اسلامیات

حیاایمان کی اساس اور انسان کا لباس

مفتی عبدالمنعم فاروقی

شرم وحیا کو انسان کا قیمتی لباس اور اس کا بیش قیمت زیور قرار دیا گیا ہے بلکہ رسول اللہؐ نے حیا کو ایمان کا حصہ اور اس کا لازمی جزو قرار دیا ہے اور اسے جزو ایمان بتاکر اس کی اہمیت کو واضح فرما ہے ،ایک موقع پر آپؐ نے اہمیت کو بتاتے ہوئےارشاد فرمایا:ان ااحیاء من الایمان (ترمذی :۲۶۱۵) ’’ حیا ایمان کا جزو ہے‘‘ ،حیا وایمان ایک دوسرے سے ایسے جڑے ہوئے اور ملے ہوئے ہیں جس طرح گردن سے سَر اور جسم سے جان ملی ہوئی ہوتی ہے ،سر کا گردن سے اور روح کا جسم سے علاحدہ ہونا موت کی علامت ہے اسی طرح حیا کا رخصت ہوجانا ایمان کا مل کے کمزور اور نامکمل ہونے کی نشانی ہے ، ایک حدیث میں آپ ؐ نے بڑی صراحت کے ساتھ اسی بات کو بتلاتے ہوئے ارشاد فرمایاکہ ان الحیاء ولایمان قرناء جمیعاً فاذا رفع احدھما رفع الآخر(مصنف ابن ابی شیبہ:۲۵۳۵۰) ’’حیا اور ایمان ہمیشہ ایک ساتھ رہتے ہیں جب ان میں سے ایک اٹھ جاتا ہے تودوسرا بھی رخصت ہوجاتا ہے‘‘ یعنی جس شخص میں حیا کی صفت موجود ہے تو اس میں ایمانی کیفیت بھی باقی ہے اور جس میں حیا نہیں تو اس میں ایمان کامل بھی نہیں ۔
احادیث مبارکہ کی روشنی میں اہل علم فرماتے ہیں کہ ’’ حیا‘‘ انسانی طبیعت کے اس کیفیت کانام ہے جس سے ہر نامناسب اور ہر ناپسندیدہ کام سے اس کو انقباض ہو اور اس کے ارتکاب سے اذیت ہو ،حقیقت میں یہ ایمان کا تقاضہ ہے اور دین اسلام کا امتیازی وصف ہے اسی وجہ سے حیا کو ایمان کا جزو قرار دیا گیا، معلوم ہوا کہ اسلام میں جہاں حیا کو ایمان اور نیکی کا درجہ حاصل ہے وہیں بے حیائی ،آوارگی کو نہ صرف نافرمانی کہا گیا بلکہ اسے گناہ قرار دے کر اس سے بچنے کی سخت الفاظ میں تلقین کی گئی ،شرم و حیا ، ایمان ویقین سے متصف شخص کے لئے کامیابی وکامرانی کا وعدہ اور فلاح آخرت کی خوشخبری سنائی گئی ہے اور بے حیائی ودرندگی اور بد چلنی و آوارگی اپنانے والے کو ناکامی ونامرادی اور آخرت میں خسران کی وعید بتائی گئی ہے ، ایک حدیث میں آپ ؐ نے ارشاد فرمایا کہ:الحیاء من الایمان ولایمان فی الجنہ والبذاء من الجفاء والجفاء فی النار(ترمذی :۲۰۰۹) ’’ حیا ایمان میں سے ہے اور ایمان (اہل ایمان) جنت میں (داخل ہونے والے )ہیں ،اور بے حیائی بدی میں سے ہے اور بدی(والے) جہنمی ہیں‘‘ ،اسلام اور پیغمبر اسلامؐ نے نہ صرف شرم و حیا کے زیور سے آراستہ وپیراستہ ہونے کی تلقین فرمائی بلکہ اسے اپنانے کے طریقے بھی بتلائے ،اور بے حیائی وبے شرمی سے نہ یہ کہ صرف بچنے کی تعلیم دی بلکہ ان چیزوں کو نہایت واضح طریقے پر بتلایا جس سے بے حیائی فروغ پاتی ہے ،خوف خدا ،فکر آخرت اور خواہشات ربانی پر عمل ہی کا دوسرا نام حیا ہے کیونکہ جو بندہ اپنے خالق کی فرماںبرداری کرے گا تو وہ لازماً صفت حیا سے متصف ہوگا اور جو اپنے خالق سے بے پرواہ ہوکر زندگی گزارے گا وہ ضرور بے حیائی کے راستے پر ہوگا ، ایک حدیث میں حیا کو انبیاء کی صفت بتایا گیا ہے ،آپؐ کا ارشاد ہے:اربع من سنن المرسلین :الحیاء والتعطر والسواک والنکاح (ترمذی:۱۰۸۰)’’ چار چیزیں انبیاء ؑ کی خاص سنتوں میں سے ہیں،عطر لگانا،نکاح کرنا،مسواک کرنا اور شرم وحیا کو اپنانا‘‘، بے حیائی وبے شرمی صفات انسانی سے دور بلکہ درندہ صفت لوگوں کی علامت ہے ، بے حیائی وبے شرمی جب کسی قوم میں پھیل جاتی ہے تو سمجھ لینا چاہیے کہ اس کی تباہی وبربادی کے دن شروع ہوگئے ہیں اور ایک دن بے حیائی وشرمی اس قوم کو لے ڈبتی ہے۔
بے حیائی کی ابتدا بد نظری وبدنگاہی سے شروع ہوتی ہے،جب نگاہیں بے لگام اور آوارہ ہوجاتی ہیں تو پھر نفسانی خواہشات کا زور ہوتا ہے،پھر شہوتوں کا دروازہ کھل جاتا ہے ،اگر اس پر فوراً روک نہ لگائی گئی تو آگے چل کر دیگر اعضاء بھی بے حیائی کی لپٹ میں گھِر جاتے ہیں اور آخر کار پورا وجود بے حیائی وبے شرمی کی لپٹ میں آجاتا ہے، قرآن مجید میں مسلمانوں کو نگاہوں کی حفاظت کی ہدایت دی گئی ارشاد ربانی ہے:قُل لِّلْمُؤْمِنِیْنَ یَغُضُّوْا مِنْ أَبْصَارِہِمْ وَیَحْفَظُوا فُرُوْجَہُمْ ذٰلِکَ أَزْکٰی لَہُم(النور:۳۰)’’آپ مسلمان مردوں سے کہہ دیجئے کہ وہ اپنی نگاہیں نیچی رکھیں اور اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کریں یہ ان کے لئے زیادہ صفائی کی بات ہے‘‘ اسی طرح عورتوں کو بھی بڑی صراحت کے ساتھ پردہ کرنے کا حکم دیا گیا ارشاد ربانی ہے یَا أَیُّہَا النَّبِیُّ قُل لِّأَزْوَاجِکَ وَبَنَاتِکَ وَنِسَائِ الْمُؤْمِنِیْنَ یُدْنِیْنَ عَلَیْْہِنَّ مِن جَلَابِیْبِہِن( الاحزاب:۵۹)’’اے نبیؐ ! آپ اپنی بیویوں سے اور اپنی بیٹیوں سے اور مسلمانوں کی عورتوں سے کہہ دیجئے کہ وہ اپنے اوپر چادریں لٹکالیا کریں‘‘ اس آیت مبارکہ میں صراحت کے ساتھ عورتوں کو نظروں کی حفاظت اور پردہ کا حکم ددیا گیا ہے جو دراصل بے حیائی کے سد باب کی عملی شکل ہے ، نظر شیطان کی ایک زہریلی تیر ہے ،شیطان لعین اسی کا سہارا لے کر ابن آدم کے دل میں شہوت کا بیچ بوتا ہے اور آگے چل کر یہی نظر بے حیائی وبے شرمی کا ذریعہ بن جاتی ہے ، آپؐ نے نظر کو شیطان کی تیر فرمایا ،ارشاد ہے :النظرۃ سھم مسموم من سھام ابلیس(الترغیب ۳؍۲۳)’’ نظر شیطان کے تیروں میں سے ایک زہریلی تیر ہے‘‘ ، ایک دوسری حدیث میں نظروں کی حفاظت کی طرف توجہ دلاتے ہوئے ارشاد فرمایاکہ ’’اپنی نظروں کو نیچے رکھو اور شرمگاہوں کی حفاظت کرو ورنہ اللہ تمہارے چہروں کو بے نور بنادے گا‘‘( الترغیب ۳؍۲۳)۔
جب کسی قوم کے لوگوں میں بد نظری ،فحش گوئی اور بے شرمی پھیل جاتی ہے تو اس قوم کی عزت و شرافت بیمار ہوجاتی ہے ،اس کے اخلاق کا زوال شروع ہوجاتا ہے اور تباہی وبربادی کے قریب بڑھنے لگتی ہے اور ایک دن وہ عذاب میں گرفتار ہوکر دیگر قوموں اور آنے والی نسلوں کے لئے نشان عبرت بن جاتی ہے ، چنانچہ اللہ تعالیٰ جب کسی قوم سے ناراض ہوتا ہے تو سب سے پہلے اس سے حیا کی صفت ہٹا لیتا ہے اس کے بعد اس پر اپنے عذاب کا کوڑا برساتا ہے ، آپؐ کا ارشاد ہے کہ:ان اللہ عزوجل اذا اراد ان یھلک عبدا نزع منہ الحیاء (ابن ماجہ:۴۰۵۴) ’’اللہ تعالیٰ جب کسی بندہ کو ہلاک کرنے کا ارادہ کرتا ہے تو اس سے حیا کی صفت چھین لیتا ہے‘‘ ۔
شرم و حیا اور پاکبازی کی اس قدر تعلیم وتلقین اور بے حیائی کے عواقب وانجام سے ڈرانے کے باوجود آج مسلم معاشرہ کا ایک بڑا طبقہ مغرب کی نقالی کرتے ہوئے ان کے نقش قدم پر چلتے ہوئے ،جدید فیشن کی چکر میں اسلامی تہذیب وتمدن کو چھوڑ کر بے شرمی وبے حیائی کے دلدل میں پھنستا جارہا ہے ، جدید فیشن کا دلدادہ طبقہ مغرب کی تقلید میں اندھا ہو کر تہذیب اسلامی کو چھوڑ کر بے شرمی وبے حیائی کی کھائی میں گرتا جارہا ہے ،اپنے تعلیم یافتہ کہتے ہوئے بھی جہالت کا مظاہرہ کر رہا ہے ، ان کے دماغ پر گویا جدید تہذیب کا جن سوار ہوچکا ہے جو ان کے جسم کو مفلوج اور دماغ کو ماؤف کر چکا ہے،ان پر شیطان مردود اپنا تسلط قائم کر لیا ہے ،وہ بھول چکے ہیں کہ ان کے ابا واجداد نے تہذیب اسلامی اپنا کر دنیا پر صدیوں حکومت کی تھی اور اسی شرم وحیا والی اسی تہذیب نے درندہ صفت انسانوں کو حیا کا لباس پہنا کر انہیں جینے کا ڈھنگ سکھایا تھا ،یہ قوم مسلم کی بد بختی نہیں تو اور کیا ہے کہ جس نے ننگی قوموں کو لباس حیا پہنا یا تھا،بے حیاؤں کو حیا سکھایا تھا اور بد تہذیبمعاشرہ کو اعلی تہذیب عطا کی تھی آج وہ خود دوسروں کی نقالی کو باعث افتخار سمجھ رہے ہیں ،ننگی قوموں کے پیچھے چل کر جھوم رہے ہیں اور بے حیائی کو گلے لگاکر بڑی بے شرمی سے گھوم رہے ہیں اور اپنے عمل کے ذریعہ تہذیب اسلامی سے بیزار ہونے ثبوت دے رہے ہیں۔
آج مسلم معاشرہ کا بیشتر حصہ ُان تمام چیزوں کو اپنانے لگا ہے جو مغربی تہذیب کا حصہ ہیں ،انہیں کی دیکھا دیکھی سالگرہ کے نام پر ،سال نوکے نام پر ،یوم عاشقان کے نام پر اور شادی بیاہ ودیگر چھوٹی بڑی تقاریب میں شرم وحیا کو بالائے طاق رکھتے ہوئے بے شرمی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اسلامی تہذیب وتمدن کو شرمسار کر رہے ہیں ،اس کا نتیجہ ہے دنیا میں ان کی جگ ہنسائی ہو رہی ہے ،ذلت ورسوائی گلے کا طوق بنتی جارہی ہے اور یہ غیروں کا کھیلونا بنتے جارہے ہیں ،مسلمان اگر عزت وعظمت چاہتے ہیں اور اپنے آبا واجداد کے ورثہ کو پانا چاہتے ہیں تو پھر مغرب غلامی چھوڑ کر مکمل اسلام کی غلامی میں آنا ہوگا ،بے حیائی چھوڑ کر حیا کو اپنانا ہوگا، لعنتی تہذیب جدید سے توبہ کرتے ہوئے اسلامی تہذیب کو گلے لگانا ہوگا اور خواہشات نفسانی کو چھوڑ کر ربانی خواہش اپنانا ہوگا ،تو پھر کیا ہوگا ،وہی ہوگا جو تمہارے آباواجداد کے ساتھ ہواتھا ، جس کا اہل ایمان سے خدا نے وعدہ فرمایا ہے ،جس کی رسول اللہؐ نے خوشخبری سنائی ہے کہ قدم قدم پر خدا کی مدد ونصرت اترے گی ، عزت وعظمت، سربلندی وسرداری اور فتح وکامرانی تمہارے قدم چومے گی ،تم جس کی نقل کرتے تھے وہ تمہاری نقل کرنے لگیں گے اور تمہاری اس نقل کو وہ اپنے لئے سامان عزت جانیں گے ۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
×