عصر حاضر

بائیسواں لاء کمیشن اور یونیفارم سول کوڈ

🖋 مفتی محمد نوید سیف حسامی ایڈووکیٹ، کریم نگر، تلنگانہ

الیکشن کے قریب آتے ہی یو سی سی (یونیفارم سول کوڈ) کا بھوت پھر اپنی قبر سے باہر آچکا ہے لیکن ماضی کی طرح صرف ڈرا دھمکا کر جانے کے بجائے اس بار ایسا لگ رہا ہے کہ مستقل مسلط ہونے کا ارادہ ہے، بظاہر اس کے لاگو ہونے میں کوئی رکاوٹ تو ہے نہیں اور جس طرز پر موجودہ لاء کمیشن کام کررہا ہے خاکم بدہن ملک پر یو سی سی کا نفاذ نوشتہ دیوار ہے، بابری مسجد، سیکشن 370 کی برخواستگی، طلاق ثلاثہ بل کے بعد یو سی سی موجودہ فرقہ پرست حکومت کا ایک دیرینہ خواب بھی ہے اور الیکشن میں کیا گیا وعدہ بھی…

لاء کمیشن آف انڈیا

لاء کمیشن کا اولین قیام برطانوی دور استعمار میں اٹھارہ سو تینتیس 1833ء میں ہوا تھا، آزادی سے قبل تک اس کے صرف تین یا چار کمیشن قائم ہوئے تھے، 1955ء میں آزاد ہند کا پہلا لاء کمیشن قائم ہوا، اس کے بعد اب تک اکیس کمیشنس قائم ہوچکے ہیں، ہر کمیشن کی میعاد تین برس طئے کی گئی، اکیسویں لاء کمیشن کی میعاد اکتیس اگست 2018 کو مکمل ہوئی تھی اس کے بعد فروری 2020 تک اس سلسلہ میں کوئی پیش رفت نہیں ہوئی، فروری 2020 میں حکومت نے نئے کمیشن کے قیام کا ارادہ ظاہر کیا اور اس اعلان کے زائد از ڈھائی سال بعد نومبر 2022 میں بائیسواں لاء کمیشن قائم کیا گیا…

لاء کمیشن کے مقاصد میں معاشرے میں انصاف اور قانون کی حکمرانی کو فروغ دینے کے لئے وقتا فوقتاً ملک میں چل رہے قوانین کا جائزہ لینا، غیر کار کرد قوانین کو منسوخ کرتے ہوئے نئے قوانین کو نافذ کرنا شامل ہے…

بائیسویں لاء کمیشن کے ممبران اور چیر پرسن

موجودہ کمیشن ایک چیر پرسن اور پانچ ممبران پر مشتمل ہے، اس کمیشن کے ذریعہ یو سی سی کے نفاذ کے تئیں حکومت کی سنجیدگی کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ اس کمیشن کی ذمہ داری کرناٹک ہائی کورٹ کے سابق چیف جسٹس رِتوراج اَوَستِھی کو دی گئی ہے، یہ وہی جج ہیں جنہوں نے گزشتہ برس کرناٹک کی سابق حکومت کی جانب سے مخصوص تعلیمی اداروں میں حجاب پر پابندی کے فیصلہ کو باقی رکھا تھا…

دیگر ممبران میں کیرالہ ہائی کورٹ کے سابق جج کے ٹی شنکرن ہیں، یہ موصوف وہ جج ہیں جنہوں نے اکتوبر 2009 میں ملک میں سب سے پہلے لو جہاد کے شوشہ کو اپنی جانب سے تحقیقات کا حکم دے کر تقویت دی تھی، ان دو ججس کے علاوہ چار لاء پروفیسرز آنند پلیوال، ڈی پی ورما، ڈاکٹر راکا آریا اور ایم کرونا نِتھی ہیں، پروفیسر آنند پَلیوال کٹر ہندوتوا ذہنیت کے حامل ہیں، ان کے ٹوئٹر اکاؤنٹ اور کے ریٹویٹس ان کی سوچ کی عکاسی کرتے ہیں…

یونیفارم سول کوڈ کا نفاذ

یو سی سی کے نفاذ کے سلسلہ میں گزشتہ لاء کمیشنس نے بھی اپنی دلچسپی دکھائی تھی، مختلف اوقات میں اس پر لکھا گیا ہے، دو ہزار اکیس میں جب دہلی ہائی کورٹ کی خاتون جج نے اس مسئلہ کو ہوا دی تھی، اُس موقعہ پر راقم نے ایک مضمون بعنوان یونیفارم سول کوڈ؛ پلان بی تحریر کیا تھا جس میں یو سی سی کے نفاذ کے طریقہ کار اور رکاوٹوں کا تذکرہ کیا گیا تھا، (مضمون ٹیلی گرام گروپ پر موجود ہے، https://t.me/Qanooni_Mazameen
یہاں دیکھا جاسکتا ہے)

دلچسپ بات یہ کہ اکیسویں لاء کمیشن نے اپنی مدت کے آخری دن یعنی اکتیس اگست دو ہزار اٹھارہ کو 185 صفحات پر مشتمل یو سی سی سے متعلق اپنی رپورٹ پیش کرتے ہوئے لکھا کہ
"a uniform civil code is neither necessary nor desirable at this stage”
یعنی (ملک کو) اس مرحلہ پر نہ تو کسی یونیفارم سول کوڈ کی ضرورت ہے اور نہ ہی یہ کوئی امرِ مطلوب ہے، (اخبار دی ہندو مورخہ اکتیس اگست 2018)
اس کمیشن کے چیر پرسن بی ایس چوہان جو سابق میں سپریم کورٹ کے جج رہ چکے ہیں انہیں ملک میں موجود مختلف تہذیبوں اور یو سی سی کے تناظر میں اپنی رپورٹ میں تاریخ الفاظ کہے تھے
"cultural diversity cannot be compromised to the extent that our urge for uniformity itself becomes a reason for threat to the territorial integrity of the nation”
"ثقافتی تنوع پر اس حد تک سمجھوتہ نہیں کیا جا سکتا کہ یونیفارم سول کوڈ کی ہماری خواہش خود ملک کی علاقائی سالمیت کے لیے خطرہ بن جائے” (حوالہ سابق)

کرنے کے کام

لاء کمیشن نے ایک عمومی نوٹس کے ذریعہ یو سی سی کے تعلق سے رائے عامہ مانگی ہے، دستوری طریقہ کار کے مطابق کمیشن کو ان تحریروں کی وصولیابی کے بعد یو سی سی کے بارے میں از سر نو سوچنا ہوگا، اگر تحریروں کی روشنی میں نفاذ کا رجحان ہو تو یو سی سی کا ایک ڈرافٹ مرتب کرکے دوبارہ رائے عامہ کے لئے پیش کیا جائے گا اور پھر اس پر رائے مانگی جائے گی…

جو تحریر لاء کمیشن کو بھیجی جائے وہ صرف عدم اتفاق پر مشتمل نہ ہو کہ وہاں حمایت یا مخالفت کی ووٹنگ نہیں ہورہی ہے بلکہ یو سی سی سے ملک میں بسنے والی مختلف مذاہب کی پیروکار عوام کو کیا دقتیں پیش آسکتی ہیں نیز دستور میں جس مذہبی آزادی کا وعدہ کیا گیا ہے یو سی سی کیسے اس کے مغائر ہے اس پر روشنی ڈالی جائے، بڑی تعداد میں کاپی پیسٹ والی تحریروں سے بہتر ہے مواد سے بھر پور جامع و مرتب مضمون بھیجا جائے…

نیز ہمیشہ کی طرح اس بار بھی عوام کو عمومی خطبات و تقریروں میں اس کی مخالفت پر ابھارنے کے بجائے مختصر ہی سہی سنجیدہ و خصوصی پروگرامس کے ذریعہ یو سی سی کی حقیقت اور اس کے نفاذ کی صورت میں کیا کیا جائے اور کیسے اس کو ہینڈل کیا جائے اس پر گفتگو کے ذریعہ ان کی ذہن سازی کی جائے…

مضمون نگار سے رابطے یا اپنی رائے کے اظہار کے لئے
9966870275
muftinaveedknr@gmail.com

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
×