اسلامیاتمولانا عبدالرشید طلحہ نعمانی

جو دلوں کو فتح کر لے،وہی فاتحِ زمانہ

مولانا عبدالرشیدطلحہ نعمانیؔ

یوں تو دنیا میں بھانت بھانت کے لوگ رہتے ہیں،رنگ و نسل کا اختلاف،مزاج و مذاق کا تنوع،تہذیب و ثقافت کا تصادم،شکل و صورت میں تفاوت اور طور طریق میں فرق کے باوجود اخلاقی لحاظ سے انسانوں کو دو حصوں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے۔
کچھ لوگ وہ جو ظاہری کروفر،پرتکلف سامان عشرت، غیرمعمولی شان و شوکت اور امیرانہ ٹھاٹ باٹ نہ ہونے کے باوجود اپنی سادگی،بے نفسی،خندہ پیشانی، حوصلہ افزائی،وسعت ظرفی اور کشادہ دلی کے سبب بے اختیار ہر دل عزیزی کے منصب پر فائز ہوجاتے ہیں،مقبولیت و محبوبیت بڑھ کر ان کا طواف کرتی ہے،نطق وگویائی زبان کے بوسے لینے پر مجبور ہوجاتی ہے اور وہ قلوب و اذہان پر اس طرح حکم رانی کرتے ہیں،جیسے کوئی بارعب بادشاہ اپنی رعایا کے جسموں پر حکومت کرتا ہے۔حقیقت میں یہی لوگ بڑے ہوتے ہیں،ان کی بڑائی مسلم الثبوت اور ناقابل تسخیر ہوتی ہے۔
اس کے برعکس کچھ لوگ وہ ہوتے ہیں جوترش روئی،تندخوئی،طعنہ زنی،خودنمائی اور اظہار برتری جیسی صفات کے خوگر ہوتے ہیں،ایسے لوگ خواہ منصب و عہدے کے لحاظ سے آسمان کی بلندی کو پہنچ جائیں؛مگر مروت سے عاری اور اخلاقیات سے خالی ہونے کی بناپر بونوں سے زیادہ چھوٹے اور ذروں سے بڑھ کر حقیر نظر آتے ہیں ۔معروف ادیب و قلم کار حضرت سید ازہر شاہ قیصر اسی فرق کو اجاگر کرتے ہوئے ارقام فرماتے ہیں کہ ‘‘مجھے بڑے لوگوں سے ان کی غائبانہ شہرت کی بنا پر عقیدت و محبت کے تعلقات قائم رکھنے کا سودائے خام کبھی نہیں ہوا، اور نہ کبھی ایسا ہوا کہ میرے شہر میں کوئی بڑا لیڈر یا بڑا شاعر اور قومی کارکن آیا ہو اور شوقِ تعارف و ملاقات میں اس کی جائے قیام کے ارد گرد گھومتا رہا ہوں۔ وجہ یہ ہے کہ میرے نزدیک غائبانہ شہرت اور اس شہرت کی ہمہ گیری کسی انسان کی بڑائی اور بھلائی کا معیار نہیں۔ بڑائی صرف اخلاق کے لیے ہے اور بڑا آدمی وہ ہے جس کے اخلاق معیاری اور بلند ہوں۔میرا تجربہ ہے کہ بعض بداخلاق اور بے کمال انسان بھی بعض وقتی حوادث سے شہرت پالیتے ہیں؛لیکن ان کے قریب جا کر جب ان کے کردار کے کچھ گوشوں کو ٹٹولئے تو ان میں اچھے اعمال و اخلاق کا کوئی سرمایہ نظر نہیں آتا۔’’
احترام کروایا نہیں جاتا:
یہ ناقابل تردید سچائی ہے کہ حقیقی عزت اور سچی محبت کا تعلق سویدائے قلب سے ہوتا ہے،اس لیے احترام کسی سے بالجبر کرایا نہیں جاتا؛بل کہ بےاختیار ہوجاتا ہے،جس طرح پھول کی مہکار،اس کی خوب صورتی وخوش رنگی خود بہ خود بلبلِ بے تاب کو محو ترنم ہونے پر آمادہ کرتی ہے،جس طرح چراغ اپنی چوطرفہ روشنی سے پروانے کو فورا اپنی طرف متوجہ کرلیتاہے اور جس طرح مقناطیس کی بے پایاں کشش لوہے کو اپنی جانب کھینچ لیتی ہے،ٹھیک اسی طرح دلوں کو فتح کرنے والے مانگے تانگے کی قبائیں زیب تن نہیں کرتے،پیسے دےکر اخبارات و رسائل کی زینت نہیں بنتے،بے وجہ القاب و آداب کا سہارا نہیں لیتے، منصب و عہدے کا ناروا استعمال نہیں کرتے؛بل کہ وہ مشک کی طرح مہکتے اور حدود و قیود سے بالاتر ہوکر محبتوں کی سوغات تقسیم کرتے ہیں،نرم دمِ گفتگو اور گرم دمِ جستجو ہوتےہیں،رزم ہو یا بزم ہو خندہ جبینی اور پاک بازی ان کا وصف خاص اور طرۂ امتیاز ہوتی ہے۔
پڑوسی ملک کے نام ور شاعر،بہترین کالم نگار ،خانوادۂ عثمانی کے چشم و چراغ جناب سعود عثمانی ایسے ہی معدودے چند اشخاص کے بارے میں لکھتے ہیں :‘‘ادبی حلقوں میں کم کم لوگ ایسے ہیں؛جنہیں ملتے ہی یا جن کی آواز سنتے ہی دل سے عزت،محبت اور احترام کے چشمے پھوٹ پڑیں ۔زبان سے ادا شدہ بڑے القاب یا عقیدت میں لپٹے ہوئے سابقے لاحقے نہیں؛بل کہ دل سے امنڈنے والے الفاظ جنہیں بے اختیار زبان پر آنے میں دیر نہیں لگتی۔محبت اور احترام ہوتا ہی وہ ہے؛جو دل سے پھوٹتا ہو،باقی تو دنیا داری اور مروّت کے کھیل ہیں۔ان تین راستوں یعنی محبت، احترام اور عزت کا کسی ایک نقطہ ٔ اتصال پر مل جانا بھی کم کم ہوا کرتا ہے’’ ۔
اسی لیے افتخار عارف صاحب نے خوب کہا ہے :
خزانۂ زر و گوہر پہ خاک ڈال کے رکھ
ہم اہل مہر و محبت ہیں دل نکال کے رکھ
ہمیں تو اپنے سمندر کی ریت کافی ہے
تو اپنے چشمۂ بے فیض کو سنبھال کے رکھ
فاتح زمانہ اور تجاہل عارفانہ:
اموی خلیفہ عبدالملک بن مروان کا دور حکومت ہے، حج کے موسم میں ہزاروں بندگان خدا حج بیت اللہ کی سعادت حاصل کرنے کے لیے دُور دُور سے کھنچے چلے آرہے ہیں،صحن کعبہ میں ازدحام کا یہ عالم ہے کہ تل دھرنے کو جگہ نہیں ہے ۔اس حج کی ایک خاص بات یہ بھی ہے کہ اس سال خلیفۃ المسلمین کا بیٹا اور ولی عہد ہشام بن عبدالملک بھی ملک شام سے سفر کرکے حج بیت اللہ کے لیے آیا ہے،اس کے ساتھ اراکین سلطنت اور اعیان مملکت کے علاوہ اس کے بہت سے شامی دوست بھی ہیں ۔اس حج میں عہد اموی کا مشہور شاعرابو فراس ہمام بن غالب فرزدق ؔ تمیمی بھی ہے ۔
ہشام بن عبدالملک حجر اسود کا بوسہ لینے کے لیے آگے بڑھا،شاید اس کے ذہن میں یہ بات ہو کہ ولی عہدی، دنیاوی کروفر اور شان وشوکت دیکھ کر لوگ اس کے سامنے سے ہٹ جائیں گے اوروہ بہ آسانی حجر اسود کا بوسہ لے لے گا؛لیکن لوگوں نے ہشام اور اس کے لاؤ لشکر کو کوئی اہمیت نہیں دی، کچھ دیر بھیڑ میں دھکے کھانے کے بعد ہشام نے حجر اسود کو بوسہ دینے کا ارادہ ترک کیا اور مطاف کے ایک کنارے پر آکر کھڑا ہوگیا۔
اسی درمیان گلستانِ نبوت کے گلِ سرسبد ،خانوادۂ شیر خدا کے چشم وچراغ ،خاتون جنت کے لخت جگر اور سیدنا حسین رضی اللہ عنہ کے صاحبزادے حضرت زین العابدین علی بن حسینؒ صحن کعبہ میں داخل ہوئے،جیسے ہی لوگوں کی نظر امام زین العابدین کے چہرۂ انور پر پڑی،وفور عظمت اور بے پناہ محبت کے سبب بھیڑ کائی کی طرح چھٹ گئی، آپ پورے اطمنان کے ساتھ حجر اسود کے پاس پہنچے اور اس کو بوسہ دے کر طواف کا آغاز کیا،دوران طواف آپ جس طرف سے بھی گزرتے لوگ ادب واحترام سے ایک طرف ہٹ جاتے، ہشام کے ساتھ جو لوگ شام سے آئے تھے، ان کے لیے یہ بڑا حیرت انگیز نظارہ تھا؛کیوں کہ وہ کچھ دیر پہلے مملکت بنو امیہ کے ولی عہد کی قدر ومنزلت دیکھ چکے تھے۔ انہیں میں سے کسی شخص نے ہشام سے پوچھا کہ ’’ یہ کون شخصیت ہے ؟‘‘ ۔
ہشام حضرت زین العابدین کو خوب اچھی طرح جانتاپہچانتا تھا؛مگر وہ پہلے ہی ان شامیوں کے سامنے خفت محسوس کررہا تھا،اس نے سوچا کہ اگر ان نوجوان کے بارے میں ان کو بتاؤں تو کہیں یہ شامی اُنہی کی طرف مائل نہ ہوجائیں،اِس خیال سے اُس نے تجاہل عارفانہ برتتے ہوئے یک گونہ اہانت آمیز لہجے میں جواب دیا: ’’ میں نہیں جانتا کہ یہ کون ہے‘‘۔
ابو فراس فرزدق ؔ قریب ہی کھڑا تھا، اس کو اہل بیت نبوت کے اس گلِ سرسبد کی یہ اہانت برداشت نہیں ہوئی، اس کی اسلامی غیرت بیدار ہوئی اور وہ شامیوں کی طرف متوجہ ہوکر بولا کہ مَیں ان کو جانتا ہوں،مجھ سے پوچھو یہ نوجوان کون ہے ؟ایک شامی نے کہا کہ بتاؤ یہ کون ہیں؟فرزدق نے حضرت زین العابدین کی شان میں فی البدیہ ایک فصیح وبلیغ قصیدہ نظم کرکے برجستہ سنا دیا ۔
یادگار زمانہ اشعار:
فرزدق نے کہا:
هَذا الَّذي تَعرِفُ البَطحاءُ وَطأَتَهُ
وَالبَيتُ يَعرِفُهُ وَالحِلُّ وَالحَرَمُ
هَذا ابنُ خَيرِ عِبادِ اللَهِ كُلِّهِم
هَذا التَقِيُّ النَقِيُّ الطاهِرُ العَلَمُ
هَذا اِبنُ فاطِمَة إِن كُنتَ جاهِلَهُ
بِجَدِّهِ أَنبِياءُ اللَهِ قَد خُتِموا
إِذا رَأَتهُ قُرَيشٌ قالَ قائِلُها
إِلى مَكارِمِ هَذا يَنتَهي الكَرَمُ
وَلَيسَ قَولُكَ مَن هَذا بِضائِرِهِ
العُربُ تَعرِفُ مَن أَنكَرتَ وَالعَجَمُ
(ترجمہ اشعار)
یہ وہ مقدس شخصیت ہے کہ جس کے نقش قدم کو بطحا (مکہ مکرمہ)کی وادیاں پہچانتی ہیں ،اور بیت اللہ ( کعبہ) اور حل وحرم سب ان کو جانتےہیں۔
یہ تو اس ذات گرامی کے لخت جگر ہیں،جو اللہ کے تمام بندوں میں سب سے بہتر ہیں۔ یہ پرہیز گار، تقویٰ والے، پاکیزہ،صاف ستھرے اور قوم ( قریش)کے سردار ہیں ۔
یہ خاتون جنت حضرت فاطمہ زہرا ( رضی اللہ تعالیٰ عنہا ) کے لخت جگر ہیں، اگر تو ان کو نہیں جانتا ( تو سن لے کہ ) ان کے محترم نانا (حضور اکرم ﷺ ) پرانبیائے کرام کے سلسلے کا اختتام ہواہے ۔
جب ان کو قبیلۂ قریش کے لوگ دیکھتے ہیں تو ان کو دیکھ کر کہنے والا یہی کہتاہے کہ ان کی بزرگی وجواں مردی پر بزرگی وجواں مردی ختم ہے ۔
تمہارا یہ کہنا کہ ’’ یہ کون ہیں ؟ ‘‘ان کو کوئی نقصان نہیں پہنچاتا ،جس ذات گرامی ( کو پہچاننے) سے توانکار کررہاہے ان کو تو عرب وعجم سب جانتے ہیں۔
فی البدیہ اور برجستہ ہونے کے باوجود یہ قصیدہ نہ صرف یہ کہ زبان وبیان کی رو سے نہایت اعلیٰ پیمانے کا تھا؛بل کہ اس میں امام زین العابدین کے خاندانی اور ذاتی تمام فضائل وکمالات بڑی عمدگی اور فنکارانہ مہارت سے نظم کردیے گئے تھے ۔اس لیے یہ قصیدہ محبان اہل بیت اور ارباب شعروادب دونوں کے یہاں معروف ومقبول رہا۔
خلاصۂ کلام:
عمدہ اخلاق محبتوں کا پیش خیمہ ہوتے ہیں،اچھے اطوار و عادات کا حامل،زندہ دل و روشن ضمیر شخض حیات دنیوی کے ہر موڑ پر کام یابی و مقبولیت سے ہم کنار ہوتا ہے اور اخروی زندگی میں محبوب علیہ السلام کے قرب و وصال کے مدارج طے کرتا ہے؛مگر ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہمارے نزدیک دوسروں کو بااخلاق بنانے اور ادب سکھانے سے ہمارا فرض پورا ہو جاتا ہے،یہی وہ کام ہے جو ہم پوری جانفشانی کے ساتھ معاشرے کی سدھار کے لیے سالہا سال سے انجام دے رہے ہیں، لیکن ہم یہ بھول چکے ہیں کہ قول سے زیادہ عمل میں طاقت ہے،اور معاشرے کی اصلاح تب تک ممکن نہیں،جب تک ہم اپنی ذات سے اصلاح کا آغاز نہ کریں،ویسے بھی لوگوں کی نظر ہمارے بول پر نہیں، کام پر ہوتی ہے ،گفتار سے زیادہ کردار کو نوٹ کیاجاتا ہے،لہذا دوسروں کی بے احترامی کا شکوہ چھوڑیں، خودپسندی کے خول سے باہر نکلیں اور کچھ محنت اپنی ذات پر کریں،اگر ہم سنجیدگی کے ساتھ اپنی ذات کو بہتر بنانے پر توجہ مرکوز کریں گے تو یقین جانیے پورا معاشرہ خود بخود ٹھیک ہو جائے گا۔بہ قول احمد فراز:
شکوۂ ظلمت شب سے تو کہیں بہتر تھا
اپنے حصے کی کوئی شمع جلاتے جاتے

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
×