سیاسی و سماجی

اور اب گیانواپی کی باری؛ تمہاری داستاں تک نہ ہوگی داستانوں میں

مولانا سید احمد ومیض ندوی استاذ حدیث دارالعلوم حیدرآباد

ملک میں ملت اسلامیہ کی عجیب صورتحال دکھائی دے رہی ہے؛ جب سے فرقہ پرست طاقتوں کو اقتدار ملا ہے الٹی گنگا بہنے لگی ہے ؛مظلوم کو ظالم کے طور پر پیش کیا جا رہا ہے اور ظالم خود کو مظلوم کی شکل میں ظاہر کر رہا ہے ؛فرقہ پرست قوتوں کا ملک میں بس ایک ہی ایجنڈا ہے اور وہ اس ملک سے اسلام اور مسلمانوں سے تعلق رکھنے والی ہر چیز کا صفایا کرنا؛ ایودھیا میں بابری مسجد کے ملبے پر بنی رام مندر کے افتتاح کو ایک ہفتہ بھی گزرنے نہ پایا کہ گیان واپی مسجد کا مسئلہ زور پکڑنے لگاہے؛ اور اب عدالت نے گیان واپی مسجد کے تہہ خانے میں ہندو فریق کو پوجا پاٹ کی اجازت دے دی ہے ؛ملک میں مسلمان” جرم ضعیفی "کی سزا پے در پے بھگتتے جا رہے ہیں؛ اب پورے ملک میں گیان واپی مسجد موضوع بحث بنی ہوئی ہے ؛فرقہ پرست طاقتیں اورنگزیب عالمگیر کے زمانے میں تعمیر کی گئی اس عالی شان مسجد کو نشانہ بنائے ہوئے ہیں؛ ان کا کہنا ہے کہ گیان واپی مسجد ہندو دیوتا شیو کی مندر کے کھنڈر پر تعمیر کی گئی ہے ؛بابری مسجد کے بعد اب پورے ملک میں گیان واپی کی گونج سنائی دے گی؛ اور اس کو بنیاد بنا کر فرقہ پرست طاقتیں خوب سیاسی روٹیاں سیکیں گی؛ پھر ایک مرتبہ ملک کو فرقہ پرستی کی آگ میں جھونکا جائے گا؛ ایک بار پھر فرقہ پرست جنونیوں کو ملک میں خون کی ہولی کھیلنے کا موقع ہاتھ آئے گا؛ جی ہاں! یہ ملک بارہا فرقہ پرستی کی آگ میں جھلستا رہا ہے اور اقتدار کے بھوکے بھگوا قائدین کی بھینٹ چڑھتا رہا ہے ؛اب ملک کی صورتحال کچھ ایسی بن گئی ہے کہ انصاف کی مندر کہلانے والی عدالتوں سے بھی انصاف کی توقع موہوم ہوتی جا رہی ہے؛ اگر ملک میں عدلیہ غیر جانبدارانہ کردار ادا کرتا تو آج انصاف کا اس طرح قتل نہ ہوتا؛ اور فرقہ پرست طاقتوں کے حوصلے اسقدر بلند نہ ھوتے .
گزشتہ ہفتے بنارس کی ایک عدالت نے گیان واپی مسجد کے تہہ خانے میں پوجا کرنے کی اجازت دے دی؛ ضلع جج اے کے وشویش نے اپنے فیصلے میں کہا کہ بنارس کے ضلع مجسٹریٹ کو ہدایت کی جاتی ہے کہ پوجا تہہ خانہ میں کاشی وشوا ناتھ ٹرسٹ اور عرضی گزار کے ذریعے نامزد کیے گئے ایک پجاری کے ذریعے کی جائے؛ اس کے لیے ایک ہفتے کے اندر لوہے کی بیریکیڈنگ وغیرہ کا انتظام پورا کیا جائے؛ بنارس کی مقامی عدالت نے اپنے فیصلے میں ضلع انتظامیہ کو ہدایت کی ہے کہ وہ ایک ہفتے کے اندر مسجد کے جنوبی تہ خانے میں ہندؤں کی پوجا کے لیے ضروری انتظامات کرے؛ یہ انتظامات ہوتے ہی پوجا شروع کی جائے گی ؛اس سے قبل ضلع عدالت نے 24 جنوری کو مسجد کے جنوبی تہخانے کو اپنی تحویل میں لینے کا حکم دیا تھا؛ عدالت نے اس کیس کی سماعت کے دوران بنارس کے ضلع مجسٹریٹ کو اس تہ خانے کا ریسیور مقرر کیا تھا؛ عدالت کے فیصلے کے بعد ہندو فریق کے وکیل وشنو شنکر جین نے کہا: "جس طرح جج کے یم پانڈے نے 1986 میں ایودھیا کی بابری مسجد کا تالا کھولنے کا حکم دیا تھا میں آج کے اس حکم کو اسی تناظر میں دیکھتا ہوں؛ یہ اس کیس کا ٹرننگ پوائنٹ ہے۔

ضلع عدالت کا حالیہ فیصلہ آثار قدیمہ کے ذریعے گیان واپی مسجد کے ایک سروے کو عام کیے جانے کے ایک ہفتے کے بعد آیا ہے ؛ضلع عدالت نے آثار قدیمہ کے ماہرین کو اس بات کا جائزہ لینے کے لیے مقرر کیا تھا کہ کیا گیان واپی مسجد پہلے سے موجود کسی ہندو مندر کے ڈھانچے کے اوپر تعمیر کی گئی تھی؟گیان واپی مسجد کے سائنسی بنیاد پر سروے کا فیصلہ بنارس کی ضلعی عدالت نے دیا تھا؛ جسے مسلمانوں نے الہ آباد ہائی کورٹ میں چیلنج کیا تھا؛ الہ آباد بعد ہائی کورٹ کی جانب سے بنارس عدالت کا فیصلہ برقرار رکھتے ہوئے کہا گیا تھا کہ انصاف کے تقاضوں کے مدنظر مسجد کا سائنسی سروس ضروری ہے؛ چنانچہ عدالتوں کے حکم پر آثار قدیمہ کے ماہرین کی جانب سے گیان واپی کا سائنسی سروے کیا گیا اور آثار قدیمہ نے اپنی رپورٹ میں یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ ” ایک مندر جو لگتا ہے کہ مغل بادشاہ اورنگزیب کے عہد میں سترھویں صدی میں مسمار کیا گیا تھا اس کے ملبوں اور ڈھانچوں کو کچھ تبدیلی کے بعد موجودہ مسجد میں استعمال کیا گیا ہے؛ بتایا گیا ہے کہ سروے میں آثار قدیمہ نے مسجد کے تہہ خانے سے درجنوں ایسے آثار اور علامتوں کا حوالہ دیا ہے جو ہندو مندروں اور دیوی دیوتاؤں سے مماثلت رکھتے ہیں؛ ہندو درخواست گزار کا دعوی ہے کہ گیان واپی مسجد بھگوان شیوا کے مندر کاشی وشوا ناتھ کے مقام پر اسے توڑ کر بنائی گئی تھی؛ ایک بڑا کاشی وشواناتھ مندر مسجد کی مغربی دیوار کی جانب موجود ہے مسجد کے وسط میں واقع وضو خانے کو چند مہینے قبل عدالت کے حکم پر سیل کر دیا گیا تھا؛ ہندو عرض گزاروں کا دعوی ہے کہ وضو خانے میں واقع فوارہ دراصل شیولنگ ہے؛ گیان واپی مسجد کی انتظامیہ نے کہا کہ وہ مؤرخین سے مشورے کے بعد آثار قدیمہ کی سروے رپورٹ کو اعلی عدالت میں چیلنج کرے گی؛ لیکن بظاہر عدالتوں سے انصاف کی توقع مشکل نظر آتی ہے؛ واضح رہے کہ گیان واپی مسجد کی انتظامی کمیٹی اور اتر پردیش کے سنی وقف بورڈ نے عدالت عالیہ میں ذیلی عدالت کے فیصلے کے خلاف درخواست دائر کی تھی ؛ان کا کہنا تھا کہ 1991 کے عبادت گاہوں کے تحفظ ایکٹ کے تحت کسی عبادت گاہ کو تبدیل نہیں کیا جا سکتا؛ اس لیے وہ مسجد کے سروے کے فیصلے کو مسترد کر دے؛ لیکن عدالت نے مسلم فریقوں کی دلیل یہ کہہ کر مسترد کر دی کہ 1991 کا قانون کسی عبادت گاہ کی مذہبی نوعیت کی تشریح نہیں کرتا اور اس میں صرف عبادت گاہ کی تبدیلی اور عبادت گاہ کے مقام کی تشریح کی گئی ہے ،،؛عدالت عالیہ کے مطابق متنازعہ عبادت گاہ کی مذہبی نوعیت کا تعین متعلقہ عدالت کی جانب سے صرف اس عمل میں فراہم کیے گئے ثبوتوں کی بنیاد پر ہی کیا جا سکتا ہے؛ جس وقت ایودھیا میں رام جنم بھومی کی تحریک اپنے عروج پر تھی اس وقت ایک مرحلے پر یہ محسوس ہونے لگا تھا کہ ایودھیا کی بابری مسجد کو بچانا مشکل ہوگا؛ اس وقت دو ہندو تنظیمیں وشوا ہندو پریشد اور بجرنگ دل صرف ایودھیا کی بابری مسجد ہی نہیں بنارس کی گیان واپی مسجد اور متھورا کی شاہی عید گاہ بھی ہندوؤں کے حوالے کرنے کا مطالبہ کر رہی تھیں ؛ان کا کہنا تھا کہ مسلم حکمرانوں نے اپنے دور سلطنت میں ہزاروں مندر توڑے ہیں ؛اگر مسلمانوں نے ایودھیا بنارس اور متھورا کی یہ تین عبادت گاہیں ہندوؤں کے حوالے نہیں کیں تو وہ تین ہزار عبادت گاہوں کا مطالبہ کریں گی؛ ہندو تنظیموں کی فہرست میں جو مسلم عمارتیں اور عبادت گاہیں شامل ہیں؛ ان میں دلی کا لال قلعہ ؛قطب مینار؛ پرانا قلعہ؛ جامع مسجد اور آگرہ کا تاج محل بھی شامل ہے۔
بابری مسجد طرز کے مزید تنازعوں سے ملک کو بچانے کے لیے اس وقت کی کانگرس حکومت نے 1991 میں مذہبی عبادت گاہوں کے تحفظ کا ایک قانون پارلیمنٹ میں منظور کیا؛ اس قانون میں کہا گیا کہ 15 اگست 1947 کو ملک کی آزادی کے وقت جو عبادت گاہ جس مذہب کی تھی اس میں کوئی تبدیلی نہیں کی جا سکتی؛ اور نہ ان پر کوئی تنازع کھڑا کیا جا سکتا ہے ؛صرف بابری مسجد کو اس قانون سے علیحدہ رکھا گیا تھا؛ کیونکہ یہ تنازع عدالت عالیہ میں تھا اور یہ کہا گیاتھا کہ اس کا فیصلہ عدالت سے ہی ہوگا؛ یہ امید کی گئی تھی کہ اس قانون کے بعد مستقبل میں بابری مسجد رام مندر طرز کا کوئی نیا تنازعات جنم نہیں لے گا ؛لیکن ایک سال پہلے بعض ہندو کارکنوں نے گیان واپی مسجد پر دعوی کرتے ہوئے اس میں پوجا کرنے کی اجازت مانگی؛ ان کا کہنا تھا کہ مسجد کے صحن میں واقع وضو خانے میں بنا ہوا پتھر کا فوارہ دراصل شولنگ ہے یعنی شیوا دیوتا کی علامت ہے؛ عدالت نے وضو خانے کو سیل کرنے کا حکم دیا؛ عدالت نے مسجد کی مذہبی نوعیت کے تعین کے لیے آثار قدیمہ کے ماہرین سے اس کے سروے کا حکم صادر کیا؛ ماہرین نے اپنی رپورٹ گزشتہ دنوں عدالت کو پیش کر دی؛ اسی مدت میں متھرا کی عید گاہ کے خلاف بھی کئی درخواستیں عدالت میں داخل کی گئیں ؛متھورا کی ایک ذیلی عدالت نے گزشتہ ماہ عیدگاہ کا بھی سروے کرانے کا حکم دیا ہے” ( رپورٹ:بی بی سی اردو 19 دسمبر 2023)

ان تفصیلات کی روشنی میں یہ سمجھنا کچھ مشکل نہیں کہ اب ہندوستان میں مسلم عبادت گاہوں پر ہمیشہ تلوار لٹکتی رہے گی؛ کسی بھی مسجد یا تاریخی عمارت کے تعلق سے کسی بھی وقت دعوی کیا جا سکتا ہے؛ عدالتوں کا طرز عمل بھی بتا رہا ہے کہ اب انصاف کی توقع رکھنا فضول ہے؛ مسلم بادشاہوں کے تعلق سے فرقہ پرست تنظیموں کی جانب سے عرصے سے یہ پروپیگنڈہ کیا جا رہا ہے کہ انہوں نے اپنے دور اقتدار میں مندروں کو ڈھا کر ان کی جگہ مسجدیں تعمیر کر دیں بالخصوص اورنگزیب عالمگیر کو اس حوالے سے بہت بد نام کیا جاتا ہے؛ حالانکہ بہت سے غیر مسلم انصاف پسند مورخین نے ان الزامات کی تردید کی ہے؛ جس سائنسی سروے کا سہارا لے کر رائی کو پہاڑ بنایا جا رہا ہے اس کے تعلق سے کسی قسم کی وضاحت نہیں کی گئی ہے کہ وہ کن بنیادوں پر کیا گیا اور اس سے کس طرح نتائج اخذ کیے گئے؟اگر فرقہ پرستوں کا طرز عمل مستقبل میں بھی یوں ہی رہا تو پھر ملک کی کسی تاریخی مسجدکا بچنا مشکل ہو جائے گا ؛ایسے میں ملک کی مسلم قیادت کو بہت سوچ سمجھ کر قدم اٹھانا ہوگا؛ جہاں تک عدالتوں کے فیصلوں کا تعلق ہے تو بابری مسجد کا فیصلہ ہمارے سامنے ہے؛ سب کچھ تسلیم کر لینے کے باوجود محض آستھا کی بنیاد پر ہندو فریق کے حق میں فیصلہ سنایا گیا ؛فیصلے میں تسلیم کیا گیا کہ بابری مسجد کسی مندر کے ملبے پر نہیں بنائی گئی؛ اور اس کی تعمیر کے لیے کسی عبادت گاہ کو توڑا نہیں گیا؛ نیز اس کی بھی وضاحت کی گئی کہ مندر کے ملبے پر بابری مسجد کی تعمیر سے متعلق کسی قسم کے شواہد نہیں پائے گئے؛ اس سب کے باوجود فیصلہ فریق مخالف کے حق میں دیا گیا؛ بابری مسجد فیصلے کی نظیر سامنے رکھ کر کیا گیان واپی کے تعلق سے عدالتوں سے انصاف کی توقع رکھی جا سکتی ہے؟ آنے والے انتخابات بڑی اہمیت کے حامل ہیں سیکولر جماعتوں کا کڑا امتحان ہے اس وقت ایک طرف سیکولر ووٹوں کو بکھرنے سے بچانا ضروری تو دوسری جانب ای وی ایم مشینوں کو ہٹانے کے لیے بھر پور احتجاج ناگزیر ہے ؛ ملک کے وکلاء کی جانب سے خوب احتجاج کیا جا رہا ہے لیکن اصل اپوزیشن کانگریس اس سلسلے میں خاموش ہے فرقہ پرستوں کی کامیابی کی ایک اہم وجہ ای وی ایم سے ووٹ کرانا ہے ۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
×