احوال وطن

شاہین باغ میں ۷۱؍واں یومِ جمہوریہ پورے ملک کی توجہ کا مرکز بن گیا‘ لاکھوں لوگوں نے کی بلا لحاظِ مذہب شرکت

نئی دہلی: 26؍جنوری (ذرائع) دارالحکومت دہلی کے جامعہ نگر کے شاہین باغ علاقے اور جامعہ ملیہ اسلامیہ میں یوم جمہوریہ کا جشن بہت دھوم دھام اور جوش وخروش کے ساتھ منایا گیا۔ شاہین باغ میں رات کے 12؍ بجتے ہی قومی گیت کے ساتھ جشن کا ماحول شروع ہوا، جو پوری رات جاری رہا۔ اس کےبعد 71 ویں یوم جمہوریہ کے موقع پر پرچم کشائی کی تقریب منعقد کی گئی۔ اس موقع پر ہزاروں کی تعداد میں لوگ یہاں موجود رہے۔ آج صبح سے لوگ بڑی تعداد میں جمع ہونےلگے اور پرچم کشائی کے موقع پر لاکھوں کی تعداد میں لوگ جمع ہوگئے اور لوگوں کے کھڑے ہونے کے لئے جگہ باقی نہ رہی۔ پرچم کشائی تقریب میں ہندو، مسلم، سکھ، عیسائی نےشرکت کرکے قومی یکجہتی کا پیغام دیا۔

شہریت ترمیمی قانون کے خلاف شاہین باغ میں مظاہرہ کرنے والے عوام کے درمیان شاہین باغ کی تینوں دادیاں اور  روہت ویمولا کی ماں رادھیکا ویمولا اور جواہر لعل نہرو یونیورسٹی (جے این یو) سے لاپتہ طالب علم، نجیب کی ماں فاطمہ نفیس نے اس تاریخی موقع پر 80؍فیٹ اونچا  ترنگا لہراکر یوم جمہوریہ 2020 کی تقریب منائی۔ پرچم کشائی کی گئی اور اس کے بعد قومی گیٹ گایا گیا۔ جامعہ ملیہ اسلامیہ اور شاہین باغ دونوں مقامات پر قومی یکجہتی کا پیغام دیا گیا۔ اس موقع پر آئین اور دستور ہند کی حفاظت کا عہد کیا گیا۔ ساتھ ہی اتحاد اور بھائی چارہ کو فروغ دینے کے لئے مختلف ثقافتی پروگرام پیش کئے گئے۔ اس موقع پر ایک بار پھر سی اے اے اور این آرسی کی مخالفت کرتے رہنےکا عہد کیا گیا۔ شاہین باغ میں آج بھی مردوں سے زیادہ خواتین کی تعداد دیکھی گئی۔ یوم جمہوریہ کے جشن اور سی اے اے اور این آرسی کی مخالفت میں شامل خواتین نے ایک بار پھر دوہرایا ہےکہ ہم اپنے مطالبات تسلیم ہونےتک احتجاج کرتے رہیں گے اور دستور ہندکی حفاظت کریں گے۔ شاہین باغ کےلوگوں کا یہ بھی کہنا ہےکہ دستور ہند کی حفاظت کےلئے ہم جان ومال کی قربانی کے لئے تیار ہیں۔

واضح رہےکہ جامعہ ملیہ اسلامیہ اور شاہین باغ میں گزشتہ 42 روز سے سی اے اے اور این آر سی کی مخالفت کی جارہی ہے۔ ہر رات سینکڑوں خواتین اپنے گھر کے باہر دھرنے پر بیٹھ کراحتجاج کرتی ہین، لیکن اب تک ان کی پریشانیوں کو سننے والا حکومت کا کوئی نمائندہ نہیں آیا ہے جبکہ یہ آواز پوری دنیا میں پہنچ چکی ہے۔ آج شاہین باغ میں بھی چھوٹے چھوٹے بچوں نے یہاں پہنچ کر بابا صاحب امبیڈکر والی آزادی کا مطالبہ کیا۔ قابل ذکر ہے کہ شاہین باغ ہر دن نئے چیلنج کا سامنا کر رہا ہے وہیں خود شاہین باغ بھی ہر روز نئے چیلنج دے رہا ہے اور ملک کے مخلتف حصوں میں شاہین باغ کے طرز پر احتجاج کیا جارہا ہے۔ واضح رہے کہ اس احتجاج کی خاص بات یہ بھی ہے کہ کپکتاتی سردیوں میں بھی شاہین باغ کی خواتین دھرنے پر بیٹھی رہیں اور پوری پوری رات انہوں نے سڑکوں پر گزاری ہے۔ اس کے باوجود ان کے حوصلے میں کوئی کمی نہیں آئی ہے۔

اس سے قبل بھی شاہین باغ اور جامعہ ملیہ اسلامیہ کی یہ پُرامن تحریک ہر روز ایک نئی اور انوکھی شکل اختیار کرتی رہی ہے۔ کچھ دنوں قبل ہی یہاں جو آرٹ اور فنون کی مثال پیش کی گئی ہے، اس کو دیکھنے کے لئے ہزاروں کی تعداد میں لوگ جمع ہوئے تھے۔ اس پینٹنگ کو بنانےکی ذمہ داری جامعہ ملیہ اسلامیہ اور جواہر لال نہرو یونیورسٹی کے طلباء وطالبات نے نبھائی تھی۔ شاہین باغ احتجاجی مظاہرے کی جگہ پر جو کیلی گرافی اور خوبصورت پینٹنگ بنائی گئی تھی۔ اس میں فیض احمد فیض کی نظم ‘لازم ہےکہ ہم بھی دیکھیں گے’ تحریر کی گئی تھی اور اس نظم کےلئے ایک دل نما آرٹ پیش کیا گیا تھا۔

اس سے دو روز قبل ہی یہاں مصنوعی انڈیا گیٹ بنایا گیا تھا، جو آج بھی لوگوں کی توجہ کا مرکز بنا ہوا ہے۔ یہاں نئی دہلی کے انڈیا گیٹ کی طرز پر من وعن بنایا گیا۔ شاہین باغ کے لوگوں سے بات کرنے کے بعد اس بات کا اندازہ ضرور ہوتا ہے کہ یہ احتجاج جاری رہے گا اور یہ تحریک جلد ختم نہیں ہونے والی ہے۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
×