اسلامیات

 خو ش گوار ازدواجی زندگی کا راز 

مفتی عبدالمنعم فاروقی قاسمی

بلاشبہ مذہب اسلام ہی کا یہ امتیاز ہے کہ اس نے انسانوں کے درمیان جنسی خواہش و نفسانی امنگوں کو جائز وحلال اور طیب وباکیزہ بنانے کے لئے نکاح کا نہایت پاکیزہ اور بے حد سہل طریقہ عطا کیا اور نفسانی خواہشات کی تکمیل کیلئے نکاح کو لازم کر کے خواہشاتِ نفسانی کے تمام بے ہودہ راستوں کا سد باب کیا ، تاریخ کا مطالعہ کرنے سے پتہ چلتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ کی آمد سے قبل عربوں میں مرد وعورت کے باہمی تعلق اور اولاد سے متعلق رائج طریقوں میں تو بعض طریقے نہایت بے ہودہ ،غیر مہذب،غیر فطری اور انتہائی قبیح تھے ،جنہیں سن کر ایک شریف النفس انسان کا سر شرم سے جھک جاتا ہے ،مگر اسلام نہایت پاکیزہ مذہب ہے ،اس کی ہدایات وتعلیمات کے ہر پہلو سے شرافت اور پاکیزگی جھلکتی ہے، یہی وجہ ہے کہ نکاح اسلام کی نظر میں صرف جائز طریقہ سے نفسانی تسکین کا نام نہیں بلکہ یہ ایک ایسا خوبصورت بندھن ہے کہ جو دو اجنبی کو ایک دوسرے کا مونس و غمخوار ،ہمدرد وہمدم اور زندگی کے سفر کا ساتھی بنادیتا ہے اور دو اجنبی خاندانوں کو جوڑ کر شیر وشکر بنادیتا ہے، اس کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ یہ ایک عظیم الشان عبادت ، حقوق انسانی کی ادائیگی کا منظم راستہ اور خدا کی خوشنودی کا بہترین ذریعہ ہے ،یہی وجہ ہے کہ نہ صرف تمام انبیاء ؑ رشتہ ازدواج سے منسلک رہے بلکہ خود امام الانبیاء ،خاتم المرسلین احمد مجتبیٰ، محمد مصطفی ﷺ نے بھی نکاح فرمایا ہے اور اس کی نسبت اپنی جانب کرتے ہوئے اسے اپنی عظیم سنت بھی قرار دیا ہے :النکاح من سنتی فمن لم یعمل بسنتی فلیس منی( ابن ماجہ:۱۸۴۶ )’’  نکاح میری سنت ہے جس نے میری اس سنت پر عمل کرنے سے گریز کیا اس کا مجھ سے کوئی تعلق نہیں‘‘ ،رسول اللہ ﷺ نے تجرد انہ زندگی گزار نے کو ہرگز پسند نہیں فرمایا ،ایک حدیث میںتجردانہ زندگی کی مذمت بیان کرتے ہوئے ارشاد فرمایا:لا رھبانیۃ فی الاسلام ( شرح السنہ:۲؍۳۷۱ )’’ اسلام میں رہبانیت (دنیا سے الگ تھلگ ہوجانا) نہیں ہے‘‘، ایک موقع پر آپ ﷺ نے نوجوانوں سے مخاطب ہوکر شادی شدہ زندگی کی مسرت اور اس کے اخلاقی فوائد بیان کرتے ہوئے ارشاد فرمایا:یا معشر الشباب من استطاع منکم الباء ۃ فلیتزوج ،فانہ اغض للبصر واحصن للفرج،ومن لم یستطع فعلیہ بالصوم،فانہ لہ وجاء(بخاری:۵۰۶۵)’’اے نوجوانو! تم میں سے جو کوئی نکاح کی ذمہ داریاں اٹھانے کی سکت رکھتا ہو اسے شادی کر لینی چاہیے کیونکہ شادی نگاہ کو پست رکھتی ہے اور شہوانی خواہشات کو بے لگام نہیں ہونے دیتی ،اور جو کوئی نکاح کی ذمہ داریاں اٹھانے کی سکت نہیں رکھتا وہ روزہ رکھے اس لئے کہ روزہ شہوت کو توڑ نے میں مدد گار ثابت ہوتا ہے‘‘۔
چونکہ اسلام کی نظر میں نکاح انسانوں کی ایک اہم ترین ضرورت ، دو خاندانوں کے پروان چڑھنے کا ذریعہ اور توالد وتناسل کے ذریعہ انسانیت کی بقا کا نہایت اہم ذریعہ ہے ، اسی لئے اسے انتہائی آسان اور سہل بنانے کے ساتھ ساتھ شوہر وبیوی کے حقوق اور ان کی ذمہ داریوں کو بڑی واضاحت کے ساتھ اور نہایت سہل انداز میں بیان کیا ہے، قرآن مجید اور احادیث مبارکہ میں شوہر وبیوی کے حقوق اور ایک دوسرے کو مل جل کر زندگی گزار نے کے سلسلہ میں ضروری ہدایات دی گئیں ہیں ،خود آپ ﷺ نے اپنی عملی ازواجی زندگی کے ذریعہ امت کی بہترین رہنمائی فرمائی ہے ، آپ ﷺ کی خلوت نشینی ،گھر کا ماحول ، اپنے گھر والوں کے ساتھ آپ کا برتاؤ اور گھر میں آپؐ کا رہن سہن کا انداز کیسا تھا ،اس کی تمام تر تفصیلات کتب سیرت میں موجود ہیں ۔
انسانی تمام رشتوں میں سب سے پہلا رشتہ اور سب سے زیادہ قریبی رشتہ شوہر بیوی کا ہے،اسی رشتہ سے تمام رشتے وجود میں آئے ہیں ،  سب سے نازک اور سب سے مضبوط رشتہ بھی یہی ہے ، ایک ہی جملہ کے ذریعہ یہ رشتہ وجود میں آتا ہے اور ایک ہی جملہ پر اختتام پزیر بھی ہوجاتا ہے، شوہر بیوی کی  قربت اور گہر ی نزدیکی کا اندازہ لگائیے کہ عربی زبان میں دونوں کے لئے ایک ہی لفظ ’’ زوج‘‘ کا استعمال کیا گیا ہے ،یعنی شوہر کے لئے بھی زوج اور بیوی کے لئے بھی زوج ،قرآن مجید میں بھی ان دونوں کو ’’ لباس‘‘ سے تعبیر کیا گیا ہے ،:ہُنَّ لِبَاسٌ لَّکُمْ وَأَنْتُمْ لِبَاسٌ لَّہُن(البقرہ:۱۸۷)’’عورتیں تمہارے لئے لباس ہیں اور تم عورتوں کے لئے لباس ہو‘‘ اس آیت میں شدت تعلق کی طرف اشارہ کیا گیا ہے کہ شوہر بیوی میں بہت گہرا اور شدید تعلق ہے ،یہ ایسا گہرا اور شدید تعلق ہے کہ یقیناً اسے’’ دوجسم ایک جان‘‘ کہا جاسکتا بے،اس آیت میں شوہر بیوی کو لباس سے تشبیہ دے کر بتادیا کہ دونوں میں ایک قسم کا گہرا اور کافی نزد یکی تعلق ہے جس  نے  حقوق کی ادائیگی کو نہایت آسان بنادیا ہے ،کیونکہ جہاں گہرا تعلق اور فطری انسیت پائی جاتی ہے وہاں حقوق کی ادائیگی میں بڑی سہولت ہوتی ہے ،اللہ تعالیٰ کا فضل و کرم اور محبت وعنایت ہے کہ پہلے دونوں میں محبت وگہرا تعلق پیدا فرمایا پھر دونوں سے ایک دوسرے کے حقوق کا مطالبہ کیا تاکہ ادائیگی میں کسی قسم کی دشواری اور پیچیدگی نہ ہو ۔
حقوق زوجین کا پہلا حصہ بیویوں کے متعلق ہے ،چونکہ مرد وں کو قوام اور شوہروں کو نگران بنایا گیا ہے اس لئے پہلے انہیں کو مخاطب بناکر بیویوں کے حقوق اور ان کے ساتھ حسن سلوک کی تاکید کی گئی :وَعَاشِرُوہُنَّ بِالْمَعْرُوف(نساء:۱۹)’’  اور عورتوں کے ساتھ اچھی طرح سے پیش آؤ ‘‘اس آیت میں شوہروں کو اپنی بیویوں کے ساتھ حسن سلوک ،اچھا برتاؤ اور  بھلائی کے ساتھ پیش آنے کی تعلیم دی گئی ہے ، ہوسکتا ہے کہ مزاجوں میں تفاوت کی بناپر کبھی دونوں میں سے کسی کی کوئی بات یا کوئی عمل دوسرے کو پسند نہ آئے تو دیگر خوبیوں پر نظر رکھتے ہوئے اس خامی کو نظر انداز کردیں ،اسی میں دونوں کی بھلائی ،خیر خواہی اور ازواجی زندگی کا استحکام پوشیدہ ہے ،قرآن مجید میں اسی کی تعلیم دی گئی ہے :فَإِنْ کَرِہْتُمُوہُنَّ فَعَسٰی أَنْ تَکْرَہُوْا شَیْْئًا وَّیَجْعَلَ اللّٰہُ فِیْہِ خَیْْرًا کَثِیْرًا(نساء:۱۹)’’اگر کسی وجہ سے تم کو وہ ناپسند ہوں تو ممکن ہے کہ تم کو کوئی چیز ناپسند ہو اور اللہ تعالیٰ اس میں بہت بھلائیاں رکھدیں ‘‘  مطلب یہ ہے کہ بعض اوقات انسان اپنی سمجھ وفہم سے کسی چیز کو ناپسند کرتے ہوئے اس سے کنارہ کش ہونا چاہتا ہے مگر اُسے کیا معلوم کہ وہ جس چیز کو ناپسند جان رہا ہے ،اس سے دور ہونا چاہتا ہے دراصل وہی چیز اس کے لئے خیر کا سبب بننے والی ہے ،کیونکہ حقیقت میں اللہ تعالیٰ ہی بہتر جانتے ہیں کہ کس چیز میں کیا رکھا ہے ، اس آیت میں شوہروں کو اپنی بیویوں کے معاملہ میں تعلیم دی گئی کہ وہ ان کی ناپسندیدہ چیزوں کی وجہ سے طیش میں آکر کوئی قدم نہ اُٹھائیں بلکہ صبر وتحمل سے کام لیں ،ان کی ناگوار چیزوں کو برداشت کرلیں ہوسکتا ہے کہ اس میں تمہارے لئے خیر کا کوئی ایسا پہلو نکل آئے جو تمہاری زندگی کو چار چاند لگادے ۔
نکاح کے بعد عورتیں اپنے ماں باپ ،بھائی بہن، رشتے دار اہل قرابت اور گھر بار سب کو چھوڑ کر شوہروں کے گھر آکر مقید ہوجاتی ہیں اس لئے انہیں قیدیوں کے مشابہ قرار دیا گیا ہے ،آپ ﷺ نے نہایت تاکید کے ساتھ شوہروں کو نصیحت فرماتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ: استو صوا بالنساء خیرا فانما ھن عوان عندکم(ترمذی: ۱۱۶۳) ’’عورتوں سے اچھا برتاؤ کرو کیونکہ وہ تمہارے پاس مثل قیدی کے ہیں‘‘ اس حدیث میں آپ ﷺ نے عوریوں کے ساتھ بھلائی کرنے کی جو کچھ تعلیم  ہو سکتی تھی وہ سب دے ڈالی ، شوہروں کی ذمہ داری ہے کہ وہ ہر طرح سے اپنی بیویوں کی دلداری و دلجوئی کرے ،ان کے ساتھ ایسا برتاؤ نہ کرے کہ جس سے ان کا دل دکھے اور انہیں اپنے گھر کی یاد آنے لگے،بسا اوقات بیویاں بطور کے ناز کے شوہروں سے مطالبہ وفرمائش کرتی ہیں اور اپنی خواہشات کو پورا کرنے کی زد کرتی ہیں ،یہ ان کی شوہروں کے ساتھ خاص تعلق کی علامت ہے ،جب تک وہ ماں باپ کے گھر میں تھیں ان سے مطالبہ کرتی تھیں ،یہاں آکر وہ شوہروں سے نہ کریں تو پھر کن سے کریں ،اس لئے شوہروں کی ذمہ داری ہے کہ ان کے ناز برداری بھی کریں ، خود آپﷺ نے اپنی بیویوں کی نازبرداری کی ہے ،سیرت کی کتا بوں میں متعدد واقعات موجود ہیں ، ایک مرتبہ سیدنا صدیق اکبرؓ سیدہ عائشہ ؓ کے گھر تشریف لائے تو دیکھا کہ وہ آپﷺ سے بلند آواز میں گفتگو کر رہی ہیں ،سیدنا صدیق اکبر ؓ غصہ سے آگے بڑھے اور اپنی صاحبزادی کو اس گستاخی پر تنبیہ کرنے کے لئے ہاتھ بڑھایا ،فوراً آپﷺ درمیان میں حائل ہوگئے اور مارنے سے روک دیا،جب صدیق اکبر ؓ چلے گئے تو آپﷺ نے فرمایا ،عایشہ! اگر میں تم کو بچایا نہ ہوتا تو تم پٹ گئی ہوتیں ،ایک موقع پر آپﷺ نے سیدہ عایشہ ؓ سے فرمایا کہ میں پہچان جاتاہوں جب تم مجھ سے ناراض ہوتی ہو،یارسول اللہ ﷺ ! آپ کیسے پہچان لیتے ہیں ،سیدہ عائشہؓ نے پوچھا، تو ارشاد فرمایا جب تم خوش ہوتی ہیں تو یوں کہتی ہیں:لاورب محمد’’نہیں محمد ؐ کے رب کی قسم‘‘ اور جب روٹھی ہوتی ہو تو یوں کہتی ہو:لاورب ابراہیم’’نہیں رب ابراہیم ؑ کی قسم‘‘ سیدہ عائشہ ؓ اس کی تصدیق کی اور آگے فرمایا یارسول اللہﷺ! میں غصہ کی حالت میں بھی صرف آپ کا نام چھوڑ دیتی ہوں مگر دل سے آپ کو نہیں بھولتی،سیدہ عائشہ صدیقہؓ کی آپﷺ سے محبت وعشق کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے فرماتی ہیں کہ :اگر زلیخا کو ملامت کرنے والی عورتیں آپﷺ کی منور پیشانی دیکھ لتی تو وہ یقینا ہاتھوں کے بجائے اپنے دلوں  کوکاٹ لیتی،درحقیقت یہ سیدہ عایشہ صدیقہؓ کی آپﷺ سے ناراضگی نہیں تھی بلکہ نازتھا۔
شوہروں کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنی بیویوں کے لئے اپنی حیثیت کے مطابق مکان و رہائش ، لباس وپوشاک ، اکل وشرب کے ساتھ ان کے آرام وراحت کا بھی خیال رکھیں ، جو چیزیں تکلیف کا باعث ہوں ان سے اجتناب کی کوشش کرنی چاہیے ، آپﷺ کا اسوہ بتاتا ہے کہ آپ کس طرح اپنی ازواج کا خیال فرمایا کرتے تھے،سیدہ عائشہ صدیقہؓ فرماتی ہیں کہ ایک مرتبہ آپﷺ رات کو اٹھے اور آہستہ سے جوتے پہنے اور آہستہ سے دروازہ کھولا( نسای :۴؍۹۲) یہ آپ ﷺ نے اس لئے کیا کہ زوجہ محترمہ کی نیند میں خلل نہ آئے ،جہاں ذراسی بھی ناگواری کا احتمال ہوتا تو وہاں بھی آپﷺ ایسے امور کی مکمل رعایت فرماتے تھے،اس اسوہ ٔ حسنہ کو دیکھئے اور اپنے حالات کا جائزہ لیجئے کہ ہم لوگ اپنے بڑوں ،بزرگوں ،بچوں ،ماتحتوں اور بیویوں کی کس قدر رعایت کرتے ہیں ، ہم لوگوں کا معاملہ یہ ہے کہ اگر کبھی کوئی کام ناگزیر ہوجائے یا پھر کسی دینی کام انجام دینا ہو تو اس موقع پر کسی کی کوئی رعایت نہیں کرتے اور نہ ہی اس کا خیال کرتے ہیں کہ اس سے کسی کو تکلیف تو نہیں ہورہی ہے ،آپس میں محبت ومودت بڑھانے اور پُر لطف ،خوشگوار زندگی گزار نے کے لئے ایک دوسرے کی رعایت اور آرام کا خیال رکھنا ضرتوری ہے اس کے بغیر پُر لطف زندگی کا تصور محال ہے۔
اللہ تعالیٰ نے ہر شخص کا مزاج اور اس کی طبیعت وخصلت ایک دوسرے سے مختلف بنائی ہے ،مزاجوں میں تفاوت کی وجہ سے کبھی ایک دوسرے کی رائے مختلف بھی ہوسکتی ہے اسے ہر گز انا کا مسئلہ نہ بنائیں ،کیونکہ شوہر بیوی کا اختلاف اگر آگے بڑھ جائے تو اس کا اثر دوخاندانوں پر پڑتا ہے ،اسی وجہ سے حکیم الامت حضرت تھانویؒ نے میاں بیوی کے اختلاف کو سیکڑوں برائیوں کی جڑ فرمایا ہے،حدیث میں ہے کہ شیطان اپنے ماتحتوں کے کسی کام سے اتنا خوش نہیں ہوتا جتنا کہ میاں بیوی میں اختلاف پیدا کرانے اور طلاق دلوانے سے خوش ہوتا ہے ،لعین رجیم کہتا ہے کہ دیگر بُرائیاں توبہ سے معاف ہوجاتی ہیں لیکن میاں بیوی کے درمیان لگی آگ دوخاندانوں کو جلاکر خاک کر دیتی ہیں ،اس لئے وہ اس شیطان کو گلے لگا کر شاباشی دیتا ہے جو میاں بیوی میں جھگڑے لگاکر اسے طلاق تک پہنچادیتا ہے ،عوماً گھروں میں جھگڑے عورتوں کی بدزبانی ، بے جا مطالبات کی عدم تکمیل ،ساس بہو میں ٹکراؤ اور نند بھاوج میںبرتری کی وجہ سے ہوتے ہیں،شوہر کی بہت بڑی ذمہ داری ہے کہ ایسے موقع پر عقل فہمی سے کام لے کر معاملہ کو رفع دفع کرنے کی کوشش کرے ،کسی ایک کی بے جاطرف داری کرتے ہوئے دوسروں کی نظروں میں معتوب اور خدا کی نظر میں مبغوض نہ بنیں ،اختلاف ختم کرنے کا آسان طریقہ تلاش کریں ، یہی وہ موقع ہے جہاں پر آپ کے صبر و ضبط کا کڑا امتحان ہوتا ہے ،ایک طرف ماں ،بہن ہے دوسری طرف شریک زندگی اور ہم سفر ہے ، عموماً ان ہی موقع پر آدمی سے غلطی ہوجاتی ہے جو زندگی بھر سردرد بن جاتی ہے ،آپ ﷺ نے گھریلو زندگی کو خوشگوار بناے اور مسرتوں سے پُر رکھنے کے لئے نہایت عمدہ تعلیم وتدبیر سکھلائی ،وہ ہے اخلاق حسنہ اور عفو ودرگزر ، بیوی اور بہو کو مطیع بنانے کے لئے اس پر اپنی مرضی مسلط نہ کرے بلکہ اسے خوش رکھنے کی کوشش کریں ،بعض لوگ بیوی وبہو کو اپنی ملک سمجھتے ہیں اور اسی وجہ سے اس پر اپنی مرضی مسلط کرنے کی کوشش کرتے رہتے ہیں ،جھگڑا اس وقت رونما ہوتا ہے جب بیوی وبہو اپنے کو گھر والوں کی ملک نہیں بلکہ حصہ دار مانتی ہیں ، بہو کی ذمہ داری ہے کہ وہ گھر کے ہر فرد کے ساتھ اس کے مقام ومرتبہ کے لحاظ سے برتاؤ کریں ، جب ان کے گھر کو اپنا گھر بنالیا ہے تو پھر ان کی مرضی کو اپنی مرضی بنانے میں کیا دشواری ہے ،یہی ایک چیز ہے جس کے ذریعہ سارے اختلافات ختم کئے جاسکتے ہیں اور یہی وہ حسن تدبیر ہے جو خوشگوار گھر کی شاہ کلید ہے ۔
آپ ﷺ نے شوہروں کو اپنی بیویوں کے ساتھ حسن وسلوک کی عملی تعلیم دی ہے ،بیک وقت متعدد ازواج کے ساتھ نہایت خوشگواری کے ساتھ زندگی گزار کر پوری انسانیت کو بتایا کہ  ،کسی موقع پر مردوں سے خطاب کرتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ: خیرکم خیرکم لاہلہ وانا خیرکم لاہلی (ترمذی:۳۸۹۴) ’’ تم میں بہترین خواوند وہ ہے جو اپنی بیوی کے ساتھ اچھا سلوک کرتا ہو اور میں سبھوں میں سب سے زیادہ اپنی بیوی سے اچھا سلوک کرتا ہوں‘‘ اس حدیث میں صرف ایک جملہ کے ذریعہ آپﷺ نے خوشگوار ازواجی زندگی کا راز بتا دیا وہ ہے ’’حسن سلوک‘‘ ،آدمی باہر چاہے کتنا ہی با اخلاق اور لوگوں کی نظروں میں کتنا ہی محترم ہو اگر گھر میں اس کا برتاؤ اچھا نہیں ہے تو حدیث کی رو سے بد اخلاق ہی کہلائے گا،اس کا صاف مطلب یہ ہوگا کہ جو اپنے ماتحتوں کے اتھ اچھا برتاؤ نہ کر سکتا ہو تو وہ دوسروں کے ساتھ کیا عمدہ برتاؤ کا مظاہرہ کر سکتا ہے ،آپ ﷺ نے ازواج مطہرات عمدہ برتاؤ پیش کرکے ساری دنیا کے سامنے ایک مثال پیش کی ہے اور خوشگوار ازواجی عملی زندگی کے ذریعہ ایک صاف شفاف آئینہ عطا کیا جس میں دیکھ کر ہر شوہر اپنی صورت زندگی سنوار سکتا ہے ۔
حقوق زوجین کا دوسراحصہ شوہر وں سے متعلق ہے ، ایک طرف شوہروں سے مطالبہ کیا گیا کہ وہ حق زوجیت کو بھر پورانداز میں اداکریں،بیویوں کا ان کا مستحق حق دیں ،حسن اخلاق کا مظاہرہ کرتے ہوئے زندگی کو خوشگوار اور رمسرت بنائیں ،دوسری طرف بیویوں سے بھی مطالبہ کیا گیا کہ وہ خدا ورر سول خداؐ کی اطاعت کے بعد شوہروں کی اطاعت کو اپنے اوپر لازم کرلیں،خاوند اپنی بیوی کے لئے ،نگران ،حاکم اور قوم کا درجہ رکھتا ہے،قرآن مجید میں ہے : اَلرِّجَالُ قَوَّامُوْنَ عَلَی النِّسَائِ  بِمَا فَضَّلَ اللّٰہُ بَعْضَہُمْ عَلٰی بَعْضٍ(النساء:۳۴)’’ مرد عورتوں پر حاکم ہیں اس وجہ سے کہ
 اللہ تعالیٰ نے ایک کو دوسرے پر فضیلت دی ہے‘‘ اللہ تعالیٰ نے مردوعورت کو الگ الگ صلاحیت عطا کی ہے ،ہر ایک کو جداگانہ خصوصیات سے نوازا ہے، یہی وجہ ہے کہ ان کی ذمہ داریاں بھی ایک دوسرے سے مختلف ہیں ،شوہر کو معاش کا مالک بنا کر نان نفقہ کی ذمہ داری اس کے مضبوط کندھوں پر ڈالی تو بیوی کو گھر کی ملکہ بناکر اس کی گود کو پروش پانے والے بچے کی تربیت کا گہوارہ بنایا ہے،بیویوں کے لئے شوہروں کی خدمت واطاعت کو خدا کی اطاعت کے ساتھ جوڑ کر ان کی اہمیت بتائی ،ایک حدیث میں آپﷺ نے ارشاد فرمایا: قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضہ میں محمد ؐ کی جان ہے عورت اپنے پروردگار کا حق ادا نہ کرے گی جب تک کہ اپنے شوہر کا حق ادا نہ کرے ،یعنی شوہر کے حق کی ادائیگی پر ہی نماز روزہ ودیگر عبادات کی ادائیگی موقوف ہے ،کیونکہ اللہ  تعالیٰ ہی نے شوہر کے حقوق ادا کرنے کا عورت کو پابند بنایا ہے ۔
اللہ تعالیٰ نے کمزور جان عورتوں پر بہت زیادہ نرمی وسہولت کا معاملہ فرمایا ہے ، حتی کہ عبادات میں بھی ان کی کمزوری کا بھر پور خیال کیا گیا ہے ،   ان کے لئے دنیا میں جہاں بہت سی چیزوں کے حاصل کرنے کو آسان بنادیا گیا ہے وہی آخرت کی عظیم نعمت جنت کا حصول بھی بہت سہل کر دیا گیا ہے ،  ذرا سی کوشش اور جستجو کے ذریعہ وہ اپنے کو جنت اور اس کی نعمتوں کی مستحق بنا سکتی ہیں،ایک حدیث میں عورتوں کے لئے جنت کو پنجوقتہ نمازوں کی پابندی،رمضان کے روزوں کا التزام ،اپنی عزت وعصمت کی حفاظت کا اہتمام اور اپنے شوہر کی اطاعت وفرماں برداری کے ساتھ مقید کر دیا گیا ہے،آپ ﷺ کا ارشاد ہے کہ: عورت جب پانچ وقت کی نماز پڑھتی رہے،رمضان کے روزے رکھے،اپنی عزت وآبرو کو بچائے رکھے اور شوہر کی تابعداری کرتی رہے تو اس کو اختیار ہے جس دروازہ سے چاہے جنت میں چلی جائے( مرقاۃ المفاتیح شرح مشکاۃ المصابیح ۱۰؍۱۹۴ )، حقوق اللہ کی ادائیگی کے ساتھ عورت جس وقت اپنے شوہر کو راضی وخوش کرنے کی فکر میں لگ جاتی ہے ،اس کی اطاعت وفرماں برداری کو اپنے لئے سعادت سمجھتی ہے اور اسے مسرور دیکھ کر خوش ہوتی رہتی ہیں  ،اس کے اس جذبۂ اطاعت اور خدمت گزاری سے راضی اور خوش رہتا ہے ،اگر اس حالت میں عورت کی موت واقع ہوجاتی ہے تو وہ ضرور جنت کی حقدار ہوں گی ،آپ ﷺ نے جنتی عورت کی نشانی بتاتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ : جس عورت کی موت اس حالت میں آئے کہ اس کا شوہر اس سے راضی تھا تو وہ جنتی ہے (ترمذی:۱۱۹۴) ۔
بلا شبہ اللہ تعالیٰ نے انسان کو تمام مخلوقات میں سب سے خوبصورت بنایا ہے ،انسانوں میں مرد کی خوبصورتی کی حیثیت الگ ہے اور عورت کی خوبصورتی کی حیثیت الگ ہے،مرد میں طاقت ہے تو عورت میں نزاکت ہے،مرد قوت بازو پر فخر کرتا ہے تو عورت اپنے حسن پر ناز کرتی ہے ، یقینا عورت میں حسن وجمال کی ایک کائنات چھپی ہوتی ہے ،اسی وجہ سے اسے حسن کی پری اور خوبصورتی کا مجسم کہا جاتا ہے ،دنیا میں بے شمار لوگ خوبصورت پریوں کے دیوانے ہوتے ہیں ، جو لوگ خوبصورتی کے دلدادہ ہوتے ہیں ان کے نزدیک عورت کی خوبصورتی کا معیار گورا رنگ، بڑی بڑی آنکھیں ،گھنے بال ،کتابی چہرہ اور مناسب جسامت ہے لیکن جو لوگ سیرت کے اسیر ہوتے ہیں وہ اچھی شکل وصورت کو خوبصورتی کا معیار نہیں مانتے بلکہ اچھی سیرت وکردار کو عورت کی خوبصورتی اور اس کا حسن کا معیار تسلیم کرتے ہیں ،اوربات یہ ہے کہ حسن صورت چند دن ہی قائم رہ پاتی ہے جس سے صرف آنکھیں خوش ہوتی ہیں اور حسن سیرت تاحیات بقای رہتی ہے جس سے دل خوش ہوتا ہے اور خوشی تو اصل دل کی ہوتی ہے ،چنانچہ ایک شاعر کہتا ہے  ؎
حسن صورت چند روزہ
حسن سیرت مستقل
اُس سے خوش ہوتی ہیں آنکھیں
 اِس سے خوش ہوتا ہے دل
کسی موقع پر آپ ﷺ سے پوچھا گیا کہ :یا رسول اللہ ﷺ اچھی عورت کون ہے؟ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا: وہ عورت جب اس کا شوہر اس کی طرف دیکھے تو خوش ہوجائے،اور جب کسی کام کا حکم دے تو پورا کردے،اور اپنے اور اپنے مال کے بارے میں کوئی ایسا رویہ اختیار نہ کرے جو شوہر کو ناپسند ہو (نسائی: ۵۳۴۳)۔
وہ عورت جو اپنے شوہر کو خوش رکھتی ہے ،اس کا بھر پور خیال رکھتی ہے اور اس کی ناراضگی سے بچتی رہتی ہے تو اس کی عبادات پر قبولیت کی مہر لگادی جاتی ہے ،بر خلاف وہ عورت جس سے اس کا شوہر ناراض اور ناخوش ہے تو نہ تو نماز قبول ہوتی ہے اور نہ ہی کوئی نیکی منظور کی جاتی ہے ،آپﷺ نے ارشاد فرمایا کہ: تین آدمی ایسے ہیں کہ جن کی نہ تو نماز قبول ہوتی ہے اور نہ ہی کوئی نیکی قبولیت کے درجہ کو پہنچ پاتی ہے ،ایک بھاگا ہوا غلام اور بھاگی ہوئی باندی ،دوسرے نشے میں چور شخص اور تیسرے وہ عورت جس کا شوہر اس سے ناراض ہو۔بیویوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ ہر وقت شوہر کے حقوق کی رعایت کر تی رہیں ،اسے خوش رکھنے کی کوشش کریں ،اس کی ناراضگی سے بچنے کی فکر کریں، اس کی اجازت کے بغیر گھر سے باہر ہ جائیں، بناؤ سنگار کے ذریعہ شوہر کے لئے اپنے کو آراستہ کریں،شریعت میں شوہر کی فرماں برداری یہاں تک ہے کہ اگر وہ نفل نماز پڑھنے اور نفل روزے رکھنے سے منع کرتا ہے تو اسے رک جانا لازم ہے ،البتہ فرائض ،واجبات اور سنن مؤکدہ میں اس کی بات نہیں مانی جائے گی ۔
شریعت نے کس قدر شوہر بیوی پر ایک دوسرے کے حقوق عائد کئے ہیں،اوپر ذکر کردہ آیات قرآنی اور احادیث شریفہ سے اندازہ ہوتا ہے کہ شریعت نے کس قدر اہتمام کے ساتھ اور کتنے احسن طریقے پر زوجین کو زندگی گزار نے کا طریقہ سکھلایا اور بتلایا ہے ، اگر دیکھا جائے تو گھروں میں نوے فیصد جھگڑے اور اختلاف شرعی حقوق کی عدم ادائیگی ،ایک وسرے پرفوقیت ا ور نو ایڈ جسٹمنٹ کی وجہ سے رونما ہوتے ہیں، افسوس اس بات کا ہے کہ اکثر مرد وعورت حقوق زوجین سے ناواقف اور نابلد ہیں ،مسلم گھرانوں میں جہاں بھی جھگڑے ہوتے ہیں اور نوبت طلاق تک آپہنچتی ہے اس کی اکثر وبیشتر وجہ حقوق کی عدم ادائیگی،اخلاقی گراوٹ اور ہٹ دھر می ہی ہوتی ہے ،اگر شوہر بیوی ایک دوسرے کی رعایت کے ساتھ زندگی گزارنے کی ٹھان لیں تو امید ہے کہ طلاق کی شرحیں گھٹ کر زیرو فیصد پر آجائیں گی(ان شاء اللہ)۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
×