اسلامیاتمولانا عبدالرشید طلحہ نعمانی

اپنی نسلوں کے ایمان کی فکر کیجیے !

ازافادات :حضرت اقدس مفتی ابو القاسم نعمانی دامت برکاتہم مہتمم و شیخ الحدیث دارالعلوم دیوبند

جمع و ترتیب: عبدالرشید طلحہ نعمانی

آج کی مجلس میں میں وقت کے ایک نہایت اہم اور ضروری مسئلہ کی طرف تمام لوگوں کو متوجہ کرنا چاہتا ہوں ،اوروہ مسئلہ ہے اپنے ،اپنے اہل وعیال و اہل خانہ اور آئندہ نسلوں کے دین کی حفاظت کا، اس وقت جو ارتداد کی اور دین کے سلسلے میں تشکیک کی ہوا چل رہی ہے ، ایسے ماحول میں بہت ضروری ہوگیا ہے کہ تمام دنیوی ضرورتوں کے مقابلہ میں انسان اس بات کی کوشش کرے اور اس کو اولیت دے کہ ہمارےاہل و عیال، ہمارے اہل خانہ اورخود اپنے دین ایمان کی حفاظت کا سامان کیسے کیا جائے ؟ بہت تیزی کےساتھ ارتداد و الحاد پھیل رہاہے ،ہماری بہت سی بہنیں غیر مسلموں کے ساتھ جارہی ہیں، نوجوان بہک رہے ہیں اور سوشل میڈیا وغیرہ کے ذریعہ مسلسل نوجوانوں اورعام مسلمانوں کو دین سے بیزار کرنے کی کوشش چل رہی ہے، اور ہماری غفلت کا یہ حال ہے کہ ہمارےگھر وں کے اندر اپنے بچوں کو دین سکھانے کی اور ان کے مزاج کو دینی بنانے کی کوئی فکر نہیں ہے؛ اس لیے ان چند تمہید ی جملوں کے بعد میں آپ سے گزارش کرنا چاہتاہوں کہ جتنی فکر اپنے بچوں کے کھانے کی ،کپڑے کی،علاج کی، رہائش کی کرتے ہیں، اس سے زیادہ فکر اس بات کی کریں کہ یہ بچے مسلمان بن کر جئیں اور مسلمان بن کرمریں ، اس کے لیے ہمیں کیا کرنا ہوگا؟
سب سے پہلی چیز جو ضروری ہے وہ ہے دینی تعلیم !دینی تعلیم چاہے آپ اپنے بچوں کو براہِ راست مدارس میں داخل کر کے دلائیں یا جو مساجد کے اندر مکاتب قائم ہیں ان میں ان کو داخل کرائیں ، اور ان کوقرآن پاک ،دینیات ، اردو زبان، بنیادی عقیدے اورجودین کی ضروری باتیں ہیں وہ سکھائیں ، اسی کے ساتھ ساتھ اپنے گھر کے ماحول کو دینداری والا ماحول بنانے کی کوشش کریں ،ہماری دینداری کایہ حال ہے کہ اگربہت متقی پرہیز گار ہیں تو خود نماز کی پاپندی کریں گے ،مسجد میں چلے جائیں گے، نماز سے فارغ ہونے کے بعد تلاوت بھی کرلیں گے ، کچھ ذکر واذکا ربھی کرلیں گے، تسبیحات بھی پڑھ لیں گے، بہت شوق ہےتو اشراق و چاشت بھی ادا کرلیں گے؛ لیکن گھر کے کتنے افراد نمازپڑھتے ہیں؟ عورتیں نماز ادا کرتی ہیں یانہیں؟ بچےاور بچیاں نماز ادا کرتی ہیں یا نہیں؟ ا س کی پوری فکر نہیں رہتی ،اس لیے ہم اپنی دینی ذمہ داری کو محسوس کرتے ہوئے اپنے گھر کے افرادکو بھی دین سے وابستہ کرنے کی کوشش کریں،جہاں ہمیں اپنی نماز کی فکر ہے، وہیں اس کی بھی فکر ہونی چاہیے کہ گھرکے اندر کوئی بے نمازی نہ رہے ، رسول اللہﷺ نے تو یہ حکم دیا ہے کہ بچہ سات سال کا ہوجائے تو اس کو نمازکاحکم دو اور دس سال کا ہوجائے اورنماز نہ پڑھے تو اس کو تنبیہ کرو اور مارو؛ مگر آج حال یہ ہےکہ محلے کے اندر شاید ہی کوئی ایسا گھر ہو جہاں سو فیصد نماز پڑھنے والے افراد ہوں ، مرد بھی نماز پڑھتے ہوں، عورتیں بھی نماز پڑھتی ہوں،بچے بھی پڑھتےہوں، بچیاں بھی پڑھتی ہوں، مرد مسجد میں جماعت کا اہتمام کرتے ہوں ،اسی طریقہ سے سب لوگ زندگی کو سنت و شریعت کے مطابق گزارتے ہوں، کھانے پینےکی کیا سنت ہے ؟ سونے اٹھنے کی کیا سنت ہے؟بچوں کو سکھایا جائے ،ایسانہیں کہ اُن کوکھانا دےدیاجائےکہ جیسے چاہو کھالو؛بلکہ اپنے سامنے بٹھاکر اُن کو کھانے کی سنت بتائی جائے کہ بیٹا سنت یہ ہے کہ ہاتھ دھوکر آؤ،دسترخوان بچھا کر بیٹھو ،بسم اللہ پڑھ کر کھانا شروع کرو، داہنےہاتھ سے کھاؤ، اپنے قریب سے کھاؤ، اور کوئی دانہ اگر گرجائے تو اس کو اٹھا کر کھاؤ ،کھانے کے بعد برتن کو اچھی طرح چاٹ کے صاف کرو انگلی کو صاف کرو، اس کےبعد ہاتھ دھولو ،اور کھانے سے فارغ ہونے کےبعد کی جو دعاہے:الحمد للہ الذی اطعمنی و سقانی وجعلنی من المسلمین اس دعا کو پڑھو ، اسی طرح سونے کے لیے جب جائیں تو ان کو بتایا جائے کہ سونے سے پہلے کیا دعا پڑھنی ہے ؟ کیا پڑھ کر سونا چاہیے،سوکر اٹھنے کے بعدکیا پڑھنا چاہیے ،بچوں کے ہاتھ میں موبائل دے دیاجاتاہے ،گیم کھیلنے کے نام پر وہ موبائل لے کر بیٹھ جاتے ہیں ،معلوم نہیں کہ موبائل کے اندر کیا الابلا چیزیں بھری ہوتی ہیں ؟بعض انتہائی گندے قسم کے مخرب اخلاق پروگرام اس کے اندر آتے ہیں ، جنہیں بچے دیکھتے ہیں، اس سےان کی عادت خراب ہوتی ہے ، ان کا مزاج خراب ہوتاہے ،سب سے پہلی بات یہ کہ گھروں کے اندر کوشش یہ ہونی چاہیےکہ ملٹی میڈیاموبائل موجود ہی نہ ہو ، اور اگر ہو تو جو ذمہ دار افراد ہیں ان کے کنٹرول میں ہو ، اگر کسی بچہ کو کسی ضرورت سے دیا جائے تو اس کی نگرانی کی جائے، خاص طو ر سے جو بچیاں ہیں، اسکولوں میں ، مدرسوں میں پڑھنے والی بچیاں ان کے ہاتھ میں ہرگز بڑا موبائل نہ دیا جائے ، وہ اپنی سہیلیوں کے نام پر کس سے باتیں کرتی ہیں ؟ کس سے ان کا تعلق ہورہاہے ؟بڑ ے بڑے دین دار گھرانوں کے اندر اس طرح کے حادثات پیش آرہے ہیں ؛ بلکہ بعض عالمہ بچیوں کابھی غیروں کےساتھ جانے کا حادثہ پیش آچکا ہے ،اس لئے ایسا کوئی راستہ نہیں ہونا چاہیے۔
اسی طرح جو گھر کے اندر کا ماحول ہے ہر چیز پر نگاہ رکھنی چاہیے کہ ہمارا ماحول دینداری کا ماحول ہو ،کوئی بھی بچہ غیر تعلیم یافتہ نہ ہو ،دین کی تعلیم ہو ،کلمہ،نماز اور جو ضروری احکام ہیں ان کو سمجھائے اور سکھائے جائیں ،گھر کے اندر ان کو کلمہ طیبہ اور کلمہ شہادت ، سونے کی دعا ، اٹھنے کی دعا ،کھانے کی دعا، کھانے سے فارغ ہونے کی دعا، اسی طرح استنجاء خانہ میں جانے ، استنجاء خانہ سے نکلنے کی وغیرہ کی دعائیں ان کو سکھلائی جائیں اور ان کی مشق کرائی جائے ،اس وقت یہ ضرورت بہت اہم ہے ۔
اس کےعلاوہ ہمارے جو بڑ ے بالغ نوجوان ،یا اور زیادہ عمر رسیدہ لوگ اب تک دینی تعلیم سےبالکل نا بلد ہیںانہوںنے بچپن میں قرآن نہیں پڑھا ہے وہ یہ نہ سوچیں کہ ہمارے پڑھنے کازمانہ چلا گیا ہے جو فکر مند حضرات مکاتب قائم کرنے کی کوشش کرتے ہیں، اسی طرح مشورہ کرکے مسجد کے اندر ، کسی گھر کے اندر تعلیمِ بالغان کا انتظام کریں۔جن لوگوں نے بچپن میں قرآ ن پڑھا ہے اور اس کی تصحیح نہیں کی ہے وہ بیٹھ کر قرآن پاک کی تصحیح کریں، اورہر ایک کو آمادہ کیاجائے کہ گھر کے اندر قرآن پاک کی تلاوت کا ماحول بنایاجائے ،ان شاء اللہ اس سے رحمت کے فرشتے آئیں گے،شیطان کو دخل اندازی کا موقعہ نہیں ملے گا ،ہم اپنے معمولات کی پابندی تو کریں ہی ، اس پر ہمیشہ گفتگو ہوتی رہتی ہے کہ نماز کی پابندی کریں ، قرآن کی تلاوت کریں ،تسبیحات کی پابندی کریں ،اس کی فکر تو ہوجاتی ہے؛ مگر اس وقت اپنی ذمہ داری ہےاور میں اس طرف متوجہ کرنا چاہتاہوں کہ مکاتب کے قیام کی سب سے زیادہ ضرورت ہے ہر مسجد کے اندر مکتب ہونا چاہیے کوئی مسجد خالی نہیں رہنی چاہیےاورکوئی بچہ یا بچی غیر تعلیم یافتہ نہیں رہنی چاہیے،اجتماعی طور سے اس کے لئے مشورے کریں اور اللہ تعالیٰ نے جس کو جتنی صلاحیت دی ہے اس کےاعتبار سے محنت کریں۔
آج اتنی گفتگو پراکتفا کرتاہوں، اللہ تعالیٰ ہمیں شعور عطافر مائے، فکر عطا فرمائے،عمل کرنے کی توفیق بخشے۔ آمین یارب العالمین

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
×