سیاسی و سماجیمولانا سید احمد ومیض ندوی

حمیت نام تھا جس کا گئی تیمور کے گھر سے

مولانا سید احمد ومیض ندوی استاذ حدیث دارالعلوم حیدرآباد.

تیسرا مہینہ ختم ہونے جا رہا ہے؛ مگر غزہ کی عوام پر اسرائیلی درندگی کا سلسلہ رکنے کا نام نہیں لے رہا ہے؛ وحشیانہ بمباری سے ہلاک ہونے والے فلسطینیوں کی تعداد 22 ہزار سے متجاوز ہو چکی ہے ؛ زخمیوں کی تعداد 50 ہزار سے زائد ہے؛ کئی لاکھ فلسطینی مسلمان بے گھر ہو چکے ہیں؛ غزہ میں انسانی المیہ جنم لے رہا ہے؛ اقوام متحدہ کا جنرل سیکرٹری چیخ رہا ہے کہ غزہ میں انسانی بحران تشویش ناک شکل اختیار کر چکا ہے؛ مگر امریکہ اور اس کی ناجائز اولاد اسرائیل ٹس سے مس نہیں ہو رہا ہے؛ اس وقت غزہ میں سارے ہسپتال ملبے میں تبدیل ہو چکے ہیں؛ ایک ہسپتال بھی کارگر نہیں ہے؛ عارضی کیمپوں میں زخمی تڑپ رہے ہیں؛ مگر ان پر کوئی ترس کھانے والا نہیں ہے؛ دشمن سے ترس کھانے کی امید کیوں کر کی جا سکتی ہے ؛وہ تو فلسطینیوں کی مکمل نسل کشی کا تہیہ کر چکا ہے ؛غزہ میں جنگ نہیں نسل کشی ہو رہی ہے؛ نسل کشی ان فلسطینیوں کی ہو رہی ہے ؛جن کی برادری سے تعلق رکھنے والے مسلمانوں کی تعداد دنیا میں پونے دو ارب ہے؛ جن کے پاس 57 ممالک ہیں؛ جن کی افواج 70 لاکھ سے زائد ہے؛ اور جنہیں اللہ تعالی نے پٹرول جیسی دولت سے مالا مال کیا ہے؛ یہ وہ مسلم حکمران ہیں جنہیں اخوت اسلامی اور اسلامی تعلیمات کا بھرپور علم ہے؛ جنہیں اپنے پیغمبر ختمی مرتبت صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان اچھی طرح یاد ہے کہ مسلمان ایک جسم کی طرح ہیں؛ ان کے سامنے یہ حدیث بھی ہے کہ المسلم اخو المسلم لا یخذلہ”مسلمان مسلمان کا بھائی ہے؛ کوئی مسلمان اپنے مسلم بھائی کو بے یار و مددگار نہیں چھوڑ سکتا؛ ان حکمرانوں کو یہ بھی یاد ہے کہ نبی علیہ السلام نے آپسی اتحاد؛ خیر خواہی اور درد مندی میں ساری امت کو ایک عمارت سے تشبیہ دی ہے؛ جس کی ہر اینٹ دوسری اینٹ کو مضبوط کرتی ہے؛ ارشاد نبوی ہے: المسلم للمسلم کا لبنیان یشد بعضہ بعضا”یہ سب کچھ جانتے ہوئے مسلم حکمران غزہ پر اسرائیلی جارحیت کے حوالے سے رسمی نوعیت کے چند مذمتی بیانات دے کر مجرمانہ خاموشی اختیار کیے ہوئے ہیں؛ علامہ اقبال نے صدا لگائی تھی کہ حرم کی پاسبانی کے لیے مسلمان نیل کے ساحل سے خاک کاشغر تک متحد ہو جائیں؛ مگر اس وقت صورتحال یہ ہے کہ مسلم حکمران بے حسی کی دبیز چادر تان کر خواب خرگوش سے لطف اندوز ہو رہے ہیں فلسطین کا نوحہ گزشتہ 75 سالوں سے دہرایا جا رہا ہے اور ہر مقام اور ہر زبان سے دہرایا جا رہا ہے؛ ہر مذہب ہر رنگ و نسل سے تعلق رکھنے والے اور درد دل رکھنے والا ہر انسان فلسطین میں جاری تباہ کا ریوں پر آنسو بہا رہا ہے؛ سب سے زیادہ احتجاج یورپ اور مغربی ملکوں کی عوام کر رہی ہے؛ اپنی اپنی بساط کے مطابق کسی نے اسرائیلی جارحیت کو دل میں برا جانا؛ کسی نے زبان سے ظلم کی مذمت کی ؛کسی قلم کار نے قلم اٹھایا اور فلسطینیوں کی صدا میں صدا ملائی ؛مگر مسلم ممالک کے سربراہ جو اس مسئلے کے حل کے لیے عملی اقدامات کر سکتے تھے ان کی بے حسی دیکھ کر دنیا کا ہر مسلمان بلکہ ہر درد مند انسان انگشت بدنداں ہے؛ جسد واحد کی حیثیت رکھنے والی یہ امت ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ اس کے جسم کے کسی حصے پر اگر کانٹا چبھے تو باقی حصہ لرز اٹھتا ؛مگر فلسطینی بچوں کی تڑپتی لاشیں دیکھ کر مسلم ممالک کی خاموشی تو کچھ اور ہی پتہ دے رہی ہے ؛حیرت ہے کہ ایک طرف اسرائیلی جارحیت کے شکار فلسطینی زندگی اور موت کی کشمکش میں جھول رہے تھے.؛ تو دوسری طرف پوری مسلم امہ کی قیادت کا دعوی دار عرب ملک عرب دنیا کا سب سے بڑا میوزک فیسٹیولmdlbeast soundstorm منعقد کر رہا تھا؛ جو مذہب خوشی کے موقع پر بھی بیمار ہمسائے کی کراہٹ کا لحاظ رکھنے کا درس دیتا ہے؛ اس مذہب کے داعی لاشوں کے ہجوم کو یکسر بھلا کر ڈھول کی تھاپ پر رقص کیسے کر سکتے ہیں ؟غزہ پر صہیونی جارحیت کے آغاز کے روز اول سے اب تک اسرائیل مختلف قسم کے تباہ کن ہتھیاروں کا استعمال تا حال کرتارہا ہے اور بین الاقوامی انسانی قوانین کی اسرائیل کھلے عام خلاف ورزی کا مرتکب ہو رہا ہے؛ غیر مسلم ممالک کو تک اسرائیل کی ان وحشیانہ کاروائیوں پر ترس اآ رہا ہے حتی کہ جنوبی افریقہ نے اسرائیل کے خلاف عالمی عدالت میں مقدمہ تک دائر کر دیا ؛اور دیگر کئی غیر مسلم ملکوں نے اسرائیل سے سفارتی تعلقات ختم کر دیے اور اپنے سفیروں کو واپس بلوا لیا لیکن مسلم ممالک کے حکمرانوں کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگی؛ ترکی جو ہمیشہ خود کو عالم اسلام کے بے باک لیڈر کے طور پر پیش کرتا ہے؛ ایک طرف اس نے اسرائیل سے اپنا سفیر واپس بلوا لیا لیکن دوسری طرف ترکی اور اسرائیل کے مابین تجارت کا حجم سات بلین ڈالر کو چھو رہا ہے؛ جس میں تازہ واقعات کے بعد کوئی کمی نہیں ہوئی ہے ؛متحدہ عرب امارات ایک طرف اسرائیل کی جانب سے فلسطینیوں پر جاری مظالم پر تشویش کا اظہار کرتا ہے مگر ساتھ ہی دونوں ممالک کی باہمی تجارت ڈھائی ارب ڈالر تک پہنچی ہوئی ہے؛ یہ بات درست ہے کہ ہر ملک کو اپنا مفاد عزیز ہوتا ہے ؛اور یہ بھی صحیح ہے کہ کسی ملک کے ساتھ تجارتی معاملات رکھنا بری بات نہیں ہے؛ مگر جب امریکہ روس اور یوکرین تنازعہ پر دیگر ممالک کو روس سے تجارتی سرگرمیوں پر نظر ثانی کرنے کی تلقین کر سکتا ہے تو مسلم ممالک ایسا کیوں نہیں کر سکتے؟ اصل چیز حمیت و غیرت ہے جس سے یہ حکمران عاری ہو چکے ہیں؛ اسرائیل غزہ میں پانی بجلی جیسی بنیادی سہولیات پر روک لگا سکتا ہے تو یہ عرب ممالک اسرائیل کے حامی مغربی ملکوں پر تیل کی سپلائی کیوں نہیں روک سکتے؟ یہ بات بلا تردد کہی جا سکتی ہے کہ ذاتی مفادات کی آڑ میں مسلم ملکوں کی خاموشی فلسطینیوں کی زندگی کے صفایا کا ایندھن بن رہی ہے؛ حیرت ہے کہ ایک طرف مسلم ممالک مسئلہ فلسطین پر اقوام متحدہ کے جانبدار اور غیر موثر ہونے پر ماتم کناں ہیں مگر انہیں اسلامی تعاون کی تنظیم کو موثر بنانے اور ایک آواز ہو کر اسلامی اخوت کو پروان چڑھانے کی توفیق نہیں ہوتی؛ او اآئی سی ؛زبانی جمع خرچ سے آگے کوئی عملی قدم اٹھانے کی جرأت نہیں کرتی؛ موجودہ حالات میں ایران کے سوا کوئی مسلم ملک اسرائیل کی جارحیت پر للکارنے سے قاصر نظر آتا ہے ؛مسلم حکمرانوں کا اصل مسئلہ حمیت دینی وغیرت اسلامی کا فقدان ہے؛ جنگ اسباب و وسائل سے نہیں غیرت و حمیت سے لڑی جاتی ہے؛ مٹھی بھر حوثی امریکہ اور اسرائیل پر بھاری پڑ رہے ہیں اس لیے کہ ان کے سینے غیرت ایمانی اور حمیت اسلامی سے سرشار ہیں؛ مسئلہ فلسطین صرف ایک ملک یا ایک زمین کا معاملہ نہیں ہے؛ یہ مسلمانوں کے عقیدے سے جڑا ہوا ایک اہم معاملہ ہے؛ فلسطین انبیاء کی سرزمین ہے؛ یہاں بیت المقدس اور مسجد اقصی جیسے بابرکت مقامات ہیں؛ جن کے لیے ساری دنیا کے مسلمانوں کے دل دھڑکتے ہیں؛ یہ ہمارے نبی کی معراج گاہ ہے؛ مسلمان کبھی تا قیام قیامت اقصی سے دستبردار نہیں ہو سکتا؛ ایک مسلمان سب کچھ برداشت کر سکتا ہے لیکن اقصی اور قبلہ اول کی توہین کسی طرح قابل قبول نہیں ؛مگر افسوس! آج دنیا میں بسنے والے ایک ارب ٧٥ کروڑ مسلمان قبلہ اول کی پامالی پر خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں؛ فلسطینی مسلمانوں پر قیامت ٹوٹ رہی ہے؛ مگر مسلم حکمران مہر بہ لب ہیں ؛انہیں خدا کے خوف سے زیادہ زمینی خداؤں کا خوف ستارہا ہے؛ آج اگر کفر کی طاقتوں کو مسلمانوں کی کسی چیز سے فی الواقع خوف ہے تو وہ صرف اور صرف ان کا جذبہ جہاد اور جذبہ ایمانی ہے؛ یہ وہی جذبہ ہے جس کے ذریعے طارق بن زیاد کی 12 ہزار افواج نے اسپین کے عیسائی بادشاہ کی ایک لاکھ فوج کو شکست دی تھی؛ موجودہ دور کے اسلام دشمن حکمرانوں کی کوشش ہے کہ مسلمانوں کو عیاشی اور آرام طلبی میں اس طرح غرق کر دیا جائے کہ ان کے ذہن سے جہاد اور اس کی روح نکل جائے؛ چنانچہ انہیں مسلم حکمرانوں کی حد تک اس میں کامیابی مل چکی ہے؛ اقتدار کے نشے میں چور عرب حکمران یہ سمجھ رہے ہیں کہ حماس کے گھر میں آگ لگی ہے اور ان کے اپنے گھر محفوظ ہیں؛ یہ ان کی خام خیالی ہے؛ یہ آگ آخر کار انہیں بھی اپنی لپیٹ میں لے کر رہے گی؛ اور ان کے آشیانے بھی جل کر خاک ہو جائیں گے؛ بے حس اور بے غیرت حکمرانوں کی اس بھیڑ میں ذہن کے پردے پر کچھ ان غیرت مند مسلم حکمرانوں کا نقشہ گھوم رہا ہے جن کی غیرت مندی کے آگے مغربی حکمران بے بس تھے؛ اور انہوں نے نازک موقع پر بھی کبھی دین و ملت کا سودا نہیں کیا،؛ اس سلسلۃ الذہب کی ایک اہم کڑی شاہ فیصل مرحوم بھی تھے 1973 کی عرب اسرائیل جنگ میں چند ممالک اسرائیل کے ساتھ تھے اور دوسری طرف مصر کو عربوں کی مکمل حمایت حاصل تھی؛ اس جنگ کے مرکزی کردار شاہ فیصل تھے؛ شاہ فیصل نے پہلی مرتبہ اس جنگ میں تیل کو ہتھیار کے طور پر استعمال کیا؛ اور اس وقت اسرائیل کے حمایتی ممالک کو تیل کی سپلائی بند کر دی؛ جس کا اثر یہ ہوا کہ ان ممالک میں سارے کارخانے اور ملیں بند ہو گئیں؛ ٹرانسپورٹ سسٹم ٹھپ پڑ گیا؛ سڑکوں سے گاڑیاں غائب ہو گئیں ؛لوگ پیدل سفر کرنے لگے؛ یورپی معاشرہ بھوک سے مرنے لگا؛ آخر ان ممالک کی انتظامیہ حرکت میں آگئی ؛ اور ان میں سے ایک ملک کا وزیر خارجہ دوڑا ہوا سعودی عرب پہنچا؛ شاہ فیصل نے دو دن تک اسے ٹائم نہیں دیا؛ دو دن بعد اس سے جدہ کے ایک خیمے میں ملاقات ہوئی؛ وزیر خارجہ شاہ فیصل پر دھونس جماتے ہوئے بولا: اگر ہم نے تیل کا بائیکاٹ کر دیا تو دنیا میں آپ کا تیل کوئی نہیں خریدے گا؛ شاہ فیصل نے سنجیدگی سے جواب دیتے ہوئے کہا :جناب ہمارے آبا و اجداد کھجوروں اور اونٹوں پر گزارا کرتے تھے؛ ہم بھی ویسے ہی کر لیں گے؛ لیکن اگر آپ کو تیل چاہیے تو آپ کو فلسطین کو آزادی دینی پڑے گی؛ ورنہ ہم تیل کے کنوؤں کو آگ لگا دیں گے ؛وزیر خارجہ کے تیور بدلے؛ اور وہ خوش آمد پر اتر آیا اور کہا : معزز بادشاہ! میرا جہاز ایندھن نہ ہونے کے باعث آپ کے ہوائی اڈے پر کھڑا ہے؛ کیا آپ اس میں تیل بھرنے کا حکم نہیں دیں گے ؟دیکھیے میں آپ کو پھر اس کی ہر طرح سے قیمت ادا کرنے کو تیار ہوں؛ شاہ فیصل پوری سنجیدگی سے بولے: میں ایک ضعیف اور عمر رسیدہ آدمی ہوں؛ میری ایک ہی خواہش ہے کہ میں مرنے سے پہلے مسجد اقصی میں دو رکعت نماز پڑھنا چاہتا ہوں؛ کیا تم اس میں میری مدد کرو گے؟
غیرت مند حکمران ایسے ہوتےہیں؛ موجودہ حکمرانوں کی طرح نہیں جو اسرائیل سے پینگیں بڑھانے میں ایک دوسرے پر سبقت لے جائیں ۔
یہ تو حکمرانوں کی بات تھی لیکن امت مسلمہ کے عام افراد محض حکمرانوں کا رونا روکر خود عہدہ برآ نہیں ہو سکتے؛اگر ہماری مری نہیں تو ہمیں وہ سب کرنا چاہئے جو ہمارے بس میں ہے :
(١)ہم اسرائیلی مصنوعات کا بایکاٹ تو کرسکتے ہیں۔کیا غزہ کے معصوم شہیدوں کا ہم پر اتنا بھی حق نہیں؟
(٢)ہم دنیا بھر میں انٹرنیٹ اور سوشیل میڈیا کے ذریعے مسئلہ فلسطین کے تعلق سے شعور بیداری کرسکتے ھیں ؛اسرائیلی مظالم کیخلاف عالمی سطح پر مہم چلا سکتے ہیں.
(٣) اسرائیل حماس کے خلاف جھوٹے پروپیگنڈے کررہا ہے الجزیرہ اور انصاف پسند دیگر چینلوں کے ذریعے ہم اسرائیلی پروپیگنڈے کا پوری قوت کے ساتھ جواب دے سکتے ہیں.
(٤)اپنی نئی نسلوں کو مسئلہ فلسطین کا حقیقت مسجد اقصی کی اسلام میں کیا مقام ہے نیز اسرائیل کس طرح فلسطین کی سرزمین پر قابض ہوگیا وغیرہ تفصیلات سے آگاہ کر سکتے ہیں.
(٥)امت مسلمہ میں سلطان صلاح الدیں ایوبی جیسے سپوت پیدا ہوں اس کی خاطر اپنے بچوں کی دینی ایمانی تربیت کرسکتے ھیں.
(٦) فلسطینی بھائیوں کا مالی تعاون کر سکتے ہیں ؛ملک میں بعض تنظیموں کی جانب سے اس حوالے سے قابل قدر کوششیں کی جارہی ہیں ۔
(٧)امت مسلمہ کا ہر فرد مسئلہ فلسطین کے تعلق سے اپنا حصہ ڈال سکتا ہے ؛ علماء خطباء قلم کار لوگوں کی ذہن سازی سے کرسکتے ہیں ؛ خطباء جمعہ کے خطابات میں مسئلہ فلسطین مسجد اقصی پر مسلسل روشنی ڈالتے رہیں ؛اصحاب قلم اخبارات ورسائل میں فلسطین سے متعلق قیمتی مضامین مستقل شائع کرتے رہیں ۔ وکلاء قانونی پہلوؤں کو اجاگر کریں سیاسی قائدین ملک کی سیاسی جماعتوں پر پریشر بنایئں کہ وہ اسرائیل سے جنگ بندی کا مطالبہ کریں.مختلف دینی تنظیمیں ملک میں موجود سفارت خانوں سے رابطہ کرکے مسلم ملکوں کو اسرائیل کے خلاف اقدامات کے لئے آمادہ کریں۔یہ اور اس جیسے دیگر اقدامات کے ذریعے ہر مسلمان مسئلہ فلسطین کے حوالے سے اپنا کردارادا کر سکتا ہے ۔ہماری بے حسی ہمیں لے ڈوب رہی ہے ۔خدا اس کائنات بے حس قوموں کے لئے کوئی جگہ نہیں ہے ۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
×