذي خلق الليل والنهار والشمس والقمركل في فلك يسبحون‘‘ اللہ وہی ہے جس نے رات اور دن ،سورج اور چاند کوپیدا کیا، ہر ایک اپنے اپنے محور میں تیر رہا ہے(الانبياء۳۳ )سورج کاطلوع ہونا اور غروب ہونا اور روزانہ کی مسافت کا طے کرنا یہ سب اللہ کی جانب سے ہوتا ہے،وہ اپنے رب کا غلام ہے اسکے علاوہ سورج کی اور کوئی حیثیت نہیں،لیکن ہر زمانے میں انسانوں نے اسے رب کے ساتھ کھڑا کردیا ہے،چنانچہ حضرت ابراہیم علیہ السلام جس قوم میں بھیجے گئے تھے اس قوم میں سورج چاند اور ستاروں کی پوجا ہوتی تھی، چنانچہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نےجب اپنی قوم کو مخلوق کی پرستش میں دیکھا تو ان کو سمجھانے کےلئے ایک طریقہ اختیار کیا ’’فَلَمَّا جَنَّ عَلَيْهِ اللَّيْلُ رَأَىٰ كَوْكَبًا ۖ قَالَ هَٰذَا رَبِّي ۖ فَلَمَّا أَفَلَ قَالَ لَا أُحِبُّ الْآفِلِينَ،پھر جب رات نے ان پر اندھیرا کیا تو انہوںنے ایک ستارہ کو دیکھاتوکہا یہ میرا رب ہے، پھر جب وہ(ستارہ) غائب ہو گیا تو کہا میں غائب ہونے والوں کو پسند نہیں کرتا، فَلَمَّا رَأَى الْقَمَرَ بَازِغًا قَالَ هَٰذَا رَبِّي ۖ فَلَمَّا أَفَلَ قَالَ لَئِن لَّمْ يَهْدِنِي رَبِّي لَأَكُونَنَّ مِنَ الْقَوْمِ الضَّالِّينَ‘‘پھر جب چاند کو چمکتا ہوا دیکھا تو کہا یہ میرا رب ہے، پھر جب وہ غائب ہو گیا تو کہا اگر مجھے میرا رب ہدایت نہ کرے گا تو میں ضرور گمراہوں میں سے ہوجاؤں گا،فلَمَّا رَأَى الشَّمْسَ بَازِغَةً قَالَ هَٰذَا رَبِّي هَٰذَا أَكْبَرُ ۖ فَلَمَّا أَفَلَتْ قَالَ يَا قَوْمِ إِنِّي بَرِيءٌ مِّمَّا تُشْرِكُونَ‘‘ پھر جب سورج کو چمکتا ہوا دیکھا تو کہا کہ یہی میرا رب ہے یہ سب سے بڑا ہے، پھر جب وہ غائب ہو گیا تو کہا اے میری قوم! میں ان سے بیزار ہوں جنہیں تم اللہ کا شریک بناتے ہو۔ (الانعام ۷۶تا۷۸)
اسی طرح قرآن کریم میں حضرت سلیمان علیہ السلام واقعہ بیان کیا گیا ہے، جن کو اللہ نے ایسی بادشاہت عطاکی تھی کہ ان کے بعد کسی دوسرے کو ویسی بادشاہت نہ مل سکی، اللہ نے انس وجن اور سارے پرندوں کو ان کے تابع کیا تھا،ایک دن ہدہد نامی پرندہ نے آکر کہا ’’ میں نے ملکہ سبا اور اس کی قوم کے لوگوں کو اللہ سے بجائے سورج کو سجدہ کرتے ہوئے پایا ہے اور شیطان نے ان کے سامنے ان کے عمل کو مزین کر دیا ہےاور انہیں سیدھے راستے سے روک دیا ہےکہ وہ سیدھی راہ نہیں پاتے ہیں (النمل۲۴) هدهد پرندہ ہونے کے باوجود سورج کی پوجا دیکھ کر پریشان ہو گیا،لہذاحضرت سلیمان علیہ السلام نے ملکہ سبا کے نام ایک خط لکھا اور هدهد کو پہنچانے کے لیے بھیجا جس میں اسے اپنے پاس موجود ہونے کی دعوت دی تھی،چنانچہ سبا کی رانی سلیمان علیہ السلام کے پاس حاضر ہوئی اور اپنی پوری قوم کے ساتھ حضرت سلیمان علیہ السلام کے ہاتھ پر ایمان قبول کیا۔
اسی طرح ہمارے نبی حضرت محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی آمد سے پہلے زمانہ جاہلیت میں بھی لوگوں میں سورج کے بارے میں کچھ ناقابل فہم تصورات پائے جاتے تھے، ان میں سے ایک تصور یہ تھا کہ کسی بڑے شخص کی پیدائش اور موت پر سورج متاثر ہوتا ہے اور اسے گہن لگ جاتا ہے،اور اس تصور کا اظہار اس وقت ہوا جس دن ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بیٹے حضرت ابراہیم کا انتقال ہوا، اسی دن سورج کو گہن لگ گیا،بعض صحابہ کے دل میں آیا کہ یہ واقعہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے بیٹے کی موت کی وجہ سے پیش آیا ہے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ بات بالکل پسند نہیں تھی کہ کوئی ایسا غلط تصور مسلمانوں کے ذہن میں بیٹھ جائے جس سے ان کے ایمان و عقیدہ کو ٹھیس پہنچے یایہ تصور ان کے ذہنوں میں بیٹھ جائے کہ ایک انسان اللہ کی کسی دوسری مخلوق میں تصرف کرنے کااختیار رکھتا ہے؛ اگرچہ اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم بہت مغموم تھے؛ لیکن آپ نے وقت پر اس غلط عقیدے کا حل ضروری سمجھا؛ لہذا آپ نے تمام صحابہ کو جمع کرکے خطاب کرتے ہوئے ارشاد فرمایا: بے شک سورج اور چاند اللہ کی نشانیوں میںسے ہیں، ان کو نہ کسی کے مرنے کی وجہ سے گرہن لگتا ہے اور نہ کسی کے پیدا ہونے کی وجہ سے، لیکن جب ایسا(سورج گہن) کا واقعہ پیش ائے تو جب تک سورج مکمل طور پرکھل نہ جائے دعا کرو، نماز پڑھو اور صدقہ کرو،( بخاری ، باب الصلوۃ فی کسوف الشمس)
مذکورہ تفصیل سے یہ بات واضح ہوگئی ہے کہ ہر زمانے میں شیطان نے سورج کے بار ے میں کچھ ایسے لغو اور فضول تصورات اور غلط افکار کو لوگوں کے درمیان ترویج دی ہے ، جس کی وجہ سے لوگ سورج کی عبادت و بندگی کرنے لگے ،اور اس کو مخلوق کے بجائے خالق ، مربوب کے بجائے رب کا درجہ دینے لگے؛ لیکن ہر زمانے میں اللہ اپنے نبیوں اور رسولوں ، امت کی فکر کرنے والےنیک و صالح بندوں کے ذریعہ ایسے بے جا تصورات و توہمات کا خاتمہ کیا اور لوگوں کو سورج کی عبادت وبندگی کے بجائے اللہ کی عبادت و نیاز مندی کی طرف پھیرا ،اور نزول ِ قرآن کے وقت صاف طور پر یہ اعلان کیا گیا کہ سورج بھی اللہ کی نشانیوں میں سے ایک نشانی ہے ، ہر گز اس کی عبادت نہیں کی جائے گی چنانچہ چاند و سورج کے خالق نے ارشاد فرمایا ’’ وَمِنْ اٰيَاتِهِ اللَّيْلُ وَالنَّـهَارُ وَالشَّمْسُ وَالْقَمَرُ ۚ لَا تَسْجُدُوْا لِلشَّمْسِ وَلَا لِلْقَمَرِ وَاسْجُدُوْا لِلّـٰهِ الَّـذِىْ خَلَقَهُنَّ اِنْ كُنْتُـمْ اِيَّاهُ تَعْبُدُوْنَ‘‘ یہ رات اور دن اور سورج اور چاند اللہ کی نشانیوں میں سے ہیں۔ (اس لئے)سورج اور چاند کو سجدہ نہ کرو بلکہ اُس خدا کو سجدہ کرو جس نے انہیں پیدا کیا ہے اگر فی الواقع تم اُسی کی عبادت کرنے والے ہو(سورۃ فصلت ۳۷)’’أَلَمْ تَرَ أَنَّ اللَّهَ يَسْجُدُ لَهُ مَنْ فِي السَّمَاوَاتِ وَمَنْ فِي الْأَرْضِ وَالشَّمْسُ وَالْقَمَرُ وَالنُّجُومُ وَالْجِبَالُ وَالشَّجَرُ وَالدَّوَابُّ وَكَثِيرٌ مِنَ النَّاسِ وَكَثِيرٌ حَقَّ عَلَيْهِ الْعَذَابُ وَمَنْ يُهِنِ اللَّهُ فَمَا لَهُ مِنْ مُكْرِمٍ إِنَّ اللَّهَ يَفْعَلُ مَا يَشَاءُ‘‘ اے انسان !کیا تو نہیں دیکھ رہا کہ اللہ کے سامنے سجده کرتے ہیں سب آسمانوں والے اور سب زمین والے اور سورج اور چاند اور ستارے اور پہاڑ اور درخت اور جانور اور بہت سے انسان بھی، ہاں بہت سے وه بھی ہیں جن پر عذاب کی بات ثابت ہو چکی ہے، جسے اللہ ذلیل و رسوا کردے اسے کوئی عزت دینے والا نہیں، اللہ جو چاہتا ہے کرتا ہے(الحج ۱۸) او ر حدیث میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سورج کے طلوع ، استواء اور غروب کے وقت میں نماز پڑھنے سے منع فرمایا ہے ، چنانچہ ایک حدیث میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جب سورج کا کنارہ نکل آئے تو نماز چھوڑ دو یہاں تک کہ سورج خوب ظاہر ہو جائے یعنی (ایک نیزے کے بقدر بلند ہو جائے) نیز جب سورج کا کنارہ ڈوب جائے تو مطلقاً کوئی بھی نماز خواہ فرض ہو یا نفل چھوڑ دو یہاں تک کہ وہ بالکل غروب ہو جائے اور آفتاب کے طلوع و غروب ہونے کے وقت نماز پڑھنے کا ارادہ نہ کرو اس لئے کہ سورج شیطان کے دونوں سینگوں کے درمیان طلوع ہوتا ہے” (بخاری، باب صفۃ ابلیس و جنودہ ، حدیث نمبر ۳۲۷۲)ذیل میں ذکر کی گئی قرآنی آیات اور احادیث سے واضح طورمعلوم ہوتا ہےکہ سوریہ نمسکار کسی بھی طرح جائز نہیں ، اس طرح کے تمام کام اسلامی تعلیمات کے بالکل مغائر ہے ، ایک مسلمان کبھی بھی اس قسم کے شرک میں مبتلا نہیں ہوسکتا۔
سوریہ نمسکار ہو یا بغیر سوریہ نمسکار کے یوگا ہو اسلئے بھی جائز نہیں کہ یہ دوسری قوموں کی مشابہت ہے، اور اسلام میں دوسروں کی مشابہت اختیار کرنے سے منع کیا گیا، چنانچہ آپ صلی اللہ نے فرمایا :’’مَنْ تَشَبَّهَ بِقَوْمٍ فَهُوَ مِنْهُمْ‘جو شخص کسی قوم کی مشابہت اختیار کرے گا وہ انہی میں سے ہوگا (سنن ابو داوٴد، کتاب اللباس، حدیث نمبر ۴۰۳۰) مولانا خلیل احمد سہارنپوری ؒ لکھتے ہیں کہ مشابہت عام ہے ، خیر کے کاموں میں ہو یا شر کے کاموں میں، انجام کار وہ ان کے ساتھ ہو گا، خیر یا شر میں۔(بذل المجہود: ۴/ ۵۹)ملا علی القاري ؒ لکھتے ہیں کہ جو شخص کفار و فجاراور فساق یاپھر نیک و صلحاء کی، لباس وغیرہ میں ہو یا کسی اور چیز میں مشابہت اختیار کرے وہ گناہ اور خیر میں ان کے ہی ساتھ ہوگا۔(مرقاة المفاتیح، کتاب اللباس، ۸/۲۲۲،رشیدیہ)پھر یہ کہ کفارکے ساتھ مشابہت اختیار کرنے سے بہت سارے مفاسد پیدا ہوںگے(۱) کفر اور اسلام میں ظاہراً کوئی امتیاز نہیں رہے گا، اورامت مسلمہ دوسری باطل قوموں کے ساتھ ضم ہو جائے گی،(۲) غیروں کی مشابہت اختیار کرنا غیرت کے بھی خلاف ہے،کیونکہ دینی شناخت اور دینی پہچان بھی تو کوئی چیز ہے، جس سے یہ ظاہر ہو کہ یہ شخص فلاں دین کا ہے، (۳) ووسری قوموں کی مشابہت اختیار کرنے میںدرپردہ ان کی سیادت اور برتری کو تسلیم کرنا ہےاور اپنی کمتری اور تابعداری اعلان ہے، جس کی اسلام اجازت نہیں دیتا،(۴) تشبہ بالکفارکا نتیجہ یہ ہو گا کہ رفتہ رفتہ کافروں سے مشابہت کا دل میں میلان اور داعیہ پیدا ہو گا، جو ِ قرآنی احکام کے صریح خلاف ہے ( بحوالہ:کُفّار سے مشابہت اختیار کرنے کا شرعی حکم)
اگر سوریہ نمسکار اور یوگا کا تعلق مذہب سےنہ جوڑ کر صرف ہندوستانی تہذیب سے جوڑاجائے تب بھی یہ ناجائز اور حرام ہے ، اسلئے کہ اسلام میں کسی دوسری قوم کی تہذیب جو اسلا م کے خلاف ہو اختیار کرنا گناہ ہے ، کیونکہ اسلام کی ایک الگ تہذیب اور منفرد شناخت ہے ، جو دنیا کے تمام مذاہب کےلئے قابل تقلید ہے، اس لئے اسلامی تہذیب و تمدن کو چھوڑکر دوسری تہذیب کو اختیار کرنا کسی بھی مسلمان کے لئے مناسب نہیں ہے، رہی بات جسمانی ورزش کی تو اسلام نے اس سے منع نہیں کیا ہے ، بلکہ اسلام نے تو صحت و تندرستی کو نعمت قرار دیا ہے ، اور اس کے تحفظ کے لئے مناسب تدابیر اختیار کرنے کی تلقین کی ہے،۔ اسلام حفظان صحت کا کس قدر خواہاں ہے، اور وہ کس طرح روحانی ارتقا کے ساتھ ساتھ جسمانی صحت اور تن درستی میں بھی دل چسپی لیتا ہےاس کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جاسکتا ہےکہ خودآپ صلی اللہ علیہ وسلم نےبھی صحت کی حفاظت اور صحت بنانے کے طریقے بتائے ہیں، جن میں تیر اندازی، گھوڑ سواری اور کشتی رانی وغیرہ کی مثالیں شامل ہیں، اس لئے انسان کو اپنی صحت کے لیے مختلف قسم کی ورزشیں کرنی چاہئیں تاکہ اس کے اعضاء مضبوط ہوں اور مختلف قسم کی بیماریوں سے مؤثر طور پر مزاحمت کرسکیں۔
یوگااور سوریہ نمسکار کے ماہرین یوگا اور سوریہ نمسکار کو جسمانی کسرت کے علاوہ اسے میڈیکل سائنس قرار دے کر قدیم امراض کے علاج کا ادعا بھی پیش کررہے ہیں ، اور ان کا یہ دعوی ہےکہ بیماریوں کا علاج یوگا کی جسمانی ورزش اور مشقوں میں ہے،لیکن دنیا کے بڑے بڑےبااختیار طبی تحقیقاتی اداروں سے اس بات کی توثیق ابھی نہیں ہوپائی ہے کہ یوگا سے واقعی امراض کا علاج ممکن ہے یا نہیں ؟ انڈین میڈیکل کونسل اور امریکہ و برطانیہ کے بااختیار میڈیکل کونسلوں نے بھی یوگا کے ذریعہ امراض کے علاج کی تصدیق نہیں کی ہے، ڈاکٹرس کا کہنا ہے کہ یوگا میں بہت سے آسن ایسے ہیں جو علاج کے بجائے مریض کی صحت کے لئے نقصاندہ ہیں اور جوں جوں یوگا کرتے جائیں گے مرض میں اضافہ ہوسکتا ہے(یوگا شریعت اسلامی کی روشنی میں ۶۳)ہمارے بعض نوجوان اور مریض حضرات میڈیا میں پرکشش اشتہارات دیکھ کر اور اس سے متاثر ہوکر یوگا کلاسس میں شرکت کررہے ہیں ، جو سراسر اسلامی تہذیب و تمدن کے خلاف اور شریعت مطہرہ کے مغایر ہے۔
سوریہ نمسکارکے بجائے نماز کا اہتمام کرنے میں بے شمار روحانی وجسمانی، شخصی واجتماعی ، فوائد وحکمتیں پوشیدہ ہیں ، روحانی فوائد تو یہ ہیں کہ نماز کے واسطے سے بندہ کا اپنے رب سے رشتہ استوار ہوتا ہے، اس کی رحمت ومغفرت کا وہ امیدوار اور اس کے الطاف وعنایات کا طلب گار ہوتا ہے ، اپنے مالک ومولی سے بندہ کا یہ جذباتی تعلق اس کی کامیابی وفلاح کا ضامن ہے،جسمانی فوائد یہ ہیں کہ نماز ایک بہترین ورزش ہے، سستی، کاہلی اور تعطل کے اس دور میں صرف نماز ہی ایک ایسی ورزش ہے کہ اگر اس کو صحیح طرز پر پڑھاجائے تو دنیا کے تمام دکھوں کا مداوا بن سکتی ہے ، نماز کی ورزشیں جہاں بیرونی اعضاء کی خوشنمائی وخوبصورتی کا ذریعہ ہیں وہاں اندرونی اعضاء مثلاً دل، گردے، جگر ، پھیپھڑے ، دماغ ، آنتیں ، معدہ ، ریڑھ کی ہڈی ، گردن ، سینہ ، اور تمام قسم کےGIANDS کی نشونما کرتی ہیں؛ بلکہ جسم کو سڈول اور خوبصورت بناتی ہیں ،یہ ورزشیں ایسی ہیں جن سے عمر میں اضافہ ہو تا ہے اور آدمی غیر معمولی طاقت کا مالک بن جاتا ہے اور ان سے چہرے کے نقش ونگار خوبصورت اور حسین نظر آتے ہیں (سنت نبوی اور جدید سائنس : ۲/۴۰بحوالہ نبی اکرم کی نماز۱۹۔۲۰)جب انسانی صحت کےلئے یوگا اور سوریہ نمسکار سے بہتر ذریعہ نماز موجود ہےجس میں روحانی اور جسمانی فوائد موجود ہیں اس کو چھوڑ کر کم تر چیز کی طرف بار بار توجہ دلانا کم عقلی کی بات ہے ،کیا وہ یہ ماننے تیار ہے کہ سوریہ نمسکار یا یوگا کے بجائے نماز کا اہتمام کریں یا کم از کم روزانہ صبح سویرے نماز ِ فجر یا نماز اشراق کی عادت ڈالیں ۔
بہر حال اسلامی تعلیمات کی روشنی میں سوریہ نمسکارایک خالص ہندوانہ عقیدہ ہے ،جس سے ہر مسلمان کو بچنا ضروری ہے نیز اپنی اولاد کو اس غیر اسلامی عقیدہ سے آگاہ کرنا اور ان کی عقائد و ایمان کی حفاظت کرنا والدین کی دینی وشرعی ذمہ داری ہے۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
×