سیاسی و سماجی

سارے جہاں کی خبر، اپنے جہاں سے بے خبر

سابق صدر جمہوریہ ہند ڈاکٹر ذاکر حسین کہتے ہیں کہ جب انہیں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کا وائس چانسلر بنایا گیا تو یونیورسٹی ہی کے کچھ افراد بغرضِ ملاقات ان کے پاس تشریف لائے اور کہا کہ : یونیورسٹی میں میں کام کرنے والے کچھ لوگ تعصب پسند اور فرقہ پرست ہیں، وہ یونیورسٹی کا بُرا چاہتے ہیں، اس کی شہرت اور نیک نامی کا بٹہ لگانے کے درپے ہیں، اگر ہم انہیں یونیورسٹی سے بھگادیں تو یہاں کا ماحول بہتر ہوسکتا ہے، چنانچہ ڈاکٹر صاحب نے ان سے کہا کہ آپ ایسے لوگوں کی ایک فہرست تیار کرکے ہمیں دیں!

اس واقعہ کے بعد یونیورسٹی ہی کے کچھ لوگوں کی ایک اور جماعت نے ڈاکٹر صاحب سے ملاقات کی اور کہا کہ : یونیورسٹی کے بہت سے اساتذہ کمیونسٹ ہیں، بہت سے ملحدانہ نظریات رکھتے ہیں، اگر یونیورسٹی سے آپ ان کی چھٹی کردیتے ہیں تو یہاں کا ماحول اور یہاں کی فضا مزید بہتر ہوسکتی ہے، چنانچہ ڈاکٹر صاحب نے اِن لوگوں سے بھی یہی کہا کہ آپ ایسے لوگوں کی ایک فہرست تیار کرکے ہمیں پیش کریں!

ان دونوں واقعات کے بعد دونوں جماعتوں نے اپنی اپنی فہرست تیار کرکے ڈاکٹر ذاکر حسین صاحب کی خدمت میں پیش کردیا، دونوں فہرستوں میں دو دو سو (مجموعی طور پر چار سو) لوگوں کے نام درج تھے، جبکہ اُس وقت یونیورسٹی کے اساتذہ و مدرسین کی کُل تعداد ٣٠٠/ تھی، چنانچہ ڈاکٹر صاحب نے ان لوگوں سے کہا کہ : میرے لیے یہ کیسے ممکن ہے کہ میں تین سو لوگوں میں سے چار سو لوگوں کو بھگادوں اور ان کی چھٹی کردوں؟

جب دونوں فہرستوں کا موازنہ کیا گیا تو پتہ چلا کہ تقریباً پچاس نام ایسے ہیں جو دونوں فہرستوں میں مشترک ہیں، ڈاکٹر صاحب نے ان لوگوں سے کہا : مجھے ذرا یہ بتلائیے کہ اگر میں ( آپ لوگوں کی بات پر عمل کرتے ہوئے) ان تمام لوگوں کو بھگادوں تو طلبہ کو تعلیم کون دے گا؟

یہ واقعہ ہماری امت کی اخلاقی صورتِ حال کا عکاس ہے، آج کے مسلمان دوسروں کی بابت غور وفکر کرنے اور دوسروں کے بارے سوچنے کے حوالے سے ایک ہیرو کا ادا کرتے ہیں، کوئی بھی شخص خود اپنی ذات کے بارے میں غور وفکر کرنا نہیں چاہتا، ہر ایک کے پاس مجرم اور قصور وار افراد کی ایک لمبی فہرست ہوتی ہے؛ جبکہ کوئی بھی آدمی اپنے جرائم اور اپنے انحرافات کی کوئی فہرست تیار ہی نہیں کرتا.

جس قوم کے افراد کا مزاج محاسبہ ذات ہوتا ہے، اس کے احوال صحیح سالم رہتے ہیں.

جس قوم کے افراد کا مزاج محاسبہ غیر (دوسروں کا محاسبہ) ہوتا ہے اس کی حالت، زوال کا شکار ہوجاتی ہے اور وہ اپنی نافعیت کھودیتی ہے.

اپنی ذات کا محاسبہ، دین اور دنیا دونوں کے لیے نافع ہے.
دوسروں کا محاسبہ، دین اور دنیا دونوں کو نقصان پہنچاتا ہے.

(یہ نیٹ سے حاصل شدہ ایک عربی کتاب کے مضمون کا ترجمہ ہے، کتاب اور مصنف دونوں کا نام درج نہیں ہے، البتہ کتاب تین ابواب پر مشتمل ہے، یہ مضمون پہلے باب کا حصہ ہے.)

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
×