اسلامیاتسیرت و تاریخمولانا عبدالرشید طلحہ نعمانی

ذکر آمد رسولﷺ

مولانا عبدالرشید طلحہ نعمانی

آج سے کوئی پندرہ سو سال قبل کائنات کا منظرنامہ کیا تھا؟؟؟چمنستان عالم اجڑچکاتھا،خزاں کی چیرہ دستیوں سے گلوں کی رنگت و رعنائی پژمردہ ہوچکی تھی،حق و صداقت کی کشادہ راہیں سنسان اور علم و معرفت کے میٹھے چشمے خشک ہوچکے تھے،وحشت و بربریت اور سفاکی و مردم آزاری کا ہرسمت دور دورہ تھا ،انسانی وقار،آزادی ضمیر،عزتِ نفس اور شرم و حیا کا جنازہ نکل چکاتھا،سرکشی ونافرمانی کی تیز و تند آندھیوں نے ہرسمت بربادی پھیلارکھی تھی،بےکسوں کی آہیں اور مظلوموں کے نالے عرش اعظم سے مسلسل ٹکراتے جارہے تھے،کعبہ معظمہ ہمہ تن آنکھ بن کر ایک رہبر و ہادی کی راہ تک رہا تھا ،فرشتوں کی نظریں دعائے خلیل و نوید مسیحا کا انتظارکررہی تھیں،المختصر: مفکر اسلام مولانا علی میاں ندوی کے بہ قول:انسانیت ایک سرد لاشہ بن چکی تھی؛جس میں کہیں روح کی تپش،دل کا سوز اور عشق کی حرارت باقی نہیں تھی، انسانیت کی سطح پر خودرو جنگل اُگ آیا تھا ،ہرطرف جھاڑیاں تھیں،جن میں خوانخوار درندے اور زہریلے کیڑے تھے۔۔۔۔۔۔۔ہرسمت فتنہ بازیاں تھیں اور ہر سو قیامت خیزیاں

پھر کیا ہوا ؟ غیرت خداوندی جوش میں آئی اور فاران کی چوٹیوں سے رحمت حق کی وہ گھنگور گھٹا اُٹھّی جو عرب کی سرزمین پر جھوم جھوم کر برسی،دیکھتے ہی دیکھتےدنیا گہوارہ امن و امان بن گئی،راہزن رہنما بن گئے،علم وفضل کابول بولا ہوا،ہرمخلوق کو اس کے مناسب حقوق عطاہوئے اور تئیس سالہ قلیل عرصے میں ایسا عالم گیر انقلاب برپا ہوا؛جس کی نظیر پیش کرنے سے تاریخ عاجز و قاصر ہے۔
ذیل میں ہم آمدِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے حوالے سے چند ممتاز ارباب قلم،صاحب طرزانشاپرداز، اور بہترین سیرت نگاروں کے منتخب اقتباسات نقل کررہے ہیں ؛جن کا تعلق آپ کے قدوم میمنت لزوم اور دنیا میں تشریف آوری سے ہے ۔

سیرت النبی:علامہ شبلی نعمانی(1857ء-1914ء)
چمنستان دہر میں بارہا روح پرور بہاریں آچکی ہیں،چرخ نادرہ کار نے کبھی کبھی بزم عالم اس سر و سامان سے سجائی کہ نگاہیں خیرہ ہو کر رہ گئی ہیں؛لیکن آج کی تاریخ وہ تاریخ ہے جس کے انتظار میں پیر کہن سال دہر نے کروڑوں برس صرف کر دئیے،سیارگان فلک اسی دن کے شوق میں ازل سے چشم بہ راہ تھے،چرخ کہن مدت ہائے دراز سے اسی صبح جان نواز کے لیے لیل و نہار کی کروٹیں بدل رہا تھا، کارکنانِ قضا و قدر کی بزم آرائیاں، عناصر کی جدت طرازیاں، ماہ و خورشید کی فروغ انگیزیاں، ابر و باد کی تردستیاں، عالم قدس کے انفاس پاک، توحید ابراہیم، جمال یوسف، معجز طرازیِ موسی، جان نوازیِ مسیح سب اسی لیے تھے کہ یہ متاع ہائے گراں شاہنشاہ کونین حبیب خدا محمد مصطفی صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے دربار میں کام آئیں گے۔
آج کی صبح، وہی صبح جاں نواز، وہی ساعت ہمایوں، وہی دور فرخ فال ہے- ارباب سیر اپنے محدود پیرایہ بیان میں لکھتے ہیں کہ، آج کی رات ایوان کسری کے چودہ کنگرے ٹوٹ کر گر گئے، آتش کدہ فارس جو مدتوں سے روشن تھا بجھ گیا، دریائے ساوہ خشک ہو گیا، لیکن سچ یہ ہے کہ صرف ایوان کسری نہیں بلکہ شان عجم، شوکت روم، اوج چین کے قصر ہائے فلک بوس گر پڑے- محض ایک آتش فارس نہیں بلکہ حجیم شر، آتش کدہ کفر، آذر کدہ گمرہی سرد ہو کر رہ گئے- صنم خانوں میں خاک اڑنے لگی، بت کدے خاک میں مل گئے، بڑے بڑے بت منہ کے بل گر کر "ھو اللہ احد” پکارنے لگے، شیرازہ مجوسیت بکھر گیا، نصرانیت کے اوراقِ خزاں دیدہ ایک ایک کر کے جھڑ گئے-
توحید کا غلغلہ اٹھا، چمنستان دہر میں بہار آ گئی، آفتاب ہدایت کی شعاعیں ہر طرف پھیل گئیں، اخلاق انسانی کا آئینہ پرتو قدس سے چمک اٹھا- یعنی یتیم عبداللہ، جگر گوشہ آمنہ، شاہ حرم، حکمران عرب، فرماروائے عالم، شہنشاہ کونین کا عالم قدس سے عالم امکان میں تشریف فرمائے عزت و اجلال ہوا- الھم صل علیہ و علی الہ و اصحابہ وسلم۔(سیرت النبی جلداول،ص:123، مطبع مکتبہ رحمانیہ لاہور)

النبی الخاتم:مولانا مناظر احسن گیلانی(1892ء-1956ء)
یوں آنے کو تو سب ہی آئے ، سب میں آئے، سب جگہ آئے (سلام ہو ان پر ) کہ بڑی کٹھن گھڑیوں میں آئے؛لیکن کیا کیجئے ان میں جو بھی آیا جانے کے لئے آیا، پر ایک اور صرف ایک، جو آیا اور آنے ہی کے لئے آیا،وہی جو آنے کے بعد پھر کبھی نہیں ڈوبا، چمکا اور چمکتا ہی چلا جا رہا ہے، بڑھا اور بڑھتا ہی چلا جا رہا ہے، چڑھا اور چڑھتا ہی چلا جا رہا ہے، سب جانتے ہیں اور سبھوں کو جاننا چاہئے کہ جنہیں کتاب دی گئی اور جو نبوت کے ساتھ کھڑے کئے گئے، برگزیدوں (مقبولوں) کے اس پاک گروہ میں اس کا استحقاق صرف اسی کو ہے اور اس کے سوا کس کو ہو سکتا ہے جو پچھلوں ( بعد والوں) میں بھی اس طرح ہے جس طرح پہلوں میں تھا، دُور والے بھی اس کو ٹھیک اسی طرح پا رہے ہیں اور ہمیشہ پاتے رہیں گے؛ جس طرح نزدیک والوں نے پایا تھا ، جو آج بھی اسی طرح پہچانا جاتا ہے اور ہمیشہ پہچانا جائے گا جس طرح کل پہچانا گیا تھا کہ اسی کے اور صرف اسی کے دن کے لئے رات نہیں، ایک اسی کا چراغ ہے، جس کی روشنی بے داغ ہے، ورنہ جنہوں نے ناموں کو کھویا، کیا وہ اپنے ہادیوں کے کاموں کی نگہبانی کر سکتے تھے۔ (النبی الخاتم،ص :27 مطبع زمزم پبلیشرز کراچی)

ذکر رسول:مولانا عبد الماجد دریابادی(1892ء-1977ء)
کچھ کم چودہ سو برس کا زمانہ گزرتا ہے کہ تمدن کی نمائش گاہوں سے کوسوں دور، تہذیب کے سبزہ زاروں سے الگ، ایک ویران و بے رونق بستی میں چلچلاتی دھوپ والے آسمان کے نیچے خشک اور پتھریلی سرزمین کے اوپر، ایک شریف لیکن اَن پڑھ اور بے زر خاندان میں، ایک بچہ عالِم آب و گل میں آنکھیں کھولتا ہے۔
شفیق باپ کا سایہ پہلے ہی سے اٹھ چکتا ہے، ماں بھی کچھ روز بعد سفر آخرت اختیار کرلیتی ہیں۔ تربیت کے جو ظاہری قدرتی ذریعے ہیں۔ وہ یوں گم ہوجاتے ہیں، بوڑھے دادا اپنے آغوش تربیت میں لے لیتے ہیں لیکن بچہ کا بچپن ابھی ختم نہیں ہونے پاتا کہ وہ بھی ہمیشہ کی نیند سوجاتا ہیں۔گھر میں نہ نقد ہے نہ جائیداد نہ حکومت ہے نہ ریاست، خانہ ویرانی کا یہ عالم ہے کہ نہ ماں ہے نہ باپ، نہ دادا نہ دادی، نہ بھائی ہیں نہ بہن، تن تنہا بے سازو سامان، بے یارو مددگار ایک نوعمر اللہ کا بندہ ہے جسے سہارا ہے تو اسی نظروں سے اوجھل مولا کا ،اور آسرا ہے تو اسے نگاہوں سے غائب مالک کا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
فضائے ملک، بلکہ فضائے عالم کی اس تیرگی میں یہ نوعمر یتیم کھڑا ہوتا ہے اور اپنی پاک وپاکیزہ ،کتاب زندگی کے ہر ورق کو کھول کر رکھ دیتا ہے اور اپنی زندگی کا ایک کامل ومکمل نمونہ دنیا کے سامنے پیش کرکے حوصلہ یہ ہوتا ہے کہ دوسروں کوبھی اپنا جیسا بنایا جائے، ایک طرف ساز وسامان سے محرومی ہے، ہر پہلو سے بے کسی اور بے بسی ہے، ہر اعتبار سے بے اختیاری ہے اور دوسری طر ف ملک وقوم کی اصلاح کی امنگیں ہیں بلکہ کہنا چاہیے کہ ساری کائنات انسانی کے سدہارنے کے حوصلے ہیں۔۔۔۔۔(ذکر رسول)

دُرّ یتیم:مولانا ماہرالقادری(1906ء-1978ء)
ابھی دن رات ملے جلے تھے، اس لیے کہ دونوں کی تقدیروں کو ایک ساتھ چمکنا تھا،سپیدۂ سحر نمودار ہوہی رہاتھا،غنچوں کی نازک گِرہیں کھل رہی تھیں،لالہ و گل کے لبوں پر مسکراہٹ بکھر رہی تھی،بنفشہ و شقایق کی نازک پتیوں پر شبنم کے موتی ڈھلک رہے تھے،سرو شمشاد نے پھولوں کی مہک پاکر انگڑائی لی، طائران خوش نوا کی چہکاروں سے تمام فضا نغمہ زار بن گئی،جنت آج سچ مچ زمین پر اتر آئی تھی،مِنی کی وادی،مروہ کے سنگ ریزے،قبیس کی چوٹیاں اور عرفات کا میدان نورکی جھلکیوں میں جھم جھم کر رہا تھا، ستارے جھلملا رہے تھے،کلیاں چٹک رہی تھیں اور پھول مہک رہے تھے کہ اتنے میں گھر کی عورتیں خوشی سے بے تاب ہو کر پکارنے لگیں:
کوئی عبد المطلب کو جاکر مبارک دو! عبدالمطلب اس مژدہ کو سنتے ہی تیزی کے ساتھ آئے،خوشی کے مارے پاؤں بہکے بہکے سے پڑ رہے تھے، عبد المطلب کے رخساروں کی جھریوں میں مسرت جھل مل کررہی تھی ۔ آمنہ نے فرط غیرت سے چادر منہ پر ڈال لی، عبد المطلب نے پوتے کو دیکھا،یشانی کو چوما۔ان کی آنکھوں میں بجلیاں چمک رہی تھیں۔
سید القریش ! اتنا نورانی چہرہ آپ نے آج تک دیکھا نہ ہو گا۔ عورتوں نے یک زبان ہوکر کہا ۔ لاریب نہ صرف میں نے ، شاید دنیا میں کسی آنکھ نے ایسے جلوے نہ دیکھے ہیں ۔چاند،سورج، کہکشاں،قوس قزح،پھول، بچے، حیران ہوں کہ کس چیز سے اس نو نہال کے چہرے کو تشبیہ دوں، اس کے حسن و جمال کے سامنے تو یہ سب پھیکے اور بے رنگ ہیں!(دریتیم،ص:29مطبع مرکز جماعت اسلامی دہلی)

خلاصۂ کلام:
نایاب حسن قاسمی کے بہ قول:نبی اکرمﷺکی سیرت و سوانح ایک ایسا تروتازہ وشاداب موضوع ہے کہ جس پر ا ب تک دنیابھر کی سیکڑوں زبانوں میں ہزارہاکتابیں لکھی گئیں،مگر اس کی تازگی و شگفتگی اب تک قائم ہے اور لکھنے والوں کو ان کے ظرف و ذہن کے مطابق کوئی نہ کوئی ایسا پہلو نظر آہی جاتا ہے،جس میں جدت،لطافت اور حسن وکشش کا ایسا وصف پایاجاتا ہے جوانھیں قلم اٹھانے پر مجبور کرتا اور پھر وہ اپنے مطالعے کی وسعت،مشاہدے کی قوت،تخیل کی توانائی اور حبِ نبویﷺکی گہرائی و گیرائی کے زیر اثر اس مبارک موضوع پرخامہ فرسائی کی سعادت حاصل کرتے ہیں۔لگ بھگ ڈیڑھ ہزار سال کے عرصے میں نہ معلوم دنیاکی کتنی زبانوں میں سیرت نبوی کے کن کن پہلووں پر کیسے کیسے عظیم اصحابِ قلم نے کتابیں لکھیں اور ا ب تک اس کا سلسلہ جاری و ساری ہے۔اردو زبان گرچہ دنیاکی بہت زیادہ قدیم زبان نہیں ہے،مگراس کے باوجود اس زبان میں سیرتِ پاک کے موضوع پر دنیاکی بہترین کتابیں لکھی کی گئی ہیں،چاہے وہ مفصل ہوں یامختصر، منظوم ہوں یامنثور،منقوط ہوں یاغیرمنقوط، شمائلِ نبویﷺپر مشتمل ہوں یا آپؐ کے خانوادۂ پاک کے حالات و سوانح پر مشتمل ہوں،الغرض اردوزبان کا دامن بھی سیرت النبیﷺکے حوالے سے مالامال ہے۔
محوِ ثنا ہے جھومتے لمحات میں قلم
اترا ہے رنگ و نور کی برسات میں قلم
مہکا ہوا ہے آج بھی خوش بختیوں کے ساتھ
آقائے محتشمؐ کے خیالات میں قلم

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
×