زرعی قوانین پر سپریم کورٹ کا عبوری فیصلہ خوش آئند مگر یہ مستقل حل نہیں ہے
نئی دہلی: 13؍جنوری (پریس ریلیز) ویلفیئر پارٹی آف انڈیا کے قومی صدر ڈاکٹر سید قاسم رسول الیاس نے ایک پریس بیان میں کہا کہ اپنے عبوری فیصلہ میں سپریم کورٹ نے تینوں زرعی قوانین کو وقتی طور پر معطل کر دیا ہے،یہ ایک اچھا قدم ہے جس سے وہ تعطل خم ہو گیا جو حکومت اور کسانوں کی متعدد میٹنگوں کے بعد بھی کسی نتیجہ تک نہ پہنچنے کی وجہ سے پیدا ہوا تھا لیکن یہ ایک عارضی راحت ہے۔
انہوں نے چیف جسٹس آف انڈیا کی کسانوں کی حق میں کی گئی رائے زنی کہ کسان اپنے جائز حق کے لیے احتجاج کر نے کا پورا دستوری حق رکھتے ہیں کی ستائش کی تاہم کہا کہ صرف زبانی اظہارِ خیال جس کی پشت پر کوئی مثبت اقدام نہ ہو لا حاصل ہے۔
ڈاکٹر الیاس نے شدید نکتہ چینی کر تے ہوئے کہا کہ عدالت عظمیٰ نے کمیٹی قائم کر تے وقت کسانوں سے کوئی مشورہ نہیں کیا اور ایسے افراد کو اس میں نامزد کر دیا جو سب کے سب نہ صرف زرعی قوانین کے حامی ہیں بلکہ کسانوں کے اس احتجاج کے بھی سخت ناقد ہیں۔ انہوں نے مطالبہ کیا کہ عدالت اس کمیٹی کو معطل کرے اور ایسے افراد کو اس میں نامزد کرے جو بے داغ کر دار کے مالک اور معتدل ہوں اور جن سے انصاف کی توقع کی جا سکتی ہو۔
ڈاکٹر الیاس نے کہا کہ سپریم کورٹ حکومت کے کسی بھی قانون کو معطل کر سکتا ہے ۱۔ اگر وہ قانون پارلیمانی اصول وضوابط کے خلاف منظور کیا گیا ہو
۲۔اگروہ بنیادی حقوق کو پامال کر رہا ہو ۳۔ اگر وہ قانون دستور ہند کی شقوں سے متصادم ہو
یہ تینوں زرعی قوانین مذکورہ بالا ضوابط کے خلاف ہیں۔لیکن ہمیں یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ اگر کوئی قانون ملک کی پارلیمنٹ سے منظور ہو تو اس کو کالعدم قرار دینے کا اختیار بھی پارلیمنٹ کے پاس ہی ہو تا ہے۔جو اسے معطل کر کے دوسرا قانون بنا سکتی ہے۔ البتہ عدالت عظمیٰ کسی قانون کو خلاف دستور قرار دے سکتی ہے۔
ڈاکٹر الیاس نے عدالت عظمیٰ سے اپیل کی وہ دستور ہند کا محافظ ہے لہذا اس موقعہ پر اسے اپنی ذمہ داری ادا کر تے ہوئے حکومت کو ہدایت دینی چاہیے کہ وہ غیر جمہوری اور پارلیمانی روایتوں اور اصول و ضبوابط کے خلاف منظور کئے گئے ان تینوں قوانین کو منسوخ کرے۔