سیاسی و سماجیمولانا سید احمد ومیض ندوی

مسلم حکمرانوں کی غیرت ایمانی کہاں گئی؟

مولانا سید احمد ومیض ندوی استاد حدیث دارالعلوم حیدرآباد

غزہ پر اسرائیلی بربریت تسلسل کے ساتھ تین مہینے مکمل ہوچکے ہیں؛ اسرائیل فلسطینیوں کی نسل کشی بلا توقف جاری رکھے ہوئے ہے؛ اسرائیلی درندگی کے نتیجے میں شہید ہونے والے فلسطینیوں کی تعداد 20 ہزار سے متجاوز ہو چکی ہے؛ اور زخمیوں کی تعداد ہزاروں میں ہے؛ جبکہ کئی لاکھ فلسطینی بے گھر ہو کر زیر سماں زندگی گزارنے پر مجبور ہیں؛ جان بحق ہونے والے فلسطینیوں میں بڑی تعداد خواتین اور بچوں کی ہے؛ اسرائیل بغیر کسی وقفے کے مسلسل غزہ کے مختلف علاقوں پر وحشیانہ بمباری کر رہا ہے؛ اور دنیا محض تماشائی بنی ہوئی ہے؛ اقوام متحدہ میں جب بھی اسرائیل کے خلاف سلامتی کونسل میں قرارداد منظور کرانے کی کوششیں ہوتی ہیں؛ امریکہ اسے ویٹو کرتا جاتا ہے؛ امریکی حکمران درندگی اور چنگیزیت کی وہ مثال قائم کر رہے ہیں جس کی دنیا میں نظیر ملنا مشکل ہے؛ امریکہ کی نگاہ میں فلسطینیوں کی حیثیت جانوروں سے بھی گیئ گزری ہے؛ اسرائیل؛ امریکہ اور مغربی اقوام کی ناجائز اولاد ہے؛ جس کی حفاظت کی انہوں نے قسم کھا رکھی ہے؛ آدمی کتنا ہی سنگ دل ہو تڑپتی خواتین اور بلکتے بچوں کو دیکھ کر اس کا دل پسیج جاتا ہے؛ لیکن کیا کیا جائے جانوروں کے حقوق کی دہائی دینے والے ان مغربی حکمرانوں کے سینوں میں اگر دل کی جگہ پتھر ہوں؛ جی ہاں! ایسی بربریت تو دنیا میں کہیں دیکھی نہیں گئی؛ اقوام متحدہ؛ اسرائیل اور امریکہ کے آگے عجز اور بے بسی کی تصویر بنا ہوا ہے؛ اقوام متحدہ کے جنرل سیکرٹری نے اسی صورتحال کے پیش نظر دنیا بھر کی حریت پسند تحریکوں اور آزادی کے علمبرداروں پر واضح کر دیا ہے کہ اب دنیا میں کوئی بین الاقوامی قانون وجود نہیں رکھتا؛ اگر وجود رکھتا ہے تو بس برائے نام ہے؛ انتو نیو گو تریس نے صاف الفاظ میں کہہ دیا ہے کہ سلامتی کونسل غزہ کے معاملے میں مفلوج ہو چکی ہے؛ اور سات اکتوبر سے جاری جنگ کا راستہ نکالنا مشکل ہو گیا ہے؛ ایک فلسطین ہی نہیں افغانستان عراق بوسنیا برما اور دیگر معاملات میں بھی اقوام متحدہ کی کارکردگی یہی رہی ہے؛ اقوام متحدہ اور اس کی سلامتی کونسل صرف ان معاملات میں مستعد نظر آتی ہے جن میں امریکی ایجنڈا ہو؛ مثلا سوڈان میں عیسائی ریاست قائم کرنی ہو؛ یا انڈونیشیا میں مشرقی تیمور کا معاملہ ہو؛ مصر میں فوجی حکومت کو مستحکم کرنا ہو؛ ایسے موقعوں پر اقوام متحدہ فوری حرکت میں آتی ہے؛ اقوام متحدہ کے بے بس جنرل سیکرٹری کا ماتم بجا ہے؛ لیکن کیا انہیں نہیں معلوم کہ سلامتی کونسل کی ہیئت ترکیبی کچھ ایسی بنائی گئی ہے کہ اقوام متحدہ کے دنیا کے 200 ممالک سلامتی کونسل میں کسی بھی ایک رکن کے ویٹو کی وجہ سے امن سے محروم ہو سکتے ہیں؛ غزہ کے ایک ہی مسئلے پر امریکہ نے دو مرتبہ ویٹو کا پاور استعمال کر کے سلامتی کونسل کو کسی بھی قسم کا موثر کردار ادا کرنے سے روک دیا؛ معاملہ صرف غزہ ہی کا نہیں ویٹو پاور کا مطلب یہ ہے کہ اگر سلامتی کونسل کے تمام ممالک ایک مسئلے پر متفق ہوں تو ویٹو پاور رکھنے والا کوئی ایک ملک سب کو غیر موثر بنا سکتا ہے۔
تیسرا مہینہ چل رہا ہے غزہ تباکن اور برباد کرنے والے حملوں کی زد میں ہے ؛ہزاروں لاکھوں بے گھر افراد دشوار ترین حالات میں امن کے سفید جھنڈے لہراتے جو کچھ وہ سمیٹ سکتے تھے اٹھائے گھسیٹتے ہوئے میلوں پیدل چلتے ہوئے کٹے پٹے جسمانی اعضاء کے ساتھ لاشوں کے درمیان سے گزرتے؛ جن کی وہ تدفین سے بھی قاصر ہیں عالمی امداد کے منتظر ہیں؛ اسلام اور مسلمانوں کے صفایا کے خواہشمند ان مغربی ممالک سے کسی رحم کی توقع رکھنا عبث ہے؛ افسوس ان مغربی ملکوں پر نہیں جن کی اسلام کے دشمنی ساتھ روز اول سے ہے؛ افسوس ان مسلم ممالک پر ہے جن کے کانوں پر اب تک جو نہیں رینگ رہی ہے؛ غزہ کے تقریبا ملبے میں تبدیل ہو جانے اور فلسطینیوں کا سب کچھ لٹ جانے کے باوجود مسلم ممالک بے حسی کی دبیز چادر تان کر سوئے ہوئے ہیں؛ کیا ان میں ایمانی غیرت کی ادنی رمق بھی باقی نہیں؟ کیا ان کا احساس مر چکا ہے؟ کیا ان کا ضمیر مردہ ہو چکا ہے؟ کیا انہیں اپنے ایمانی بھائیوں کی چیخیں سنائی نہیں دیتیں ؟کیا غزہ کے معصوم بچوں کا تڑپ تڑپ کر جان دینا ان کی ضمیر کو جنبش نہیں دیتا؟ مسلم حکمرانوں کا اصل المیہ غیرت ایمانی اور حمیت اسلامی کا فقدان ہے؛ حیرت ہے کہ مصر کا صدر سی سی کہتا ہے کہ مصری فوج مصر کی حفاظت کے لیے ہے؛ ادھر پاکستانی آرمی چیف کا کہنا ہے کہ پاکستان کی مسلح افواج کی توجہ مادر وطن کی سرحدوں کے دفاع پر مرکوز ہے؛ جہاں تک سعودی عرب کا تعلق ہے تو وہ ایسے نازک حالات میں بھی اسرائیل سے روابط بڑھانے کے لیے بے چین ہے؛ 57 مسلم ملکوں کی لاکھوں افواج اگر قبلہ اول کو نہیں بچا سکتی اور ان کی نگاہوں کے سامنے فلسطینیوں کی مکمل نسل کشی ہونے لگے تو ایسی افواج کا وجود ہی بے معنی ہے.
موجودہ بے حس مسلم حکمرانوں کو ذرا عباسی دور کے خلیفہ معتصم باللہ کے طرز عمل سے عبرت حاصل کرنا چاہیے کہ اس نے کس طرح ایک مظلوم مسلم باندی کی پکاروا معتصماہ کو سن کر ظالم ملک کی جانب فوج کشی کی تھی؛ اس غیرت مند حکمران کے کردار کو تاریخ نے ہمیشہ کے لیے محفوظ رکھا؛ چنانچہ کتابوں میں اس واقعے کی تفصیل یوں بیان کی گئی ہے:

مشہور عباسی خلیفہ معتصم باللہ کے دربار خلافت میں ایک شخص کھڑا ہوا؛ عرض کیا: امیر المومنین میں عموریہ سےآ رہا ہوں؛ میں نے ایک عجیب منظر دیکھا ہے؛ ایک موٹے عیسائی نے ایک مسلمان لونڈی کے چہرے پر زناٹے دار تھپڑ رسید کیا؛ لونڈی نے بے بسی کے عالم میں آہ بھری اور بے اختیار اس کے منہ سے نکلا :ہائے خلیفہ معتصم؛ تم کہاں ہو؟ اس موٹے عیسائی نے لونڈی کا مذاق اڑاتے ہوئے کہا : معتصم باللہ اس پکار کا کیسے جواب دے سکتا ہے؟ کیا وہ چتکبرے گھوڑے پر سوار ہو کر تیرے پاس آئے گا اور تیری مدد کرے گا؟ پھر اس لونڈی کے رخسار پر کھینچ کر ایک دوسرا تھپڑ رسید کیا جس سے وہ تلملا اٹھی؛ یہ سن کر خلیفہ معتصم باللہ نے اس آدمی سے دریافت کیاکہ عموریہ کس سمت میں ہے؟ اس آدمی نے عموریہ کی سمت اشارہ کر کے بتلایا کہ عموریہ اس طرف ہے؛ خلیفہ معتصم باللہ نے اپنا رخ عموریہ کی طرف موڑا اور کہا تیری آواز پر حاضر ہوں اے لونڈی! معتصم تیری پکار کا جواب دینے آرہا ہے؛ پھر خلیفہ نے عموریہ کے لیے بارہ ہزار چتکبرے گھوڑے تیار کرائے؛ اور ایک لشکر جرار لے کر عموریہ پہنچا اور اس کا محاصرہ کر لیا؛ جب اس محاصرے کی مدت طول پکڑ گئی تو اس نے مشیروں سے مشورہ طلب کیا؛ انہوں نے کہا: ہمارے خیال کے مطابق آپ عموریہ کو انگور اور انجیر پکنے کے زمانے میں ہی فتح کر سکتے ہیں؛ چونکہ اس فصل کے پکنے کے لیے ایک لمبا وقت درکار تھا اس لیے خلیفہ پر یہ مشورہ گراں گزرا ؛خلیفہ اس رات اپنے خاص سپاہیوں کے ہمراہ چپکے چپکے لشکر کے معائنے کے لیے نکلا؛ تاکہ مجاہدین کی باتیں سن سکے کہ اس بارے میں ان کی چہ مگوئیاں کس نتیجے پر پہنچنے والی ہیں؛ خلیفہ کا گزر ایک خیمے کے پاس سے ہوا ؛جس میں ایک لوہار گھوڑوں کی نعلیں تیار کر رہا تھا؛ بھٹی گرم تھی؛ وہ گرم گرم سرخ لوہے کی نعل نکالتا تو اس کے سامنے ایک گنجا اور بد صورت غلام بڑی تیزی سے ہتھوڑا چلاتا جاتا؛ لوہار بڑی مہارت سے نعل کو الٹتا پلٹتا؛ اور اسے پانی سے بھرے برتن میں ڈالتا جاتا؛ اچانک غلام نے بڑے زور سے ہتھوڑا مارا اور کہنے لگا فی رأس المعتصم ؛ یہ معتصم کے سر پر؛ لوہار نے غلام سے کہا تم نے بڑا برا کلمہ کہا ہے؛ اپنی اوقات میں رہو؛ تمہیں اس بات کا کوئی حق نہیں کہ خلیفہ کے بارے میں ایسا کلمہ کہو؛ غلام کہنے لگا: تمہاری بات بالکل درست ہے؛ مگر ہمارا خلیفہ بالکل عقل کا کورا ہے؛ اس کے پاس اتنی فوج ہے؛ تمام تر قوت اور طاقت ہونے کے باوجود حملے میں تاخیر کرنا کسی صورت مناسب نہیں؛ اللہ کی قسم اگر خلیفہ مجھے یہ ذمہ داری سونپ دیتا تو میں کل کا دن عموریہ شہر میں گزارتا؛
لوہار اور اس کے غلام کا یہ کلام سن کر خلیفہ معتصم باللہ کو بڑا تعجب ہوا؛ پھر اس نے چند سپاہیوں کو اس خیمے پر نظر رکھنے کا حکم دیا اور اپنے خیمے کی طرف واپس ہو گیا؛ صبح ہوئی تو ان سپاہیوں نے اس ہتھوڑے مارنے والے غلام کو خلیفہ معتصم باللہ کی خدمت میں حاضر کیا؛ خلیفہ نے پوچھا: رات جو باتیں میں نے سنی ہیں؛ ان باتوں کے کرنے کی تمہیں جرات کیسے ہوئی؟ غلام نے جواب دیا: آپ نے جو کچھ سنا ہے وہ سچ ہے؛ اگر آپ جنگ میں مجھے کمانڈر بنا دیں تو مجھے امید ہے کہ اللہ تعالی عموریہ کو میرے ہاتھوں فتح کروا دے گا؛ خلیفہ نے کہا: جاؤ میں نے فوج کی کمان تمہیں سونپ دی؛ پھر معتصم باللہ شہر کے اندر داخل ہوا؛ اس نے فورا اس آدمی کو تلاش کیا جو لونڈی کے متعلق اس کے دربار تک شکایت اور پیغام لے گیا تھا؛ اور اس سے فرمایا: جہاں تو نے اس لونڈی کو دیکھا تھا وہاں مجھے لے چلو! وہ آدمی خلیفہ کو وہاں لے گیا؛ اور لونڈی کو اسنے اس کے گھر سے بلا کر خلیفہ کی خدمت میں حاضر کیا؛ اس وقت خلیفہ نے لونڈی سے کہا: لڑکی! بتا معتصم تیری مدد کو پہنچا یا نہیں؟ اس لڑکی نے اثبات میں اپنا سر ہلا دیا؛ اور اب تلاش اس موٹے عیسائی کی ہوئی؛ جس نے اس لڑکی کو تھپڑ رسید کیا تھا؛ اس کو پکڑ کر لایا گیا؛ اور اس لڑکی سے کہا گیا کہ آج وقت ہے تم اس سے اپنا بدلہ لے لو. (محاضرات الابرار ٦٣/٢ قصص العرب٤٤٩/٣)
آج فلسطینی ماؤں اور بہنوں کے لئے ایک معتصم کی ضرورت ہے آج غزہ سے وامعتصماہ کی دلدوز صدایئں آرہی ہیں؛ اسرائیل درندے کے ظلم کی تاب نہ لاکر فلسطینی بچے دم توڑ رہے ہیں مگر کوئ معتصم نہیں
عرب حکمرانو! ذرا سوچو فلسطینی ماں بیٹیوں کی آہیں اور آنسو رایگاں نہیں جاییں گے یہ آنسوں کہیں تمہارے اقتدار کو نہ لے ڈوبیں جس اقتدار کی محبت میں تم اپنے ایمانی بھائیوں اور بہنوں کو بے یار و مددگار دشمن کے رحم و کرم پر چھوڑ رہے ہو وہی دشمن اخر تمہارا بھی صفایا کرے گا اسرائیل گریٹر اسرائیل کا نعرہ لگاتا رہا ہے کیا تمہیں نہیں پتہ کہ اسرائیل کی پارلیمنٹ میں صاف طور پر لکھا ہےکہ عظیم تر اسرائیل کے حدود دریائے نیل سے دریائے فرات تک ہیں۔اگر تم نے ابھی سے ہوش کے ناخن نہیں لیے تو کچھ بعید نہیں کہ کل کو تمہاری مملکتیں بھی دشمن کی زد میں آ جائیں کیا تم نے نہیں دیکھا کہ کس طرح اج پوری مغربی دنیا ظالم اسرائیل کے ساتھ کھڑی ہے مذہبی تنوع کے باوجود اج پورا یورپ اسرائیل کے ساتھ شانہ بشانہ ہے افسوس تم پر ہے کہ تمہارا دین تو عالمگیر اخوت سکھاتا ہے تمہارے نبی نے تو پوری امت مسلمہ کو ایک جسم کی طرح قرار دیا جس کے کسی ایک عضو کو تکلیف پہنچتی ہے تو سارا جسم درد محسوس کرتا ہے کیا فلسطین امت واحدہ کے جسم کا حصہ نہیں ہے؟ کیا مسجد اقصی مسلمانوں کا قبلہ اول نہیں ہے؟اور کیا قبلہ اول کی آزادی ساری امت کی مشترکہ ذمہ داری نہیں ہے؟آخر کب تک غزہ میں جاری بربریت پر مجرمانہ خاموشی اختیار کرو گے؟کیا غزہ کی بیٹیاں تمہاری بیٹیاں نہیں ہیں؟ کیا غزہ میں شہید ہونے والے معصوم تمہارے بیٹے نہیں ہیں؟اج پوری دنیا تمہاری خاموشی پر ہنس رہی ہے؛ اور یہ شور مچایا جا رہا ہے کہ فلسطینی مسلمانوں کا کوئی مددگار نہیں ہے؛ خدارا خواب غفلت سے بیدار ہو جاؤ دنیا کی طاقتوں سے خوف کھانے کے بجائے ایک خدا پر توکل کرتے ہوئے اپنے ایمانی بھائیوں کی مدد کے لیے آگےآؤ ورنہ تاریخ تمہیں معاف نہیں کرےگی ۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
×