بھار ت کے مسلمان اسرائیلی دہشت گردی کی مذمّت اور فلسطینی مسلمانوں کی حمایت کا اعلان کرتے ہیں
مونگیر: 22؍اکتوبر (پریس ریلیز) مشاہیر علماء اوردانشوروں نے بیت المقدس اور فلسطین میں یہودیوں اور خاص کر اسرائیلی حکومت کی سازشوں اورمظالم کے خلاف او ر فلسطین کے بھائیوں سے ہمدردی اور محبت کے اظہار میں بیان دیتے ہوئے کہا ہے کہ بیت المقدس مسلمانوں کا قبلۂ اول ہے اور ان کی محبت و عقیدت کا مرکز ہے، یہی وہ مقام ہے جہاں حضور اکرم ﷺ نے انبیائے کرام علیہ الصلاۃ والسلام کی امامت فرمائی اور وہاں سے آسمانوں پر تشریف لے گئے، معراج کا مبارک سفر خانۂ کعبہ سے شروع ہؤا تھا اور اس کی پہلی منزل یہی بیت المقدس تھا۔ اسی لئے اس مقام سے پوری دنیا کے مسلمانوں کو بجا طور پر محبت و انسیت ہے اور ہر دور میں بیت المقدس کی حفاظت اور حمایت کی خاطر انہوں نے ہر طرح کی قربانی دی ہے۔ ۱۹۴۸ء میں فلسطین کے ایک حصے پر ناجائز طریقے سے قابض ہونے کے بعد یہودیوں نے بیت المقدس پر تسلط کی بار بار کوشش کی اور دنیا کی ظالم اور جابر طاقتوں نے ان کا بھرپور ساتھ دیا۔ مگر فلسطینی مسلمانوں نے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کرکے اپنے خون کی قیمت پر بیت المقدس کی حفاظت کی اور آج بھی وہ اسرائیل کے ناجائز تسلط کے خلاف برسر پیکار ہیں اور بیت المقدس پر غاصبانہ قبضے کے خواب کو شرمندہ تعبیر نہیں ہونے دے رہے ہیں اور ان کا عزم ہے کہ وہ کبھی بھی اور کسی بھی قیمت پر بیت المقدس کی حفاظت اور حمایت سے دست بردار نہیں ہوں گے، فلسطینی مسلمانوں کا جذبہ قابل قدر اور ان کی قربانیاں بے مثال و بے نظیر ہیں، ہم ان کے ساتھ اظہار یکجہتی کرتے ہیں، اور ان کی جرأ ت وہمت کو خراج تحسین پیش کرتے ہیں۔
اس بیان پردستخط کرنے والوں میں مولانا محمد رابع حسنی ندوی ،مولانا محمد ولی رحمانی،مولانا سید جلال الدین عمری، مولانا سید شاہ فخرالدین اشرف صاحب ، مولانا کاکاسعید عمری،جسٹس شاہ محمد قادری،پروفیسر ریاض عمر ،ڈاکٹر یاسین علی عثمانی، مولانا فضل الرحیم مجددی،بیرسٹراسدالدین اویسی ایم پی، مولانامحمد عمرین محفوظ رحمانی، کمال فاروقی، ڈاکٹر ظہیرقاضی ،مولاناخالد رشید فرنگی محلی،مولانا ڈاکٹر مفتی مکرم احمد، سید سعادت اللہ حسینی ،طاہر حکیم ایڈوکیٹ ،ایم آر شمشاد ایڈوکیٹ ڈاکٹر قاسم رسول الیاس، ڈاکٹر اسماء زہرا،پروفیسر مونسہ بشریٰ عابدی، وغیرہ چھیالیس ممتاز شخصیتیں ہیں ،بیان میں یہودیوں کی سازشوں اور اسرائیل کے وحشیانہ مظالم اورانسانیت سوز حرکتوں کاتذکرہ کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ یہ بات نہ بھلائی جانے والی ہے کہ ۱۹۴۸ء سے لیکر اب تک اسرائیل نے فلسطینی مسلمانوں پربے انتہا ظلم و ستم کیا ہے، بے شمارمسلمانوں کواس نے ہلاک کیااور نہتے اور معصوم بچوں تک کو بربریت کانشانہ بنایاہے، بہت سی فلسطینی بہنوں کو اسرائیلی درندوں نے بے آبرو کیا اور ہزاروںمسلمان مردوں اور عورتوںکو اسرائیل کی تنگ و تاریک جیلوں میں قید کر کے اذیت ناک سزائیں دی گئیں، اسرائیل کے مظالم انتہائی شرمناک ہیں جس کی جتنی بھی مذمت کی جائے کم ہے۔ اسرائیل نے پورے خطۂ فلسطین میں دہشت گردی ، خوں ریزی اور مظالم کا دردناک سلسلہ عرصہ دراز سے جاری رکھا ہے، جس پر ساری دنیا تماشائی بنی ہوئی ہے، کوئی شبہ نہیں کہ اسرائیل کی شرمناک حرکتوں میں امریکہ نے بھی حصہ لیا ہے اور اسرائیل کے قیام سے لیکر اب تک اس نے ہرمرحلے میں اسرائیل کی امداد کی ہے ، اس لئے وہ بھی اسرائیلی جرائم و مظالم میں برابر کا شریک اور حصے دار ہے۔حالیہ دنوں میں اسرائیل کا جارحانہ تیور پھر سامنے آیا ہے، ہم مسلمانان ہند کے دلوں کی ترجمانی کرتے ہوئے کھلے لفظوں میں اسرائیلی دہشت گردی کی پرزور مذمت کرتے ہیں اور اس بات کااعلان کرتے ہیں کہ ہندوستانی مسلمان ہمیشہ فلسطین کے ساتھ کھڑے رہے ہیں اور آئندہ بھی کھڑے رہیں گے ان شاء اللہ! ہمیں ہمارے اس موقف سے دنیا کی کوئی طاقت نہ ہٹا سکتی ہے اور نہ کسی خوف یالالچ کی وجہ سے ہم فلسطین کو تنہاچھوڑسکتے ہیں، ہم حکومت ہند کو بھی متوجہ کرنا چاہتے ہیں کہ وہ اپنی ذمہ داری محسوس کرے اور ظالم اسرائیلی حکومت کا ساتھ دینے کے بجائے مظلوم فلسطینیوں کی حمایت اور ان کے ساتھ ہمدردی کا اعلان کرے۔
ممتاز شخصیتوں کے اس بیان میں یہ بھی کہاگیا ہے کہ :یہ بات بھی سخت افسوس ناک ہے کہ متحدہ عرب امارات اور بحرین نے اسرائیل کے ساتھ ہاتھ ملایا ہے اور اپنے چھوٹے مفادات کی خاطر اپنے دین اور ضمیر کا سودا کیا ہے،بعض مسلم ممالک کی یہ شرمناک حرکت ہمیشہ یاد رکھی جائے گی اور ان کے لئے لعنت و ملامت کا سبب بنتی رہے گی، متحدہ عرب امارات اور بحرین کے اس غلط اقدام کی بھی ہم کھلے الفاظ میں مذمت کرتے ہیں اور ان دونوں ملکوں سے اپنی سخت ناراضگی اور بیزاری کا اظہار کرتے ہیں۔