اسلامیات

بنت حوا کا تحفظ اور وقار حجاب میں!

از: محمد عمر قاسمی کاماریڈی

” حجاب “ صرف اسلامی شعار اور مذہبی فریضہ ہی نہیں ؛ بلکہ عزت و ناموس کا محافظ، تحفظِ شرم و حیا کا ضامن ، فطرتِ نسواں کا متقاضی ، انسدادِ فواحش کا باعث ، پاک باز اور عزت مآب خواتین کا وقار اور انتخاب ، بےحیائی و بدکاری کے روک تھام کا مؤثر اور بہترین ذریعہ ، جوہرِ عفت وعصمت کا پاسباں ، بد قماش اور شرپسند بھیڑیوں اور ہوس پرستوں سے ڈھال اور سپر ، اور پاک دامن و بدکردار کے مابین حدِ فاصل ہے ؛ مختصر یہ کہ “حجاب” فطرتِ نسوانی اور رمزِ مسلمانی ہے ، تہذیب و شائستگی کی بنیاد اور عظمت کی نشانی ہے ؛ کیوں کہ
اسلام میں ہر طرح بجا ہے پردہ
نسواں کے لیے حسن وحیا ہے پردہ
پردے کی حقیقت میں وہ عظمت ہے رفیقؔ
خالق نے بھی خلقت سے کیا ہے پردہ

اسلام میں حجاب کا مقام اور مقصد!
اسلام میں حجاب کا مقصد خواتین کو تحفظ فراہم کرنا ہے نہ کہ قید کرنا ؛ یہی وجہ ہے کہ جذبات و احساسات اور اخلاق و کردار کو آوارگی سے بچائے رکھنے ، تہذیب وتمدن کو زوال و سقوط سے محفوظ رکھنے ، معاشرتی برائیوں کا سدباب کرنے ، اور خانگی زندگی کو خوش گوار اور کام یاب بنانے میں حجاب کا اہم کردار رہا ہے ، عقل اور قیاس کا تقاضہ بھی یہی ہے کہ جو شئی جتنی قیمتی ہوتی ہے اس کو اتنا ہی چھپا کر رکھنا چاہیے ، نہ کہ اسے سڑکوں پر برسرعام نکالا جائے ، اور لوگ اس سے مستفید ہو ؛ یہی وجہ ہے کہ اسلام نے عورت کے لئے اجتماعی نماز کے بہ نسبت انفرادی نماز کو ترجیح دی ہے ، اور یہ سب صرف جوہرِ عفت کے تحفظ کی خاطر ہے ۔

ہندو دھرم میں حجاب کا تصور!
حجاب کا یہ تصور صرف اسلام ہی میں نہیں ہے ؛ بلکہ ہندو دھرم میں بھی حجاب کا تصور پایا جاتا ہے ، ان کی مذہبی کتب اور جوتشیوں کی زندگی سے واضح ثبوت ملتا ہے ؛ جیسا کہ ”سری کرشن کے ماموں کنشن متھرا کے راجہ نے جب کشتی کا دنگل قائم کیا تو مستورات کے دیکھنے کے لئے خاص مکانات بنوائے تھے ، وہ اتنی بلندی پر تھے کہ راجہ ہنس اڑتے ہوئے نظر آتے تھے ان پر باریک جالی لگائی گئی تھی ، جہاں سے خواتین تماشہ دیکھتی تھیں“۔(مہا بھارت:وشوپرب ادھیائے ۱۹)

فرقہ پرستوں کی سازش !
ہمارا وطنِ عزیز گنگا جمنی تہذیب سے جانا پہچانا جاتا ہے ؛ لیکن افسوس کہ چند سالوں سے ہمارے ملک عزیز کی سیاست اور راجنیتی دھرم اور مذہب کے اردگرد ہی گھوم رہی ہے ، موقع موقع سے اسلامی تعلیمات پر انگشت نمائی کرنے کی سازشیں رچی جاتی ہیں ، چند ماہ قبل ہی ہماری پڑوسی ریاست کرناٹک میں حجاب کا مسئلہ اٹھا کر سیاسی کامیابی حاصل کرنے کی کوشش کی گئ ، اور ابھی حال ہی میں راجستھان میں بھاجپا لیڈر نے اسکول میں مسئلۂ حجاب کا شوشہ اٹھایا ؛ ہنگامہ برپا کر لوگوں کو اسی میں مصروف رکھا جاسکے ؛ حالاں کہ وہ خود زعفرانی پوشاک اور دھارمک لباس زیب تن کرکے ہر جگہ گھومتے ہیں حتیٰ کہ پارلیمنٹ اور اسمبلی میں بھی وہی مخصوص لباس پہن کر جاتے ہیں اور اگر مسلم طالبات یونیفارم کے ساتھ حجاب اور برقع پوش ہوکر اسکول آئے تو انہیں گوارا نہیں ، یہ کیسا دوغلا پن ہے ؟ یاد رکھنا چاہیے کہ سیاسی لیڈران اور فرقہ پرستوں کا مذہبی معاملات اور حجاب وغیرہ کو تنازعی شکل دے کر پیش کرنا دراصل سیاسی مفادات ہی کا حصہ ہے ، اور یہ فرقہ پرست طاقتوں کی سونچی سمجھی سازش ہوتی ہے ؛ کیوں کہ انہیں نہ تو زعفرانی رومال سے کوئی تعلق ہے اور نہ ہی حجاب سے کوئی سروکار ؛ بلکہ ان کا مقصد اور مدعا صرف اپنے سیاسی مفاد کے لیے ہندو مسلم کو لڑا کر اپنی کرسی کو بچانا اور حکومت کرنا ہے ، ملک میں زہریلی ہوا چلانا اور نفرت کی فضا پھیلانا ان کا خاص مشغلہ ہے ، ملک کو تباہ وبرباد کرنا ، اس سونے کی چڑیا کو مٹی کی گڑیا بنانا ، جمہوریت اور سیکولرازم کا خون کرنا ، عوام کو لڑا کر اصل مقصد سے توجہ ہٹانا ہے ؛ کیوں کہ اب تو الکشن کا زمانہ قریب ہے ، اور عوام کو الجھانے اور ہندو مسلم کو لڑانے کے لئے حجاب کا مسئلہ اٹھایا گیا ؛ ورنہ تو یہ کوئی اختلافی مسٔلہ ہے ہی نہیں ، اور ان کا اصل ٹارگٹ تو اسلام اور اہلِ اسلام کو اس ملک سے ختم کرنا ہے ؛ جیسا کہ موجودہ صورت حال اور bjp کے بعض نیتاوں کی زہریلی زبانیں اس جانب مشیر ہے۔

کرنے کے اہم کام:
(۱) اسلام کی مکمل تابع داری :
ہم اسلامی تعلیمات کو پڑھیں ، منشأ شریعت کو سمجھیں ، مکمل طور پر عملی زندگی میں داخل کریں ، خواہشات کو چھوڑیں ، اور کسی لومۃ لائم کی پروا نہ کریں ۔
(۲) اغیار کی نقالی سے بچیں :
ہماری صورت حال تو یہ ہے کہ اکثر معاملات میں غیروں کی نقالی کے عادی ہوگئے ، غیروں کے خوشی کے مواقع پر تو مسلم اور غیر مسلم میں امتیاز کرنا دشوار ہوجاتا ہے؛ حالاں کہ یہ سخت ترین گناہ ہے ۔
(۳) تعلیم اور ایجوکیشن کو فروغ دیں : آج ہماری بحالی کی ایک اہم سبیل اور علاج یہ کہ ہم تعلیم کو فروغ دیں ، تعلیم اور ایجوکیشن پر زور دیں ؛ ورنہ تو اندھیرا ہی اندھیرا نظر آئیں گے۔
(۴) صحابیات کی سیرت پڑھیں :
امتِ مسلمہ کے لئے معیارِ ایمان صحابہ کرام ؓ ہیں ، اپنے اندر صحابہ کرام ؓ جیسی دینی حمیت اور ایمانی غیرت پیدا کردیں ، صحابیات کی پاکیزہ اور حجابی زندگی کو پڑھیں ، شرعی برقع زیب تن کریں ، اپنی عزت و آبرو کی خاطر چمک دمک اور فیشن کی قربانی دیں۔
(۵) حدود میں رہ کر اقدام اور احتجاج کریں : مخالف حالات کا پیش آنا امرِ بدیہی ہے ؛ لیکن اطمینان اور سنجیدگی سے سوچ کر حل نکالیں ، اور حدود میں رہ کر ایسے اقدامات کریں ، جو مؤثر بھی ہو اور مفید بھی ، صرف جذبات میں فیصلہ کرنے کے بعد ٹھنڈا پڑ جانے سے کوئی فائدہ نہیں ہوتا ؛ لہٰذا سونچ سمجھ کر سنجیدگی سے قدم اٹھائیں۔
(۶) اپنی اولاد کی فکر کریں :
انسان کا صرف خود اچھا عمل کرنا کافی نہیں ہے ؛ بلکہ یہ بھی ضروری ہے کہ وہ اپنے بال بچوں اور آل و اولاد کی اچھی تربیت کرے ؛ کیوں کہ ہم میں سے ہر شخص اپنے زیر اثر لوگوں کے بارے میں جواب دہ ہے۔(بخاری:۴۹۰۴)

پیغام!
سلام ہے قوم کی ان باہمت اور جرأت مند بہنوں اور ماؤں کے نام! جو مذہبی آزادی اور اسلامی شعار کے تحفظ کی خاطر سڑکوں پر اتر آئی ، اور وقت کے ظالم و جابر فرعون و نمرود کی تانا شاہی کے زیر اثر آنے اور مخلوق کی بات مان کر خالق کی نافرمانی کرنے سے انکار کردیا ، اور قانونی دائرہ میں رہتے ہوئے پوری ہمت وشجاعت کے ساتھ فرقہ پرست آوازوں اور نعروں کو دبانے اور مذہبی آزادی کی حصول یابی کے لئے میدان میں کھڑی ہیں ، اور منہ توڑ جواب دے کر ایک بار پھر حضرات صحابیات کے جذبہ ایمانی کی یادتازہ کردی ، اور زبانِ حال وقال سے کہہ دیا کہ
ہے گل کیلئے رنگت، رنگت کے لیے پردہ
سیرت کے لئے سورت، صورت کے لئے پردہ
کیا خوب بنایا ہے ستار حقیقی نے
پردے کے لیے عورت، عورت کےلیے پردہ

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
×