سیاسی و سماجی

امریکی مساوات کے پردے میں نسل پرستی کا مکروہ چہرہ

اس دنیا میں عمل کے ساتھ رد عمل اصول کے لحاظ سے اگرچہ ضروری امر نہیں ہے مگر جب کرداروں میں تسلسل ہوتا ہے تو اسی سرزمین پر مکافات عمل کی صورت رونما ہوتی ہے،  مادی طاقت،معاشی فروانی، ٹیکنالوجی ترقی اور عسکری قوت کی بنیاد پر کنگڈم آف امریکہ نے دنیا کے اکثر خطوں میں ایک طویل عرصے سے جو دہشت مچائی ہے’، خصوصا عالم اسلام کے ساتھ جو متعصبانہ کردار ادا کیا ہے، جمہوریت کے نام پر اس نے بیسیوں ممالک پرجس حیوانیت کی صورت میں حملے کئے ہیں،جس طرح انہیں تاراج کیا ہے۔
اپنی فکر کی مخالفت میں اس نے اکثر خطوں میں جو آگ وخون کا کھیل کھیلا ہے’، انسانی حقوق کے نام پر جس طرح اس نے ایشیا سے یورپ تک میں انسانیت کو تار تار کیا ہے’، جمہوریت کا علمبردار بن کر اس نے ویتنام،نیوزیلینڈ جاپان،عراق ،لیبیا،ویانا، اور افغانستان پر جس طرح شعلوں کی بارش کی ہے’،اور لاکھوں افراد کی زندگیاں چھینی ہے’، کرڑوں گھروں کو نذر آتش کیا ہے’، ان گنت شاداب خطوں کو ویران کیا ہے’ شہروں اور علاقوں کو کھنڈر میں تبدیل کر کے انہیں برباد کیا ہے’، یہ ساری دنیا پر عیاں ہے’، خارجی دنیا میں فساد و خونریزی کے تناظر میں اکثر لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ امریکی حکمرانوں کی یہ پالیسیاں صرف دیگر ممالک اور دوسرے براعظموں ساتھ وابستہ ہیں ان کا تعلق خود ان کے اپنے ملک یا اپنی عوام سے نہیں ہے،اس بات کا حقیقت سے اتنا ہی تعلق ہے’جتنا روشنی کا تاریکی سے۔
اس دنیا میں فرمانروائے امریکہ انسانیت کے وہ علمبردار ہیں جن کے یہاں یقینا انسانیت کا مفہوم اس انسانیت سے الگ ہے’ جس میں انصاف ومساوات کا تصور پایا ہے’، اس ملک کے تقریباً تمام فرمانرواؤں کے ساتھ ساتھ خود اس کے اکثریتی طبقے کا فکری و عملی نظریہ نسل پرستی ۔۔۔فرقہ پرستی۔۔۔تعصب پرستی۔۔۔۔ مادہ پرستی۔۔۔اور مفاد پرستی پر مبنی ہے۔اس ملک کے پورے معاشرے کی بنیاد انہیں اوصاف پر قائم ہے ان کے یہاں نسلی برتری، کمیونل ازم،  عصبیت وعلاقائیت،اور مادیت ومفادات کا دوسرا نام انسانیت ہے’، امریکہ میں سیاہ فام افراد پر سفید فاموں کے مظالم،ان کی نسل پرستانہ بربریت، سیاہ فاموں کے ساتھ ظالمانہ برتاؤ،حیوانی سلوک،امتیازی روئیے، سفاکانہ کردار، اور غیر انسانی برتاؤ کی داستان بڑی دردناک اور طویل ہے’ جس طرح ہندی معاشرے میں مذہبی طور پر ایک جیسے انسانوں کے ساتھ ذات پات کی تفریق، برادری واد،نسلی برتری، کا تصور نہ صرف قائم تھا بلکہ اس پر پورا ملک مع حکمراں کے عمل پیرا تھا ٹھیک اسی طرح سے وہاں بھی رنگوں کی بنیاد پر اور طاقت کی بنا پر عوام کے درمیان نسلی تفریق قانونی حیثیت سے رائج تھی، 1965تک  نسل پرستی کا یہ انسانیت سوز قانون پورے ملک میں نافذ تھا، جس کی ہلکی سی جھلک یہ ہے’کہ سیاہ فام کی حیثیت ملک میں صرف غلام کی ہے’ سفید فاموں کو اختیار ہے’کہ ان کے ساتھ جس طرح چاہیں سلوک روا رکھیں، اسکولوں میں  انہیں تعلیم کی اجازت ضرور ملی مگر اس شرط کے ساتھ کہ سیاہ فام گورے افراد کی سیٹ پر نہیں بیٹھ سکتے،ان کی سیٹیں الگ مختص کی گئیں، ٹرانسپورٹ اور پبلک مقامات پر ان کی جگہیں علیحدہ رکھی گئیں، ہوٹلوں میں سیاہ  و سفید لوگوں کے لئے الگ میزیں رکھی گئیں،ایک ہی عمارتوں میں داخلے کے لئے دونوں کے راستے علیحدہ بنائے گئے، سرکاری ملازمتیں صرف سفید فاموں کے لئے مخصوص تھیں،اسکولوں سے لیکر بینکوں تک،اور پرائیویٹ اداروں سے لیکر سرکاری محکموں تک،سیاسی گلیاروں سے لیکر عدالت کے ایوانوں تک  میں سفید فاموں کی حکومت تھی ان اداروں سے متعلق تمام سہولیات سے کالے محروم تھے، ایسے سفاک ماحول میں انسانیت کے ساتھ ظلم وسفاکیت کے خلاف ایک مظلوم قوم کی یہ پوزیشن بھی نہیں تھی کہ وہ آواز اٹھاتی مگر حالات سے مجبور ہو کر جب بھی اس نے آواز بلند کی طاقت کے ذریعے اسے کچل دیا گیا، 1965میں ہر چند جمہوریت اور مساوات کا وہاں قانون عمل میں آیا مگر عوام اور پولیس محکموں کی نسلی زیادتیاں ان کے متعصبانہ رویے جو صدیوں سے اس سماج کا بنیادی حصہ تھے بدستور جاری رہے، اور اونچ نیچ کا تصور اس پالیسی پر یقین، اور نسلی وتعصب کے زیر اثر منافرانہ ومتشددانہ کا ظہور نہ صرف عوام بلکہ سیاست وعدلیہ کی سطح پر بھی ہوتا رہا، صرف 1991سے 2000تک نو سال کے عرصے میں آٹھ لاکھ چھیاسی ہزار زندگیاں اس تعصب اور نفرت کا شکار ہوئی ہیں ایک انگریزی جرنلسٹ کے مطابق اگر افریقی امریکیوں کو سفید فام امریکی جیسی سہولیات مہیا کی جاتیں تو 1991سے 2000تک  آٹھ لاکھ چھیاسی ہزار زندگیوں کو بچایا جا سکتا تھا (برقی میڈیا اسلام ٹائمز 27اگست2017)
اس میں شک نہیں کہ ماضی کے مقابلے میں اکیسویں صدی میں نفرت وتعصب میں کمی آئی ہے اور خاصی تعداد میں امریکی عوام نے انسانیت واخلاق کو تلاش کرنے کی کوششیں کی ہیں اور انسانیت کی آواز پر لبیک کہا ہے تاہم سفید فام افراد کی مجموعی صورت حال آج بھی ماضی کی طرح نسلی برتری اور وطنی عصبیت کے خمار میں جیتی ہے ‘ اس کے خودساختہ انسانیت کے مفہوم اور کلیدی حقیقت میں آج کے اس ترقی یافتہ عہد میں بھی انصاف وعدالت، اخوت و رواداری، جمہوریت وآزادی کی کوئی جگہ نہیں ہے۔
حال ہی میں امریکہ میں محکمہ پولیس کے ایک اعلیٰ فرد کی طرف سے ایک سیاہ فام کے قتل کی انسانیت سوز و شرمناک واردات درحقیقت اسی نسلی برتری،قومی عصبیت کا بدترین نتیجہ اور تباہ کن شاخسانہ ہے’، اس قتل نے امریکی عوام کے ساتھ ساتھ دنیا والوں پر وہاں کی انتظامیہ اور حکومت کا خود اپنی عوام کے ساتھ متعصبانہ ، متشددانہ اور نسل پرستانہ چہرے سے فرضی انسانیت ومساوات کے پردے کو نوچ کر اسے بے نقاب کرڈالا ہے’، بی بی سی کی رپورٹ کے مطابق25مئی کو امریکی شہر مینیسوٹا کے باشندے جارج فلائیڈ نے ایک کرانہ کی دکان سے جعلی نوٹ کے ذریعے سامان خریدا اسے اس کی خبر نہیں تھی کہ یہ نوٹ جعلی ہے’۔
دوکاندار نے فوراً پولیس اسٹیشن کو اس کی خبر کردی،پولیس نے فوراً اس شخص کو گرفتار کرلیا اور اس پر تشدد کے حربے آزمائے یہانتک کہ اس محکمہ کے ایک افسر نے اس حال میں کہ معتوب شخص پابند سلاسل تھا اسے زمین پر گرا کر اس کی گردن کو اپنے گھٹنوں سے دبا دیا وہ شخص فریاد کرتا رہا کہ میری سانس رک گئی ہے اور جان نکل رہی ہے مگر اس پولیس افسر کو ذرا بھی رحم نہیں آیا حتی کہ اس کی جان نکل گئی،آس پاس موجود تماشائیوں کی ویڈیو جنگل کی آگ کی طرح پورے ملک میں پھیل گئی،اور اس افسر کے سفاکانہ قتل کے خلاف عوام میں غم وغصہ گی آگ بھڑک اٹھی،لوگ سڑکوں پر نکل آئے، اس ظلم وبربریت کے خلاف آواز بلند کی،نسلی تعصب پر یقین رکھنے والے حکمراں ڈونالڈ ٹرمپ بجائے اس کے کہ اس وارد اور سفاکیت پر افسوس کا اظہار کرتے انھوں نے ٹوئیٹر پر مظاہرین کو طاقت کے استعمال کی دھمکی دی اور لکھا کہ،،لوٹ مار ہوتی ہے تو گولیاں بھی چلتی ہیں، اور احتجاج کرنے والوں کے خلاف فورس کا استعمال کیا جائے گا اس ٹوئیٹ نے آگ پر گھی کا کام کیا اور رد عمل میں ملک کے گوشے گوشے میں پر تشدد مظاہرے شروع ہوگئے،بے شمار گاڑیاں جلادی گئیں، بیسیوں بلڈنگوں اور عمارتوں کو اور سیکڑوں دکانوں کو نذرآتش کردیا گیا،یہانتک کہ واشنگٹن میں وہائٹ ہاؤس کے احاطے میں بھی تمام گارڈس اور محافظین کی زنجیروں کو توڑ کر مشتعل پبلک داخل ہوگئی حکمران وقت بدحواس ہوکر قصر ابیض کے مخصوص تہ خانے میں پناہ گزین ہونے پر مجبور ہو گیا،چالیس شہروں میں کرفیو کے نفاذ کے باوجود مظاہروں کا سلسلہ اب بھی جاری ہے’، ملک کی تمام عسکری طاقتیں مفلوج ہوکر رہ گئی ہیں، لااینڈ آرڈر کے تانے بانے بکھر چکے ہیں، اقتدار کی دیواریں مظاہرین کی بڑھتی ہوئی تعداد سے لرزہ براندام ہیں حکومت بدحواس ہے،کاروبار حیات اور انتظامی سسٹم بری طرح سے متاثر ہے’۔
کہتے ہیں کسی تنگ نظر کے ہاتھ میں جب اس کے تصور سے زیادہ مادی طاقت آسمان کے بادلوں کی طرح برسنے لگتی ہے تو اسے اپنی حیثیت یاد نہیں رہتی ہے وہ طاقت وقوت کے زعم میں خود کو مافوق البشر سمجھ کر دوسرے انسانوں کے ساتھ ظلم وجبر پر اتر آتا ہے،حکومت کو قطعاً اس کا اندازہ نہیں تھا کہ اس حیوانیت کا رد عمل اس قدر وسیع پیمانے پر ظاہر ہوگا
لیکن ظلم کا سلسلہ جب دراز ہوتاہے اور اندھیرے کی انتہا ہوتی ہے تو مکافات عمل بھی شروع ہوتا ہے’،امریکہ کی صورت حال چیخ چیخ کر کہہ رہی ہے’کہ صدیوں سے جاری نسل پرستانہ کھیل اور فرقہ وارانہ مظالم کی شب تاریک اب اختتام کو ہے’، اور ملک کے اصحاب اقتدار کے لیے علی الاعلان پیغام اور سبق ہے’کہ ملک کی سلامتی عصبیت میں نہیں بلکہ مساوات میں ہے’،قوم کی ترقی فرقہ پرستی میں نہیں بلکہ رواداری اور اخوت میں ہے’، حکومتوں کی بقا ظلم وبربریت،نفرت وتعصب، جبر و سفاکیت میں نہیں۔بلکہ
انصاف وعدالت،امانت ودیانت اور اخلاق و انسانیت میں ہے’، پوری دنیا میں انسانیت کی روشنی پھیلانے والے اور انسانوں کو اخلاق و کردار سے روشناس کرانے والے مذہب اسلام اورامن وآشتی کے پیغام سے آشنا کرنے والے آفاقی نظام
کے خلاف دہشت گردی کی مہم چھیڑنے والے ڈونالڈ ٹرمپ کے
لئے خود اس کے ملک میں آتش وآہن کی لرزہ فضا نوشتہ دیوار کی حیثیت سے رونما ہوئی ہے، جس میں جلی حروف سے لکھا ہوا ہے کہ فرد سے سماج اور قوم سے ملک تک کہ تعمیر وترقی ،خوشحالی وعافیت! قومیت ووطنیت، علاقائیت و کاسٹ کی تفریق و امتیاز اور ان کے درمیان نفرت وتعصب ،فرقہ وارانہ کشیدگی ، نسل پرستانہ نظریات اور مذہبی عناد ومنافرت میں پوشیدہ نہیں بلکہ اخوت و رواداری،حقیقی مساوات و انسانیت ،   افراد کے درمیان انصاف وعدالت اور بے غرض حکومت وسیادت میں مضمر ہے۔
 امریکی شہروں کے چوراہوں پر لاکھوں افراد کی صدائیں موجودہ اقتدار کے لئے واضح اعلامیہ اور تنبیہ ہے’کہ وہ اپنی غلط پالیسیوں کے حصار سے باہر نکلے، انسان کی حقیقت پر بے لاگ اور غیر جانبدار ہوکر غور کرے، اور اس حقیقت کی دریافت کی کوشش کرے کہ اس زمین پر بسنے والا ہر انسان وہ امیر ہوکہ غریب، بزنس مین ہوکہ کسان ، فیکٹریوں کا مالک ہوکہ مزدور، بززعم خویش اشرافیہ طبقے کا ہو یا سماج میں اسفل شمار کیا جانے والا فرد، وہ گورا ہو کہ کالا سب برابر ہیں، ہر شخص کو فکری نظری آزادی کا حق حاصل ہے’، وہ ان تمام حقوق کے مستحق ہیں جو کسی اعلیٰ فرد کے لئے خاص ہیں، مذہب،فکر،عقیدے، خطے،علاقے اور رنگ ونسل کی بنیادوں پر نظام میں تفریق، قانون میں امتیاز، دستور میں دہرے پیمانے اس روئے زمین پر خونریزی لاسکتے ہیں، امن وامان نہیں، فتنہ و فساد کی فضا پیدا کرسکتے ہیں،اطمینان وسکون کا ماحول نہیں، ظلم وبربریت کی راہیں ہموار کرسکتے ہیں، جنگ کا ماحول بنا سکتے ہیں،اخوت و انسانیت اور ہمدردی و رواداری کی خوشگوار فضا نہیں۔ ملکوں،خطوں،علاقوں،اور عوام کے درمیان منافرت وعداوت کی گہری خلیج پیدا کرسکتے ہیں، انصاف ودیانت
عدل ومساوات،اور بے غرض تعلقات ومراسم  کی صحت مند اور عروج و ارتقاء کی فلک رسا شاہراہ نہیں۔۔
شرف الدین عظیم قاسمی الاعظمی
مسجد انوار گوونڈی    ممبئی
۔  8767438283

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
×