سیاسی و سماجی

دو ماہ میں تین بار پولس کی بربریت کا شکار ہوچکے قاسم عثمانی کی لرزہ خیز آپ بیتی

اس تحریک میں گزشتہ دو ماہ میں تین بار پولس کی بربریت کا شکار ہوچکا ہوں، لیکن اللہ کا شکر ہے کہ حوصلہ نہیں ٹوٹتا، لیکن ۲۶ فروری کی رات میں جو واقعہ پیش آیا اس نے اندر سے جھنجھوڑ کر رکھ دیا ہے اس لیے لکھ رہا ہوں، کیوںکہ ایسے حالات ہو گئے ہیں کہ کسی کے ساتھ بھی یہ چیزیں پیش آسکتی ہیں اگر آپ کے ساتھ ہو تو حیران مت ہونا ۔ کچھ لوگ کہتے ہیں کہ جہاں پر یہ پتہ ہو پولس مار سکتی ہے تو وہاں مت جایا کرو تو میں ان کو یہ بتاناچاہتا ہوں میرا دل ایسا نہیں ہے کہ میں اپنی آنکھوں سے اپنے بھائی اور بہنوں کو زندہ جلتے ہوئے دیکھوں اور بس موبائل سے ویڈیو آگے شیئر کرکے یہ سوچ لوں کہ میں نے اپنا حق ادا کردیا ہے۔ جہاں تک بھی ہوتا ہے ظلم کے خلاف سڑک پر آواز اُٹھانے میں حصہ لیتا ہوں، اور ان شاء اللہ لیتا رہوں گا۔ تین دن دلی جلتی رہی اور دلی کے وزیر اعلیٰ اروند کیجری وال راج گھاٹ پر آنکھ بند کرکے شانتی کا ڈرامہ رچتے رہے اور بار بار وزیر داخلہ سے حالات کو سدھارنے کی اپیل کرتے رہے وہی وزیر صاحب ایک کمیونٹی کو کرنٹ لگا کر مار دینا چاہتے تھے۔ کیجری وال کی اس خاموشی پر جامعہ المنائی ایسوسی ایشن اور جامعہ کوآرڈینیشن کمیٹی نے کیجری وال کے گھر جاکر ان سے سوال کرنے کا اعلان کردیا جب ہم کیجری وال کے گھر پہنچے اس وقت بھی ہر جگہ سے ظلم کی خبریں آرہی تھیں ،ہم نے ان سے بات کرناچاہا تو اندر سے خبر آئی صاحب ابھی سو رہے ہیں، صبح ساڑھے نو بجے اُٹھیں گے۔ تین دن ہم لوگ سو نہیں پائے لیکن ایک وہ وزیر اعلیٰ جو آر ایس ایس کے غنڈوں کے ذریعے مارے گئے لوگوں کے ووٹ پاکر وزیر اعلیٰ بنا وہ مزے کی نیند لے رہا تھا۔
ہم لوگوں نے ٹھان لیا تھا کہ بنا ملے ہم واپس نہیں جائیں گے لیکن وزیر اعلیٰ جس بنا پر اپنی لاچاری کا اظہار کرتا ہے کہ پولس ہمارے ہاتھ میں نہیں ہے اس پولس کو اس نے طلبا پر حملہ کرنے کےلیے آگے کردیا ، پولس نے تین بج کر تیس منٹ پر ہمارے اوپر واٹر کینن کا استعمال کیا جس سے تمام طلبہ بری طرح بھیگ گئے لیکن ہم لوگ وہاں سے نہیں ہٹے اس کے بعد انہوں نے غنڈہ گردی کا اصل ننگا ناچ شروع کردیا وہ لاٹھی لے کر ہمیں دوڑانے لگے ۳۰۰ میٹر تک ہمارے پیچھے بھاگتے رہے ہم ایک جگہ جاکر رک گئے کیوں کہ ہم سوچ رہے تھے شاید سویا ہوا وزیر اعلیٰ طلبا کے مطالبات کو سنے گا لیکن وہ خواب میں بھی مجھے لگتا ہے کہ امیت شاہ سے امن کی اپیل کررہا ہوگا ۔ ہمیں چاروں طرف سے پولس نے گھیر لیا تھا اور سبھی نے میری طرف اشارہ کیا کہ اسے پکڑو کیوں کہ میرے چہرے پر داڑھی تھی اور میرا لباس کرتا پاجامہ تھا۔ چار پانچ پولس والوں نے مجھے گھیر لیا اور مجھے مارنے لگے مجھے سڑک پر ہی گرا دیا ایک پولس والا میری داڑھی کھینچنے لگا او رمجھے زبردستی پولس وین میں ڈال دیا۔ جیپ کے اندر ایک پولس تھا اس کی سوچ ایسی تھی کہ آپ سوچ بھی نہیں سکتے وہ بار بار کہہ رہا تھا میں کٹر گجر ہوں تجھے کاٹ دوں گا اور لگاتار مجھے مارتے رہے مجھے پاکستانی کٹوا کہتے رہے وہ اپنے ہاتھوں سے بوٹ سے مار رہے تھے اور مارتے ہوئے جے شری رام کے نعرے لگا رہےتھے وہ سوچ رہے تھے کہ میں بھی ان کے ساتھ یہ نعرہ لگائوں وہ اس طرح مار رہے تھے کہ کہیں سے خون نہ نکلے لیکن ایک پولس والے نے اپنا بوٹ میرے منہ پر مارا جس کی وجہ سے میرا پورا منہ خون سے بھر گیا میری آنکھوں کے آگے اندھیرا چھا گیا ، مجھ سے اُٹھا نہیں جارہا تھا میرے اور دوسرے ساتھیوں کو دوسرے کمرے میں رکھا تھا مجھے زبردستی کھینچتے ہوئے اس کمرے تک لے کر گئے وہاں بھی لگاتار میری داڑھی اور کرتے پاجامے پر غلط تبصرے کرتے رہے اس کے بعد سب لوگوں کو ایس ایچ او کے کمرے میں لے جایاگیا صرف مجھے چھوڑ کر، جب سب چلے گئے تو دو پولس والوں نے مجھے دوبارہ مارنا شروع کردیا اس کے بعد مجھے ایس ایچ او کے کمرے میں لے جایاگیا ۔ میں بالکل بھی بات کرنے کی حالت میں نہیں تھا ہمیں وہاں سے اسپتال لے جایاگیا اسپتال میں بھی وہ لوگ مسلسل مجھے گالیاں دیتے رہے، ڈاکٹر کے سامنے مجھے ایک دہشت گرد کے طور پر پیش کیا۔ ایک پولس والا بولا اسے رات ہی گولی مار دیتے دھرتی کا بوجھ ختم ہوجاتا ۔ پولس والے ڈاکٹر پر بار بار یہ دبائو بناتے رہے کہ میڈیکل رپورٹ میں سب کچھ نارمل لکھنا، اس اندھے ڈاکٹر کو میرے منہ سے نکلتا ہوا خون بھی نظر نہیں آرہا تھا اور اس نے بھی یہی لکھ دیا۔خیر دوبارہ پولس اسٹیشن لایا گیا اور میں شکر ادا کرتا ہوں اللہ کا اور ان تمام لوگوں کا جنہوں نے بہت کوشش کرکے ہمیں ظالموں کے ظلم سے آزاد کرایا۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
×