سیاسی و سماجی

یوم جمہوریہ: یہ وہ سحر تو نہیں

15/اگست 1947 کو گرچہ وطن عزیز میں آزادی کا سورج طلوع ہو چکا تھا لیکن ہزاروں آرزوؤں کے بعد طلوع ہونے والا یہ سورج وطن اور اہل وطن کے لئے باضابطہ نفع بخش نہیں تھا، اس لئے کہ گورنمنٹ آف انڈیاایکٹ1935 ہی ملک میں نافذ تھا، یہاں تک کہ 26 /جنوری 1950 کی صبح نے وطن عزیز میں دستک دی اور گورنمنٹ آف انڈیاایکٹ1935کو ہٹاکر ملک میں آئین ہند کا نفاذ عمل میں آیا جس کے نتیجے میں نہ صرف بھارت ایک خود مختار ریاست اور مکمل طور پر ریپبلکن یونٹ میں تبدیل ہوا بلکہ حقیقی معنوں میں آزاد ہوا جہاں سب کچھ وطن اور اہل وطن کا تھا جہاں ذات ،برادری، مذہب اور دھرم کی تفریق نہیں تھی اور جہاں ہر فرد کو ’’ہندی ہیں ہم وطن ہیں ہندوستان ہمارا‘‘ کہہ کر جینے کا حق حاصل تھا ،آزادی کے بعد باشندگان ہند کو جو دستور ملا تھا وہ دنیا کا سب سے ضخیم تحریری دستور تھا، چونکہ ملک کی آزادی میں ہر مذہب، دھرم اور برادری کے لوگوں نے حصہ لیا،تھا اس لیے دستور میں سب کو برابر حق دیا گیا تھا،ہرمذہب سے تعلق رکھنے والے شخص کو اپنے مذہب پر عمل اور اس کی تبلیغ کی مکمل آزادی فراہم کی گئی تھی ،اپنی پسند کے ادارے کھولنے کا اختیار دیا گیاتھا، مذہب کی بنیاد پر نہ سہی؛ لیکن پسماندگی کی بنیاد پر ریزرویشن کی سہولت بھی رکھی گئی تھی؛ تاکہ اگر کوئی قوم معاشی یا تعلیمی پسماندگی کی شکار ہو تو اس کے حالات ٹھیک ہو سکیں، کل ملا کر بابا صاحب بھیم راؤ امبیڈکر اور ان کے رفقاء کار کی انتھک جد جہد کے بعد تیار ہونے والا دستور کچھ خامیوں کے باوجود اتنا شاندار تھا کہ اگر اسے زمین پر انصاف سے اتار دیاجاتا تو سچ مچ ہندوستان جنت نظیر ہوتا ؛لیکن بات وہی ہے چیزیں استعمال کرنے والوں پر منحصر ہواکرتی ہیں تلواریں بازوؤں کی قوت و ضعف کی بنیاد پر کار گر ہواکرتی ہیں بابا صاحب امبیڈکر کو شدت کے ساتھ اس بات کااحساس تھا اسی لئے قانون ساز کی حیثیت سے انہوں نے اپنے پہلے انٹرویو میں کہا تھا کہ’’ آئین خواہ کتنے ہی اچھے کیوں نہ ہوں اگر وہ لوگ جنہیں آئین پر عمل درآمد کرانے کی ذمہ داریاں سونپی گئی ہیں خراب نکل جائیں تو یقینی طور پر آئین خراب ثابت ہونگے، اسی طرح آئین خواہ کتنے ہی خراب کیوں نہ ہوں اگر وہ لوگ جنہیں آئین پر عمل درآمد کرانے کی ذمہ داریاں سونپی گئی ہیں اچھے ہوں تو آئین درست ثابت ہو نگے‘‘۔
وطن عزیز کی بدقسمتی تھی کہ آزادی کے بعد سے ہی زمام اقتدار ان لوگوں کے ہاتھوں میں رہی جنہوں نے یوم آزادی اور یوم جمہوریہ کے موقع پر تقریبات میں آئین کی دہائیاں تو خوب دیں ؛لیکن آئین کی بالادستی کے لیے جدوجہد کرنے کے بجائے ذات، برادری، ووٹ، خوف اور مفادات کی سیاستیں کیں جن کے نتائج تو تباہ کن ثابت ہونے ہی تھے سو ہوئے اور سینکڑوں ترقیاتی کاموں کے باوجود ملک آئین کی حکمرانی سے حقیقی معنوں میں محروم ہی رہا، نتیجتاً ذاتی ،گروہی، دھارمک اور دوسرے اغراض و مفادات کے حصول کے لیے دستور ہند سے کھلواڑ ہوتارہا، دستور کے الفاظ ومعانی اور نتائج کو بازیچہ اطفال بنایاگیا اورطاقت کے نشے میں دستور ہند کے ساتھ وہ سارے کام کیے گیے جو شاید دنیا کے کسی اور دستور کے ساتھ نہیں کیے گئے ہونگے ،یہاں تک کہ 2014ء کا وہ دور آیا جب آئین کے محافظ ہی وہ لوگ قرار پائے جن کے سامنے آئین کی کوئی حیثیت نہیں تھی، پھر کیا تھا نفرت و عداوت کا جن پوری طرح بوتل سے باہرآگیا اور وہ لوگ جنہوں نے دھارمک بنیادوں پر بی جے پی کی حکومت کے قیام کیلئے محنتیں کی تھیں ان کے حوصلے بے انتہا بلند ہوئے جس کا اظہار اس طرح ہوا کہ سینکڑوں اخلاق، پہلوخاں،جنید اور تبریز ہجومی دہشت گردیوں کی نذرہوئے؛ لیکن معاملہ یہاں بھی تھم نہیں گیا بلکہ اسی دوران گھر واپسی، لوجہاد ،لینڈ جہا،د ٹرپل طلاق اور نہ جانے کتنے الٹے سیدھے شوشے چھوڑ کر ملک کی فضا کو مزید زہر آلود کرنے کوششیں کی گئیں اور بالآخر اہل وطن کی نگاہوں نے وہ وقت بھی دیکھا جب سپریم کورٹ کے چار سینئر ججز نے جسٹس دیپک مشرا کے خلاف پریس کانفرنس کرکے بھارت کی جمہوریت کے سلسلے میں تحفظات کا اظہار کیا؛ لیکن اتنے حساس معاملے نے بھی اسلام اور مسلم مخالف شوشوں پر قدغن لگانے میں اپنا رول ادا نہیں کیا اور سب کچھ اسی طرح چلتا رہا جس طرح چل رہاتھا، یہاں تک کہ 2019ء کے لوک سبھا انتخابات کے نتیجوں کا اعلان ہوگیا اور پھر بی جے پی کو ہی حکومت سازی کا موقع ملا، وزیر اعظم مودی نے نے حلف اٹھاتے ہوئے اپنے شلوگن سب کا ساتھ سب کا وکاس میں سب کے وشواس کا اضافہ ضرور کیا جس سے مسلمانوں نے چند دنوں کے لیے راحت کی سانسیں لیں؛ لیکن پھر وہی سارے کام ہونے شروع ہوئے جوپہلے ہورہے تھے، بلکہ مزید شدت کے ساتھ اقلیت مخالف ایجنڈے پروان چڑھنے لگے ،جس کی اہم ترین کڑی سی اے اے مجوزہ این پی ار اور مجوزہ این آرسی تھی، حکومت نے مذکورہ قوانین کے ذریعے مسلمانوں کے وجود پر سوالیہ نشان کھڑاکرنے کی ناپاک کوشش کی جس کی وجہ سے مسلمانوں میں مزید مایوسیاں پھیلنے لگیں، عدم تحفظ کا احساس شدید تر ہونے لگا، آنکھیں آنسوؤں میں نہاکر شکوہ کناں ہونے لگیں ،اور سینکڑوں سوالات کے ساتھ لب جنبش کرنے لگے کہ ؎
یہ داغ داغ اجالا یہ شب گزیدہ سحر
وہ انتظار تھا جس کا یہ وہ سحر تو نہیں
(فیض احمد فیض)
چونکہ رونے ،سوچنے اور محض شکایت کرنے سے مصیبتوں کے پہاڑ اپنی جگہ سے ٹلتے نہیں ہیں اسی لئے جمہوری حق کا استعمال کرتے ہوئے مسلمانوں اور کچھ انصاف پسند برادران وطن نے چھوٹے موٹے احتجاجی مظاہرے بھی کئے ؛لیکن ضرورت تھی مزید جوش اور ہمت کے ساتھ سامنے آنے کی، چنانچہ جامعہ ملیہ اسلامیہ دہلی، علی گڑھ مسلم یونیورسٹی علی گڑھ، جواہر لال نہرو یونیورسٹی دہلی اور ملک کی دوسری اہم دانش گاہوں کے طلبہ سڑکوں پر اتر آئے، جامعہ کے طلبہ نے خاص طور پر پولیس کی لاٹھیوں بلکہ گولیوں کی پرواکئے بغیر سب کچھ کرگزرنے کی قسمیں کھالیں اور دن کے اجالوں کی طرح رات کے سناٹوں میں بھی سیاہ قوانین کے خلاف علم بغاوت بلند کردیا ،کچھ طلبہ شہید بھی ہوئے؛ لیکن مسلمانوں میں ناامیدی کی جگہ امیدکی شمع روشن ہوئی، جس کے نتیجے میں عوام بھی دن رات احتجاجات میں مصروف رہنے لگی ،شاہین باغ میں تو عورتوں نے اتنا زبردست احتجاج کیا کہ دیکھتے ہی دیکھتے ملک کے مختلف حصوں میں متعدد شاہین باغ تیار ہوگئے، بہار میں امارت شرعیہ پٹنہ نے محاذ سنبھالنے کی کامیاب کوشش کی اور سیاہ قوانین کے خلاف مرد ،خواتین ،بو ڑھے اور بچے سب بر سرِ پیکار ہوگئے ،یہاں تک کہ کورونا وائرس کی ہنگامہ آرائی کی وجہ سے احتجاجات ختم کرنے پڑے ،چنانچہ ابھی کہیں سی اے اے مجوزہ این پی آر اور مجوزہ این آر سی کے خلاف احتجاجی مظاہرے نہیں ہورہے ہیں اور این آر سی بڑی حد تک سرد خانے میں بھی چلی گئی ہے؛ لیکن پریشانیاں ،الجھنیں اور دستور پر منڈلاتے خطرات اسی طرح باقی ہیں جس طرح پہلے باقی تھے اورسحر برق رفتاری سے نہ صرف شام کی طرف رواں دواں ہے بلکہ یہاں کے باشندوں کی روش میں جلد اگر واضح تبدیلیاں پیدا نہیں ہوئیں تو سحر کے شام تک پہونچ جانے کا بظاہر قوی امکان بھی ہے العیاذ باللہ۔
یہ سوال اہمیت کا حامل ضرور ہے کہ ان حالات کے ذمہ دار کون لوگ ہیں؛ لیکن اس کا جواب اس کے علاوہ اور کیاہے کہ جنہیں سب سے زیادہ حکومت میں رہنے کا موقع ملا ہے وہی حقیقی معنوں میںذمہ دار ہیں، برائیاں پھیلتی ہی اس وقت ہیں جب برائیوں پر قدغن لگانے والے لوگ اپناکام کرناچھوڑ دیتے ہیں یا خود برائیوں میں ملوث ہوجاتے ہیں، کانگریس اور ان کی حمایت میں گلے پھاڑ پھاڑ کر تقریریں کرنے والے سفید پوشوں کے لیے دامن بچانا کہیں سے آسان نہیں ہے اس لیے کہ کانگریس کا رویہ مسلمانوں کے ساتھ شروع سے شرمناک رہاہے ؛لیکن ظاہر ہے کہ ماضی کی الجھنوں کے تذکرے سے مستقبل کی بازیابی کی امید نہیں کی جاسکتی ہے اس لیے ماضی کی الجھنوں کی نشاندہی کرنے کے بجائے مستقبل کے لئے بہتر راہ عمل طے کرنے کی ضرورت ہے جہاں نئے عزائم کے ساتھ ہم اپناکام کریں؛ اگر ہم نے اپنے حصے کا کام انصاف کے ساتھ نہیں کیا تو ہوسکتا ہے کہ ہم آرام سے زندگی گزار کر مرجائیں؛ لیکن نسلوں کواس کی قیمت چکانی پڑے گی،مجھے بھی اس بات کا شدت سے احساس ہے کہ ہندوستان کو اس وقت برطانوی دور حکومت سے زیادہ بھیانک صورت حال کا سامنا ہے ،ایک طرف حکومت ہے جو ہندو راشٹر کے قیام کے ساتھ یکساں سول کوڈ کے لئے مسلسل کوششیں کررہی ہے، تاکہ عدالتوں سے مذہب اسلام کی آخری نشانی مسلم پرسنل لا کو ختم کردیاجائے، دوسری طرف شدت پسند تنظیمیں ہیں جو وقتاً فوقتاً نہ صرف اشتعال انگیز بیانات جاری کرتی ہیں بلکہ حسب موقع سینکڑوں اخلاق و تبریز کے ساتھ وحشیانہ سلوک کرجاتی ہیں اور ان سے کوئی باز پرس کرنے کی جرات نہیں کرتاہے؛ جبکہ تیسری طرف مقننہ، انتظامیہ اور عدلیہ جیسے جمہوریت کے بنیادی ستون ہیں جومنہ کے بل گرا ہی چاہتے ہیں اور چوتھی طرف جمہوریت کا چوتھا ستون میڈیا ہے جو طوائف بن کر تماشہ بینوں میں گھرا ہوا ہے، ظاہر ہے کہ ان حالات میںمعاملہ محض سی اے اے ،این پی آر اور این آرسی یا محض تینوں زرعی بلوں کا نہیں رہتا ہے ؛بلکہ جمہوریت اور دستور ہند کے مکمل تحفظ کا ہوجاتا ہے،افسوسناک بات یہ ہے کہ دستور ہند کے نفاذ کے بعد سے آج تک دستور ہند کے تحفظ کے لئے ملک میں منظم کوششیں نہیں ہوئیں ،جو کوششیں ہوئیں وہ محض وقتی رہی ہیں، اگر اب بھی اپوزیشن پارٹیاں اب مفادات کو بالائے طاق رکھ کر متحدہ طور پر دستورہند کے تحفظ کیلئے جد جہد کریں تو پریشانیوں پر قابو پایا جا سکتا ہے ؛لیکن ظاہر ہے اس کی توقع فضول ہے، اپوزیشن پارٹیاں ذاتی مفادات کے حصار سے باہر نہیں نکل سکتی ہیں، اگر نکلنے کے چانسز ہوتے تو ریاستوں کے اسمبلی انتخابات میں نکل گئے ہوتے، لیل و نہار کی گردشیں بتارہی ہیں کہ آنے والے دنوں میں اپوزیشن کا مطلب بدل جائے گا ،اسلئے
لے دے کر ایک بار پھر ساری ذمہ داریاں مسلمانوں ہی کے سرآتی ہیں، جنہیں مسلمانوں کو ہی قبول بھی کرنی ہونگی، اب سوال یہ ہے کہ مسلمانوں کو کیا کرناچاہیے، اس کا جواب یہ ہے کہ سب سے پہلے مسلمانوں کو بحیثیت ہندوستانی مسلمان مضبوط بننے کی کوششیں کرنی ہونگی، اس کے معنی یہ ہوئے کہ مسلمانوں کو وہ سارے کام کرنے ہونگے جو کسی بھی قوم کو ترقی یافتہ بناسکتی ہیں، انفرادی طور پر عصری تعلیم کے گراف کو بڑھاناہوگا ،اخلاقی گراوٹ کو دور کرنی ہوگی ،ایک دوسرے کے حقوق کی ادائیگی کا خیال رکھنا ہوگا، فرقہ کے بجائے مذہب کے حق میں وفادار بننا ہوگا۔
تجارت کے میدان میں مضبوطی سے قدم بڑھانے ہونگے اور ایک دوسرے کو برداشت کرنے کا مزاج پیداکرناہوگا، جبکہ اجتماعی طور مسلک و مشرب سے بالاتر ہو کر بہتر سیاسی حکمت عملی اپنانی ہوگی وہ حکمت عملی نہیں جو ستر سالوں سے مسلسل ناکام ہورہی ہے اور جہاں پورا زور بی جے پی کو شکست دینے پر صرف ہوتا رہاہے بلکہ ایسی سیاسی حکمت عملی جس کے نتیجے مسلمان بھی حکومتوں میں باضابطہ حصہ دار بن سکیں، آزادی سے قبل بہار میں حضرت مولانا ابوالمحاسن محمد سجاد ؒنے جو کامیاب حکمت عملی آپناء تھی کم از کم صوبائی سطح پر وہی حکمت عملی اس دور میں بھی کارگر ثابت ہوسکتی ہے اور اسی سے دستور ہند کو تحفظ بھی فراہم ہوسکتا ہے ورنہ ساری خوبیاں کسی اور سیاسی قیادت کے سامنے سجدہ ریز ہونے کو مجبور ہونگی جیسا کہ مجبور ہوتی رہی ہیں اور ابھی بھی مجبور ہیں صرف آنکھیں کھول کردیکھنے اور انصاف کے ساتھ سمجھنے کی ضرورت ہے، طول کلامی سے اجتناب کی کوشش مولانا کے سیاسی نظریات کی وضاحت سے روک رہی ہے ،اس لئے ذیل میں مولانا سجاد رحمۃ اللہ علیہ کی سیاسی حکمت عملی کا نتیجہ جسے امیر شریعت مفکر اسلام مولانا محمد ولی رحمانی مد ظلہ نے مختصر الفاظ میں لکھاہے قلمبند کیاجارہے۔
’’حضرت مولانا ابوالمحاس محمد سجادؒ اور ان کے رفقاء نے بروقت ایک سیاسی فیصلہ کیا، انہوں نے کانگریس اور مسلم لیگ دونوں کو سبق سکھایا، اسی سیاسی فیصلہ پر پورے اتر ہندوستان میں عمل کیا جاتا تو آج ہندوستان کا مسلمان حسرت اور حیرت کے ساحل پر زندگی نہیں تلاش کرتا‘‘ (مولانا آزاد-کئی دماغوں کا ایک انسان ص 10)
اب گرچہ مسلم لیگ نہیں ہے ؛لیکن بی جے پی ، کانگریس اور متعدد سوکالڈ سیکولر پارٹیاں ہیں، جنہیں سبق سکھانے کی ضرورت ہے، بالکل اسی طرح جس طرح مولانا رحمۃاللہ علیہ نے سکھایا تھا،مجھے واضح طور پر اس بات کا اعتراف ہے کہ سبق سکھانا بچوں کا کھیل نہیں ہے، بلکہ جوئے شیر لانے کے مترادف ہے؛ لیکن جو لوگ یہی کام کررہے ہیں وہ بیٹھ کر سوچیں تو سہی ورنہ کام کیسے چلے گا؟ ؎
کوئی تو سود چکائے کوئی تو ذمہ لے
اس انقلاب کا جو آج تک ادھار سا ہے
(کیفی اعظمی)

(مضمون نگار امارت شرعیہ ،پٹنہ کے معاون قاضی ہیں)

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
×