سیاسی و سماجی

آج؛ کل ہوتا گیا،دن ؛ہَوا ہوتے گئے 

مفتی محمد نوید سیف حسامی ایڈووکیٹ کریم نگر، تلنگانہ

وقت کی تیزی، زمانہ کی سرعت، شب و روز کی گردش، لیل و نہارکے تغیر، آفتاب و ماہتاب کے چکر، ستاروں و سیاروں کی حرکت سے ابن آدم کی متاعِ ثمین اور حیاتِ مستعار کا غالی جوہر یعنی وقت مسلسل و پیہم کم ہوتا چلا جارہا ہے، سانسوں کی آمد ورفت، دھڑکتے دل کی دھڑکنیں انسان کی زندگی کے لمحات کو بیک وقت وجود بھی بخشتے ہیں اور ساتھ ہی عدم کا مسافر بھی بنادیتے ہیں، ابھی دل دھڑکا ، ابھی سانس آئی اور جو لمحہ دل کی دھڑکن سے پہلے معدوم تھا وہ دفعۃً وجود پذیر ہوا اور اسی تیزی سے فنا بھی ہوا، اسی لئے بعض حکماء و عقلاء نے کہا ، زمانے بس دو ہیں، ماضی و مستقبل، پوچھا گیا حال بھی تو ہے، جواب ملاکہاں ہے؟
زمانہ بدل رہا ہے، گھڑی کی سوئی اپنی رفتار سے زیادہ تیز چل رہی ہے، سال؛ مہینے کے اور مہینہ ؛ دن کے برابر ہوجانے والی بات اب صرف بات نہیں رہی، ہر کس و ناکس اسے آنکھوں دیکھ بھی رہا ہے اور محسوس بھی کررہا ہے، گناہوں کی کثرت نے وقت کی برکت و وسعت کو ختم کردیا ہے، جو کام پہلے وسائل و آلات کے بغیر کم وقت میں ہوجایا کرتے تھے اب وہ تمام ذرائع و اسباب کے باوجود تکمیل تک بھی نہیں پہونچ پارہے ہیں، جو کتابیں قرونِ سابق والوں نے اسفار میں مع مُتعِبات و مشقات ِ سفر لکھی تھیں اب ان کا عُشر بھی مُکیِّفات و مُریحات میں نہیں لکھا جارہا ، لکھنا تو دور پڑھا بھی نہیں جارہا، سستی و کاہلی اب صرف اجسام پر ہی حاوی نہیں بلکہ اذہان بھی آلسی اور نکمے ہوچکے ہیں، وقت کی بربادی کا احساس بھی آج غنیمت کی بات ہے کہ حِس تو کم از کم موجود ہے ورنہ ایسوں کی تعداد بھی کم نہیں جنہیں اس گراں سرمائے کے ضیاع کی کوئی خبر ہی نہیں…
گذرتا وقت جہاں انسان کو اس کی زندگی سے کم ہوتے لمحات کی جانب اشارہ کرتا ہے وہیں وقت کو نہ روک پانے کی کمزوری کو بھی اجاگر کرتا ہے، اشرف المخلوقات نے مریخ کو مسخر کردیا ہے، مشینوں سے مصنوعی جاندار وں کو وجود بخش دیا ہے، مسافتیں سکڑ کر سمٹ کر مشتِ انسانی میں آچکی ہیں لیکن انسان گذرے لمحات کی واپسی پر قادر نہیں، عاجزہے بے بس ہے ناکارہ ہے، مغرب؛سائنس اور ٹکنالوجی کے انقلاب کے بعد تسلسل کے ساتھ اُن حیر ت انگیز ایجادات کے پیچھے پڑا ہے جس کا تصور بھی اقوامِ ما سبق کے احاطہ خیال سے باہر کی بات تھی، لوہے کو طیارے کی شکل دے کر ہوا میں اڑانا ہو یا لاکھوں میل دور موجود فرد کا دیدار ہو، ٹکنالوجی نے ماضی قریب کے اس ناممکن الحصول امر کو سہل الوصول بنا کرپیش کردیا ہے لیکن عمر رفتہ کو آواز دینا ٹکنالوجی کے دائرہ استطاعت سے باہر کی بات ہے اور رہے گی بھی، مغرب اور مغرب زدہ اقوام و افراد نے اس وقت کو قبضہ میں کرنے کی شدید طلب و چاہت کو ٹائم مشین اور ٹائم ٹریولنگ پر فلمیں بنا کراور ناول لکھ کر پورا کرنا شروع کیا ہے، ٹائم ٹریولنگ انگریزی ادب کا ایک بڑا وسیع موضوع ہے جو مصنفین و قارئین کی موضوع کے تئیں دلچسپی کو واضح کرتا ہے…
شب و روز کی اس مسلسل تبدیلی میں کچھ تو وہ ہوتے ہیں جن کے پاس کام کا منصوبہ اور منزل کا تعین ہوتا ہے، وہ منصوبے اور منزل کی درمیانی دوری کو کم کرنے میں جٹ جاتے ہیں ، ان کی نگاہیں اپنے نشانہ سے کبھی ہٹتی نہیں اور نہ ہی ان کا ذہن کسی اور خیال کی آماجگاہ بنتا ہے، یہ وقت کو اپنے لئے صرف سرمایہ ہی نہیں سمجھتے بلکہ وقت ہی ان کے لئے سب کچھ ہوتا ہے، ان کے حق میں ہر دن سورج؛ ایک نئی نوید کا پیغام اور ہرشب چاند؛ ایک نئی مسرت کا پیغامبر ہوتا ہے، ان کی صلاحتیں روز افزوں ہوتی ہیں، یہ وہ کام بھی کرگذرتے ہیں جن کے بارے میں خود انہیں اندازہ تک نہیں ہوتا کہ وہ یہ کام بھی کرسکتے ہیں،ان کے عزائم کی پختگی و بلندی ہمالہ کی مضبوطی و اونچائی کو مات دیتی ہے اور ان کی فکر کی گہرائی سے سمندر بھی شرماجاتا ہے…
ان کے قطع نظر کچھ وہ ہوتے ہیں جن کو محلات کی تخیلاتی تعمیر سے فرصت نہیں ، ان کی صبح کسی الگ پلاننگ میں اور شام کسی اور ارادے میں گذرتی ہے،ان کے خیالاتِ صبح کا ارادہ ہائے شب سے کچھ ربط نہیں ہوتا،یہ اپنی خفتہ صلاحیتیں چھوڑئیے ظاہری لیاقت سے بھی لابلد لا علم اور نا آشنا رہتے ہیں ، نتیجہ میں ان کی خوابیدہ صلاحیت کبھی کی مر کر کفن کا جامہ پہن لیتی ہیں، ان سے وہ کام بھی نہیں ہوپاتا جس کے بارے میں انہیں یقین ہوتا ہے کہ وہ یہ کام کرسکتے ہیں،یہ عمل میں کچھوے بھی زیادہ سست اور سوچ میں چیونٹی سے بھی زیادہ کوتاہ قد ہوتے ہیں، چونکہ انہوں نے وقت کو اپنی عبث کاریوں و لغو بیانیوں میں برباد کیا ہوا ہوتا ہے اس لئے رد عمل کے طور پر یہ بھی زمانہ میں ضائع ہوتے رہتے ہیں، ان کی ہار کا سبب اور ناکامی کی وجہ کوئی اور نہیں خود ان کا اتلاف وقت و ضیاعِ زمانۂ فرصت ہوتا ہے، یاد رکھئے! صلاحیتیں ان آلات کی طرح ہیں جن کو درست وقت پر درست طریقہ سے استعمال نہ کیا جائے تو وہ زنگ آلود ہوکر ہمیشہ کے لئے ناقابل استعمال ہوجاتی ہیں، دن و رات میں کسی کے ارادے تصور کی سرحدوں کو پار کرکے حقیقت ِ مجسم بن جاتے ہیں تو کسی کی سوچ صرف سوچ ہی رہ جاتی ہے…
صلاحیتوں کی بربادی بھی اصل میں وقت ہی کی بربادی ہے، وہ جو اپنی پہچان پاکر اپنے تعارف کے حصول اور اپنی صلاحیتوں کی شناخت کے بعد وقت کے درست استعمال میں لگتے ہیں منز ل مقصود خود ان کی منتظر ہوتی ہے، کامیابی ان کے قدموں کے بوسے کے لئے بے تاب اور عروج ان کے جبین کی راہ تکتا ہے، جو وقت کو گنوا دیتے ہیں، مواقع کو پس پشت ڈال دیتے ہیں، مقدر کی جانب سے اشارہ ملنے کے باوجود اپنی سعی کے زور پر اس سے فائدہ نہیں اٹھاتے پھر زوال ان کی تلاش میں ہوتا ہے، بلکہ ایسے افراد کو زوال آتا ہی نہیں، زوال تو ان کو آتا ہے جو کبھی بلندیوں اور رفعتوں پر ہوں ، جنہوں نے کبھی بلندی دیکھی نہ ہو ان کے نیچے اترنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا ، جنہوں نے چلنے کی کوشش ہی نہ کی ہو ان کا گرنا چہ معنی دارد؟
کامیابی کا حصول اور وقت کے اندر ہی اندر کامیابی کا حصول دو مختلف چیزیں ہیں، ایک بڑی تعداد اس فرق سے لا علم ہے یا لاعلمی کا دکھاوا کرتی ہے، وہ بس کام کے ہونے اور نہ ہونے پر نظر رکھتے ہیں کام کے دائرہ وقتِ صحیح میں تکمیل تک پہونچنے پر ان کی نظر نہیں جاتی، کام وقت پر نہ ہوتو اس کا ہونا بھی لغو ہے، مفید تو ذرا سا بھی نہیں اور بسا اوقات مضر و نقصان دہ بھی ہوجاتا ہے، بنا بریں نمازوں کی صرف ادائیگی ہی کافی نہیں بلکہ وقت کے اندر نماز کا ہونا ضروری ہے ، وقت کے نکل جانے کے بعد چاہے آب زمزم سے وضو کرکے خانہ کعبہ میں نماز پڑھی جائے وہ قضا ہی کہلائے گی ادا نہیں ، شریعت کا مزاج تقیید الاحکام مع الاوقات ہے کہ شریعت نے اکثر اوامر و احکام کو وقتِ معین کے ساتھ مقید کیا ہے، حج کا فرض رکن نو ذی الحجہ کو میدان عرفات میں قیام ہے، نو تاریخ کی مغرب کے بعد کوئی عرفات پہونچے تو حج معتبر نہیں، صبح صادق ہونے کے بعد ایک آدھ دانہ بھی کھالے تو روزہ شمار نہیں، بچوں کی تربیت میں ان کی عمروں کا لحاظ کرکے کہا گیا کہ سات سال کے بچے کو نماز کا حکم کرو اور دس سال کا ہوجائے تب بھی نماز کا عادی نہ بنے تو مارو، یہ مخصوص عمر کے حصوں کا تعین بتاتا ہے کہ اس عمر کے گذرنے کے بعد بری عادات پختہ ہوجاتی ہیں اور نصیحت کا خاطر خواہ اثر نہیں ہوتا…
اجتماعی و انفرادی زندگی میں ہمیں وقت کے درست استعمال کا عادی بننا از حد ضروری ہے، وقت کا صحیح استعمال صلاحیتوں کو مرصع کرتا ہے،قابلیت کو مزین کرتا ہے، نئی استعداد کا وجود بھی وقت کا ہی رہین منت ہے، غیر مادری زبان سیکھنی ہو یا مادری زبان کا ماہر بننا ہو، مقتضائے زمانہ لیاقتیں پیدا کرنی ہوں یا معیارِ زمانہ پر کھرا اترنا ہو ، سیادت کے گُر سیکھنے ہوں یا قیادت کے گوہر کو حاصل کرنا ہو، طلاقت لسانی ہو یا اشہبِ قلم کی روانی، مادی ترقی ہو یا روحانی بلندی ، علم کی وسعت ہو کہ عمل کی کثرت سب وقت کے طلب گار ہیں، بنا وقت دیئے مطلوبہ مقاصد کے حصول کی تمنا ؛ بچہ کے چاند مانگنے جیسی تمنا سے بھی زیادہ مضحکہ خیز ہے کہ بچہ تو نادان ہے نہیں جانتا لیکن جو جانکار ایسی تمنائے عبث دل میں رکھے اس کے لئے بیوقوف سے زیادہ کوئی اور لفظ موزوں نہیں…

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
×