سیاسی و سماجی

ویلن ٹائن ڈے: مشرقی تہذیب کی پیشانی پر ایک بدنما داغ

 آج ایک ایسے دور میں جب کہ دنیا کی تقریباً ساری قوتیں قوم مسلم کی بیخ کنی پر تلی ہوئی ہو، امت مسلمہ کا خواب خرگوش میں پڑے رہنے کا عمل واقعی قابل افسوس ہے. دشمن عناصر آج اسلام کے خلاف طرح طرح کے زہریلے نصاب کی تکمیل میں مصروف ہیں. مختلف طریقوں، جہتوں، رویوں اور آلہ کار کے ذریعے مسلمانوں کی آبادی پر شب خوں مارنے کے تاک میں گھات لگائے بیٹھے ہیں. آپ ذرا اپنے نشیمن سے چند لمحوں کی خیرات لے کر آبادی میں قدم رکھیں تو شاید اس حقیقت کا سراغ لگ سکے کہ وہ ہمارے چاروں طرف بڑی چابک دستی سے اپنا حصار قائم کیے ہوئے ہیں. دور حاضر کے مطابق مغربی تہذیب و تمدن سے رنگ و آہنگ بےشمار چیزیں ہمارے ارد گرد پھیلا دی گئی ہیں کہ ہم ناچاہتے ہوئے بھی کسی طرح اس کے اسیر ہو جائیں. روز مرہ کی زندگی میں بھی آج ہم ایسی بےشمار چیزیں استعمال کرتے ہیں جو انھیں کا پروڈکٹ ہوتا ہے. انھیں کی کمپنیوں سے وہ مال تیار کیے جاتے ہیں اور اس کے بدولت آج وہ ہمارے ہی ذریعہ مال دولت کی اجتماع سے خود ہمارے ہی خلاف خفیہ پلاننگ کی تکمیل کرنے پر مصر ہیں. جسے شاید وقت آنے پر بڑی تیزی سے اسعمال کر لیا جائے گا.
            ہاں! ہماری بدقسمتی بھی تو دیکھیے کہ یہ مغربی تہذیب اسلامی روش اور شرعی پیمانہ کے سراسر مخالف و متصادم ہونے کہ باوجود بھی مسلم معاشرے ہی میں زیادہ فروغ پا رہا ہے. نئی نسل اس کے اس طرح دیوانے اور مجنوں ہوتے چلے جا رہے ہیں کہ اسے بغیر اس کی اقتدا کے دل ہی نہیں لگتا. آج معاشرے میں تقریبا ہر عمر کے لوگ کسی نہ کسی طرح مغربی تہذیب و کلچر کی اقتدا کر رہے ہیں. اگر بات کریں نوجوان نسل کی تو اس کی بات ہی درکنار ہے. کھانے پینے، چلنے پھرنے، سونے جاگنے، بیٹھنے اٹھنے، بولنے کھیلنے اور دوڑنے دھوپنے غرض کہ ہر شعبہ حیات میں مغربی تہذیب ہی کو اکثر و بیشتر ترجیح دیتے ہیں. اگر آپ غلطی سے ایسے موقعوں پر اس قسم کے لوگوں کو اسلامی تعلیمات سے آگاہ کرنے کی کوشش بھی کریں تو شاید آپ ہی کو ڈانٹ کھانی پڑ جائے. جی! یہ میں کوئی افسانہ یہ خیالی و فرضی داستان لیے نہیں بیٹھا ہوں کہ آپ کو تخیلاتی دنیا کی سیر و تفریح کرا سکوں. نہیں بلکل نہیں؛ بلکہ یہ تو عین حقیقت ہے. ابھی کچھ دنوں پہلے کی بات ہے. کسی کام سے ایک جگہ جانا ہوا. وہاں پہنچ کر جب میں اپنے ضروریات سے فارغ ہو گیا اور چند دنوں کے بعد واپسی کی تیاری کرنے لگا تو پڑوس ہی میں ایک شخص رہا کرتا تھا. جو بلکل نوجوان اور گورا نارا تھا. ویسے تو دیکھنے میں مجھے کسی بھی اینگل سے مسلمان نہیں لگ رہا تھا لیکن شناسائی اور استفسار کے بعد اتفاقاً یہ معلوم ہوا کہ یہ بندہ  مسلمان ہی ہے. اور کلمہ توحید ہی کی ورد کرنے والوں کی آبادی سے تعلق بھی رکھتا ہے. یہ صاحب جنس اور پینٹ میں ملبوس تھے. لیکن جناب نے  سخت کڑاکے کی ٹھنڈی میں جو جوتا پہن رکھا تھا وہ موزے سے بلکل آری تھا. اچانک جب میری نظر اس کے پاؤں پر پڑی تو میں کچھ جھجھک سا گیا کہ یا اللہ! جناب عالی تو کسی بھی طرح سے غریب طبقوں سے بیلانگ رکھنے والا نہیں لگ رہا ہے. پھر بھی اس نے جوتا، اور خوبصورت و قیمتی سرٹ کے ساتھ ساتھ موزہ کیوں نہیں پہنا ہوا ہے؟ ذہن میں یہ سوال تھا جو اندر ہی اندر ادنی سی سوچ کی تری پر سوالات کی محل تعمیر کرتا چلا جا رہا تھا. دل میں خیال آتا کہ اس کے متعلق میں ان سے کچھ دریافت کروں کہ آخر ماجرا کیا ہے؟ لیکن پھر کچھ لمحے بعد ہی ساری ہمتیں کافور ہو جاتیں کہ آخر پوچھوں تو پوچھوں کیسے؟ بالآخر نا چاہتے ہوئے بھی میں اس کے متعلق سوال کر ہی بیٹھا.اور پھر ایک لمحہ کے لئے ساکت ہو گیا. میرا یہ سوال سن کر جناب نے ہلکی سی مسکان بھری اور لجاتے ہوئی ایک عجیب انداز میں جواب دیا. جواب کیا تھا. بلکل دل دہلا دینے والا. وہ بولا بھائی! موزہ اس لیے نہیں پہنا ہوں کہ آج کل یہ فیشن چلا ہوا ہے کہ لوگ بغیر موزہ کے جوتا پہنتے ہیں. اسی لیے میں نے بھی اسی کو اپنایا ہے اور ٹھنڈی کی فکر کیے بغیر صرف جوتا پر اکتفا کیا ہوں. اور کوئی بات نہیں ہے.
          محترم قارئین! شاید آپ اب اس واقعہ کی روشنی میں اس حقیقت سے بلکل آشنا ہو چکے ہوں گے کہ ہماری نسل نو پر اقتدائے مغرب کا کیا خمار چھایا ہوا ہے. اگر آپ جاننے کی کوشش کریں تو اس نوعیت کے ایک دو نہیں بلکہ معاشرے میں ہزاروں واقعات مل جائیں گے. جو اسلامی تعلیمات کی اگر ایک طرف اہمیت و افادیت کو کمزور کرتے ہیں تو وہیں دوسری جانب مغربی تہذیب و کلچر کے فروغ کا زبردست ذریعہ بھی. ابھی اسی ماہ میں آپ ١٤، فروری کو "ویلنٹائن ڈے” کے دن دیکھیں گے کہ لوگ کس طرح فحاشیوں اور عریانیت کے ننگا ناچ کرتے ہیں. کس طرح اخلاق و کردار اور ادب و احترام کی ساری حدیں پار کرتے ہوئے اسلامی تعلیمات کو پس پشت ڈالنے کی کوشش کرتے ہیں. سرخ گلاب کا یہ دلدادہ اپنے محبوبہ اور معشوقہ سے ملاقات کے نام پر انسانیت کی ساری دیواریں منہدم کرتے ہوئے نظر آتے ہیں. تاریخی اوراق اگر پلٹئے تو معلوم ہو گا کہ یہ کلچر بھی مغربی ممالک کی بہترین چالاکی کی صورت میں ہمارے معاشرے پر پھیلا دیا گیا ہے. تا کہ ہمارے مسلم نوجوانوں کو اپنے دنیاوی محبوباؤں سے ملنے کے نام پر ارتکاب برائ و عریانیت کا ایک لمحہ میسر آ سکے اور وہ اس طرح اسلامی تعلیمات سے کوسوں دور ہوتا چلا جائے. مختلف حقائق و شواہد سے پتہ چلتا ہے کہ کسی زمانے میں ویلنٹائن نامی ایک شخص رہتا تھا. یہ شخص پادری تھا. اسی دور میں اسے ایک راہبہ سے عشق ہو گیا تھا. لیکن مشکل یہ تھا کہ عیسائیت میں راہب و راہبہ کا عشق و مستی کرنا اور پھر شادی رچا لینا جائز نہیں ہے. اس لیے یہ دونوں اپنے مذہبی قوانین کی رو سے ایک دوسرے سے ملاقات سے بلکل عاجز تھے. اچانک ایک دن راہب "ویلنٹائن” کو ایک ترتیب سوجھی. اس نے اپنے محبوبہ کو یہ کہلا بھیجا کہ اگر وہ دونوں ١٤،فروری کو ایک دوسرے سے ملتے ہیں اور کچھ کرتے ہیں تو اس میں کچھ بھی حرج نہیں ہے اور نا ہی مذہب کی رو سے اس پر کوئی عتاب نازل ہوگا. یہ ترکیب ان دونوں کے دماغ میں رچ بس گئ اور دونوں نے اس رات ایک ملاقات کے نام پر وہ کارنامے انجام دیے جو نام نہاد عشق و محبت اور آوارہ گردی کے نام پر اکثر انجام دیا جاتا ہے. جب یہ بات دوسروں کو معلوم ہوئی تو ان لوگوں نے ویلنٹائن کو قتل کر دیا. اور پھر تب جا کر اسی دن سے عشاق حضرات اس کے نام پر ویلنٹائن ڈے منانے کی جانب گامزن ہو گیے اور دھیرے دھیرے یہ سلسلہ اتنا زور پکڑ گیا کہ آج اس خبیث رسم کی چیٹ میں بےشمار مسلم معاشرہ بھی آ گیا ہے.
        اس دن ہوتا کیا ہے؟ نوجوان اپنے محبوبہ کو اور محبوبہ و معشوقہ اپنے عاشق دھتورا کو پھولوں کا گفٹ پیش کرتے ہیں. شراب خانوں، تھئٹھر، اور قمار خانے بھرے پڑے ہوتے ہیں. شراب نوشی سر عام انجام دی جاتی ہے. خوب خوب عشق و سرمستی کا کھیل کھیلا جاتا ہے. لڑکے اور لڑکیاں ایک دوسرے کو بطور تحفہ عید کارڈ پیش کرتے ہیں. بازاروں اور مارکیٹوں میں پھولوں خاص کر سرخ گلاب کی قیمت تو آسمان چھونے لگتی ہے. ہاں! یہ بات بھی یاد رکھیں کہ اس دن کو چوتھی صدی عیسوی تک بطور تعزیت کے منایا جاتا تھا لیکن دھیرے دھیرے یہ مغربی تہذیب کی کرم فرمائی ہی کہئے کہ یہ دن عاشق و معشوق کے ملن کے طور پر منایا جانے لگا. اور پھر اس بری رسم اور غلط کلچر نے اس قدر عروج پایا کہ دیکھتے ہی دیکھتے مسلم ذہن و دماغ کو بھی اپنا اسیر بنا لیا. آج شاید ہی کچھ ایسے افراد ہوں جو اس حرکت قبیح کے ارتکاب سے اجتناب کرتا ہو. دوسروں کو بھی اس سے بچنے کی نصیحتیں کرتا ہو اور وقت آنے پر کچھ قربانی پیش کرکے اپنے اسلامی بھائیوں کو اس سے بچانے کی سعی پیہم کرتا ہو.ورنہ تو اکثر و بیشتر افراد خاص کر نوجوان طبقہ اس کے مکمل طور پر اسیر ہو چکے ہیں. وقت سے پہلے ہی اس کے لیے بڑے جوش و خروش کے ساتھ تیاریاں کی جاتی ہیں. ایک دوسرے سے بڑی فراخ دلی اور اس طرح مسرت و شادمانی سے اس کا تذکرہ کرتے ہیں کہ جیسے مانو وہ کوئی ثواب کا کام کر رہا ہو. چند دنوں پہلے سے ہی پھولوں اور قیمتی تحفوں کی خریداری کیاہمیں اس بات سے روشناس نہیں کراتا کہ آج ہم نے اسے اپنے اسلامی تہوار سے بھی زیادہ اہمیت دے رکھا ہے.حالانکہ یہ حقیقت بلکل جگ ظاہر ہے کہ یہ ویلنٹائن ڈے اسلامی تعلیمات اور شرعی قوانین کے سراسر مخالف و متصادم ہے. جو ہمیں اسلامی روش سے ہر آئے دن بلکل دور کرتے چلے جا رہے ہیں. اسلام میں تو کسی غیر محرم سے ملنے، اس سے سلام و کلام اور گفت و شنید کو بڑے زوردار اور بھرپور تنبیہ بھرے لہجے میں ممنوع قرار دیا گیا ہے. کہ غیر محرموں سے ملنا جلنا منع ہے. پھر بھی ہم یہ سب جانتے اور سمجھتے ہوئے ویلنٹائن ڈے کے دن ایک غیر محرم سے ملنے آبادی سے نکل کر کسی سنسان مقام پر منتقل ہو جاتے ہیں کہ کہیں کوئی ہمیں دیکھ نا لیں اور پھر سماج میں ہماری عزت و احترام بلکل  نیلام نا ہو جائے. واقعی آج ہمارا مادیت گزیدہ نوجوان طبقہ اپنے ہر عمل اور قول و فعل میں مغربی تہذیب و کلچر کو اپنانے کی کوشش کرتا ہے کہ ہم فیشن سے قریب ہو جائیں اور لوگ ہمیں عزت کی نگاہ سے دیکھیں. مجھے تو لگتا ہے کہ مسلم نوجوانوں کی مغرب سے اسی دیوانگی اور آوارگی جو دیکھ کر علامہ اقبال نے یہ بامعنی اور قیمتی شعر کہا تھا کہ؀
        پیغام یہ دیتا ہے ہمیں ہر شام کا سورج
      مغرب کی طرف جاؤ گے تو ڈوب جاؤ گے
        واقعی آج ایسے بھیانک وقت میں سماج و معاشرے میں زندگی گزار رہے سنجیدہ فہم اور ذی علم حضرات کی یہ بھرپور ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ اپنے بچوں کی اخلاقی ،تہذیبی اور اسلامی تربیت ایک ایسے اچھوتے انداز پر کریں، جو اسے مستقبل میں ان سارے غلط رسومات سے بچا کر ترقیوں کی راہ پر گامزن کر سکے اور اسلامی تعلیمات سے بہکنے و بگڑنے نا دے. جی! والدین کی تو کچھ زیادہ ہی ذمہ داری بنتی ہے . انھیں چاہیے کی وہ اپنے بچوں پر خاص کر اس دن تو بڑی کڑی نظر رکھیں کہ وہ کیا کرتا ہے، کہاں جاتا ہے، کس سے تعلق قائم کرتا ہے اور کیسے اعمال انجام دیتا ہے؟ یاد رکھیں! اگر ہم خود ہی اپنے بچوں پر نظر نہیں رکھیں گے، اس کے اچھے برے کا انتخاب کر کے بھلائیوں کی طرف گامزن نہیں کریں گے تو پھر اس مطلب پرستی کے دور میں یہ سب کون کرے گا. ہو سکے تو اس دن انھیں اپنے ساتھ رکھیں یا کہیں کسی دوسرے مقدس یا تاریخ مقام پر سیر و تفریح کے لیے لیں جائیں کہ اس سے اس کا دل بھی بہل جائے گا اور اس فعل قبیح کے ارتکاب سے محفوظ بھی رہے گا. انھیں اسلامی تعلیمات اور شرعی قوانین سے باخبر کریں. ویلنٹائن ڈے کی حقیقت سے پردہ اٹھائیں کہ اس کی بنیاد بلکل فحاشی و عریانیت پر قائم ہے. علما و قائدین کو تو چاہیے کہ وہ اس دن کوئی اسلامی نشست رکھیں جو نسل نو کی دلچسپی سے متعلق ہو اور پھر انھیں شریک کر کے مفید معلومات فراہم کی جائے. ہمارے اس عمل سے جہاں ہمارا بچہ اور قوم کا لب لباب فحاشیوں کے ارتکاب سے مامون رہے گا وہیں دوسری طرف اسلامی روایات اور تہذیب و تمدن کا زبردست فروغ بھی ہوگا.
       اللہ کے رسول صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے ایک موقع پر ارشاد فرمایا تھا کہ "اگر تجھ سے حیا نکل جائے تو جو چاہے کر” اسی طرح ایک اور موقع پر ارشاد فرمایا کہ "حیا ایمان کے شعبے میں سے ایک شعبہ ہے”. اب بھلا بتائیں کہ یہاں پر رسول گرامی وقار نے حیا کو تو ایمان کا شعبہ قرار دیا ہیں، مگر آج ایک ہم ہیں کہ (دین اسلام کے ماننے والے)  یہ اقوال رسول سامنے ہوتے ہوئے بھی برائیوں اور فحاشیوں کے ارتکاب میں پیچھے نہیں رہتے. آج ویلنٹائن ڈے کے نام پر یہی سب تو ہوتا ہے. ایک دوسرے سے عشق و مستی کی باتیں کرتے ہیں، غیر محرموں سے ملتے ہیں اور اس طرح بےحیائی کا بازار گرم کرتے ہیں کہ جسے دیکھ کر خود ایک سنجیدہ انسان کا نفس اسے ملامت کرنے لگ جائے. بھلا ہو ہندوستانی تہذیب و تمدن کی کہ یہاں کی ثقافت آج بھی بغیر نکاح کے لڑکے اور لڑکیوں کے ملنے اور اس سے بناوٹی و جھوٹی محبت کا کھیل کھیلنے کو برا جانتے ہیں. یہ بات بلکل درست ہے کہ آج ہماری ذمہ داریوں میں مزید اضافہ ہو گیا ہے کہ ہم اس طرح کے قیمتی اقوال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اپنے مسلمان بھائیوں کو آگاہ کریں، بےحیائی، عریانیت اور فحاشیوں کے برے انجام سے انھیں خوف دلائیں اور شریعت اسلامیہ کی راہ پر چل کر دارین کی ساری فوز و فلاح سے شادکام ہونے کے عمدہ طریقوں سے بھی باخبر کریں. تمام لوگ اپنے اپنے معاشرے ہی میں یہ کام کر کے دیکھیں اور اگر ایک پورا سماج آپ سے نہیں ہو پا رہا ہے تو صرف اور صرف گھر اور خاندان ہی تک اپنی اس کوشش کو محدود رکھیں،انشاء اللہ ایک نا ایک دن خوشگوار نتائج ضرور سامنے آئیں گے اور پھر اس طرح سے جہاں مغربی تہذیب و تمدن کی آوارگی کا نشہ ہمارے نوجوان نسل کے ذہن و دماغ سے ہمیشہ ہمیش کے لیے نکل جائے گا وہیں ہمارا معاشرہ بلکل اسلامی کلچر میں رنگ کر امن و آشتی، سلم و سلامتی، اخوت و بھائی چارگی اور ہدایت و رہنمائی کا ایک ایسا خوبصورت گہوارہ بھی بن جائے گا جو ہر لمحہ پھولتا، پھیلتا اور پھلتا ہی رہے۔انشاءاللہ

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
×