سیاسی و سماجیمولانا عبدالرشید طلحہ نعمانی

بات کہنے کا سلیقہ چاہیے!

عبدالرشیدطلحہ نعمانی

انسان حیوان ناطق ہے یعنی نطق و گویائی اس کا بنیادی وصف اور اہم ترین خاصہ ہے۔ویسے تو حق تعالیٰ نے انسان کو بہت سی صلاحیتوں سے نوازا ہے؛لیکن قوتِ گویائی کے علاوہ انسان کی دیگر صلاحیتیں کسی نہ کسی درجے میں دیگر حیوانوں میں بھی پائی جاتی ہیں؛بل کہ بعض حیوانوں کی بعض صلاحیتیں انسانوں کے مقابلے میں کئی گنا زیادہ ہوتی ہیں۔کچھ جانور جیسے اُلّو وغیرہ قوت بصارت میں انسانوں سے ممتاز ہوتے ہیں،مثلاً وہ رات کی تاریکی میں بھی دیکھ سکتے ہیں؛ جب کہ ہم دیکھنے کے لیے روشنی کے محتاج ہوتے ہیں۔اسی طرح گھوڑے قوت سماعت میں تمام جان داروں پر فوقیت رکھتے ہیں،ذرا سی آہٹ پر اُن کے کان فورا کھڑے ہوجاتے ہیں اور وہ بِلا تامل اُس آواز کی طرف لپک پڑتے ہیں۔اسی طرح مشہور ہے کہ کتوں میں سونگھنے کی استعداد زیادہ ہوتی ہے،یہی وجہ ہے کہ مجرموں کی شناخت وغیرہ کے موقع پر کتوں سے مدد لی جاتی ہے۔ غرضے کہ باقی صلاحیتیں تو دوسرے جانوروں میں بھی پائی جاتی ہیں اور انسان سے اضعافًا مضاعف پائی جاتی ہیں؛لیکن بیان اور گویائی کی صلاحیت صرف اور صرف انسان کا طرۂ امتیاز ہے؛اسی لیے حق تعالی نے قرآن مجید میں تخلیق و آفرینش کے اہم احسان کے بعد انسان کو عطا کردہ نعمتِ بیان کا ذکر فرمایا ہے۔

بیان کسے کہتے ہیں ؟
بیان؛بولنے اور گفتگو کرنے کو کہتے ہیں،علامہ بغوی نے اپنی شہرۂ آفاق تفسیر معالم التنزیل میں لکھا ہے کہ” علمہ البیان “کے مفہوم میں بولنا، لکھنا،سمجھنا اور سمجھانا سب داخل ہے،اس طور پر کہ جو وہ کہے دوسرے کو سمجھ آئے اور جو اس کو کہا جائے وہ خود سمجھ سکے۔کہتے ہیں کہ یہ ابوالعالیہ، ابن زید اور حسن رحمہم اللہ کا قول ہے اور امام سدی فرماتے ہیں کہ آیت کا مطلب ہے:اللہ نے ہر قوم کو ان کی زبان سکھائی جس کے ذریعے وہ کلام کریں اور ایک دوسرے کی مراد سمجھیں۔
غرض: معمولی تدبر کے بعد یہ بات سمجھی جاسکتی ہے کہ صرف بول لینا انسانی ضرورت کے لیے کافی نہیں ہے؛اس لیے کہ بول تو طوطا بھی سکتا ہے،اگر اسے سکھایا جائے،مگرصرف بولنے سے اس کے اندر آدمیت تو نہیں آجاتی۔ذوق نے اسی لیے کہا تھا:
آدمیت اور شے ہے علم ہے کچھ اور شے
کتنا طوطے کو پڑھایا پر وہ حیواں ہی رہا

انسان کی گویائی اور اظہار مافی الضمیر کے پیچھے خیر و شر اور بھلائی اور برائی میں امتیاز کی قوت اور جوہرِعقل کی نمود بھی ضروری ہے، ورنہ اس کے بغیر صرف بول لینا انسانی ضروریات کے لیے کافی نہیں ہے۔ ایک آدمی اگر عقل و شعور، فہم و ادراک، تمیز و ارادہ، اور دوسری ذہنی قوتوں سے مالامال نہیں تو محض اس کے بولنے کی قوت اسے نہ تو دوسرے حیوانات سے ممتاز کرتی ہے اور نہ اس سے انسانیت کی قابل ذکر خدمت ہوسکتی ہے۔

بولتا جہل ہے بدنام خرد ہوتی ہے!
جس طرح علم ایک بحر ناپیدا کنار ہے،اسی طرح جہل بھی ایک اتھاہ گہرائی والا سمندر ہے، جس طرح علم بولتا ہے تو کمال و ہنر کا اندازہ ہوتا ہے ،اسی طرح جہل محو تکلم ہوتا ہے تو نقائص و عیوب سامنے آتے ہیں؛اسی لیے فارسی ادب کے معروف نثر نگار اور بلند پایہ صاحب نسبت شاعر شیخ سعدی شیرازی نے کہا ہے:
تامرد سخن نگفتہ باشد
عیب و ہنرش نہفتہ باشد
گفتگو کرنے والاانسان جوہرِ علم سےخالی ہو؛ تو جہالت سر چڑھ کر بولتی ہے؛جس کی وجہ سے فکر سنورنے کے بجائے فساد کا شکار ہوجاتی ہے،ایمان و عمل میں پختگی پیدا ہونے کے بجائے بے یقینی اور بے عملی کی کمزوری اپنا راستہ ہم وار کرلیتی ہے،اور ایک صالح معاشرہ پروان چڑھنے کے بجائے ایک فاسد و پراگندہ ماحول ہم دوشِ ترقی دکھائی دیتا ہے۔
برصغیر پاک و ہند میں ایک بڑی تعداد ایسے مقررین و خطبا کی ہے،جن کا مقصد و ہدف سوشل میڈیا وغیرہ کے ذریعہ اپنا زورِبیان و جوہرِخطابت دکھانا اور اس میدان میں اپنا سکہ جمانا ہے؛مگر افسوس کہ ان کے طرز گفتگو سے بجائے علم و تحقیق کے جہل ٹپکتا ہے،تکبر اور جذبۂ نخوت عیاں ہوتا ہے،اداکاری و شہرت پسندی صاف سمجھ میں آتی ہے اور بے ساختہ دل یہ چاہتا ہے،کاش اس زباں دراز کا منہ نوچ لے کوئی

بامقصد گفتگو کا فقدان :
بات تو سبھی کرتے ہیں؛مگر خردمند ہر بات کو بات نہیں کہتے،بامقصد،مفید اور موثر اظہار خیال کو بات کہاجاتاہے،خطبا اور واعظین میں بیش تر تو ایسے ہیں جو بامقصد گفتگو کرنا نہیں جانتے،موضوع پر قائم رہ کر بات کرنے سے عاجز ہوتے ہیں اور بسااوقات بغیر پیشگی تیاری کے اول فول بکنا شروع کر دیتے ہیں۔یادرکھیں! کہنے کو تو ہر شخص گھنٹوں بول سکتا اور دوسروں کا وقت اور دماغ دونوں خراب کرسکتا ہے؛لیکن اسے گفتگو نہیں کہتے۔ گفتگو بھی ایک فن اور آرٹ ہے اور فن بھی ایساکہ اس کوجاننے والا خود بہ خود دوسروں کو اپنی طرف کھینچ لیتا ہے،نیزکام یاب خطابت کا تعلق مخاطبین کی ذہنی اور علمی کیفیت کو بھانپ لینے سے ہے۔ جب تک ہمیں یہ علم نہ ہوگا کہ ہمارا مخاطب کس ذہن اور کس مزاج کا مالک ہے، اس کا مَبلَغِ علم کیا ہے؟ اور ہمیں اس سے گفتگو کرنے کا کون سا اسلوب اختیار کرنا چاہیے؟ اس وقت تک ہم انہیں کوئی مفید پیغام نہیں پہنچاسکتے۔
گفتگو کے جو تقاضے ہیں،انہیں پورا کرنے کے لیے تربیت اور مشق کی بہت ضرورت ہے،تبھی جاکر گفتگواثرانداز ہوتی ہے؛اس لیے کہاجاتا ہے کہ حق بات،اچھی نیت کے ساتھ،مناسب موقع پر کہی جائے تو مخاطب پر لازماً اثر ڈالتی ہے اور لوح دل پر نقش کرجاتی ہے۔شاعر مشرق کے بہ قول:
بات جو دل سے نکلتی ہے،اثر رکھتی ہے
پر نہیں،طاقت پرواز مگر رکھتی ہے

آج سے چند سال پہلے تک بھی حیدرآباد فرخندہ بنیاد اور اس جیسے بڑے شہروں میں جہاں علم دوست اور باذوق سامعین کی بہتات ہے،مختلف تنظیموں کی جانب سے منعقد ہونے والے جلسوں میں ایسے مقررین کو بلایا جاتا تھا،جو موضوع کے مطابق صاف اور بےلاگ گفتگو کا سلیقہ رکھتے تھے اور ان کی تقریر و خطابت کے دور رس اثرات نہ صرف سامعین؛ بل کہ پورے علاقے پر مرتب ہوتے تھے؛مگر نہایت افسوس کا مقام ہے کہ اب ایسے پیشہ ور قسم کے گھامڑ مقررین؛ بل کہ اجڈ گویّے چن چن کر بلائے جارہے ہیں،جو تفریح طبع کا سامان تو کرسکتے ہیں؛مگر عنوان کے مطابق پر مغز گفتگو نہیں کرسکتے،ان کا کام مخاطبین کو انٹرٹین کرنا،لطیفے سنانا اور مجمع سے داد وصول کرنا ہوتا ہے،جو بہ جائے خود قوم و ملت کے ننگ و عار کا سبب ہے۔
ناز ہے طاقت گفتار پہ انسانوں کو
بات کرنے کا سلیقہ نہیں نادانوں کو

مجھے کتنی دیر گفتگو کرنی ہے؟
ابراہم لنکن معمولی گھرانے سے تعلق رکھنے والا امریکہ کا معروف سیاست داں ہے،جس نے زور خطابت اور معروضی طرزگفتگو کے ذریعہ امریکہ میں نسلی برتری کا خاتمہ کیا اور سیاہ فاموں کے حق میں مساوات و برابری کی آواز اٹھائی۔کہاجاتا ہے کہ ابراہم لنکن قادر الکلام خطیب تھا،اپنی تقریر اس توازن سے کرتا تھاکہ سامعین پرسکتہ طاری ہو جاتا تھا،اس کے گفتارکی ایک خوبی یہ بھی تھی کہ شائستگی سے بات کرنا جانتاتھا،کڑوی سے کڑوی بات کااس قدر آراستہ جواب تراشتا تھاکہ طنزکرنے والاشخص بے بس؛بل کہ شرمندہ ہوجاتا تھا۔
ابراہم کو کسی پروگرام میں مدعو کرنے کی غرض سے چند لوگ حاضر ہوئے کہ وہ بہ حیثیت مہمان تشریف لائیں اور فلاں موضوع پر لب کشائی بھی کریں، ابراہم نے داعی سے دریافت کیا کہ پہلے مجھے یہ بتاؤ کہ کتنی دیر بات کرنی ہے؟ اگر پانچ دس منٹ کرنی ہے تو اس کی تیاری کے لیے کم سے کم دس سے بارہ دن کا وقت درکار ہے اور اگر آدھا ایک گھنٹہ کرنی ہے تو بغیر تیاری کے ابھی چلنے کے لیے تیار ہوں۔!!
لوگ حیران ہوئے اور وجہ پوچھی کہ چھوٹی سی تقریر کی تیاری کےلیے اتنا وقت اور لمبی تقریر کے لیے کوئی وقت نہیں۔۔؟؟
انہوں نے چشم کشا جواب دیا کہ میں ایک عام آدمی نہیں ہوں کہ جو دل میں آئے کہتا چلاجاؤں۔۔۔۔ اپنی بات کم وقت میں سامعین تک پہونچانا میری نظر میں ایک بڑا چیلنج ہے، اس کے لیے عنوان کے انتخاب سے لے کر اشارات کی کیفیت تک سبھی کی تیاری کرنی ہوتی ہے،اس کے برعکس گھنٹے دو گھنٹے کی تقریر کرنی ہو تو ادھر ادھر کی باتیں ہانک کر وقت گزارا جاسکتا ہے۔

ایک خطیب ایسا بھی !
حکیم الاسلام قاری محمد طیب صاحب رحمہ اللّٰہ کے نام سے کون ناواقف ہے؟ان کی گل افشانیِ گفتار کو کون نہیں جانتا ؟ان کی خطیبانہ سحرکاری کا کون انکار کرسکتا ہے؟آپ کے بیان کا حسن الفاظ کے تسلسل،معانی کے بہاؤ ،استدلال کی قوت اور بے مثال حافظے کی طاقت کے سبب نمایاں طور پر محسوس کیاجاتاتھا اور اسی لذتِ تقریر نے آپ کی باوجاہت شخصیت کو عالم اسلام کا دانش مند خطیب اور مسلک دیوبند کا بے لاگ ترجمان بنادیاتھا،استاذ محترم حضرت مولانا نور عالم خلیل امینی رحمہ اللہ نے قاری صاحب کےحسنِ بیان کی یوں منظرکشی کی ہے:
’’وہ(قاری طیب صاحب)جب محوِ تکلم ہوتے تو سچ مچ لگتا کہ’’بلبل چہک رہا ہے ریاض رسول میں‘‘ یا کوئی معصوم فرشتہ وحیِ الہی کی ادائیگی میں مصروف ہے۔ان کی تقریر میں زیادہ اتار چڑھاؤ نہ ہوتا،وہ میدانی ندیوں کی طرح دھیمی رفتار سے بہتے اور مسلسل اور بلا انقطاع بہتے۔اپنی آواز سے کسی کے لیے باعثِ سمع خراشی ہوتے،نہ اپنے پر جوش و پرشور اندازِ گفتار سے کسی کے لیے باعثِ اذیت،نہ وہ بہ تکلف ہنسی کا ماحول بنانے کے لیے کوئی’’ کرتب‘‘ دکھاتے،نہ وہ ہاتھ کو ناپسندیدہ انداز میں حرکت دیتے،نہ انگلیوں کے مکروہ اشاروں کا سہارا لیتے،نہ گرجتے برستے،نہ منھ سے جھاگ نکالتے،نہ’’ آنکھیں دکھاتے‘‘،نہ عام مقررین کی طرح منھ چڑاتے،نہ دین کا بے وجہ نشہ ان کو بد مست کرتا،نہ مسلمانوں کے حالِ بد کا واقعی ادراک ان کے لیے مصنوعی آنسووں کے چھلکنے کا باعث بنتا،نہ حاضرین کی طرف سے داد کے طالب ہوتے،نہ ستایش کی تمنا کرتے ،نہ صلے کی پروا۔ وہ نرمی،گدازی اور حلم و کرم کے ساتھ اس طرح بولتے جیسے شیریں خواب، محوِ خواب انسان کے دل و دماغ کو لذت و انبساط اور تازہ دمی کی خوشگواری سے عجیب سی نہ ختم ہونے والی مسرت بخش جاتا ہے‘‘۔(پس مرگ زندہ،ص:۱۴۱-۱۴۰)

خلاصۂ کلام:
موجودہ حالات میں ضرورت اس بات کی ہے کہ ہمارے واعظین و مقررین،خطباء و مبلغین خلوص وللہیت سے اپنے قلوب کو آراستہ کریں،سوز وگداز میں ڈوب کر کلام کریں،مختصر اور جامع گفتگو کی عادت ڈالیں،طےکردہ عنوان پر ہی بات کریں، پیشگی مطالعے کے بغیر ہرگز نہ بولیں اور
سامعین کی نفسیات و علمی مستوی کو ملحوظ خاطر رکھیں۔اگر ان امور کا خیال رکھا جائے گا تو ان شاء اللہ سماج پر اچھے اثرات مرتب ہوں گے اور صالح انقلاب برپا ہوگا۔

بات ہیرا ہے،بات موتی ہے
بات لاکھوں کی لاج ہوتی ہے
بات ہر بات کو نہیں کہتے
بات مشکل سے بات ہوتی ہے

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
×