سیاسی و سماجی

ساحل کے تماشائی!

G20 کی ہندوستان کو ملنے والی صدارت کی خوشی این ڈی ٹی وی سے روش کمار اور پرونورائے کے استعفوں کے دُکھ کے ساتھ یہ کالم لکھنے بیٹھا ہوں تو اَن گنت واقعات و خیالات کی پرچھائیاں ذہن کے پردوں پر متحرک ہیں۔ گجرات کا الیکشن، چیف منسٹر تلنگانہ کے سی آر کی صاحبزادی کے کویتا کے شراب اسکام میں ملوث ہونے کی تصدیق وغیرہ وغیرہ… شروعات تو کہیں سے نہ کہیں سے کرنی ہے‘ تو کیوں نہ جس موضوع پر چرچے عام ہیں‘ اُسی سے آغاز کرتے ہیں۔
نیودہلی ٹیلیویژن انڈیا NDTV جس نے گودی میڈیا کے درمیان ایک حق پسند، سچ بتانے والے، سچ کہنے والے ٹی وی چیانل کی امیج بنائی تھی۔ اب ان کی ملکیت نہیں رہا جنہیں بے باک اور حق پسند صحافت کا علمبردار سمجھا جاتا تھا۔ پرونورائے اور روش کمار نے ایسی ہی اپنی پہچان بنائی ہے۔ پرونورائے کو ہم 80 کے دہے سے دیکھتے آئے ہیں جب صرف دوردرشن ہی ایک واحد ٹی وی چیانل تھا۔ عام طور پر انتخابی نتائج کے اعلان کے دوران پرونورائے انگریزی میں اور ونود دووا ہندی میں تجزیہ پیش کیا کرتے تھے۔ دونوں کا منفرد انداز رہا اور ایک طرح سے یہی دو الکٹرانک میڈیا کے جانے پہچانے چہرے رہے۔ جب 24/7 ٹی وی چیانلس شروع ہوئے تب پرونورائے اور ان کی اہلیہ رادھیکا رائے نے 1988ء میں این ڈی ٹی وی نٹ ورکس لمیٹیڈ قائم کیا۔ جس نے آہستہ آہستہ اپنی ایک الگ پہچان بنائی۔ این ڈی ٹی وی کی بہتر شبیہ کا کریڈٹ روِش کمار کو دیا جاسکتا ہے جنہوں نے 1996ء میں این ڈی ٹی وی سے اپنا رشتہ جوڑا۔ ایک بہترین صحافی جنہوں نے پرنٹ اور الکٹرانک میڈیا میں اپنے آپ کو منوایا۔ ایک ایسے دور میں جبکہ صحیفہ نگار پیروکار بن گئے اور ارباب اقتدار کے تلوے چاٹنے لگے‘ ایسے وقت روِش کمار نے صحافت کے وقار کو برقرار رکھا۔ وہ این ڈی ٹی وی کے سینئر ایگزیکٹیو ایڈیٹر کی حیثیت سے خدمات انجام دیتے رہے۔ وہ مختلف پروگرامس کے میزبان رہے۔ ان کی کھری کھری باتیں، تجزیے، تبصرے دل کو چھولیتے۔ انہیں دو مرتبہ رام ناتھ گوئنکا ایکسیلنس جرنلزم ایوارڈ اور ریمن میگاسیسے ایوارڈ سے نوازا جاچکا ہے۔ پرونورائے کا اپنا مقام مگر روِش کمار عام آدمی کی آواز بن گئے۔ اور اس آواز کو خاموش کرنے کی بار بار کوششیں کی گئیں۔ روش نے ہمت نہیں ہاری۔ ایک ایسے دور میں جب 99% ٹی وی چیانلس کے اینکرس ٹی آر پی بڑھانے کیلئے ملک کے ماحول کو بگاڑ رہے ہیں‘ اور ایک طبقے کے خلاف زہر اُگل رہے ہیں‘ ان کے درمیان روِش کمار اندھیرے میں روشنی کی کرن، چلچلاتی دھوپ میں کسی درخت کی گھنی چھاؤں محسوس ہوتے۔ یہ اندازہ تو ان کے چاہنے والوں کو ہوچکا تھا کہ آج نہیں تو کل روش کمار کو این ڈی ٹی وی چھوڑنا پڑے گا۔ اور وہ دن آ بھی گیا جب پرونورائے اور رادھیکا رائے کے استعفے کے بعد روش کمار نے بھی استعفیٰ دے دیا۔ الکٹرانک میڈیا کا ایک اچھا اور سنہرا دور ختم ہوا۔ ایک نئی شروعات ہوگی یا نہیں یہ آنے والا وقت بتائے گا۔ البتہ یہ جاننا بھی ضروری ہے کہ آخر پرونورائے، رادھیکا رائے نے این ڈی ٹی وی سے تعلقات قطع کیوں کئے اور اگر گوتم اڈانی نے یہ ٹی وی چیانل خریدا تو اس کے پس پردہ محرکات کیا ہیں؟ انگریزی اخبار MINT اور جریدہ بزنس اسٹانڈرڈ کے مطابق این ڈی ٹی وی پرونورائے کے ہاتھ سے اس لئے نکل گیا کہ اس قرض کو ادا کرنے میں ناکام رہے جو انہوں نے گزشتہ 20برس کے دوران دو کمپنیوں سے لیا تھا جس کا کسی نہ کسی طرح سے تعلق اڈانی سے تھا۔ ایک کمپنی وشوا پردھان کمرشیل پرائیویٹ لمیٹیڈ VCPL جو 2008ء میں قائم ہوئی تھی‘ اس نے این ڈی ٹی وی کی پروموٹر کمپنی RRPR یعنی رادھیکا رائے پرونورائے ہولڈنگ پرائیویٹ لمیٹیڈ کو 403.85 کروڑ کا بلاسودی لون اس شرط پر دیا تھا کہ اگر یہ قرض واپس نہ کیا گیا تو جو وارنٹس VCPL کو لون کے عوض دیئے گئے اُسے RRPR میں 99.9% حصص میں تبدیل کیا جائے گا۔ بزنس ڈکشنری کے مطابق اسٹاک ایکسچینج میں وارنٹ کی تعریف یہ ہے کہ وارنٹ ہولڈر کو اس کمپنی کا شیئر خریدنے کا اختیار حاصل ہوتا ہے۔ یہ کمپنی اور ایک فرد کے درمیان یا دو کمپنیوں کے درمیان ایک طرح کا معاہدہ ہوتا ہے۔ اسے متبادل سرمایہ کاری بھی کہتے ہیں۔ عموماً سرمایہ حاصل کرنے کیلئے اسے جاری کیا جاتا ہے۔ 2009ء میں پرونورائے کی کمپنی نے مزید 400 کروڑ کا لون حاصل کیا۔ جس کے بعد این ڈی ٹی وی میں اڈانی گروپ کے حصص 99.18% ہوچکے تھے۔ VCPL کو 2012ء میں اڈانی گروپ نے خرید لیا۔ اور این ڈی ٹی وی کے مالکین کو اس کے لون کی رقم کو مزید 26% اسٹیک میں تبدیل کرنے کی تجویز رکھی۔ چوں کہ این ڈی ٹی وی کے مالکین قرض ادا کرنے کے موقف میں نہیں تھے۔ اڈانی گروپ نے این ڈی ٹی وی کے 26فیصد شیئرس اس کے دیگر شیئر ہولڈرس سے خریدنے کی پیشکش کی۔ اس طرح پرونورائے اور رادھیکا رائے کو اپنے تمام شیئرس اور ملکیت اڈانی گروپ یا VCPL کو منتقل کرنے پڑے۔ 22/نومبر 2022ء کو اڈانی گروپ نے یہ آفر کی اور انہیں خاطر خواہ مثبت ردعمل ملا۔ اس طرح این ڈی ٹی وی گوتم اڈانی کے حصے میں آگئی جوForbes کے مطابق ہندوستان کے ہی نہیں بلکہ ایشیا کے سرفہرست امیر ترین بزنس مین ہیں۔ احمدآباد سے تعلق رکھنے والے گوتم شانتی لال اڈانی13ہزار 780کروڑ ڈالرس یعنی 12لاکھ 11ہزار 460کروڑ روپئے کے مالک ہیں۔ وزیر اعظم مسٹر نریندر مودی کے قریبی سمجھے جانے والے اڈانی بندرگاہوں کے مالک ہیں۔ گرین انرجی، اڈانی پاور، جیسی ملٹی بلین کمپنیاں ان کی ہیں۔ ایک معمولی بنیا خاندان میں پیدا ہونے والے گوتم اڈانی کی ترقی ان کی ہر روز بڑھتی ہوئی دولت قابل رشک ہے۔ کرونا بحران کے بعد ان کے بزنس اور دولت میں کئی سو گنا اضافہ ہوا بلکہ ان کے بارے میں یہ رپورٹ ہے کہ ان کی آمدنی ہر روز 16ہزارکروڑ روپئے ہے۔ ابھی حال ہی میں انہیں ممبئی کے دھراوی سلم کے ڈیولپمنٹ کا پراجکٹ ملا ہے جس کیلئے انہوں نے 50بلین روپئے کی بولی لگائی تھی۔ اڈانی کی سوانح حیات لکھنے والے آر این بھاسکر نے اڈانی کے حوالے سے یہ انکشاف کیا کہ جس وقت انہوں نے اپنا بزنس شروع کیا تھا اس وقت بی جے پی کا نہیں بلکہ کانگریس کا اقتدار تھا۔ چاہے ان کا پاور پلانٹ ہو یا کوئی اور بزنس۔کانگریس کے دور میں شروع ہوا۔ بی جے پی کے دور میں اسے فروغ دینے میں آسانی ہوئی۔
بہرحال! اڈانی نے ملک کی تیرہ بندرگاہیں حاصل کی ہیں۔ وہ بجلی اور گیاس کے سب سے بڑے ڈسٹری بیوٹر ہیں۔ ان کی اور مودی کی دوستی اور ا نہیں حاصل ہونے والی سہولتوں سے متعلق کئی کہانیاں ہیں۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ اڈانی اپنی دولت کی بدولت ارباب اقتدار میں اہمیت کے حامل ہیں اور ترقی کے مواقع ضائع کرنے کے وہ قائل نہیں ہیں۔ انہوں نے این ڈی ٹی وی حاصل کرکے ایک طرح سے میڈیا پر اپنا کنٹرول مکمل کرلیا ہے اور یہ میڈیا موافق بی جے پی سمجھا جاتا ہے۔ این ڈی ٹی وی سے پرونورائے اور روش کے تعلقات ختم ہونے کا افسوس ہے۔ روش کمار جیسے صحافی کوئی نیشنل چیانل پر دیکھنے کی عادت ہوچکی تھی۔ کوئی اور چیانل انہیں ملازمت کا پیشکش کرنے کی اس لئے حماقت نہیں کرے گا کہ روش کمارکے سائے میں وہ چیانل چھپ جائے گا یہ بھی ممکن ہے کہ اسے این ڈی ٹی وی کی طرح اسے بھی مقبولیت حاصل ہو مگر پیشہ ورانہ رقابت اس کی اجازت نہیں دے گی۔ اس کے علاوہ روش کمار کی حق پسندی سے جن طاقتوں کو خطرہ رہا وہ بھی حتی الامکان کوشش کریں گی کہ روش کمار دوبارہ اپنے پیروں پر کھڑے نہ ہوسکیں۔ اگر کوئی چیانل ہمت کرتا ہے تو یہ اس کی دوراندیشی ہوگی۔بیرونی ممالک کے چیانلس بھی ان کی خدمات سے استفادہ کرسکتے ہیں۔ بہرحال! پرونورائے اور رادھیکا رائے یا ان کی ٹیم کے پاس اتنی دولت تو ہوگی نہیں کہ وہ ایک نیا چیانل شروع کرسکے۔ یہ ممکن ہے کہ یوٹیوب چیانلس کے ذریعہ روش کمار اپنی خدمات کا سلسلہ جاری رکھیں۔ اور بھی بہت سے حق پسند صحافیوں نے یوٹیوب کو اپنا پلیٹ فارم بنایا ہے۔ بڑی حد تک کامیاب بھی ہیں۔ رہی بات روش سے ہمدردی کی تو یہ عارضی ہی ہوگی کیوں کہ ہم بہت جلد بھلادینے کے عادی ہیں۔ روش کمار کے ساتھ ہمدردی اس بات کا ثبوت ہے کہ دنیا سچ کی قدر کرتی ہے اور سچ بولنے والے کا احترام۔ کاش ہمارے صحافتی ادارے اس سے سابق حاصل کرتے اور ہماری صحافتی برادری دیانتداری کے ساتھ اپنے فرائض انجام دیتی۔ آج کل اپنی برادری کے بعض ساتھیوں کو دیکھتا ہوں تو افسوس ہوتا ہے۔ معمولی مفادات کی خاطر کس قدر ہم صحافتی اقدارسے سمجھوتہ کرلیتے ہیں۔
بہرحال! این ڈی ٹی وی پرونورائے اور روش کمار کے بارے میں بس اتنا ہی کہا جاسکتا ہے
ساحل کے تماشائی ہر ڈوبنے والے پر
افسوس تو کرتے ہیں امداد نہیں کرتے

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
×