سیاسی و سماجی

آیاصوفیہ کی بابت،ترکی کا حالیہ تنازعہ

آیاصوفیہ، جسے تاریخ میں، حاجیہ صوفیہ،اور آیا صوفیہ کے نام سے بھی جانا جاتاہے، یہ ترکی کے دارالسلطنت اور دنیا کے عظیم الشان شہروں میں شامل  شہر استنبول، کی سب سے قدیم اور تاریخی عمارت ہے، جو آج کے دور میں ایک عظیم عجائب گھر یعنی (Museum) ہے؛ لیکن عیسائی اسے کلیسا (Church) اور مسلمان مسجد کہتے ہیں، جسکی بابت استبول کی ایک عدالت میں حجت جاری ہےکہ آیا وہ عجائب گھر ہی رہے گا کہ کلیسا یا پھر مسجد؟ عدالت نے آج، فیصلہ پندرہ دن مؤخر کردیا ہے، اب عدالت کیا فیصلہ کرتی ہے؟ اس سے قطع نظر،مناسب سمجھتا ہوں، کہ ہاجیہ صوفیہ کی مختصر تاریخ پیش کردوں، تاکہ ہماری نوجوان نسل،اس تاریخی عمارت سے واقف ہوسکے کہ آخر وہ ہے کس کی؟ اور آج اس پر کسکا حق ہے؟ اسلئے کہ ہماری نوجوان نسل اپنی تاریخ سمجھنے کےلئے، کتابیں کم پڑھتی ہے، سیریل زیادہ دیکھتی ہے؛
_______________________________
آیا صوفیا کی عمارت 532 عیسوی سے 537 عیسوی کے درمیان گرجا گھر کے طور پر، بادشاہ جسٹینین کے دور میں تعمیر کی گئی، یہ بازنطینی سلطنت کی سب سے اہم تعمیر قرار دی جاتی ہے، (بازنطینی سلطنت یہ عیسائیوں کی قدیم اور سب سے طاقت ورسلطنت تھی جسے عثمانیوں نے ختم کیاتھا)
9/ مئ 1453ء کو سلطنت عثمانیہ کے سب سے عظیم خلیفہ حضرت سلطان محمد فاتح نے جب قسطنطنیہ  فتح کیا، تو اس عظیم صنم خانہ میں داخل ہوکر حضرت عیسیؑ اور انکی والدہ کے تمام مورتیاں توڑ ڈالی، پھر اسے پانی سے دھلوایا اور مجاہدین کےساتھ دو رکعت نماز ادا کی، اسکے بعد وہ کلیسا ایک مسجد میں تبدیل کردیا گیا، اب کسی کو اعتراض ہوسکتا ہے کہ ایک کلیسا کو مسجد میں تبدیل کیوں کیا گیا؟ معترض کو پہلے اس زمانہ کا آئین معلوم کرنا چاہئے، جس زمانہ میں کلیسا کو مسجد میں بدلا گیا، اس زمانے کا یہ قانون تھا کہ جب جنگ لڑ کر کوئی ملک فتح کیا جاتا، تو وہ مفتوح ملک اور ملک کی ساری زمین فاتح قوم کی ملکیت ہوتی تھی، یہ قانون صرف اسلام کا نہیں بلکہ ساری دنیا کا تھا، لیکن سلطان محمد فاتحؒ نے سواۓ ہاجیہ صوفیہ کے اور کسی کلیسا کو ہاتھ نہیں لگیا، بلکہ انہیں انکی اصلیت پر چھوڑ دیا، اور اعلان کردیا کہ جو بھی عیسائی ہماری سلطنت میں رہنا چاہتاہو تو رہ سکتا ہے، اسے مکمل امان دی جاۓ گی، اور ہاجیہ صوفیہ کو اسلئے مسجد میں تبدیل کردیا کہ وہ نصاری کی عظمتِ رفتہ کا نشان تھا، سلطان دکھلانا چاہتے تھے کہ اب نصرانیوں کی ساری عظمتیں خاک میں مل چکی ہیں، اب اگر کسی کی عظمت ہوگی تو وہ اسلام کی اور اہل اسلام کی، اسلامی اور دنیاوی دو نوں قانون کے مطابق سلطان نے کچھ بھی غلط نہیں کیا تھا، اگر ہاجیہ صوفیہ کو مسجد میں بدلا گیا تو وہ قانون کےمطابق تھا، لیکن یورپی اور یہودی مؤرخین نے عثمانیوں کی تاریخ اس قدر مسخ کرکے پیش کی ہے، کہ آج عیسائیوں کا ہر بچہ عثمانیوں کو اپنے اجداد کا قاتل سمجھتاہے؛ اور یہ بھی سمجھتاہے کہ عثمانیوں نے ہاجیہ صوفیہ پر قبضہ کیا تھا، جبکہ یہ سفید جھوٹ ہے، عثمانیوں نے غصب نہیں بلکہ لڑ کر فتح کیا تھا؛ بہر کیفہاجیہ صوفیہ 1453ء یعنی فتح قسطنطنیہ سے لیکر خلافت عثمانیہ کی بربادی تک، ایک مسجد تھی، 1923 میں جب خلافت عثمانیہ جمہوریت نام کےمغربی تماشے میں تبدیل کردیاگئ تو 1935 میں یہودی ایجنٹ کمال پاشا نے اسے عجائب گھر قرار دے دیا کہ نہ وہ مسلمان کی رہے نہ عیسائیوں کی، اور اس طرح مسلمانوں کی ایک عظیم عمارت کی تاریخ عیسائیوں اور یہوفیوں کے پروپیگنڈے کی نذر ہوگئ،
مگر آج جب اہل ترکی اپنے حق کی آواز بلند کرنے کی ہمت کرنےلگے، سچ اور جھوٹ میں فرق کرنےلگے، تو دنیاۓ یہود و نصاری میں طوفان اٹھ گیا، امریکہ سے لیکر اسرائیل تک، روس سے لیکر اٹلی تک، تمام اسلام دشمن عناصر اور انکے چینلز ترکی حکومت کےخلاف زہر اگل رہےہیں، اور نام نہاد جمہوریت کی دہائی دے رہےہیں، یہی وہ بے شرم یہود و نصاری ہیں جو گذشتہ سو سالوں سے ارض فلسطین کو مقتل بناۓہوۓہیں، اور بیت المقدس پر اپنا ناجائز دعوی کر رہےہیں، جب فلسطین و شام اور بغداد و یمن میں مسلمان مارے جاتے ہیں تو ان جمہوری بندروں کو جمہوریت یاد نہیں آتی، مگر جب ترکی میں نام نہاد کلیسا پر بات آتی ہے، تو انکو جمہوریت یاد آتی ہے، حالانکہ ہاجیہ صوفیہ مسلمانوں کی عمارت ہے اور بلا شبہ ہے؛
دوسری طرف
 اسلامی تاریخ سے ناآشنا اور مغربیت زدہ مسلم طبقہ بھی ہاجیہ صوفیہ پر لیکچر دے رہا ہے اور کہہ رہا ہے کہ مسلمانوں کو ایسا نہیں کرنا چاہئے جنکی عمارت تھی انکو دے دینا چاہئے، کبھی ہندوستان میں بابری مسجد،مندر کےلئے دے دینے اور کبھی ترکی میں مسجد کلیسا کے لئے دے دینے کا،نادان فیصلہ ہماری ہی قوم کے نادان لوگ کرتے رہتے ہیں،اب ان نادانوں کو کون سمجھاۓ؟ اور کیوں کر سمجھاۓ؟
ہم تو سمجھانے سے رہے، مگر علامہ اقبالؒ خوب سمجھا گئےہیں، فرماتے ہیں:
” ہم پوچھتے ہیں شیخِ کلیسا نواز سے
مشرق میں جنگ شر ہے تو مغرب میں بھی ہے شر
حق سے اگر غرض ہے تو زیبا ہے کیا یہ بات
اسلام کا محاسبہ، یورپ سے درگزر؟ "

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
×