سیاسی و سماجی
یوم آزادی اور مسلمانوں کی سیاسی سماجی صورت حال
ہندوستان 15 اگست 1947 کو انگریزوِ کےغلامی کے چنگل سے آزادہوا، اس آزادی کے حصول کی خاطر معاشرے کے سبھی طبقوں نے اپنا اہم کردار پوری ایمانداری، زمہ داری اور دیانت داری کے ساتھ اداکیا،
آزادی کی اس تحریک میں اپنے ہم وطن کے ساتھ مل کر مسلمانان ہند اور ان کی قیادت نے بھی اپنی قومی فرائض کو بخوبی و احسن طریقے سے انجام دیا،
اور حصول آزادی کے اس خار دار سفر میں کسی بھی تکلیف اور قربانی سے دریغ نہیں کیا، آزادی حاصل ہونےکے بعد ملک کی قیادت نے ایک ایسے قانون کی تیاری کا آغاز کیا کہ جس کی رو سے تمام ہندوستانی شہری، چاہے ان کا تعلق اکثریتی طبقے سے ہو یا اقلیتی طبقے سے سب کو مساوی حقوق دیئے جائیں گے، اور ملک میں ایک ایسا معاشرہ تشکیل دیا جائے گا جس کی اساس، محبت، اخوت، بھائی چارگی، مساوات، اور جمہوریت، سیکولرزم نیز برابری کے احساس پر رکھی جائیں گی، ہر طبقے کی عزت وآبرو، جان ومال، عقائد. اخلاقیات اقتصادیات تہذیب وتمدن وتاریخی اساس کو مکمل تحفظ ہی نہ فراہم کیا جائے گا بلکہ واضح طور پر ضمانتوں کے ساتھ ان کو مزید ترقی کرنے پھلنے پھولنے کے مواقعوں کی فراہمی یقینی بنانے کے لئے بھی ائینی تحفظات سے لیس کیا جائیں گے، چنانچہ بلکل ایسا ہی ایک آئین تیار کیا گیا جوکہ 26 جنوری 1950 کو نافذ العمل بھی ہوگیا،
مسلمانان ہند کو اس بات سے مکمل اطمینان حاصل تھا کہ آئین ہند نے ہندوستان کے دوسرے شہریوں تمام طبقات کی طرح ان کو بھی مساوی دیئے اور ضروری آئینی تحفظات بھی فراہم کئے کہ جن کی رو سے ان کو مکمل طور سے مذہبی آزادی حاصل ہوئی، مسلم پرسنل لاء کے معاملے میں عدم مداخلت کی واضح ضمانتیں دی گئیں اور اپنے تعلیمی سماجی ثقافتی ادارے قائم کرنے کے لئے بھی ضروری تحفظات ومراعات کو آئین ہند کا حصہ بنایاگیا،
وقف اور حج معاملات کے سلسلے میں بھی وقف ایکٹ اور مرکزی وصوبائی سطح پر حج کمیٹیاں قائم کرکے مسلمانان ہند کے مذہبی جذبات کا قابل تعریف احترام کیاگیا
الغرض زندگی کے ہر شعبے میں ہی تحفظات کا مکمل جال پھیلایا گیا، یہ تمام تر صورت حال حوصلہ افزا بھی اور خوش آئند بھی، مگر یہ تصویر کاپہلارخ ہے،
دوسری رخ کو ایمانداری زمہ داری،کے ساتھ دیکھیں، پڑھیں اور سمجھنے کی کوشش کریں،
یہ بھی ایک ناقابل تردید بات ہے کہ کسی بھی ملک کا آئین کتنا ہی مکمل ومفصل اور جامع کیوں نہ ہوجب تک قانون ساز ادارے انتظامیہ، عدلیہ وقومی مزاج اسکے ساتھ پوری طرح سے ہم آہنگ نہ ہوں تو ان مقاصد کا حصول مکمل نہیں ہوپاتا جن کی پاسبانی ترجمانی وپاسداری کی ضمانت اس میں دی جاتی ہے،
جمہوریت ومسلمانان ہند۔جمہوری نظام کا مزاج کچھ اس طرح کا ہوتاہے کہ اس میں تعداد وشمار کی بنیاد پر سارے فیصلے کئے جاتے ہیں
اور اس میں وہ گروپ زیادہ حاوی رہتاہے جس طرف ان اعداد وشمار کا جھکاؤ ہوتاہے، دوسرے لفظوں میں اکثریت معاملات اور فیصلہ سازی کے عمل پر حاوی ہوجاتی ہیں، اور اقلیتی طبقہ اسکے رحم وکرم پر جیتا اور مرتاہے،
بعض اوقات یہ امکان بھی لگا رہتاہے کہ مسلمانان ہند کیوں کہ یہ ایک اقلیتی طبقہ ہے لہذا وہ بھی اس میں احاطہ کئے ہوئے ہے، ایسی صورت حال میں اسکے حقوق کی بازیابی کے لئے اور حصول کا دارومدار اسکے اکثریتی طبقے کے ساتھ تعلقات پر کہیں زیادہ ہے آئین اور آئینی تحفطات کے بہ نسبت،
اکثریت ومسلمانان ہند۔عمومی طور پر دیکھا جائے تو یہ تعلقات کشیدہ نہیں ہیں مگر اس حقیقت سے انکار کرنا حقائق سے پِھرنے کے مترادف ہوگا کہ اکثریت اور مسلمانان ہند کے تعلقات میں بہت کچھ کڑواہت بھی ہے
ایک دوسرے کی طرف کچھ شکوک وشبہات بھی ہیں اور اکثریتی طبقہ میں کچھ ایسے شرپسند عناصر
موجود ہیں جو کہ آئے دن نت نئے انداز میں ملک کے اندر منافرت کے عروج کا باعث بنتے نظر آتے ہیں، مزید جس ست کڑواہٹ میں مزید اضافہ ہوتا رہا ہے،
ہندومسلم فسادات، مسلم پرسنل لاء بورڈ، بابری مسجد منہدم، اور پھر بھومی پوجن، دہلی فسادات، اور ابھی جلد ہی بنگلوروفساد، اردوزبان کا مسئلہ نیز اسکو نئی تعلیمی پالیسی سے الگ کرنا،، تاریخی حادثات کو توڑ مروڑ کر پیش کیاجانا اسلام کی منفی اور جارحانہ متشددانہ تصویر پیش کرنا، عام مسلمانوں کے بارے میں شکوک وشبہات اور دہشت گردانہ پر مبنی صرف نہیں رائے رکھنا بلکہ ان کو جاننا،کوروناوائرس کو ہندوستان میں پھیلانے کا ذمہ دار خاص ایک طبقے کو تسلیم کرنا، مسلمانوں کو دوئم درجے کی شہریت تسلیم کرنا، مسلم معاشرے کو ہندوستانی معاشرے سے الگ تھلگ کرنا، اور ان کو پاکستان بھیجنا، اور اسی طرح کی دیگرچیزوں کی غلط تصویر پیش کرنا، اور عام کرنا، کچھ ایسے معاملات ہیں جن کو فرقہ پرست طاقتیں جماعتیں وقتاً فوقتاً ہَوا دیتے رہتے ہیں، جسکے اثر سے بعض دفعہ ہمارے ذمہ داران ارباب حکومت افسران، ملازم بھی محفوظ نہیں رہ پاتے اور یہ زہر پھیلتا ہی جارہاہے بدقسمتی سے یہ منافرت کا زہر اس وقت اپنے پورے شباب پر ہے، آزادی کے بعد تقسیم ہند کو لے کر اور بعد میں اسکے اثرات کو لے کر اور پھر مذکور کئے گئے مسائل ونکات کو لے کر یہ کڑواہٹ متعصبانہ رویوں کو جنم بھی دیتی رہی ہے اور بڑھاوابھی،
اس طرح کے رویوں کو پروان چڑھانے میں جہاں ہندوفرقہ پرست عناصر شامل ہے وہیں مسلمانان ہند ایسے رویوں کو پروان چڑھانے میں کوئی رول دخل ادا نہیں کرتا، ہاں کچھ ہمارے سماج میں بھی ایسے عناصر پائے جاتے ہیں. جو کہ چند ناقابل معافی، نادانیاں اور غلطیاں جوش وجذبے میں غرق ہوکر کر گزرتے ہیں جس کی بنیاد پر ایک طرف تو اکثریتی فرقہ پرستی کا بڑھاوا ملتاہے اور دوسری جانب بڑھتی ہوئی اکثریتی فرقہ پرستی کو ضروری غذا اور مواد بھی مل جاتاہے لہذا اس کڑواہٹ اور آلودگی کے افیکٹ کو مد نظر رکھتے ہوئے مسلمانان ہند اور ان کی لولی لنگڑی قیادت کو اپنے فیصلے کرنے پڑیں گے، ایسا قومِ مسلم کی بھلائی کے لئے ضروری تو ہے ہی مجموعی قومی مفاد جا تقاضہ بھی یہی ہے
قارئین کرام – یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ مسلمانان ہند کے پاس بظاہر قائدین کی کمی ہے اور نہ ہی تنظیموں، کمیٹیوں، رفاہی فلاح وبہبود اداروں کی کمی ہے اور نہ ہی ایسی شخصیات کی جن کا موضوعِ بحث ملت اسلامیہ کی بد سے بد تر ہوتی ہوئی صورت حال،
اور نہ ہی ایسے حضرات کی کمی ہے جو کہ اس خطرناک اور افسوسناک صورت حال کے سدباب کے لئے آرزومند ہیں، تاہم ان سب کے باجود بھی آج مسلم معاشرے کی گروپ بندی، آپسی منافرت، ذہنی انتشار، آپسی مسلکی اختلافات، نفسیاتی اضطراب، مزید انکے علاوہ بھی ایسے ہی دیگر امراض ولعنتوِ میں مبتلا بھی ہے اور ان کا شکار بھی ہے
میں یہاں مسلم قائدین ورہنما، تنظیموں، جماعتوں کا احتساب، کرنے یا ان پر تنقید کرنے نہیں آیا ہوں بلکہ اس غرض سے انکو اپنا موضوع بحث بنا رہا ہوں کہ کہ میں اس بات کا اعتراف کرتے ہوئے آگے بڑھنا پسند کروں گاچ
جب یہ تمام جماعتیں یہ تمام تنظیمیں، کمیٹیاں، اپنے اپنے پروگراموں کو اپنی حیثیت کے مطابق چلا رہے ہیں مگر قومی ملی مسائل، اجتماعیت، ومشاورت دونوں کا تقاضہ کرتاہے، مگر افسوس صدافسوس!
آج اس امر کا ایسا کوئی نظام آج تک ہمارے مابین موجود نہیں ہے اسی وجہ سے ہم ایک ایسے معاشرت کی شکل میں اُبھر رہے ہیں جو کہ سب سے زیادہ اجتماعیت، اتفاق رائے، باہمی مشورے، افہام وتفہیم کا درس، دینے والا تو ہے مگر اس پر عمل کرنے والا یا کروانے والا کوئی نہیں ،
مسلم معاشرہ صرف ایک ووٹ بینک بن کر رہ گیاہے جنکے مزاج کی شکل کچھ اس طرح کی یےوہ کسی ایک جذباتی مسئلے کو لےکر ایک فریق سے ناراض، اور دوسرے سے بغیر کسی واضح مثبت پہل کے ہی اپنے آپ کو اسکے ہاتھوں میں محض اسکے مفاد کے لئے استعمال ہونے کے لئے چھوڑ دیتاہے، یہی وجہ ہے کہ دوسرے فریق سے اسی مایوسی کا تجربہ ہوتاہے جوکہ پہلے سے ہوا تھا، اب صورت حال یہاں آ پہنچتی ہے کہ محض انتشار ہی انتشار ہے، غلط فہمیاں ہی غلط فہمیاں ہیں اور ہم ایک ایسے معاشرہ کی شکل اختیار کرچکے ہیں کہ جس میں کوئی ایسا نظام مشاورت نہیں جو کہ ملی مسائل اور قومی مفادات کی ترجمانی وپاسبانی کے فرائض کو بہترین طریقے سے انجام دے سکے، اور قوم میں مشروط حمایت ومخالفت کا شعور پیدا کرسکے
اول تو کوئی مسلم قیادت ہے نہیں اور جو ٹوٹی پھوٹی ہے بھی تو وہ ٹوٹ پھوٹ وآپسی کشمکش، ومنافرت کا شکار ہے، ان گنت تنظیمیں، جماعتیں، وقائدین موجود ہیں ان میں سے ہر ایک اپنے آپ کو مسلمانان ہند کا قائد اور رہنما سمجھتاہے نیز اسکے علاوہ اپنے آپ کو صحیح، سچا، ایماندار، اور دوسرے کو جھوٹا، بےایمان، سمجھتاہے قوم جہالت، افلاس، بھوک مری، بے روزگاری، اور غفلت کی تاریکی میں اس حدتک مبتلا ہے کہ اس کا اعتماد سب پر سے اٹھ چکاہے اور ایک مکمل غیر یقینی کی صورت وکیفیت سے دوچار یے ،
الغرض بحیثیت قوم ہماری نفسیات بھی مجروح ہے اور مفلوج بھی، ہم غلط فہمیوں، اور خوش فہمیوں کے ایسے بھنور میں کچھ اس طرح پھنسے ہیں کہ کسی طرف سےکوئی پرسان حال نہیں اور کوئی کنارہ بھی نظر نہیں آتاہے کہ جہاں سے چل کر منزل کے آخری پڑاؤ پر پہنچ سکیں، مزید اپنی اس ناگفتہ بہ حالت کا زمہ دار کبھی کسی پارٹی کو کبھی کسی کو ٹھہرا دیتے ہیں، مگر کسی کو اپنی بنیادی زمہ داری اور فرائض کے احساس سے خالی ایک ایسا معاشرہ بنتے جارہے ہیں کہ جہاں پر آپسی ممافرت، مسلکی مسائل، ایک دوسرے سے دست و باہم گریباں، یہ ایسی غلطیاں ہیں جوکہ اس حدتک بڑھتی جارہی ہیں کہ کہیں کوئی ایسی بڑی غلطی کو نہ جنم دے دیں کہ جس کی وجہ سے بہت بڑی دشواریاں، پیچیدگیاں، مزید بڑھ جائیں. لہذا ضروری ہے کہ ذمہ داران مملکت، ارباب علم وفن، تمام تنظمیں، ادارے، مسلم قائدین، دانشور طبقہ مسلم معاشرے کی اس خاموش، بےچینی کے محض تماشائی بین نہ بنیں، بلکہ اسکے ازالے کے لئے دامے درمے، قدمے، سخنے، اپنا اپنا کردار بہ طریق احسن ادا کرنے کے لئے آگے بڑھیں، اور کوئی لائحہ عمل تیار کریں جس پر خود تو عمل پیرا ہی ہوں بلکہ دوسروں کو بھی اس پر عمل درامد کروائیں، تاکہ مسلم معاشرے کی بھلائی ہو اور یہ مسلم معاشرے کےلئے توضروری ہے ہی ملک وقوم کی اجتماعی، سلامتی، خوشحالی وترقی کے لئے بھی اشد ضروری ہے، مگر تمام آئینِ ہند پر غور کیا جائے تو آج ہم اس محروم ہیں، جو ہمیں تحفظات فراہم ہوئے تھے، اس پر حکومت کچھ بھی عمل نہیں کر رہی ہے، کیونکہ نہ ہماری مسجدیں محفوظ، نہ ہماری درسگاہیں محفوظ، نہ ہماری بہوبیٹیاں محفوظ، نہ ہمارے مال وزر محفوظ، اور نہ ہم خود محفوظ،
مگر ان سب چیزوں سے ہم گھبرانے کی ضرورت نہیں ہے، ابھی بھی ہمارے پاس وقت ہے، ابھی کچھ بگڑا نہیں ہے، مسلمانان ہند چاہیں تو اپنے مقاصدکو حاصل کرسکتے ہیں،
ہمیں لونگ ٹرم ایکشن پلان بناکریابنے ہوئے پلان پر عمل کرنے کی ضرورت ہے۔ہم ایکشن کے لئے ہیں،ری ایکشن کیلئے نہیں۔مسلمان بحیثیت مسلمان ایک قوم اورملت ہیں،کامیابی کے لئے سب سے پہلے مسلمان ہوناپڑے گا۔جو قوم اپنے آپ کو بدلنے کے لئے تیارنہ ہو،وہ دوسروں میں بدلاؤکیسے لاسکتی ہے؟باہری تبدیلی کے لئے اندرسے تبدیلی ضروری ہے۔اللہ اور اس کے رسول ﷺکے راستے کو جب ہم چھوڑ دیں گے تو ایسے لوگ ہم پر مسلط کئے جائیں گے جو ہم پر رحم نہیں کریں گے:
اسلام کی تاریخ میں جتنی مال ودولت آج مسلمانوں کے پاس ہے،اسلام کی پوری تاریخ میں اتنی مال ودولت مسلمانان عالم کے پاس کبھی بھی نہیں رہی،اور جتنی تعدادمسلمانوں کی آج ہے،پچھلے چودہ،پندرہ سوسالوں میں کبھی بھی نہیں رہی،یہ دونوں باتیں سچ ہیں؛مگر اسی کے ساتھ سچ یہ بھی ہے کہ جتنا مسلمان ذلیل آج ہے،کبھی نہیں رہے
اگر مال ودولت سے عزت ووقار ملتی تو آج عربوں کے پاس بیشمار دولت ہے،لیکن وہ کس طرح بھبھکیاں کھارہے ہیں،کچھ لوگ کہتے ہیں:کہ تعلیم ہوجائے،بہترین میڈیکل پروفیشنل ہوجائے،سائنس داں ہوجائے،اپنے بچوں،بچیوں کو اعلی تعلیم یافتہ بنادیں،تو عظمت رفتہ کو واپس لاسکتے ہیں،لیکن حیقت یہ ہے کہ ایسانہیں ہے، اسپین کے 800سالہ دورحکومت کو دیکھو،
اسپین میں 800سال تک مسلمانوں نے یوروپ کو تہذیب سکھائی،سرجری کرناسکھایا،سرجری کرنے کے لئے آلات بناناسکھائے،تعمیراتی لحاظ سے،انفراکسٹر کے لحاظ سے،زراعت وباغبانی کے لحاظ سے،صنعت وحرفت کے اورکاروبارکے لحاظ سے، اسپین نے یوروپ کو سبق سکھایا؛لیکن اس کے باوجود جب مسلمان وہاں تھے تو بھی اقلیت میں رہے،اور جب گئے تو بھی اسی حال میں۔معلوم ہواکہ صرف تعلیم سے بدلاؤنہیں آئے گا،سائنس سے،بزنس سے،کاروبارسے،علوم وفنون حاصل کرنے سے بدلاؤنہیں آئے گا؛بلکہ اس کے لئے ہمیں لونگ ٹرم ایکشن پلان بناناہوگا،یابنے ہوئے ایکشن پلان پر مظبوطی سے عمل کرنے کا فیصلہ لیناہوگا،انہوں نے کہا:اوراس کے لئے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا اسوہ ہمارے لئے بہترین نمونہ ہے،اور ہماری عزت ووقار کامحافظ بھی ہے،اسی پر چل کر ذلت سے عزت میں تبدیلی آئے گی۔اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر کی سیرت پر بھی تفصیلی روشنی ڈالتے ہوئے انہوں نے فرمایا:اللہ کے رسول ﷺ پوری دنیاکے لئے رحمت بناکر بھیجے گئے ہیں،مکہ فتح ہورہاہے،ایک صحابی اعلان کرتے ہیں:آج بدلہ کادن ہے،حالانکہ وہ اعلان بالکل صحیح تھا،مگر آپ نے ایسااعلان کیاکہ انسانی تاریخ میں کوئی ایساواقعہ نہیں دیکھاگیاہے،نہ اس سے پہلے اورنہ اس کے بعد،آپﷺ فرماتے ہیں:نہیں آج رحم وکرم کادن ہے،ہم اگر بدلاؤچاہتے ہیں تو اللہ کے رسولﷺ کی سیرت پر عمل کرناہوگا،اور پہلے اپنے آپ میں بدلاؤلاناہوگا،اور بدلاؤکا سفر تو دل سے شروع ہوتاہے،جب دل میں بدلاؤہوگاتو سب کچھ بدل جائے گا۔سب سے بڑادھوکہ زندگی ہے،سب سے بڑی سچائی موت ہے،اور سب سے بڑی ذلت خودغرض ہے،جب غرض ہوتو ذلت اور بے غرض ہوں تو بادشاہت،ہمیں لالچی،اور خودغرضی سے باہر آناہوگا،اور اس بات کو ذہن میں بٹھاناہوگا:کہ جب ہم اللہ اور اس کے رسول کے راستے کوچھوڑ دیں گے تو ایسے لوگ ہم پر مسلط کئے جائیں گے جو ہم پر رحم نہیں کریں گے،ہمیں اپنامحاسبہ کرناہوگا،اور اپنی کمزوری کوتلاش کرنی ہوگی۔حالات جیسے بھی ہوں ؛لیکن آج بھی ایسے اساتذہ کی ضرورت ہے جو ایماندارہو،شریف ہو،مہذب ہو،خیرخواہ ہو،محبت کرنے والاہو،اور بلکہ تمام شعبوں میں باصلاحیت ،قابل قدر،ایماندار،مخلص،سچ بولنے والے،اپنی ڈیوٹی کو ایمانداری سے پوراکرنے والے،اچھے انسانوں کی ضرورت ہے،اگر ہمارے اندرقابلیت ہوگی،اور اچھی کوالیٹی ہوگی تو دنیاکی کوئی طاقت ہمیں پیچھے نہیں ڈھکیل سکتی ہے،
ہندوستان میں مختلف افکارونظریات ،خیالات، اورتہذیب وتمدن کےلوگ رہتے اور بستے ہیں اوریہی تنوع اوررنگارنگی اور آپسی ہم آہنگی یہاں کی خصوصی پہچان اور دوسرے ممالک سے ممتاز کرتی ہے
چندفرقہ فرست عناصرہیں جنہیں ملک کی یکتائی اوراسکاسیکولرنظام بالکل پسندنہیں وه ساری اقلیتوں کو اپنےاندرجذب کرنے یابالکلیہ انکاصفایاکرنے یاملک کےجمہوری ڈهانچےکوتبدیل کرنے کیلئے بےتاب اور کوشش میں لگے ہوئے ہیں
مگر سب سے تعجب خیز بات تو یہ ہے جنکاجنگ آزادی میں کوئی اہم وکلیدی کردار نہیں اور تو اور وطن کی تعمیرمیں کوئی اہم رول نہیں بلکہ جنکے سروں پرباباےقوم گاندھی جی کاخون ہو،جسکی پیشانی پرمذہبی تقدس کوپامال کرنےکاکلنک ہو، جو موت کا سوداگر ہو اورجسکےسروں پرہزاروں فسادات، لاکهوں بےقصورانسانوں کےقتل اوراربوں کھربوں کی تباہی کاقومی گناه ہو وہ ملک کواپناغلام بناناچاہتاہے ہم لوگ کیسے اپنی گردنیں انکےحوالےکرسکتےہیں ؟ملک کی بےمثال جمہوریت اورخوبصورت نظام کاکیاحشرہورہاہےیہ سب پر ظاہر وباہر ہےحکومت !دنگائیوں، بلوائیوں کا ساتھ دی رہی ہے ادھر کروناوائرس کی مار،ادھر قوم بھوک مری مہنگائ،بےروزگاری کی شکار، آسمان سے باتیں کرتی اشیاءکی قیمتیں،غیرمحفوظ ماں اوربہنین
پڑھےلکھےنوجوانوں کی بےروزگاریاں،
بنیادی تعلیم،علاج اورروٹی مکان جیسےسینکڑوں مدعے اوراہم ایشوزہیں جن پرحکومت کوترجیحی بنیاد پر فاسٹ کام کرنےکی ضرورت تھی لیکن اس طرف توجہ نہ کرکے ،مسجد اور مندر اور ملی مسائل نیز لوگوں کےپرسنل مسائل پرتوانائی صرف کررہی ہے
لوجہاد،موب لنچنگ،گئورکھشک ،جیسے خطرناک اہم سنگین میٹرپرخاموش تماشائی سرکار گویاانھیں مواقع فراہم کررہی ہے ملک میں ایک دوسرے سےنفرت کی آگ تیزی سےپھیل رہی ہے ہندومسلم اتحادکی صدیوں پرانی اورمضبوط دیوار میں آخری کیل ٹھونک جارہی ہے مذہبی منافرت اورپولرائزیشن کی سیاست عام ہوتی جارہی ہے ،کھلےعام مارنےکاٹنے،قتل وغارت گری کی بات ہورہی ہے کیااس طرح الجھ کرہم ایک مثبت وطن کی تعمیر کی توقع رکھ سکتےہیں کیاملک کی ترقی ممکن ہے کیاوہ خوداپنےہاتھوں ملک کوکمزورنہیں کررہےہیں ،شہیدان وطن کوہم کیاجواب دیں گے ؟
منتخب حکومتین بلاتفریق سب کےلئےہوتی ہیں انھیں اصولی اورآئینی حکومت چلانےمیں کسی کاآلہ کارنہیں بنناچاہئے ترقی،اتحاد،محبت اورامن کی باتیں کرکے ملک کوبحران سےبچانےکی فکرکرنی چاہئےہم ایک خوبصورت،بلند،پھولوں سےلدے،خوشبوؤں سےمہکتے بھارت کی تعمیرچاہتےہیں ،ایسی سوچ پرہم آپکےساتھ ہیں کیاآپ بھی متفق ہیں
سارےجہاں سےاچھاہندوستاں ہمارا
ہم بلبلیں ہیں اسکی یہ گلستاں ہمارا,