شخصیاتمفتی محمد صادق حسین قاسمی

مؤرخ اسلام مولانا قاضی اطہر مبارکپوریؒ :علم وتحقیق کی یادگار شخصیت

دنیامیں کچھ لوگ وہ ہوتے ہیں جنہیں دیکھے بغیر بھی ان کی عظمت وعقیدت کے نقوش دل پر ثبت ہوجاتے ہیں،جن کے علمی کارنامے اور عظیم خدمات انسانوں کوشیدائی وگرویدہ بنادیتے ہیں ،چناں چہ مؤرخ اسلام حضرت مولانا قاضی عبدالحفیظ اطہر مبارکپور ی ؒ بھی ان نادرۂ روزگار شخصیات میں سے ہیں جنہیں دیکھے بغیر بھی انسان ان کو پڑھ کر اور ان کی علمی وتحقیقی تصنیفات سے مستفید ہوکر ان سے عقیدت رکھنے لگتا ہے اور ان کی قابلِ رشک زندگی سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا۔قاضی اطہر مبارکپوری ؒ ایک خالص علمی اور تحقیقی آدمی تھے ،انہوں نے علم وتحقیق کی سنگلاخ وادی کو کمالِ ہمت وحوصلہ سے عبورکیا اور اپنی عظمت وقابلیت کا لوہا منوایااور ایک تاریخ بناکر ،آنے والی نسلوں کو پیغام وسبق دے کر دنیا سے رخصت ہوئے،عزم وہمت اور بلند حوصلہ کی تعلیم دے کر اور ہر بادِ مخالف کا سامناکرکے جوہرِ علم سے آراستہ ہونے کی مثال دے گئے،انسان اگر مضبوط ارادہ کرکے اور بلندیوں کو حاصل کرنے کا جذبہ اپنے اوپر سوارکرلے تو راہ کی مشکلات آسان ہوتے جاتی ہیں اور ناہمواریوں کے باوجود بھی کامیابی وترقی کی منزلیں قدم چومنے تیار رہتی ہیں اس کا جیتا جاگتا نمونہ قاضی اطہر مبار کپوری ؒ کی شخصیت تھی۔
قاضی اطہر مبارک پوری ؒ کی شخصیت بہت بلند تھیں اور ان کی عظمتوں کا اعتراف بھرپور انداز میں کیاگیااور ان کی عظیم خدمات کو خراجِ تحسین پیش کیاگیا ،زیرِ نظر تحریر نہ قاضی صاحب ؒ کی خدمات کا احاطہ کرنے کے لئے لکھی جارہی ہے اور نہ ہی حیات کے مختلف گوشوں پر روشنی ڈالنے کے لئے،بلکہ قاضی صاحب ؒ کی خود نوشت سوانح ’’ کاروانِ حیات: قاعدۂ بغدادی سے صحیح بخاری تک ‘‘ کے مطالعہ سے متاثرہوکر ذہن ودل پر جو نقش مرتب ہوئے ہیں اسی کو صفحۂ قرطاس پر رقم کیا جارہا ہے۔اور یہ بھی اتفاق ہے کہ جولائی کے اسی مہینہ میں علم وتحقیق کا یہ گنجِ گراں مایہ اس دنیا سے رخصت ہوا ہے ،چناں چہ 14جولائی1996ء کو قاضی صاحب دنیا سے کوچ کرگئے،اس طرح یہ مختصر تاثراتی تحریر ان کے لئے ایک طالب علم کی جانب سے ان کے یومِ وفات کی مناسبت سے خراجِ عقیدت ہوگی۔
ان کے حالاتِ زندگی اورجہدِ مسلسل سے سے بھرپور حیات طالبانِ علوم نبوت کے لئے، قلم کاروں ،مضمون نگاروں ،اور علم وتصنیف کا کام کرنے والوں کے لئے ایک عزم وحوصلہ دینے والی زندگی ہے،راہِ علم کے مسافروں کے لئے امید وشوق کا ذریعہ ہے ،انہوں نے زندگی میں حالات کا بڑی پامردی کے ساتھ مقابلہ کیا،اپنی زندگی کو کامیاب بنانے کے لئے قابلِ حیرت ورشک محنتیں کیں،اپنی شخصیت کو بنانے اور سنوارنے کے لئے قربانیوں کی ایک داستان رقم کی ،اپنے عہد کے نامور علماء واہلِ قلم سے استفادہ کیا،اپنی راتوں کی تنہائیوں کو مطالعہ وکتب بینی میں گزارا،زندگی کے لمحہ لمحہ کو پڑھنے،لکھنے اور تحقیق کے موتی لٹانے میں بسرکیا،سادگی ،قناعت پسندی،گوشہ نشینی میں رہ کرآسمانِ علم وتحقیق کے نیر تاباں بن کر چمکے ،گمنامیوں میں رہ کتاب وقلم سے رشتہ ایسا جوڑاکہ دنیا کو حیران وششدرکرگئے،اپنی عالمانہ وضع قطع کے ساتھ قرطاس وقلم کی خدمات انجام دیتے رہے ،اخبارات ورسائل کو اپنے گراں قدر مضامین سے سجاتے رہے اور اہل علم وتحقیق سے تاحیات دادوتحسین پاتے رہے،آپ نے اپنے عہد کے تقریبا معروف ومشہور رسالوں میں لکھا اور خوب لکھا،شاعری بھی کی اور نثر نگاری میں تو آپ تھے ہی باکمال،منصبِ درس وتدریس کو بھی زینت بخشی، اور احیا ء العلوم مبارکپور سے لے کر جامعہ تعلیم الدین ڈابھیل گجرات تک تدریسی خدما ت کا سلسلہ رکھا ،علوم وفنون کی مختلف کتابوں کوپڑھایا،ممبئی کے مشہور روزنامہ ’’انقلاب ‘‘ میں تقریبا چالیس سال کے طویل عرصہ تک وابستہ رہ کر صحافتی خدمات انجام دیتے رہے ،اوراخبار انقلاب کو خوب سے خوتر بنانے کے لئے اپنا خونِ جگر لگاتے رہے،تقریبا 26سال تک ’’ماہنامہ البلاغ‘‘ ممبئی کے مدیر رہ کر جواہر پارے لٹاتے رہے،آپ کی پیدائش 7مئی1916ء مبارکپور ( یوپی) میں ہوئی ،لیکن آپ نے اپنی زندگی کا بیشتر حصہ عروس البلادممبئی میں گزارااور ہاں رہ کر خدمات انجام دیتے رہے،آپ لاہور میں تقسیمِ ہند سے پہلے مولانا عثمان فارقلیط صاحب کے ساتھ روزنامہ ’’زم زم ‘‘کا حصہ بنے رہے،آپ نے اُس وقت کے بہت سے رسالوں میں مضامین لکھے ،قاضی صاحب خود فرماتے ہیں کہ’’میں ’’انقلاب‘‘اور البلاغ‘‘ کے علاوہ ’’معارف‘‘’’صدقِ جدید‘‘اور’’برہان‘‘ وغیرہ میں مضامین لکھنے کے ساتھ عربی ،اردو میں تصنیف وتالیف میں ہمہ وقت مصروف رہاکرتا تھا۔‘‘
مطالعہ اور کتب بینی کا شو ق انہیں بچپن سے تھا،زمانہ طالب علمی میں نہ صرف کتابوں کا مطالعہ کیاکرتے تھے بلکہ نئی نئی کتابوں کو خریدنا کا بھی ان کادلچسپ مشغلہ تھااور کتابوں کی خریداری کے لئے انہوں نے اپنے ارمانوں کو قربان کیااور اپنی جمع پونجی کتابوں کے لئے نچھاورکرتے رہے۔چناں چہ قاضی صاحب ؒ فرماتے ہیں کہ:’’چلتے پھرتے کوئی نہ کوئی کتاب ہاتھ میں ضرور رہاکرتی تھی ،حتی کے کھاناکھاتے وقت بھی کتاب دیکھتا تھا،راتوں کو درسی کتابوں کے مطالعہ کے بعد غیر درسی کتابوں کا مطالعہ کئی کئی گھنٹے تک کیا کرتاتھا،گرمی کی رات میں لالٹین کے سامنے کتاب لئے پڑارہتا تھا،بسااوقات زبردستی اٹھایاجاتاتھا،حالاں کہ بچپن سے نگاہ کمزور تھی ،عربی شروع کرنے بعد عینک کا استعمال شروع کردیا تھا،بعض اساتذہ از راہِ شفقت کہتے تھے کہ اس قدر زیادہ نہ پڑھو ورن اندھے ہوجاؤگے تومیں عرض کرتا کہ اگر ایسا ہوتو خود ہی یہ کام بند ہوجائے گا،کثرتِ مطالعہ اورکتب بینی کی وجہ سے بعض اوقات آنکھ میں سوزش پیداہوجاتی تھی،دانے نکل آتے تھے اور چکر آنے لگتا تھا،جس کی وجہ سے دیر تک آنکھوں کے سامنے اندھیرا چھاجاتاتھا۔‘‘
ان کی زندگی عملِ پیہم کا عنوان تھی ،ایک طالبِ علم کو بطورِ خاص ان کی سوانح کو پڑھنا چاہیے یقیناًاس ے بڑی تقویت ملتی ہے اور آگے بڑھنے اور خوابیدہ صلاحیتوں کو بیدارکرنے کا جذبہ پیداہوتا ہے ،مطالعہ وکتب بینی کی قدر دانی کا احساس ہوتا ہے ،حالات ومشکلات کے باجود جمے رہنے اور کام کے ساتھ وابستہ رہنے کا حوصلہ ملتا ہے ،قاضی صاحب نے ؒ لکھا ہے کہ’’طالبِ علم میں محنت اور کوشش کے ساتھ آگے بڑنے کا حوصلہ اور شوق ہو تو چھوٹی جگہ رہ کر بڑا ہوسکتا ہے اور اگر یہ باتیں نہ ہوں تو بڑی جگہ رہ کر بھی چھوٹا ہی رہے گا ،مجھے بڑے علمی وتحقیقی اور تربیتی ادارے کی ہواتک نہیں لگی نہ کسی بڑی شخصیت کی رہنمائی حاصل ہوسکی ،ساتھ ہی میرے ذاتی اورخانگی حالات بھی سازگار نہیں تھے،اس کے باوجود میں مطمئن اور خوش ہوں کہ اپنے ذوق وشوق ،محنت وحوصلہ اورخودسازی کے بل پر وہ سب کچھ حاصل کیا جوبڑے اداروں اوربڑی شخصیتوں کی سرپرستی میں رہ کر حاصل کیاجاتا ہے۔‘‘علمی دنیا کے یہ ایک عاشقِ زار تھے،کتابوں سے انہیں بے پناہ محبت تھی ،وہ اپنے اسے شوقِ بے تاب کو بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ:’’تحصیلِ علم کی دھن کا یہ حال تھا کہ جامع ازہرمیں اعلی تعلیم حاصل کرنے کاسودا ہروقت سرمیں سمایارہتاتھا،بلکہ بعد میں یہ آرزو باقی رہی مگر میں نے اپنے ذوق وشوق کی بدولت ناکامی کو کامیابی سے یوں بدل دیا کہ اپنے گھر اور مدرسہ کو جامع ازہر،جامع زیتون،جامع قرطبہ،مدرسہ مستنصریہ بنالیا۔‘‘
قاضی صاحب کی خود نوشت کا مطالعہ اس لئے بھی ضروری ہے کہ وہ طالبانِ علوم نبوت کے لئے ایک جذبۂ تازہ دے گی اور ماحول وحالات سے متاثر ہوئے بغیر تحصیلِ علم کے شوقِ فراواں کو پیداکرے گی ،انہوں نے اپنی خود نوشت کے شروع میں ہی لکھا ہے کہ’’خود اعتمادی وخودسازی کی یہ طویل داستان ان عزیز طلبہ کی تشجیع وتشویق اور ہمت افزائی کے لئے لکھی گئی ہے ،جوبہترین ذہن ودماغ لے کر دارلعلوموں اور جامعات کی لق ودق اور شاندار عمارتوں میں جاتے ہیں تاکہ وہاں کے بہترین تعلیمی وتربیتی نظام کے ماتحت لائق وفائق اساتذہ کی توجہ سے علم حاصل کریں ،مگر عام طور پر ان کو اپنے مقصد میں ناکام ہونے کے ساتھ اپنی نالائقی اور بدنامی کی سند ملتی ہے ،کیوں کہ ان مدرسوں کے ذمہ داروں کی وجہ سے تعلیم وتربیت کا معیار حددرجہ ناقص اور علم کش ہوتا ہے ،اوروہ لوگ ساراالزام طلبہ کے سر رکھ کر مطمئن ہوجاتے ہیں اور کچھ طلبہ اپنے طور پر آگے بڑھنے کی کوشش کرتے ہیں تو ان کی حوصلہ شکنی ہوتی ہے ۔ایسے طلب علموں کو ہم جیسے چھوٹے مدرسوں کے طلبہ سے سبق لے کر اپنے بلند مقاصد میں کامیابی کی جدوجہد کرنی چاہیے ،میں نے اپنی طالب علمی کی یہ کہانی خودستائی اور خودنمائی کے لئے نہیں لکھی ہے ،عزیز طلبہ اس تحریر کو اس نقطۂ نظر سے نہ پڑھیں بلکہ اس کو پڑھ کر آگے بڑھنے کا حوصلہ پیداکریں۔‘‘
قاضی صاحب ؒ کی شخصیت اور ان کی خصوصیات پر مختلف اہلِ علم نے لکھا ہے ،ہم ان میں سے ایک دو ممتاز اہل علم وقلم اور قاضی صاحب ؒ سے قریبی تعلق رکھنے والے حضرات کی تحریر کے مختصر اقتباسات نقل کرتے ہیں تاکہ ان کی شخصیت کی عظمت واہمیت کا اندازہ ہو ۔مولانا اعجاز اعظمی صاحب ؒ لکھتے ہیں کہ:’’قاضی اطہر مبارکپوری ؟آنے والی نسلوں کو جاننا چاہیے کہ قاضی اطہر مبارکپوری کون تھے؟اورکیا تھے؟وہ سراپاجہدوعمل تھے،وہ ایک پیکر صبر واستقامت تھے،حالات نے ان کی مخالفت کی،مگر ان کی ہمت مردانہ اور توفیقِ الہی نے ہرمخالفت کو موافقت پر مجبورکردیا۔ان کا خمیر علم وتحقیق سے اٹھاتھا،اور تازندگی وہ اس میں تازگی اور پختگی پیداکرتے رہے ،وہ طالبِ علم تھے اور جب وہ علماء کی صفِ اول میں پہونچ گئے تھے جب بھی وہ طالبِ علم ہی تھے ،علم کے سمند ر میں گھستے رہے ،ایک سے بڑھ کر ایک وہ موتی نکالتے رہے اور طالب علموں کے دامن میں ڈالتے رہے ،مگر کہیں رکے نہیں ،ہر قدم وہ آگے بڑھتے رہے ،علم کی آغوش کشادہ ہوتی رہی ،اور وہ علم وفن کی جلوہ طرازیوں میں گم ہوتے ہے ،زندگی کی آخری سانس تک وہ طالب علم رہے۔کتنے لوگوں کودھوکہ ہوا کہ وہ متقدمین میں کی کوئی قدر آور شخصیت ہیں،حالانکہ وہ ہمارے درمیان ہی رہے ،گھل مل کر رہے،بغیر کروفر کے رہے ،ہر طبقہ نے سمجھا کہ وہ ہمیں میں ہیں ،اصحابِ تحقیق میں پہونچے تو انہیں پیشوا ماناگیا،اہلِ تدریس میں گئے تو بہترین مدرس سمجھے گئے،شعروادب کی وادی میں گئے تواسی دنیاکے محسوس ہوئے،تالیف وتصنیف کے میدان میں قدم رکھا تو معلوم ہواکہ: عمر گزری ہے اسی دشت کی سیاحی میں‘‘۔
نامور قلم کار ومصنف مولانا اسیر ادروی صاحب نے بہت پہلے لکھا تھاکہ’’قاضی صاحب نے جن روح فرسا حالات میں اپنی علمی زندگی کا آغاز کیا اس نے میرے دل میں ان کی عظمتوں کا چراغ روشن کردیا ہے،جس کی روشنی میں ان کے علمی کمالات کے خدوخال کو واضح طورپر دیکھ رہاہوں،درس وتدریس کی عسرت بھری زندگی سے نکل کر امرتسر،لاہور،بہرائچ،ڈابھیل پھر ممبئی کے اسفار اور بھاگ دوڑ نے ان کے جسم کو ضرور تھکادیا اور وہ قبل از وقت آنکھوں کی روشنی کا بڑا ذخیرہ کھوچلے اور بالوں کی سیاہی نے شباب کی حکمرانی سے بغاوت کرتے ہوئے امن کا سفید پرچم لہرایالیکن مشکلات وشدائد کی بھٹی نے ان کے جسم کو جتنا تپایا ان کے جوہر علم کا سنہرارنگ اورنکھرتا گیا،اورآج ان کے علمی مقام کی بلندیوں کی طرف سراٹھایاجاتا ہے تو بڑے بڑے اہل علم کی ٹوپیاں گرجاتی ہیں۔‘‘(ماخوذ از:مجلہ ضیاء الاسلام قاضی اطہر مبارکپوی نمبر)
مختصر یہ ہے کہ اللہ تعالی نے آج کل حصولِ علم کے لئے کتنی سہولتوں اور آسانیوں کو فراہم کردیا ہے ،لیکن اس کے باوجود شوقِ علم کی وہ بے تابی ختم ہوتے جارہی ہے جو ہمارے ان علماء نے اپنے کردارعمل سے بتائی تھی ،مطالعہ وکتب بینی کا ماحول ماند پڑتے جارہا ہے جس کے شیدائی اور دیوانے یہ بزرگ تھے۔قاضی صاحب ؒ کی پوری زندگی ہر ایک کے لئے دعوتِ فکر وعمل ہے ،اس کو ایک مرتبہ ہر طالب علم ضرور پڑھے تاکہ فکر وشوق کی چنگاریاں بھڑکنے لگے اور بلند ارادوں کا جذبہ ہمارے بھی دلوں میں بے چین کرنے لگے ۔اس تحریر میں ہم نے ان ہی کی کتاب سے چند اقتباسات نقل کئے ہیں۔خدا قاضی صاحب ؒ کے درجات بلند فرمائے اور ان کی خدمات کو ان کے لئے صدقۂ جاریہ بنائے۔آمین

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
×