سیاسی و سماجی

’’ یوم جمہوریہ، یوم عہد ‘‘

ہمارا ملک ہندوستان ایک آزاد اور جمہوری ملک ہے ،جسے تن کے گورے من کے کالے غاصب وقابض اور غدار ومکار انگریزوں سے آزاد کرانے کے لئے طویل جہد جہد کرنی پڑی تھی ،پُر خطر راہوں سے گزرنا پڑا تھا ،میدان جنگ میں طویل مدت تک پڑاؤ ڈالنا پڑا تھا ، سینے پربندوق کی گولیا کھانی پڑی تھی ، توپ کے دہانوں پر سر رکھنا پڑا تھا، تلوار کے زخم کھانے پڑے تھے اور پھانسی کے پھندوں کو گلے لگانا پڑا تھا تب جاکر ملک آزاد ہواتھا اور وطن کے باشندگان کو غلامی کی ذلت سے چھٹکارہ ملا تھا ،وطن عزیز پر غاصبوں کے قبضے سے لے کر جنگ آزادی کی پُر خطر راہوں سے گزرکر اور آزادی کی دہلیز پر قدم رکھنے تک جن حالات سے دوچار ہونا پڑا اس کی ایک طویل داستان اور ایک دردناک کہانی ہے جسے سن کر آنکھیں اشکبار ہوجاتی ہیں اور روحیں کانپ اٹھتی ہیں ، وطن کے جیالوں اور محبان وطن نے آزادی کے لئے جس عزم وحوصلے کے ساتھ سر فروشانہ مظاہرہ کیا تھا اسے پڑھتے ہوئے بڑا فخر محسوس ہوتا ، جی چاہتا ہے کہ کھڑے ہوکر ان کی روحوں کو سلام پیش کریں اور عالم تصور میں جاکر ان کے ماتھے کو چوم لیں ،یہ وہ ہستیاں تھیں جنہوں نے بے سروسامانی کے باوجود مگر عزم وحوصلے سے لیس ہوکر میدان کار زار میں کود پڑے تھے،مذہب وملت سے بالا تر ہوکر صرف وطنی رشتے کی بنیاد پر قدم سے قدم ملاکر دشمنوں پر قہر بن کے ٹوٹ پڑے تھے ،سالہا سال گزرنے کے باوجود ان کے حوصلے جوان اور عزائم بلند تھے ، ان کے حوصلوں کی پرواز دیکھ کر شاہین بھی رشک کرتے تھے ،دشمنوں کی گولیاں ،توپ کے گولے ،پھانسی کے پھندے اور تلوار کی دھا رنے ہمت ہار دی مگر ان جیالوں اور متوالوں کے عزم میں جنبش تک نہیں آئی ،انہوں نے سینہ سپر ہو کر بتادیا کہ آزادی سے ہٹ کر کوئی چیز ہمیں منظور نہیں ہے ،بالآخر وہ دن بھی آیا جس کا طویل مدت سے ہر ہندوستانی کو انتظار تھا ،۱۵ ؍ اگست ۱۹۴۷ء کو آزادی نصیب ہوئی ،اس طرح یہ ملک برطانوی تسلط سے آزاد ہو گیا،آزادی کے لئے کیسی کیسی قربانی دینی پڑی اور کن مراحل سے گزرنا پڑا اس کی ایک طویل داستان ہے ، تاریخ بتاتی ہے کہ ملک کی آزادی کے لئے کم وبیش تین لاکھ سے زائد مسلمانوں اور تقریبا باون ہزار علماء کرام نے اپنے جانوں کی قربانی دی تھی ، یہ بات مسلم ہے بلکہ تاریخی ریکارڈ ہے کہ ہندوستان کی غلامی کے بعد اس کی آزادی کی تحریک سب سے پہلے مسلمانوں کے دینی رہبر ورہنما علماء ہی نے چلائی تھی ، سب سے پہلے آزادی کا صور پھونکنے والی شخصیت نواب سراج الدولہ تھی جنہوں نے ۱۷۰۰ء میں آزادی کی خاطر میدان عمل میں کود پڑے تھے پھر شہید ہند سلطان ٹپوؒ نے اسے آگے بڑھایا تھا ،حضرت شاہ عبدالعزیز محدث دہلویؒ کے فتوی نے اس میں جان پیدا کی تھی اور شیخ الہند مولانا محمود حسن دیوبندی ؒ کی تحریک ریشمی رومال نے اسے عروج عطا کیا تھا، دارالعلوم دیوبند کے اولین صدر المدرسین مولانا محمود حسن دیوبندی المعروف شیخ الہندؒ نے آزادی کے لئے ریشمی رومال کے نام سے ایک عظیم تحریک چلائی تھی اور آپؒ کے شاگر د رشید شیخ الاسلام مولانا سید حسین احمد مدنیؒ شیخ الحدیث دارالعلوم دیوبند اور دیگر تلامذہ نے پوری قوت کے ساتھ ملک میں آزادی کی زور دار مہم چلائی اور اسی جرم کی پاداش میں کئی سال مالٹا (کالاپانی) اور دیگر جیلوں کی کوٹھریوں میں گذاردئے تھے ، ایک عرصہ تک تو مسلمانوں نے تنے تنہا آزادی کے لئے جد جہد کی تھی بعد میں اس میں دیگر باشندگان کو بھی ساتھ کر لیا تھا اور پھر سبھوں کی جدو جہد ،محنت وکوشش کے نتیجہ میں ملک کو آزادی نصیب ہوئی،یقینا آزادی کا دن ہندوستانی تاریخ کا نہایت خوبصورت ،خوشیوں سے بھر پور اور سنہرا دن ہے ۔
آزادی کے بعد ہندوستان کے لئے دوسرا پُر مسرت دن ۲۶؍ جنوری ۱۹۵۰ء ؁ ہے ،اس دن جمہوریت کی بنیاد پر وضع کردہ جدید قانون کے نفاذ کا حکم دیے کر حکومت ہند ایکٹ جو ۱۹۳۵ سے نافذ تھا اسے منسوخ کر دیا گیا،اسطرح ہندوستان دنیا کی عظیم پارلیمانی ،غیر مذہبی جمہوریت بن گیا،یہ دنیا کا سب سے بڑا جمہوری ملک ہے ،ایک ارب ۳۰ کروڑ شہریوں کے ساتھ دنیا کی دوسری سب سے بڑی آبادی والی ریاست میں اس کا نام درج ہے ، اس میں مختلف مذاہب اور الگ الگ تہذیب وتمدن کے لوگ رہتے ہیں ،یہ شروع ہی سے پیار ومحبت کا گہوارہ رہا ہے ،یہاں کی بھائی چارگی پوری دنیا میں مشہور تھی، کہنے والے اسے مختلف رنگ ونسل اور مذہب وملت کا حسین گلدستہ کہا کرتے تھے ،ان میں بھید بھاؤ بالکل بھی نہیں تھا ،اس کا بین ثبوت آزادی کی لڑائی اور انگریزوں کے خلاف جدجہد ہے ،چنانچہ اسی وجہ سے ملک کا قانون رنگ ونسل اور ذات ومذہب سے بالاتر ہو کر رکھا گیا ، آزادی کے بعد ہندوستان کے آئین اور دستو ربنانے کے لئے ڈاکٹر امبیڈ کر کی چیئر مین شپ میں ۱۹؍ اگست ۱۹۴۷ء کو ایک ڈرافٹنگ کمیٹی وجود میں آئی ،فروری ۱۹۴۸ء میں اس قانون کا مسودہ (ڈرافٹ) شائع کیا گیا ،۲۶؍نومبر۱۹۴۹ء کو آئین کو منظوری دے دی گئی اور اس کا اطلاق آج ہی کے دن یعنی ۲۶؍ جنوری ۱۹۵۰ء سے شروع ہوا،اس آئین ساز اسمبلی میں دوسرے اراکین کے ساتھ آئین سازی کے عمل میں مسلمان اراکین نے بھی حصہ لیا ،ان میں مولانا ابوالکلام آزاد ؒ ، بیرسٹر آصف علی ،خان عبدالغفار خان،محمد سعد اللہ ،عبدالرحیم چودھری،بیگم اعزاز رسول اور مولانا حسرت موہانیؒ شامل تھے ،اس دستاویزپر مولانا حسرت موہانی کے علاوہ سبھی اراکین اسمبلی نے دستخط کئے ،ہندوستانی آئین کی خصوصیت اور کے اجمالی ذکر سے قبل جانتے ہیں کہ آخر جمہوریت کسے کہتے ہیں اور اس کی تعریف کیا ہے ،جمہوریت کے لغوی معنی ’’لوگوں کی حکمرانی‘‘جمہوریت کا لفظ دو یونانی الفاظ Demo یعنی’’ عوام‘‘ اور Kratos یعنی ’’حکومت ‘‘سے مل کر بنا ہے ، دستور ہند نے ہندوستانی عوام کو خود اپنی حکومت منتخب کرنے کے لئے خود مختار بنایا ہے اور ہندوستانی عوام کو سر چشمہ اقتدار مانا ہے،دستور نے پارلیمانی طرز کی جمہوریت کے سامنے کابینہ کو اپنے فیصلے قانون سازی اور اپنی پالیسی کے لئے جواب دہ بنایا ہے اور تمام باشندے بلا تفریق مذہب وملت ایک مشترکہ جمہوریت میں پرودئے گئے ہیں ،جمہوریت میں مذہب کی اہمیت کا بھی اعتراف کیا گیا ہے اور بتایا گیا ہے کہ یہ ملک مذہب کی بنیاد پر حکومت نہیں کرے گا ،دستور کی 42 ویں ترمیم کی رو سے ’’سیکولر اسٹیٹ‘‘ کہا گیا ہے ،جہاں ہر مذہب کا احترام ہوگا اور مذہب کی بنیاد پر کسی قسم کا کوئی امتیازی سلوک نہیں کیا جائے گا،مذہب یا ذات پات کی بنیاد پر کسی شہری کو شہریت کے حق سے محروم نہیں کیا جائے گااور ہر شہری کو ملکی خدمات سے متمتع ہونے اور فائدہ اٹھانے کا پورا موقع ملے گا،آئین کی رو سے ہر ہندوستانی قانون کی نگاہ میں برابرہے،ہر شہری کو آزادی رائے ،آزادی خیال اور آزادی مذہب حاصل ہے ،اقلیتوں کو بھی دستور میں ان کا حق دیا گیا ہے ۔
مگر یہ بات تجربات ، مشاہدات اور موجودہ حالات کی روشنی میں کہتے ہوئے کوئی تامل نہیں ہے کہ اس عظیم جمہوری ملک جس کے دستور میں سب کے لئے مساویانہ حقوق بیان کئے گئے ہیں اور ہر ایک کو آزادی کے ساتھ اپنے اپنے مذہب پر مکمل عمل کا اختیار حاصل ہے اس کے باوجود یہاں کے باشندگان مثلاً بچھڑے طبقات ،دلت ،آدیواسی اور خصوصاً مسلمان مستقل ظلم وستم اور ناانسافی کا شکار ہورہے ہیں ،کبھی ان سے ان کے حقوق چھیننے کی کوشش کی جاتی ہے تو کبھی ان پر ظلم وستم کے پہاڑ توڑے جاتے ہیں تو کبھی فوائد سے انہیں محروم کیا جاتا ہے تو کبھی ان کے ساتھ امتیازی سلوک کیا جاتا ہے تو کبھی ان کے مذہبی معاملات میں مداخلت کی جاتی ہے ،جب کبھی یہ اپنے حق کا مطالبہ کرتے ہیں تو ان پر طرح طرح کے الزامات لگا کر بلا کسی ثبوت کے جیلوں میں بند کر دیا جاتا ہے ،ان تمام حالات کو دیکھ کر ایسا لگتا ہے مسلمان اس ملک کے حقدار نہیں بلکہ کرائے دار ہیں ،حالانکہ تاریخ جانتی ہے اور باضمیر ہر شہری کا دل جانتا ہے کہ اس ملک کی آزادی میں جتنا حصہ دوسروں نے ادا کیا ہے اس سے کہیں زیادہ مسلمانوں نے کیا ہے بلکہ سچ تو یہ ہے کہ جتنا خون مسلمانوں کا بہا ہے اتنا پسینہ بھی کسی اور کا بہا نہیں ہے، آزادی ہند اور اس کے بعد سے مسلسل مسلمان دیگر برادارن وطن کے ساتھ مل کر ملک کی ترقی ،کامیابی اور خوش حالی کے لئے کوششیں کر رہے ہیں اور تعلیمی،تعمیری، سائنسی، ثقافتی ،تفریحی اور تجارتی تمام شعبہ جات میں اپنا لوہا منواچکے ہیں ،ان تمام تر خدمات کے باوجود پھر بھی انہیں اجنبی نگاہوں سے دیکھا اور اچھوت سمجھا جارہا ہے ،ان کے حقوق چھینے جارہے ہیں اور ان کے ساتھ غیروں کی طرح سلوک کیا جارہا ہے ،کبھی انہیں پڑوسی ملک کا نام لے کر ذہنی اذیت دی جاتی ہے تو کبھی ملک سے بے وفائی کا الزام لگایا جاتا ہے تو کبھی دہشت گردی کاجھوٹا ان پر الزم لگا یا جاتا ہے ، اس وقت یہ سلسلہ آگے بڑھتے بڑھتے اپنے تمام حدوں کو پار کر چکا ہے ،موجودہ حکومت تو اپنا مشغلہ ہی یہی بناچکی ہے کہ کس طرح مسلمانوں کو ستایا جائے اور ان پر ظلم وستم کے پہاڑ توڑے جائیں ،یہ لوگ ملک کی عوام سے جھوٹا وعدہ کرکے حکومت کی کرسی پر قبضہ جماچکے ہیں ،ترقیاتی کاموں کو چھوڑ کر باشندگان میں بھید بھاؤ پیدا کرنا ،نفرت کی آگ بھڑکانا اور شہریوں کے سکون وچین کو برباد کرنا ان کا وطیرہ بن چکا ہے ، آئین کے نام سے اور دستور کی قسم کھا کر عہدہ کا حلف لینے والے یہ خود دستور کے ساتھ کھلواڑ کر رہے ہیں ،یہ عجیب بات ہے کہ ان کی نظر میں دستور کے ساتھ کھلواڑ کرنے ولا تو ملک کا سچا محب ہے اور دستور کی حفاظت کے لئے جد جہد کرنے ولا مجرم ہے ،حالانکہ اس وقت ملک میں عوامی فلاح وبہبود کے لئے کرنے کے بہت سے کام ہیں جیسے غربت دور کرنا،غریبی دور کرنا ،پسماندگی دور کرنا ،جہالت دور کرنا وغیرہ ،آج بھی ہندوستان کی ایک تہائی آبادی خط افلاس سے نیچے زندگی گزار رہی ہے ،ایک سروے کے مطابق 48 فیصد لوگوں کے پاس اپنے مکانات نہیں ہیں ،75 فیصد دولت اور سرمایہ صرف چند لوگوں کے ہاتھوں میں محدود ہے ،اس وقت آئین اور دستور کی سب سے زیادہ دھجیاں اُڑائی جارہی ہیں ،مسلمانوں ،دلتوں ،آدی واسیوں ،کسانوں اور کمزور طبقات کے ساتھ دوسرے درجہ کے شہری جیسا سلوک کیا جارہا ہے اور انہیں اپنے جائز حقوق سے محروم کرنے کی ناپاک سازشیں تیار کی جارہی ہیں بلکہ کی جا چکی ہیں ۔
موجودہ حکومت جس کی باگ ڈور کسی اور کے ہاتھ میں ہے ،وہ کچھ اور ہی چاہتے ہیں ،وہ دستور میں تبدیلی کے ذریعہ شہریوں سے ان کے حق چھیننا چاہتے ہیں جس کے لئے وہ کافی عرصے سے کوشش میں لگے ہوئے تھے ،سب سے پہلے انہوں نے مذہب کے نام پر سیاسی کھیل کھیلا اور لوگوں میں تفریق پیدا کی،پھر مسلم عورتوں سے جھوٹی ہمدردی کا سہارا لے کر طلاق ثلاثہ کے ذریعہ شریعت میں مداخلت کی اور اس وقت شہریت کے نام پر جدید قانون لاکر شہریوں کی شہریت پر سوالیہ نشان لگانے میں لگانا چاہتے ہیں ،کس قدر شرم کی بات ہے کہ جس نے وٹ دیا ہے اُسی سے وٹ کا حق چھیننا چاہتے ہیں اور جس نے حکومت پر بٹھا یا اُسے ہی ملک سے بھگانا چاہتے ہیں ،ان کی نظر میں ہر شہری مشکوک ہے اور ہر باشندہ ناقابل اعتبار ہے ،دراصل یہ ایک سوچی سمجھی سازش کے تحت ہو رہا ہے ،یہ جمہوری ملک کو مذہبی ملک اور ہندو راشٹر میں تبدیل کر نا چاہتے ہیں ،ملک کے باشندگان پر اپنی اجارہ داری قائم کرنا چاہتے ہیں ،ان سے شہریت چھین کر انہیں وٹ کے حق سے بے دخل کرنا چاہتے ہیں اور اپنے نوکر بناکر اپنے رحم وکرم کے دم پر رکھنا چاہتے ہیں ،یہ شیطانی چال چل رہے ہیں ، نظر مسلمانوں کی طرف ہے مگر نشانہ سب پر ہے ،ان کے عقل پر ماتم کیجئے کہ اپنے شہریوں کو غیر قانی قرار دے کر باہر کے لوگوں کو شہریت دینا چاہتے ہیں ، ان کی مثال اس طرح ہے کہ کوئی شخص گھر میں ڈاکہ ڈالتا ہے اور لوگوں میں پیسے تقسیم کرتا ہے اور پوچھنے پر کہتا ہے کہ میرا مقصد ہمدری کے سوا اور کچھ نہیں ہے ،اس وقت شہریت ترمیمی بل کے خلاف پورا ملک سڑوں پر نکل کر سرتاپا احتجاج بناہوا ہے ،اس میں کسی ایک مذہب کے ماننے والے نہیں ہیں بلکہ تمام مذاہب کے لوگ ہیں جن میں کافی تعداد میں عورتوں اور بچوں کی ہے ۔
یقینا دستور ساز کمیٹی کے سر براہ ،معروف لیڈر ڈاکٹر امبیڈکر کی وہ بات یاد آرہی ہے جو انہوں نے آئین ساز اسمبلی میں آئین کا مسودہ پیش کرتے ہوئے کہا تھاکہ’’دنیاکا کوئی بھی قانون کامل نہیں ہو سکتا ،اس کو موثر اور قابل استعداد بنانا روبہ عمل لانے والے افراد اور ادروں کی نیت اور ہیت پر منحصر ہے ،اسی تقریر میں انہوں نے مزید کہا تھا کہ ایک اچھے سے اچھا آئین بھی اگر نااہل اور بے ایمان کے ہتتے چڑھ جائے تو بد سے بد تر ثابت ہو سکتا ہے ،اس کو چلانے والے اداروں کے ذمہ دار اگر ذہین فراخ دل اور بامروت ہوں تو خراب سے خراب تر آئین بھی اچھا ثابت ہو سکتا ہے‘‘، اس وقت کچھ یہی صورت حال ہے ،حکومت چلانے والے بے مروت، بد باطن اور آئین دشمن ہیں،ان کی چالوں سے واقف ہونا اور ان کی گندہ ذہنیت سے کو سمجھنا ضروری ہے اور جمہوریت کے اصولوں کی حفاظت اور اس کے دستور کے تحفظ کے لئے کمر بستہ ہونا ضروری ہے اور یہ ہر شہری کی اہم ترین ذمہ داری ہے ،اس کا تعلق کسی مذہب سے نہیں ہے بلکہ ملک اور اس کے تمام باشندگان سے ہے ، ملک اور اس کا دستور زبان حال سے ہر شہری کو اس کی حفاظت کے لئے آواز دے رہا ہے ، چنانچہ ہر ایک کی ذمہ داری ہے کہ وہ متحد ہو کر ،بیک آواز اور ایک طاقت بن کر دستور بچانے میں آگے آئیں ، حکمران ظالم ہیں اور ہم مظلوم ہیں ،اگران کے پاس اقتدار ہے تو ہمارے پاس اتحاد ہے ،ان کے پاس طاقت ہے تو ہمارے پاس ہمت ہے اور اگر ان کے پاس لاٹھی ہے تو ہمارے پاس وطن کی محبت میں دھڑکتا دل ہے ،یوم جمہوریہ ہر سال آتا ہے اور تحفظ جمہوریت کا پیغام دیتا ہے اور جمہوریت کے تحفظ کے عہد کی تجدید کراتا ہے اور کہتا ہے کہ اگر جمہوریت محفوظ ہے تو پھر جشن یوم جمہوریہ تمہارا حق ہے اگر جمہوریت خطرہ میں ہے تو پھر جشن یوم جمہوریہ منانا کسی مذاق سے کم نہیں ہے ،اس لئے یوم جمہوریہ کے موقع پر ہر شہری کو دستور کی حفاظت اور جمہوریت کی بقا کے لئے ہر طرح کی قربانی دینے کا عہد کرنا چاہیے اور یاد رکھنا چاہیے کہ پہلے آزادی کے لئے لڑائی لڑی تھی اور اب دستور بچانے کے لئے لڑنا ہے ،مسلمانوں کے اس ملک پر بہت احسانات ہیں ،انہوں نے اس ملک کو سجانے اور سنوار میں اپنا بہت کچھ لگایا ہے جس کی مثالیں بلند وبالا تاریخی عمارتوں کی شکل میں موجود ہیں ،ملک کے طول وعرض میں پانی کی نہریں ،پل وسڑکیں ،اسپتال وشفاخانے اور انسانیت کے لئے کی گئی بہت سی خدمات انہیں کے آبا واجداد کی یاد گار ہیں ،پھر آزادی کے لئے بہایا گیا خون ، لُٹائی گئیں جانیں اور میدان کارزار میں دکھائے گئے کارنامے تاریخ کے ہر صفحہ پر موجود ہیں اور سلام کرتے ہیں مگر افسوس کہ مسلمانوں سے کہا جاتا ہے کہ یہ وطن ہمارا ہے تمہارا نہیں ؎
جب گلستاں کو خوں کی ضرورت پڑی ،سب سے پہلے ہماری ہی گردن کٹی

پھر بھی کہتے ہیں ہم سے یہ اہل چمن، یہ چمن ہے ہمارا تمہارا نہیں
اہل ایمان کا ایمان وایقان ہے کہ حکومت وسلطنت اللہ کے ہاتھ میں ہے ،وہ جس طرح دینے پر قادر ہے اسی طرح لینے پر بھی قادر ہے ،دنیوی بادشاہوں کے چاہنے سے کچھ نہیں ہوتا بلکہ شہنشاہ یعنی اللہ کے چاہنے پر ہی سب کچھ ہوتا ہے ،ظاہری اسباب تو اختیار کرنا ہے مگر فیصلہ مسبب الاسباب پر چھوڑ ناہے ، کفر کا دور تو چل سکتا ہے مگر ظلم زیادہ عرصے تک ٹک نہیں سکتا ،وہ مظلوموں کی سنتا ہے اور ان کی فریاد رسی کرتا ہے ،ہم اسی کے سامنے فریاد کرتے ہیں اور اسی سے مدد طلب کرتے ہیں ،یقینا وہ سنتا ہے ؎
ظالموں اپنی قسمت پہ نازاں نہ ہو،دور بدلے گا یہ وقت کی بات ہے

وہ یقینا سنے گا دعائیں مری، کیا تمہارا خدا ہے ہمارا نہیں

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
×