سیاسی و سماجی

لاک ڈاؤن میں پیش آئے دل کو چھوجانے والے سو واقعات (۲)

11) سخت طبی چیلنجز کے بیچ  ڈاکٹرس نہ صرف خدمات انجام دے رہے ہیں بلکہ  بے لوثی کی تاریخ بھی رقم کررہے ہیں ۔

حیدرآباد کے گاندھی اسپتال ( اسٹیٹ نوڈل سینٹر فار کرونا )  میں کئی ڈاکٹرس بے مثل خدمات انجام دے رہے ہیں انھیں میں ایک نمایاں نام ڈاکٹر خضر حسین کا ہے ۔ اسپتال کے اکثر مریض اس نام سے واقف ہیں ۔ نوجوان و متحرک ڈاکٹر خضر کے لیے ڈیوٹی شیڈول زیادہ معنی نہیں رکھتا ۔ اکثر وہ اسپتال میں ہی  حاضر نظر آتے ہیں ۔ صرف ٹریٹمنٹ نہیں کونسلنگ میں بھی وہ مسلسل جٹے نظر آتے ہیں ۔

اورنگ آباد کے ڈاکٹر الطاف نے اپنی پیہم خدمات  کے دوران  کوویڈ کا خطرہ مول لیا ۔ وہ کہتے ہیں ہیں کہ مجھے اس خطرے کا علم تھا لیکن  میرے لیے فریضہ زیادہ ااہم تھا ۔ وہ کویڈ کا شکار ہوئے ۔ لمبے علاج کے بعد صحتیاب ہوکر جب گھر لوٹے تو بلا تفریق مذہب انکا بے مثل استقبال ہوا ۔ عوام نے پھول برسا کر انکا استقبال کیا ۔ ڈاکٹر الطاف  نے اپنے گھر کے باہر  جمع لوگوں سے مراٹھی زبان میں خطاب کیا ۔  اور بتایا کہ  ان آزمائشی ایام میں ملک و سماج کی خدمت کتنی اہم ہے ۔ ( اورنگ آباد سے انور خان کی رپورٹ )

12) لکھنو سے این ڈی ٹی وی کے کمال خان نے کما ل کی رپورٹ نشر کی۔ پرانے شہر کی نظروں سے اوجھل گمنام گلیوں میں کار خیر کی انوکھی تصویر۔

عظمیٰ، ایک 25 سالہ تعلیمیافتہ، بیدار ذہن، دیندار اور خدمت پسند طالبہ ہے۔ اس نے سوچا کہ جہاں غریبوں کی مدد ضروری ہے، وہیں یہ بات بھی ضروری ہےکہ کوئی غریب بستی معمولی بد احتیاطی کے سبب وبا کا شکار نہ ہوجائے۔ غریب بستیوں میں صفائی کی دگرگوں صورتحال کے پیش نظر عظمیٰ نے انھیں پاک رکھنے کی یک نفری کوشش کا آغاز کیا۔ وہ 17 کلو وزنی سینیٹائزنگ اسپرے مشین پیٹھ پر لادکر اپنی اسکوٹی پر گھومتی ہیں اور اکیلے ہی گلی کوچوں ، گھر اور مندروں کو سینیٹائز کرنے کا کام روزانہ کرتی ہے۔ اس کام پر اس نے 95 ہزار روپیے خرچ کردیے۔ایک سوال کے جواب میں برقعہ نشین عظمیٰ نے کہا میرے لیے میرے گھر کے افراد کی صحت جتنی اہم ہے اتنی ہی اہم سماج کی صحت ہے۔ میں نہیں چاہتی ہوں کہ معمولی لاپرواہی میرے شہر کو بیمار کردے۔

کمال خان کہتے ہیں کہ "عظمیٰ صرف ایک وائرس ختم نہیں کررہی ہیں بلکہ ساتھ میں کئی وائر س ختم ہورہے ہیں، غلط رواجوں ( کو ریتیوں ) کے، اندھے عقائد کے، اور عورتوں کے لیے مردانہ سوچ کے ! ”

13 ) کسی نو سالہ بچے کے خواب و خیال میں بھی یہ بات نہیں سما سکتی کہ کھیل کود، اسکول اور پڑھائی ترک کرکے والدین کی خاطر اسے 900 کلومیٹر رکشہ کھینچنا پڑے گا۔ سیاست کی کرم فرمائی دیکھئے کہ ایسی سخت آزمائش بھی تبارک سی ننھی جان کے مقدر میں لکھ دی گئی۔ لاک ڈاؤن نے جب تبارک کے مجبور خاندان کو بے بس کرکے رکھ دیا تو ان تین افراد پر مشتمل خاندان کے لیے اور کوئی چارہ نہ تھا کہ وہ ملکی سیاست کے سب سے زیادہ معروف شہر واراناسی کوچھوڑ کر گاؤں کی سمت چل پڑیں۔ پاؤں سے معذور باپ اور نابینا ماں کے لیے ننھا تبارک ہی اکلوتا سہارا اور زندگی کی امید تھی۔ والدین کی خدمت کے سیکڑوں دلسوز واقعات ہم نے پڑھے۔ آج تبارک نے ایک اور واقعہ اس تاریخ میں رقم کردیا۔ رکشہ نما ٹھیلہ ( جو کسی رکشے سے کہیں زیادہ سخت جان ہوتا ہے ) پر اس نے معذور والدین کو بٹھایا اور اپنی ننھی ٹانگوں کے زور سےوارانسی سے ارریہ 900 کلومیٹر دور گھر تک کھینچ لایا۔ نو دن کے اس سفر نے اس مجبور خاندان اور انکے "ننھے سرپرست” کو کن جان گسل چیلنجز سے گذارا انھیں عارف اقبال کی رپورٹ میں تفصیلاً دیکھا اور سنا جاسکتا ہے۔ ( عارف اقبال کی رپورٹ، نشر کردہ ای ٹی وی بھارت )

14 ) کوویڈ کے موہوم خوف نے کئی مقامات پر بنیادی انسانی اقدار کو تلپٹ کر رکھ دیا۔ مراٹھی نیوزچینل زی 24 تا س نے ایک ایسی تفصیلی رپورٹ نشر کی جس نے سماج کو سوچنے پر مجبور کردیا۔ ایک بزرگ اپنی ارتھی کے لیے اپنے فرزند کےکاندھوں سے محروم رہے۔ جوان بیٹا باپ کی موت کی خبر سن کر اکولہ پہنچ گیا لیکن خوف کے مارے باپ کی نعش کے قریب جانے سے گھبراتا تھا۔ جب کوئی اور تیار نہ ہوا تو مقامی نوجوان جاوید زکریا اور انکے ساتھی باسط خان سمیر خان نے اپنے کاندھوں پر ارتھی اٹھائی اور شمشان پر اپنے ہاتھوں انتم سنسکار انجام دیا۔ زی 24 تاس نے اس واقعہ کو انسانیت کی عکاسی کرنیوالی مثال قرار دیا۔

( جئے سگر کی رپورٹ مشمولہ زی24تاس مراٹھی 26 مئی )

اس نوعیت کی خبروں کا ایک لامتناہی سلسلہ جاری ہے۔ ملاحظہ فرمائیے۔

  • کرناٹک کے ٹمکور گاؤں میں محمد خالد اور انکے ساتھیوں نے ارتھی کو سہارادیا۔ ( ایس بھوبنیشوری کی رپورٹ، دی ہندو 14 مئی )
  • جئے پور میں راجندر باگری کے آخری رسومات حنیف شاہ نے انجام دیں۔ ( محمد اقبال کی رپورٹ، مشمولہ دی ہندو 13 اپریل )
  • آرٹی نگر بنگلور کے معین خان نے یہ خدمت انجام دی ( بنگلور مرر 21اپریل )
  • اندور سے ایسی ہی خبر اے این آئی نے جاری کی ( 13 اپریل )
  • کانپور کے محمد سبحانی کی خدمات پر مشتمل فیض رحمان کی رپورٹ ( مشمولہ ٹائمز آف انڈیا 25 اپریل )
  • بمبئی سے انسان دوستی کی ایسی مثال دی وائر نے نشر کی۔ ( 9 اپریل )
  • ہاؤڑہ ( کلکتہ ) کے شیخ خیرالحسن کا جذبہ خیر مشمولہ جن ستا کلکتہ، 5 مئی
  • پونے کے شیر ساگر کے رشتہ دار ناگپور سے نہ پہنچ سکے تو آخری رسومات کی ذمہ داری رحیم شیخ نے نبھائی ( دینک بھاسکر 25 مئی )
  • انھیں حالات کے سبب رشتہ داربرہان پور نہ پہنچ سکے تو قیوم انصاری انتم سنسکار کے لیے آگے بڑھے ( پتریکا ڈاٹ کام 29 مئی )
  • میرٹھ کے رمیش ماتھر کے انتم سنسکار کی تفصیل پر مبنی سواتی شرما کی رپورٹ، دی اسٹیٹس مین 29 اپریل
  • کھام گاؤں ( ودربھ) کے بزرگ قمرالدین صاحب کی خدمات ( نشر کردہ یو سی این انڈیا 24 اپریل )
  • دھولیہ، حیدرآباد، احمدآباد اور کئی دیگر مقامات کی خبریں سوشل میڈیا پر گشت کررہی ہیں۔

15) ترچی (تاملناڈو) کےنوجوان سید ابو طاہر 2017 بیچ کے گریڈ 2 پولیس کانسٹیبل ہیں۔ لاک ڈاؤن کے دوران انھوں نے دیکھا کہ ایک حاملہ خاتون اور اس کا شوہر پیدل شہر کی سمت چلے آرہے ہیں۔ ابوطاہر نے انھیں روکا، تفصیلات معلوم کیں۔ پتہ چلا کہ لاک ڈاؤن کی مجبوریوں کی وجہ سے وہ اس دشوار گھڑی میں پیدل چلنے پر مجبور ہوئے۔ ابوطاہر نے فوراً کوشش کرکے ایک ٹیکسی کا نظم کیا۔ سلوچنا اوران کےشوہر ازوملائی کے ہمراہ وہ بھی اسپتال پہنچے۔ خاتون کو داخل کروایا۔ معلوم ہوا کہ خاتون کو او پازیٹیو خون کی فوری ضرورت ہے۔ خدا کا کرم کہ ابو طاہر کا بلڈ گروپ بھی او پازیٹیو تھا انھوں نے فوراً اپنے خون کا عطیہ پیش کیا۔ کچھ دیر وہ اسپتال میں ہی ٹھہرے رہے، صحت مند نومولود کو دیکھ کر وہ اسپتال سے رخصت ہوئے۔ ازوملائی کہتے ہیں کہ اگر ابو طاہر کی مدد اور ان کے خون کا عطیہ نہ ملتا تو پتہ نہیں ہم کن مشکلوں میں گھرچکے ہوتے۔ ابو طاہر کو ان کی ان بے مثل خدمات کے عوض سپرنٹنڈنٹ پولیس اور ڈی جی پی نے اعزاز سے نوازا۔ ابو طاہردوبارہ ملاقات کرکے انعامی رقم کا نصف سلوچنا کو میڈیکل اخراجات کے لیے دینا چاہتے ہیں۔ (اکشے ناتھ کی رپورٹ مشمولہ انڈیا ٹوڈے، 18 اپریل، تنوی پٹیل کی رپورٹ، مشمولہ دی بیٹر انڈیا)

16) پربھنی شہر میں واقع صفابیت المال کی لاک ڈاؤن کے دوران خدمات دیکھ کر مقامی تحصیلدار جناب ودیا چرن کڑوکر بہت متاثر ہوئے ۔ ان کی وہ تصویروائرل ہورہی ہے جس میں وہ ڈاکٹر انور علی شاہ کے پیر چھوتے اور ان سے بغل گیر ہوتے نظر آتے ہیں۔ ایشیا ایکسپریس کی رپورٹ کے مطابق ودیا چرن صاحب اس قدر جذباتی ہوگئے تھے کہ ان کی آنکھوں سے آنسو رواں تھے۔ (سید یوسف کی رپورٹ، ایشیا ایکسپریس)

17) حیدرآباد کے قلب شہر میں واقع خیریت آباد علاقے میں و ینو مدیراج اپنے خاندان کے ساتھ رہتے تھے۔ ٹی بی کی وجہ سے ان کا انتقال ہوگیا۔ کووڈ 19 کےخوف سے پڑوسیوں نے دوری اختیار کی۔ مدیراج کے نوعمر بچوں سے ہمسایوں کو یہ شکایت بھی تھی کہ وہ اپنے والد کی نعش گھر کیوں لائے۔ غریب بچے گھر پر نعش رکھ کر سخت پریشان تھے۔ صادق بن سلام کو ان کی مصیبت کا علم ہوا۔ انھوں نے اپنے دوستوں عبدالمقتدر، محمد احمد اور شیخ قاسم کو بلایا۔ پولیس سے پرمیشن حاصل کی اور خیریت آباد سے بنجارہ ہلز تک ان دوستوں نے ارتھی اپنے کاندھوں پر اٹھا ئی اور پسماندگان کی موجودگی میں انھیں کے ذریعے ضروری رسومات انجام دیں۔ (پریتی بسواس کی رپورٹ، مشمولہ دی ٹائمز آف انڈیا، 20 اپریل)

18) بلڈانہ ضلع کے کھام گاؤں شہر میں بھی عین اسی نوعیت کا واقعہ پیش آیا۔ ٹی بی کی وجہ سے ایک شخص کا انتقال ہوگیا۔ کورونا کی دہشت کے مارے کوئی پڑوسی یا رشتے دارنعش کے قریب نہ آیا ۔ مرحوم کی دو معصوم بچیوں نے ایک مقامی درمند بزرگ قمرالدین صاحب کو اطلاع دی۔ وہ نہ صرف آگے آئے بلکہ خود ہی شمشان لے جاکر آخری رسوم ادا کیں۔ یو سی این نیوز نے ایک تفصیلی ستائشی رپورٹ نشر کی۔ قمرالدین صاحب سے جب مقامی صحافی نے اس غیر معمولی خدمت کے متعلق پوچھا ، تو انھوں نے بڑی معصومیت سے کہا کہ آج وہ گئے ہیں کل مجھے جانا ہے، اس لیےایسی کسی خدمت سے لاتعلق ہوجاؤں، میں سوچ بھی نہیں سکتا۔ (یو سی این انڈیا، 24 اپریل)

عین اسی نوعیت کی خبریں سوشل میڈیا کے توسط سے گجرات، تلنگانہ اور کئی دیگر مقامات سے بھی موصول ہورہی ہیں۔

19) سلطانپور (اتر پردیش) کے متوطن محمد شریف "مردوں کے مسیحا” کہلاتے ہیں۔ بی بی سی ورلڈ سروس نے موصوف کی خدمات پر مشتمل ایک تفصیلی رپورٹ ان تمہیدی الفاظ کے ساتھ شائع کی کہ ” محمد شریف(المعروف شریف چاچا) کواپنے بیٹے کی تدفین کا موقع کبھی نہ مل سکا لیکن انھوں نے پچھلے 27 برس دوسرے خاندانوں کے ہزاروں بیٹوں اور بیٹیوں کو دفنانے میں لگائے ۔” ٹائمز آف انڈیا کی ایک رپورٹ کے مطابق انھوں نے تاحال 3000 ہندو نعشوں کا انتم سنسکار اور تقریباً 250 مسلم نعشوں کی تدفین انجام دی ہے۔ (یسریٰ حسین کی رپورٹ،مشمولہ ٹائمز آف انڈیا ، 26 جنوری 2020)

محمد شریف کا لڑکا رئیس 1992 میں فسادات کے دوران قتل کردیا گیا تھا۔ انھیں اپنے لڑکے کی نعش بھی نہ مل سکی۔ شریف چاچا کہتے ہیں کہ ایک دن میں نے دیکھا کہ کچھ پولیس والے لاوارث نعشیں ندی میں پھینک رہے ہیں۔ یہ دیکھ کر میں تڑپ گیا۔ عین ممکن ہے کہ میرے لڑکے کی نعش بھی یوں ہی پھینک دی گئی ہو۔ اس کے بعد میں نے فیصلہ کیا کہ میں کسی نعش کو یوں پھینکنے نہیں دوں گا اور غریب اور لاوارث نعشوں کی آخری رسوم باحترام انجام دوں گا۔ ایودھیا کے ڈی ایم انوج کمار جھا کے مطابق اس بزرگ سائیکل میکانیک نے تاحال ڈھائی ہزار سے زائد انتم سنسکار انجام دیئے۔ وہ یہ کام کسی مالی تعاون کے بغیر انجام دیتے ہیں۔ حکومت نے انھیں پدم شری اعزاز سے نوازا۔ ان آزمائشی ایام میں محمد شریف جیسے بےلوث خدمتگار سماج کا انمول اثاثہ ہیں ۔ (سوامیناتھن نٹراجن کی رپورٹ ، بی بی سی ورلڈ سروس ہندی ، 20 اپریل)

20) وبائی ایام کے دوران افراد کا ایک گروپ جن کی پریشانیاں دوچند ہوگئیں ہیں، وہ ہے ڈائیلاسس کے مریض۔ دیگر مریض عام طور پر صحت مند ہوکرگھر لوٹ جاتے ہیں اور کبھی کبھا ر کنسلٹیشن کی ضرورت ہوتی ہے۔ لیکن ڈائلاسس وہ تکلیف دہ آزمائش ہے کہ اسپتال دوسرا گھَر بن جاتا ہے۔ لاک ڈاؤن میں ان مریضوں کی مصیبتیں دوہری ہوگئی ہیں۔ اسی ایمرجنسی ضرورت کے پیش نظر جماعت اسلامی ہند ممبئی نے لاک ڈاؤن میں ڈائلاسس مریضوں کی خدمت کے لیے خصوصی ایمبولینس سروس شروع کی ہے۔ سچ یہ ہے کہ فیلڈ ورکرس ہی سماج کی سمجھ اور اس کی ایمرجنسی ضرورتوں کا فہم رکھتے ہیں۔ ممبئی ناظم شہرجناب عبدالحسیب بھاٹکر کے مطابق گذشتہ ہفتے شروع کی گئی اس سروس میں ضروری طبی سہولتیں اور ہر ممکنہ احتیاط کا خصوصی اہتمام کیا گیا ہے۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
×