اسلامیات

اک سال گیا اک سال نیا ہے آنے کو

مفتی عبدالمنعم فاروقی

عن ابی برزۃ الاسلمی ؓ قال: قال رسول اللہ ؐ :لا تزول قدماعبد یوم القیامۃ حتی یسال عن عمرہ فیما افناہ،وعن علمہ فیم فعل،وعن مالہ من این اکتسبہ وفیم انفقہ ،وعن جسمہ فیم ابلاہ (سنن ترمذی:۲۴۱۷)
’’حضرت ابوبرزہ اسلمیؓ فرماتے ہیں کہ رسول اللہؐ نے ارشاد فرمایا: قیامت کے دن کسی بندے کے دونوں پاؤں نہیں ہٹیں گے یہاں تک کہ اس سے یہ نہ پوچھ لیا جائے اس کی عمر کے بارے میں کہ اسے کن کاموں میں ختم کیا اور اس کے علم کے بارے میں کہ اس پر کتنا عمل کیا اور اس کے مال کے بارے میں کہ اسے کہاں سے کمایا اور کہاں خرچ کیا اور اس کے جسم کے بارے میں کہ اسے کہاں کھپایا‘‘، اس حدیث مبارکہ میں رسول اللہؐ نے اپنی امت کو نہایت وضاحت کے ساتھ انتہائی اہم بات بتائی ہے کہ بروز قیامت ہر انسان سے اس کی زندگی اور اس کے قیمتی لمحات کے متعلق پوچھا جائے گا کہ اس نے اس عظیم الشان نعمت کا کہاں اور کس طرح استعمال کیا اور اسے صرف کرنے میں اس نعمت کے دینے والے کی مرضی کو پیش نظر رکھا یا نہیں ،یہ ایسا سوال ہے جس کاجواب ہر انسان کو دینا ہوگا اور جواب دئے بغیر اپنے قدم کو وہ جنبش دے نہ پائے گا ،زندگی اور اس کے قیمتی لمحات ہر لمحہ گزرتے ہی جاتے ہیں اسے نہ کوئی روک سکتا ہے اور نہ ہی اس کی رفتار کو دھیمی کرسکتا ہے البتہ اس کے صحیح اور غلط استعمال کرنے میں انسان کو طاقت دی گئی ہے ،اس کی مرضی ہے چاہے تو اسے اپنی مرضی پر گزاردے یا چاہے تو اس کی مرضی کے مطابق گزاردے جس نے اسے یہ عظیم نعمت عطا کی ہے ،بروز قیامت وہ انسان کامیاب کہلائے گا جس نے زندگی کو رب کی مرضی پر خرچ کیا ہوگا اور اس دن ناکام اور نامراد وہ انسان ہوگا جس نے زندگی کو من مانی کے ساتھ گزارا ہوگا اور نعمت کی ناقدری کرکے وقت کو برباد کیا ہوگا ۔
اللہ تعالیٰ نے انسانی زندگی کو اس کی سانسوں کے ساتھ جوڑ دیا ہے سانس کے گزرنے کے ساتھ اس کی زندگی گھٹنا شروع ہوجاتی ہے جسے عرف میں زندگی کا بڑھنا کہا جاتا ہے ، خطیب امت مفسر قرآن علامہ شبیر احمد عثمانی ؒنے انسانی زندگی کو برف سے تشبیہ دی ہے ،وہ فرماتے ہیں کہ’’ انسان کا اس سے بڑھ کر ٹوٹا کیا ہوگا کہ برف بیچنے والے دُکاندار کی طرح اس کی تجارت کا راس المال جسے ’’عمر عزیز کہتے ہیں‘‘دم بدم کم ہوتا جارہا ہے ،اگر اس رواروی میں کوئی ایسا کام نہ کر لیا جس سے یہ عمر رفتہ ٹھکانے لگ جائے ،بلکہ ایک ابدی اور غیر فانی متاع بن کر ہمیشہ کیلئے کار آمد بن جائے تو پھر خسارہ کی کوئی انتہا نہیں ،زمانے کی تاریخ پڑھ جاؤ اور خود اپنی زندگی کے واقعات پر غور کرو تو ادنی غور وفکر سے ثابت ہوجائے گا کہ جن لوگوں نے انجام بینی سے کام نہ لیا اور مستقبل سے بے پرواہ ہوکر محض خالی لذتوں میں وقت گزار دیا وہ آخر کار کس طرح ناکام ونامراد بلکہ تباہ وبرباد ہوکر رہے ،آدمی کو چاہئے کہ وقت کی قدر پہنچانے اور عمر عزیز کے لمحات کو یونہی غفلت وشرارت یالہو ولعب میں نہ گنوائے جو اوقات تحصیل شرف ومجد اور اکتساب فضل وکمال کی گرم بازاری کے ہیں اگر غفلت ونسیان میں گزاردئیے گئے تو سمجھو کہ اس سے بڑھ کر آدمی کے لئے خسارہ نہیں ہوسکتا ،بس خوش نصیب اور اقبال مندانسان وہی ہیں جو اس عمر فانی کو باقی اور ناکارہ زندگی کو کار آمد بنانے کیلئے جد وجہد کرتے ہیں ،اور بہترین اوقات اور عمدہ مواقع کو غنیمت سمجھ کر کسب سعادت اور تحصیل کمال کی کوشش میں سر گرم رہتے ہیں‘‘۔
  انسانوں کا حال بھی بڑا تعجب خیز اور عقل وفہم سے بالا تر ہے کہ باربار بار مشاہدہ کرنے کے باوجود بھی عمر عزیز کے قیمتی لمحات کسی بے قیمت شے کی طرح یوں ہی گنوانتے رہتے ہیں اور قیمتی اوقات کے گزر نے اور زندگی کے کم ہونے پر غور وفکر اور احتساب کے بجائے خوشی مناتے ہیں بلکہ خوشی منانے میں آپے سے باہر ہوکر وہ حرکیں کرتے ہیں جس ایک سنجیدہ آدمی تصور بھی نہیں کر سکتا ، ایسا لگتا ہے کہ سال جاتے جاتے ان کی عقل بھی ساتھ لے گیا ہے ،یہ عقل سے پیدل اور احتساب زندگی سے غافل ہوکر سال گزرنے اور نئے سال کے آنے پر دیوانہ وار اخلاقی تمام حدیں پار کرتے ہوئے اس طرح سے جشن مناتے ہیں گویا ان کی زندگی کے ماہ وسال بڑھادئے گئے ہیں ، اس موقع پر تقریبا پوری دنیا میں جشن سال نو منایا جاتا ہے بلکہ کئی دن قبل سے ہی اس بے ہودہ رسم وجشن کی بڑے زور وشور سے اور نہایت دھوم دھام سے تیاریاں کی جاتی ہیںاور اس کے لئے اربوں روپئے پانی کی طرح بہائے جاتے ہیں ،روشنیوں پر ،رقص پر ،شراب پر ،پارٹی پر اور کیک پر بے دریغ روپئے خرچ کئے جاتے ہیں اور رقص وسرور کی محفلیں سجا ئی جاتی ہیں اور ایک دوسرے کو گلے مل مل کر مبارک بادیاں دی جاتی ہیں ، سڑکوں پر گاڑیاں دوڑا ئی جاتی ہیں ،بازاروں کو روشنیوں سے منور کیا جاتا ہے ،نائٹ کلبس میں دھوم مچائی جا تی ہیں ، پارکوں میں ایک شور بپاکیا جاتا ہے ، غرض یہ کہ خواہشات کے دیوانے ہر طرف ایک طوفان ِ بدتمیزی برپا کرتے ہیں ، نوجوان گاڑیاں دوڑاتے ہوئے ہارن بجاتے ہوئے اور چیختے چلاتے ہوئے خوشی کا اظہار کرتے ہیں ،جن کے شور وشرابے سے زمین دہل جاتی ہے ،آسمان لرز جاتا اور فضاء تھرا جاتی ہے ، اس موقع پر بچے بڑے سب ہی ہی مل کر طوفان بدتمیزی مچاتے ہوئے تمام اخلاقی حدوں کو تجاوز کر جاتے ہیں ،اس طرح طوفان بدتمیزی برپا کرکے گویا یہ لوگ بدتمیزی کا عالمی دن مناتے ہیں،اگر سنجیدگی اور عقل کی گہرائی میں جاکر دیکھا جائے تو اس کی نہ عقل اجازت دیتی ہے اور نہ ہی کسی مذہب میں اس کی گنجائش مل سکتی ہے،یہ صرف اور صرف ہوس پرستوں کی اختراع ہے اور ان لوگوں کی جو پوری دنیا کو اپنا غلام بنانا چاہتے ہیں اور اپنی برتری ان پر ثابت کرکے انہیں اپنا ذہنی وتہذیبی غلام بناکر اپنے اشاروں پر انہیں نچانا چاہتے ہیں اور اس میں بڑی حدتک وہ کامیاب بھی ہو چکے ہیں ۔
   جشن سال نو کی تصاویر اخبارات اور سوشل میڈیا پر شائع ہوتی ہیں اور اس میں جشن سال نو مناتے ہوئے جب مسلمان نظر آتے ہیں تو یہ مناظر دیکھ کر دل بیٹھ جاتا ہے ، ذہن بری طرح متاثر ہوتا ہے اور پورے وجود پر ایک کیفیت طاری ہوجاتی ہے اور اس بات پر افسوس ہوتا ہے کہ جو قوم پوری دنیا کو تہذیب سکھانے آئی تھی وہ دوسروں کے تہذیب کی اسیر بن چکی ہے اور وہ قوم کسی زمانے میں دوسی قومیں اس کی نقل کرنے کو اپنے لئے باعث مخر محسوس کرتی تھی آج وہ خود دوسروں کی نقل اتار نے کو اپنے لئے فخر سمجھ رہی ہیں ،اس سے زیادہ ذلت ورسوائی اور کیا ہوسکتی ہے کہ قوم مسلم کی ایک بڑی تعداد مغرب کی اس قدر دلدادہ ہو چکی ہے کہ انہیں اپنی تہذیب وتمدن تک یاد نہیں ہے ،جشن سال نو اس کی واضح مثال ہے ۔
اہل اسلام واصحاب ایمان کو یہ بات اچھی طرح ذہن نشین کرلینی چاہیے کہ نئے سال کی آمد پر جشن منانا ،رقص وسرور کی مجالس میں شریک ہونا اور ایک دوسرے کو مبارک بادیاں دینا اسلامی تعلیم کے منافی اور اسکی تہذیب کے بالکل خلاف ہے بلکہ یہ جدید ذہنیت ،بے ہودہ رسومات ، پراگندہ خیالات اور آخرت میں جواب دہی کے احساس سے عاری لوگوں کا کلچر ہے ،اسلامی تعلیمات اور اس کے بنیادی عقائد میں یہ بات شامل ہے کہ انسان کی دنیوی زندگی فانی اور اُخروی زندگی باقی اور لا محدود ہے ،دنیا اور دنیا کی ہر شے خدا کی امانت ہے ، انسان کو روز قیامت زندگی اور اس کے شب وروز کا حساب دینا ہے کہ کہاں شب بسری کی اور کیسے کی ، زندگی خدا کی مرضیات پر چلنے اور اسکی منہیات سے رکنے کانام ہے،زندگی خالص خدا کی عبادت واطاعت کے لئے ہے اور زندگی کا ہر وہ کام جو خدا کی مرضی کے موافق ہو وہ عبادت میں داخل ہے، خدا کے دربار میں انسان سے زندگی کے قیمتی لمحات کے سلسلہ میں سخت باز پرس ہو گی۔
قرآن کریم میں انسانوں کی پیدائش کے مقصد کو واضح کرتے ہوئے بتایا گیا ہے : وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالإِنْسَ إِلَّا لِیَعْبُدُوْنِ(الذاریات:۵۶)   ’’ہم نے جناتوں اور انسانوں کو محض اپنی عبادت کے لئے پیدا کیا ہے ‘‘ قرآن کریم کی یہ بتارہی ہے کہ انسان زندگی گزارنے میں رب کا پابند ہے ،وہ اپنی مرضی کا مالک ہر گز نہیں ہے ،رب کی مرضی معلوم کرنے کے لئے اسے نبی اکرم ؐ کے اسوہ پر نظر ڈالنا ہوگا ،نبی اکرم ؐ کے اسوہ اور آپؐ کی تعلیمات ہی میں رب کی مرضی پوشیدہ ہے وہی انسان کامیاب کہلائے گا جس کی زندگی اسوۂ نبی اکرمؐ کے مطابق گزری ہوگی اور ناکام وہ شخص کہلائے گا جو اسوۂ حسنہ  نبی اکرم ؐ کو چھوڑ کر من مانی اور خواہشات کے تابع ہو کر زندگی گزاری ہوگی۔
اہل اسلام کو یہ بات اچھی طرح ذہن نشین کرلینا چاہئے کہ ان کا دنیوی سکون و قرار اور اخروی سرخروئی و کامیابی اسلامی احکامات اور نبوی تعلیمات ہی میں مضمر ہے ،وہ جب تک کتاب وسنت کے راستے پر چل کر زندگی نہیں گزارتے انہیں کامیابی وکامرانی ملنا ممکن ہی نہیں ہے ،اسلام نے جن چیزوں سے انہیں دور رہنے کا حکم دیا ہے ان تمام چیزوں سے انہیں دور رہنا ہوگا اور ان چیزوں کو دل سے قبول کرنا ہوگا جن کے اختیارکرنے کرنے کا شریعت نے انہیں حکم دیا ہے ،نبی اکرم ؐ نے اہل اسلام کو لایعنی اور فضول کاموں سے بچنے کی سخت تاکید فرمائی ہے اور فضول کاموں میں اپنے اوقات ضائع کرنے کو اسلامی تعلیمات کے منافی بتایا ہے اور اس کے برخلاف لایعنی چزیوں سے بچنے کو صاحب اسلام کی خوبی بتائی ہے ،ایک موقع پر نبی اکرم ؐ نے اپنے اصحاب ؓ کو خطاب کرتے ہوئے ارشاد فرمایا: من حسن اسلام المرء ترکہ مالایعنیہ(ترمذی:۱۴۸۹)’’ آدمی کے اسلام کی خوبی اور اس کے کمال میں یہ بھی داخل ہے کہ وہ فضول اور غیر مفید کاموں اور باتوں سے پچا رہے‘‘۔محدث جلیل ،عالم ربانی حضرت مولانا محمد منظور نعمانی ؒ نے اس حدیث کی تشریح کرتے ہوئے لکھتے ہیں : انسان اشرف المخلوقات ہے ،اللہ تعالیٰ نے اس کو بہت قیمتی بنایا ہے ،اللہ چاہتے ہیں کہ انسان کو وقت اور صلاحیتوں کا جو سرمایہ دیا گیا ہے وہ اسے بالکل ضائع نہ کرے ،بلکہ صحیح طور سے اسے استعمال کرے ،زیادہ تر اس کے ذریعہ اللہ تعالیٰ کی رضا اور اس کا تقرب حاصل کرنے کی فکر کرے ،یہی دین کی تمام تعلیمات کا حاصل اور اس کا لب لباب ہے ،اس لئے جو آدمی یہ چاہتا ہے کہ اُسے کمال ایمان حاصل ہو اور اس کے اسلام کے حسن میں کوئی داغ اور دھبہ نہ ہو تو اسے چاہیے کہ کھلے گناہوں اور بد اخلاخیوں کے علاوہ تمام فضول اور غیر مفید کاموں اور باتوں سے اپنے کو بچائے رکھے اور اپنی تمام تر خدا داد صلاحیتوں کو بس ان ہی کاموں میں لگائے جن میں خیر اور منفعت کا کوئی پہلو ہو ۔
اسلام کی اس قدر خوبصورت اور حسین تعلیمات کے باوجود مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد اس سے دور ہے اور اسے اپنی انفرادی واجتماعی،معاشرتی اور عائلی زندگی کا حصہ نہ بناتے ہوئے ذلت ورسوائی برداشت کر رہے ہیں ،دنیا کی چمک دمک اور اغیار کے نقش قدم پر چلنے میں اس قدر منہمک ہوگئے ہیں کہ انہیں نہ اسلامی احکامات یاد ہیں اور نہ ہی اپنےنبی ؐ کی مبارک تعلیمات ذہن میں محفوظ ہیں ،نتیجہ میں ان تمام غیر اخلاقی وغیر اسلامی کاموں بڑے ہوئے ہیں اور تہذیب جدید کو اس شوق وذوق سے اپنانے لگے ہیں گویا وہی عزت وعظمت کا ذریعہ ہیں اور کایمابی کی ضمانت ہیں ،حالانکہ قرآن وحدیث زبان حال سے انہیں کہہ رہے ہیں کہ مسلمان جب تک اسلامی تعلیمات کو اپنی زندگی میں شامل نہیں کر لیتے تب تک دنیا میں انہیں نصرت خداوندی حاصل نہیں ہو سکتی ،نہ ہی وہ دوسروں پر اپنا رعب ڈال سکتے ہیں ،دنیا میں نہ تو اپنا لوہا منواسکتے ہیں اور نہ ہی اخروی نجات پاسکتے ہیں ،زندگی کے لمحات بہت سے گزر چکے ہیں اور جو کچھ بچے ہیں وہ بھی گزرجائیں گے مگر اس دن جس میں اولین وآخرین کو اکھٹا کیا جائے گا ان سے ضرور ان لمحات کے متعلق پوچھا جائے گا بلکہ کامیابی کا تمغہ انہیں کو دیا جائے گا جنہوں نے زندگی اور اس کے قیمتی لمحات اپنی مرضی پر نہیں بلکہ رب کی مرضی پر گزارا تھا، چنانچہ سال جاتے ہوئے یہ پیغام دے رہا ہے کہ ربانی مرضیات پر اوقات گزارنے والے ہیں عقلمند ،ہوش مند اور کامیاب ہیں اور وہ نادان ،ناسمجھ بلکہ دیوانے ہیں جو بے ہوش ہوکر رب کی مرضیات کے خلاف زندگی گزارتے ہیں اور دنیا وآخرت میں رسوائی اٹھاتے ہیں۔
اک سال گیا اک سال نیا ہے آنے کو
پر وقت کا اب بھی ہوش نہیں دیوانے کو

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
×