عصر حاضر

تاریخ فلسطین ہم گھر گھر میں بتائیں گے 

مفتی عبدالمنعم فاروقی

اس وقت پوری دنیا میں تین بڑے آسمانی مذاہب پائے جاتے ہیں اور دنیا کے مختلف قطوں میں لاکھوں کی تعداد ان کے ماننے والوں کی پائی جاتی ہے ،ایک مسلمان دوسرے نصاریٰ اور تیسرے یہود ، یہود ی حضرت سیدنا موسیٰ ؑ کے ماننے والوں کو کہا جاتا ہے ،نصارنی حضرت سیدنا عیسیٰ ؑ کے پیرو کار کو کہا جاتا ہے جبکہ مسلمان خاتم الانبیاء والرسل حضرت سیدنا محمد الرسول اللہ ؐ کے متبعین کو کہاجاتا ہے ، خاتم الانبیاء ؐ کی بعثت کے بعد تمام دنیا کے انسانوں   کے لئے خواہ وہ کسی بھی آسمانی مذہب کے پیرو کارہوں آپؐ کی نبوت ورسالت پر ایمان لانا ضروری ہے اور ان تمام کے لئے آپؐ ہی کی اتباع کرنا لازم ہے ،آپ ؐ کے ذریعہ جو شریعت دی گئی ہے اور اس کے ذریعہ جو احکام دیے گئے ہیں وہ عدل وانصاف پر مبنی اور انسانی مزاج ومذاق کے عین مطابق ہیں ،احکام شرعیہ کے نزول کے بعد دیگر شریعتوں اور ان کے احکامات کو منسوخ کر دیا گیا ہے گویا شریعت محمدی ناسخ ہے اور اس کے مقابلہ میں جتنی شریعتیں اور مذاہب ہیں سب کی سب منسوخ ہیں، مذہب اسلام خدا کا پسندیدہ اور آخری مذہب ہے اور سیدنا محمد الرسول اللہ ؐ خدا کی طرف سے بھیجے گئے آخری پیغمبر ہیں ، قرآن وحدیث میں صاف طور پر اور نہایت واضح الفاظ میں یہ اعلان کر دیا گیا ہے کہ آپؐ قیامت تک کے لئے آخری نبی ورسول ہیں اور رہتی دنیا تک ہر ایک کے لئے آپ ؐ کی لائی ہوئی شریعت ہی قابل اتباع ہوگی ،کھلے اور واضح طور پر اعلان کے بعد اگر کوئی آپ ؐ کی نبوت کا انکار کرے گا تو اسے خدا کا کھلا نافرمان سمجھا جائے گا اور اس پر دنیا وآخرت میں خدا کی پھٹکار ہوگی اور وہ دنیا ذلت خواری کے ساتھ دربدر بھٹکتا پھرے گا ۔
  یہود سیدنا موسیٰ ؑ کو ماننے کا دعویٰ کرتے ہیں اور ان پر نازل کی گئی کتاب تورات کو اپنے لئے دستور العمل گردانتے ہیں ،یہ انتہائی سازشی، سخت مزاج ،بد اخلاق ، دھوکہ باز،شکر سے عاری،بزدل ،مکار اور انبیاء ؑ کو ستانے اور انہیں قتل کرنے والی قوم ہے ،قرآن کریم میں اس قوم کے متعلق بہت سی باتیں بیان کرکے اسے ناشکری اور خدا کی لعنت کردہ قوم بتایا گیا ہے ، یہ وہ قوم ہے جس نے اپنے نبیوں کو دھوکہ دیا تھا ، انہیں ستایا تھا اور ان پر نازل کردہ آسمانی کتابوں میں تحریف کرکے اس سے خودساختہ مطالب نکالے تھے ،رسول اللہ ؐ کی بعثت کے بعد اس مکار اور چالباز قوم نے نبی آخر الزماں ؐ اور مسلمانوں کے خلاف سازشیں رچنا شروع کردیا تھا اور اسلام و مسلمانوں کو نقصان پہنچانے کے لئے جتنے حربے ہوسکتے تھے انہوں نے سب استعمال کئے تھے مگر ان کے ہر مکر وفریب کو اللہ تعالیٰ نے ناکام بناکر انہیں ذلیل وخوار کیا تھا ، چونکہ یہ اللہ اور اس کے رسول ؐ کے دشمن ہیں اس لئے مسلمانوں کو ان کے شر سے بچنے کے لئے ان سے دوستی کرنے سے صاف طور پر منع کر دیا گیا ہے ارشاد ہے:یَا أَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُوْا لاَ تَتَّخِذُوا الْیَہُوْدَ وَالنَّصَارٰی أَوْلِیَائَ  بَعْضُہُمْ أَوْلِیَائُ  بَعْضٍ وَّمَنْ یَّتَوَلَّہُمْ مِّنْکُمْ فَإِنَّہٗ مِنْہُمْ إِنَّ اللّٰہَ لاَ یَہْدِیْ الْقَوْمَ الظَّالِمِیْن(المائدہ:۵۱) ’’اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو یہود یوں اور عیسائیوں کو اپنا رفیق نہ بناؤ ،یہ آپس میں ایک دوسرے کے رفیق ہیں اور اگر تم میں سے کوئی ان کو اپنا رفیق بناتا ہے تو اس کا شمار بھی انہی میں سے ہوگا ،یقینا اللہ ظالموں کو اپنی رہنمائی سے محروم کر دیتا ہے‘‘ ،چونکہ یہود ونصاریٰ اللہ اور اس کے رسول ؐ کے دشمن ہیں تو ظاہر سی بات ہے کہ وہ اہل ایمان کے دوست تو ہر گز نہیں ہو سکتے ،جو خدا اور رسول کا دشمن ہوگا وہ یقینا مسلمانوں کا بھی دشمن ہوگا اور جو مسلمانوں سے دشمنی رکھے گا وہ خدا اور رسول کا فرماں بردار نہیں ہو سکتا ، یہود خود بھی آپس میں بھی لڑتے رہے اور اپنی سازشوں کے ذریعہ دوسروں کو بھی لڑاتے رہتے ہیں ،انکی مکاریوں اور سازشوں سے تنگ آکر انہیں مختلف مقامات سے دتھتکارا گیا مگر وہ اپنی ذلیل فطرت سے باز نہیں آئے بلکہ جہاں بھی رہے انتشار کا بازار گرم کیا اور اختلاف پیدا کرکے ایک دوسرے کو لڑاتے اور بھڑاتے رہے اور اس وقت بھی ان کی سازشوں کا سلسلہ جاری ہے ۔
مسجد اقصی مسلمانوں کا قبلہ اول اور خانہ کعبہ اور مسجد نبوی کے بعد تیسرا مقدس ترین مقام ہے، یہ مسجد فلسطین کے مقدس شہر بیت المقدس جسے القدس بھی کہاجاتا ہے میں واقع ہے،فلسطین کی زمین نہایت متبرک سرزمین ہے ،یہ بہت سے انبیاء کا مسکن رہی ہے، اسی سرزمین پر سینکڑوں انبیاء کو نبوت سے سرفراز کیا گیا تھا، اس کے چپہ چپہ میں انبیاء کرامؑ کے آثار ونشانات موجود ہیں ،رسول اللہؐ جب معراج کے لئے تشریف لے گئے تو اسی مقدس سرزمین سے روانہ ہوئے تھے،یہی پر آپؐ نے تمام انبیاء کرام کی امامت فرمائی تھی، مسجد اقصی حقیقت میں مسلمانوں کی میراث ہے جو تاریخی اور مذہبی حقائق سے ثابت ہے مگر جس مقام پر تعمیر کی گئی ہے یہود کے موقف کے مطابق اس جگہ پر پہلے ہیکل سلیمانی تھی،مسلمانوں کے یروشیلم پر قبضہ کرنے کے بعد یہ مسجد تعمیر کی گئی ،حالانکہ قرآن مجید میں سفر معراج کے باب میں اس مسجد کا ذکر ہے گویا مسجد اقصی رسول اللہؐ کے بعثت سے پہلے بھی موجود تھی،متعدد روایات کے مطابق خانہ کعبہ کے بعد دوسری عبادت گاہ مسجد اقصی ہی تعمیر ہوئی تھی، سب سے پہلے اسے حضرت سیدنا آدمؑ نے تعمیر فرمایا تھا،پھر حضرت سیدنا داؤد ؑ نے دوبارہ اس کی تعمیر کا بیڑا اٹھایا تھا اس کے بعد حضرت سیدنا سلیمان ؑ نے اسے پائے تکمیل تک پہنچایا تھا، چنانچہ حضرت ابوذرغفاریؓ کی روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ خانہ کعبہ کی تعمیر کے چالیس سال بعد مسجد اقصیٰ کی تعمیر کی گئی تھی،حضرت ابوذر غفاریؓ فرماتے ہیں کہ میں نے حضورؐ سے پوچھا کہ روئے زمین پر سب سے پہلے کونسی مسجد تعمیر کی گئی ؟ آپؐ نے جواب میں ارشاد فرمایا: مسجد حرام۔میں نے پھر سوال کیا: اس کے بعد کونسی مسجد تعمیر کی گئی؟آپؐ نے فرمایا: مسجد اقصیٰ ۔میں نے پوچھا کہ ان دونوں کی تعمیر کے درمیان کل کتنا وقفہ رہا ہے؟ تو آپؐ نے فرمایا : چالیس سال (نسائی: ۶۹۰ )،مسجد اقصیٰ مسلمانوں کا قبلہ اول ہے ،رسول اللہؐ نے تقریباً سترہ مہینے اسی مسجد کی جانب رخ کرکے نماز یں پڑھی تھیں پھر تحویل قبلہ کا حکم آنے کے بعد مسلمانوں کا قبلہ خانہ کعبہ ہو گیا۔
رسول اللہ ؐ کی بعثت سے قبل بیت المقدس پر سلطنت روم کے عیسائیوں کا قبضہ تھا اور سلطنت روم اس وقت بہت طاقتور تھا لیکن اسی وقت رسول اللہؐ نے بیت المقدس کی آزادی کی خوشخبری سنائی تھی چنانچہ ایسا ہی ہوا حضرت سیدنا عمر فاروقؓ نے اپنے دورخلافت سن سولہ ھ(۱۶) مطابق سن دوسو چھتیس ء(۲۳۶) میں بیت المقدس کو یہود ونصاریٰ کے ہاتھوں سے آزاد کرایا تھا،اسی دور میں بہت سے صحابہ کرامؓ نے دعوت دین اور اشاعت اسلام کی خاطر بیت المقدس میں سکونت اختیار کی تھی، بیت المقدس کی یہ سرزمین تقریبا عباسی دور تک مسلمانوں کے قبضہ میں رہی ،پھر جیسے ان میں آپسی اختلافات وانتشار اور باطنی تحریکوں کی وجہ سے عباسی حکومت کمزور پڑنے لگی تو گھات میں بیٹھے ہوئے صلیبیوں کو موقع مل گیا ،ادھر فاطمی حکومت نے بھی اپنی حکومت کی مضبوطی اور استحکام اور شام سے سلجو قیوں کے خاتمہ کے لئے ان صلیبیوں سے مدد طلب کی اور انہیں کئی ایک طرح سے سہولتیں فراہم کرتے ہوئے بیت المقدس میں آنے جانے کی اجازت دی ،بالآخر ان تمام باتوں کا فائدہ اٹھاکر صلیبیوں نے بغاوت کردی اور اپنے فاطمی خلفاء کے ساتھ غداری کی اور القدس پر قبضہ کے لئے اپنی فوج تیار کرلی،پھر ہزاروں مسلمانوں کو شہید کرکے سن چار سو بانوے ھ(۴۹۲) مطابق ایک ہزار ننانوے (۱۰۹۹) کو صلیبیوں نے بیت المقدس کو مسلمانوں سے چھین لیا اور یروشلم پر اپنی مسیحی حکومت قائم کردی ،پھر اس کے بعد مجاہد اسلام سلطان صلاح الدین ایوبیؒ نے مسجد اقصی کی آزادی کے لئے تقریبا سولہ(۱۶)جنگیں لڑی اور بالآخر پانچ سو اڑتیس(۵۳۸)ھ مطابق سن گیارہ سو ستاسی (۱۱۸۷) میں اللہ تعالیٰ نے ان کے ہاتھوں قبلہ اول کو آزاد کرایا،اس طرح ۸۸ سالوں بعد بیت المقدس دوبارہ مسلمانوں کی بازیابی میں آگیااس طرح تقریبا ۷۶۱ سال مسلسل مسلمانوں کا ارض مقدسہ پر قبضہ رہا، پھر پہلی جنگ عظیم ڈسمبر ۱۹۱۷ کے دوران انگریزوں نے بیت المقدس اور فلسطین پر قبضہ کر کے یہودیوں کو آباد ہونے کی عام اجازت دے دی،پھر یہود ونصاریٰ کی سازش سے نومبر ۱۹۴۷ میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے دھاندلی سے کام لیتے ہوئے فلسطین کو عربوں اور یہودیوں میں تقسیم کردیا حتی کہ ۱۴ مئی ۱۹۴۸ میں امریکہ ،برطانیہ اور فرانس کی سازشوں سے ارض فلسطین پر یہودی سلطنت قائم ہوگئی ،اس طرح ۱۹۴۸ کو یہودیوں نے اسرائیل کے قیام کا اعلان کردیا،اس کے بعد پہلی عرب اسرائیل جنگ چھڑ گئی اس جنگ کے نتیجہ میں اسرائیل نے فلسطین کے ۷۸ فیصد رقبے پر قبضہ کرلیا مگر مشرقی یروشلم (بیت المقدس) اور غرب اردن کے علاقے اردن کے قبضہ میں آگئے،پھر تیسری عرب اسرائیل جنگ جون ۱۹۶۷ میں ہوئی جس کے نتیجہ میں اسرائیل نے بقیہ فلسطین اور بیت المقدس پر بھی اپنا تسلط جما لیا ،اس طرح ۱۹۶۷ سے بیت المقدس پر یہودیوں کا پورای طرح قبضہ ہے۔
  تاریخ سے معمولی سی بھی واقفیت رکھنے والے اچھی طرح جانتے ہیں کہ غدار ومکار اور احسان فراموش یہودیوں نے اپنے ہم نوا وں سے مل کر کس طرح ارض مقدس فلسطین پر قبضہ جمایا ہوا ہے ، ان ظالموں اور جابروں نے اپنی طاقت وقوت کے بل پر کمزور ،مظلوم ومعصوم فلسطینیوں پر تشدد برپا کررتے چلے آرہے ہیں ،مگر سلام ہو ان فلسطینی جیالوں پر جو بے خوف وخطر ہو کر مسلسل ان کا مقابلہ کر رہے ہیں اور اینٹ کا جواب پتھر سے دے رہے ہیں ،یہ ایمانی طاقت کے سہارے ظالم یہودیوں کے منصوبوں کو خاک میں ملاتے جارہے ہیں اور قبلہ اول کی بازیابی کے لئے اپنی جان مال عزت وآبرو تک کا سو دا کرنے کے لئے تیار ہیں ،ان کے جوانوں ،بچوں ،بوڑھوں اور عورتوں کا جذبہ لائق تحسین ہی نہیں بلکہ قابل رشک ہے ،وہ قبلہ اول میں داخل ہوکر اس کی بازیابی کی دعائیں کرتے ہیں اور اس کے لئے اپنی اور اپنے اہل خانہ کی جان دینے کا خدا سے وعدہ کرتے ہیں ، اسرائیلی فوج کی بربریت سے روزنہ کئی جنازے اٹھتے ہیں ،وہ اپنے کندھوں پر جنازے لے جاتے ہوئے فطرتاً تو آنسو بہاتے ہیں مگر ان کے دل اس بات کی آرزو کرتے ہیں کہ کاش اس راہ میں ان کی بھی موت ہو جائے تاکہ ان کا بھی شمار قیامت میں ان خوش نصیبوں کے ساتھ ہو جنہوں نے قبلہ اول کی بازیابی کے لئے جان کا نذرانہ پیش کیا تھا ،وہاں کے واقعات اور قبلہ اول کی محبت میں ان کی تصاویر دیکھ کر ایمان میں حرارت پیدا ہوجاتی ہے ،چھوٹا معصوم بچہ بے خوف قبلہ اول کے دشمنوں کا پتھر اٹھاکر مقابلہ کرتا ہے، جسمانی کمزور مگر مضبوط ایمان کی مالکہ معصوم خاتون بڑی جرأت وہمت کے ساتھ دشمن کو للکار تی ہے اور ان کا نوجوان دشمن کے ٹینک کے سامنے کھڑا ہو کر بڑے اطمینان سے اپنے گھر والوں سلام کرتا ہے اور خوشی سے جھوم کر مچلتے ہوئے کہتا ہے کہ ان شاء اللہ اب دوبارہ قیامت ہی میں ملاقات ہوگی۔
اہل فلسطین اور اس مقدس سرزمین کے مکین تقریبا ستر سالوں سے اسرائیل کا ظلم سہتے آرہے ہیں اور تنے تنہا کسی کی مدد ونصرت کے بغیر صرف اور صرف توکل الی اللہ پر اپنی بساط اور طاقت وقوت کے بقدر ان ظالموں کا بھر پور جواب دیتے آرہے ہیں ، کہتے ہیں کہ جب پانی سر سے اونچا ہو جاتا ہے تو پھر مظلوم ظالم کا گریبان پکڑ لیتا ہےکچھ ایسا ہی فلسطینی جیالوں نے کردکھایا ،۷ ؍ اکتوبر ۲۰۲۳ کو حماس کی قیادت میں فلسطینی مجاہدین نے غزہ کی پٹی سے اسرائیل کے خلاف بڑے پیمانے پر ظلم کے خلاف اپنے رد عمل کا اظہار کیا ،حماس نے اسے ’’ طوفان الاقصیٰ‘‘ کا نام دیا ہے ،اس کے جواب میں اسرائیل نے اپنے ظلم کو ’’آہنی تلوار ‘‘ کا نام دیا ہے ،یہ بہت بڑی جرأت وہمت اور غیر معمولی حوصلے کی بات ہے کہ فلسطینی تنے تنہا طاقتور اسرائیل سے مقابلہ کے لئے اپنی کمر کس لی ہے اور معمولی وسائل مگر غیر معمولی ایمانی حرارت کے ساتھ ظالم کا مقابلہ کر رہے ہیں اور پوری دنیا کو بتارہے ہیں کہ ظلم کے خلاف اٹھ کھڑے ہونا آپ کا بنیادی حق ہے اور مظلوم کی حمایت کرنا اور ظالم کی گردن مروڑنا ہر غیرت رکھنے والے انسان کی ذمہ داری ہے ،فلسطینی بخوبی اپنا فریضہ ادا کر رہے ہیں اور اس فریضہ کی ادائیگی میں اپنی جان ،مال ،جائداد اور اپنے عزیزوں کی قربانیاں دے رہے ہیں اور پوری دنیا کے انسانوں کو اپنی مدد کے لئے آواز دے رہے ہیں،خصوصاً عالم اسلام کے مسلمان اور بالخصوص عرب ممالک اور ان کے حکمرانوں سے فریاد کر رہے ہیں ، عربوں کو ان کی غیرت یاد دلا رہے ہیں ،انہیں خونی رشتہ یاد دلا رہے ہیں اور ان کے آباواجداد کی جرأت وہمت بتارہے ہیں مگر پوری دنیا کے ساتھ عرب ممالک بھی اسرائیل کی وحشیانہ حرکت پر خاموش تماشائی بنے بیٹھے ہیں اور جو کوئی بول رہے ہیں وہ پوری قوت کے ساتھ نہیں بول رہے ہیں بلکہ صرف زبانی اور سرسری بول پر اکتفا کر رہے ہیں ،ایسا لگتا ہے کہ ان سب کو سانپ سونگھ گیا ہے، یا تو وہ ظلم کے خلاف آواز اٹھانے سے ڈر رہے ہیں یا ظالم کی خاموش تائید کر رہے ہیں یا اپنے مفاد کوخطرہ میں ڈالنا نہیں چاہتے یا پھر بے حسی وبے غیرتی کا اس قدر شکار ہو گئے ہیں کہ ظلم کو ظلم اور ظالم کو ظالم کہنے کے لئے تیار نہیں ہیں،بعض بے حس و بے غیرت جو اسلام دشمنی اور مسلمانوں سے اپنی نفرت کو اپنے دل میں چھپا کر اب تک منافقت کا مظاہرہ کرہے تھے اب کھل کر ان کی منافقت سامنے آچکی ہے اور وہ بڑی بے شرمی کے ساتھ ظالم وغاصب اسرائیل کی حمایت وتائید کر رہے ہیں اور درندوں جیسی حرکتوں کو حق بجانب کہہ رہے ہیںاور بعض بے لگام اور عقل سے پیدل جو خود کو بڑے سمجھدار باور کراتے ہیں مظلوموں اور حق کے لئے قربانی دینے والوں کو دہشت گرد بتارہے ہیں ،گویا وہ اپنے الفاظ کے ذریعہ ان تمام شہیدان وطن اور حق پرستوں کو دہشت گرد کی صف میں لا کر کھڑا کر چکے ہیں جو اپنے حق وانصاف کے لئے جان کا نذرانہ دے چکے ہیں ۔
تقریبا دو ہفتوں سے اسرائیلی فوج کی فضائی درندگی اور ظلم وستم کا سلسلہ جاری ہے ،،وہ مسلسل جنگی اصولوں کی خلاف ورزی کر رہے ہیں مگر دنیا کے لئے قوانین بنانے والے سب کے سب خاموش ہیں ،اسرائیل آبادیوں میں ،تعلیم گاہوں پر اور ہسپتالوں پر بم برسارہا ہے اور اس وحشیانہ بمباری کے نتیجہ میں ہزاروں فلسطینی شہید ہو چکے ہیں جن میں ایک بڑی تعداد بچوں اور عورتوں کی ہے ،سلام ہو مظلوم فلسطینیوں پر اس قدر کٹھن اور نازک حالات میں بھی ثابت قدم اور پُر جوش ہیں ،غزہ میں ہر طرف مکانات کے ملبے نظر آرہے ہیں ،عمارتیں ملبے کے ڈھیر بن چکے ہیں ،لوگ ٹوٹے مکانوں اور خیموں میں مقیم ہیں ، میزائیل کی گھن گرج ،دھویں کے بادل اور شہیدوں کی لاشیں ہی لاشیں نظر آرہی ہیں جسے دیکھ کر دل رورہے ہیں مگر قربان جائیں فلسطینیوں کے حوصلوں پر وہ ان حالات میں بھی ر رب کائنات کے سامنے سر بسجود ہوئے ، پیچھے درندہ صفت بندوقیں تان کر کھڑے ہیں ، فضاء میں فوجی طیارے آواز کر رہے ہیں مگر خدا کے یہ بندے بڑے اطمینان کے ساتھ سجدہ شکر ادا کر رہے ہیں اور زبان حال وقال سے رب کا شکریہ ادا کرہے ہیں اور قبلہ اول کی آزادی کے لئے انہیں موقع ملنے پر پیشانی ٹیک کر شکر گزاری میں مصروف ہیں،یہ دیکھ کر مسلمانان عالم ان کی اس ہمت وجرأت پر انہیں سلام پیش کرہے ہیں اور ان کی سلامتی اور کامیابی کی خدا سے دعا کر رہے ہیں ۔
دنیا اچھی طرح جانتی ہے کہ اہل ایمان کے دل اہل فلسطین کے ساتھ دھڑکتے ہیں ،وہ کسی بھی صورت میں اسرائیل کا غاصبانہ قبضہ تسلیم کرنے کے لئے تیار نہیں ہیں ،یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ بیت المقدس اور ابلہ اول کا مسئلہ فقط اہل فلسطین کا مسئلہ نہیں ہے بلکہ پوری امت امسلمہ کا مسئلہ ہے لہذا دنیا کے تمام مسلمانوں اور خصوصا مسلم حکمرانوں کی دینی ومذہبی ذمہ داری ہے کہ وہ پوری قوت وطاقت اپنے تمام وسائل کے ساتھ متحدہ طور پر اس مسئلہ کو پوری دنیا کے سامنے رکھیں اور اہل فلسطین کو ان کا حق دلائیں جس کے لئے وہ ستر سالوں سے قربانی دیتے آرہے ہیں اور اہل فسلطین کو بتائیں بھی کہ وہ تنہا نہیں ہیں بلکہ امت مسلمہ ان کے ساتھ ہے اور اللہ نے چاہا تو ہم سب مل کر ارض فسلطین اور قبلہ اول کو آزاد کرائیں گے ؎
اقصیٰ کی زمین کو ہم سب مل کے چھڑائیں گے
تاریخ فلسطین ہم گھر گھر میں بتائیں گے
اہل فلسطین اور اس جیالوں کو ہم سلام پیش کرتے ہیں جو اپنا سب کچھ لٹا کربھی قبلہ اول اور ارض مقدس کی آزادی کے لئے تن ،من ،دھن کی بازی لگارہے ہیں اور قبلہ اول کی بازیابی کے لئے بے چین وبے قرار ہیں ، تمام مسلمانوں سے گزارش ہے کہ وہ فسلطینیوں کے حق دعا ئیں بھی کرتے رہیں اور وہ تمام چیزیں اپنائیں جس سے ان کی معیشت وطاقت کمزور ہوتی ہے ۔


Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
×