احوال وطن

آج کے ان پُرفتن حالات میں مسلمان دو کام ضرور کریں حالات ازخود بدل جائیں گے

اللہ تعالی کا فرمان ہے. ادعونی استجب لکم الآیۃ ….تم لوگ مجھ سے مانگو میں تمہاری دعاؤں کو قبول کروں گا جو لوگ میری عبادت اور دعاء مانگنے سے اعراض کریں گے اور اترائیں گےتو ان کو ذلیل کرکے اوندھے منھ جہنم میں ڈالاجائے گا اس آیت میں بندوں کو دعاء مانگنے کا حکم دیاگیا اور یہی نہیں ان دعاؤں کو قبول کرنے کا وعدہ بھی کیا گیا نیز نہ مانگنے والوں کو وعید تنبیہ بھی کی گئی کہ ان سے پروردگار عالم ناراض اور خفگی کا اظیار کرریے ہیں اللہ تعالی مالک کل جہاں ہیں ان کے خزانوں میں کمی نہیں ہے اس لیے پوری دنیا مانگنے والوں کو اپنی اپنی ضرورت ومصلحت کے اعتبار سے وہ لازما دیں گے دیر سویر ہی سہی مگر دیں گے .دنیا والے مانگنے سے ناراض ہوتے ہیں اور اللہ پاک مانگنے خوش اور نہ مانگنے سے ناراض اور غصہ ہوتے ہیں یہ اللہ کی شان یے کہ وہ اپنے بندوں کو دے کر خوش ہوتے ہیں اسی لیے فرمایا گیا. من لم یسئل اللہ یغضب علیہ جو نہیں مانگتا ہے اس پر وہ غصہ ہوتے ہیں.اب سوال یہ ہیکہ کیا مانگا جاے .دنیا میں تو ببدے بندوں سے مال ودولت مانگا کرتے ہیں اپنی ضروریات زندگی مانگا کرتے ہیں لیکن ایک بندہ اللہ تعالی کی ذات سے دعاء مانگے مغفرت مانگے عافیت مانگے بیماریوں سے شفاء اور حالات سے نکلنے کا راستہ مانگے عزت اور مغفرت مانگے اس مالکِ دوجہاں کی خزانہ میں کسی چیز کی کمی نہیں ہے وہ پوری دنیا کے انسانوں کو اگر بیک وقت تمام کی تمام چیزیں دے دیں تب بھی اس کے خزانہ میں کچھ کمی واقع نہیں ہوگی ایک بندہ دوسرے بندہ کو کیا دے سکتا ہے جبکہ مانگنے والا اور دینے والا دونوں کے دونوں عاجز ہیں اور اللہ کے پا س تو ہر چیز کی قدرت کاملہ ہے تو اس سے مانگو جو قادر ہے۔ آج ہمیں سب سے زیادہ ضرورت امن وامان کی ہے چین وسکون کی ہے ہم اللہ سے یہ مانگا کریں۔ لوگ کہتے ہیں کہ مسلمان ملک میں سراسیمگی کے عالم میں جی رہا ہے ڈرا اور سہما ہوا ہے لیکن ہم کہتے ہیں کہ کوئی بھی فرد مسلم حالات سے ڈرا ہوا نہیں ہے اگر ڈرا ہوا ہوتا تو اللہ کی نافرمانیوں کو ترک کرتا لیکن آج بھی ہمارے شہروں اور سوسائٹیز میں وہی رفتار بے ڈھنگی نظر آرہی ہے وہی بے پردگی عام ہے وہی سودی لین دین ہے وہی اسراف وفضول خرچیاں ہیں شادیوں اور بے جا رسم و رواج میں الجھ کر پانی کی طرح اپنی کمائی ہوئی دولت کو لٹایا جارہا ہے محض جھوٹی شان کے لیے سود پر قرضے لیے جارہے ہیں اگر مسلمان ڈرے ہوئے ہوتے تو وہ اللہ کو راضی کرنے والے کام کرتے طاعات وبندگی کا کام کرتے نمازوں کا اہتمام ان کی زندگیوں میں ہوتا لیکن آج بھی مسجدیں خالی کی خالی ہی نظر آرہی ہیں …ذالک یخوف اللہ بہ عبادہ یا عباد فااتقون ….اللہ پاک تو ان حالات کو لاکر ہمیں ڈرانا چاہتے ہیں کاش کہ مسلمان حالات سے ڈرتا اور تقوی والی زندگی گزارلیتا توکامیاب وکامران ہوجاتا لیکن ہم نڈر بنے ہوئے ہیں کسی کا ہم کو کوئی ڈر نہیں ہے ملکی اور عالمی حالات تو بتارہے ہیں کہ مسلمانوں کو ڈرنا چاہیے اور ساتھ ساتھ (1)ہمیں مومن کامل بننے کی فکر کرنا اور طاعات الہی وفرمانبرداری اپنے اندر پیدا کرنا چاہیے اگر اطاعت ہمارے اندر آجائے تو کوئی بھی دنیا کی طاقت سے ہمیں گھبرانے کی ضرورت نہیں آج ہم لوگوں کے دلوں سے خوف خدا نکل گیا جس کی وجہ سے دنیا بھر کے لوگوں کا اور حکومتوں وحکمرانوں کا ڈر ہمارے دلوں میں بس گیا ہے. اور یادرکھو جس کے پیٹ میں کوئی حرام کالقمہ جائے گا اس کی وجہ سے اس کے دل سے جرأت وہمت اورنڈر پن نکل جائے گا آج امت کا اکثر وبیشتر طبقہ اپنی کمائی اور آمدنی میں اکلِ حلال کا اہتمام نہیں کرتا ہے جس کی وجہ دعائیں بھی قبول نہیں ہورہی ہیں .ہمیں چاہیے کہ حرام کی لذتوں سے بچیں اور حلال کو تلاش کرلیں بے ایمانوں کو جو کچھ مل رہاہے اس کی طرف آنکھ نہ اٹھائیں بلکہ آخرت اور اس کی نعمتوں کو دیکھیں کافروں کو جو مال دولت میسر ہے اور جس ناز کے ساتھ وہ لوگ دنیا میں اتراتے پھرتے ہیں ان کو نہ دیکھو ..لایغرنک تقلب الذین کفروا فی البلاد یہ تو ایک معمولی سی چیز ہے جو ختم ہونے والی بھی ہے اور خیر والی بھی نہیں ہے …متاع قلیل ہے دنیا سے بے رغبتی بھی ضروری ہے حضرت عمرؓ  نے ایک مرتبہ حضور علیہ السلام کے لیے ایک دوکان والے سے قیمتی اور خوبصورت جوڑا لاکر بتایا اورمشورہ دیا کہ آپ یہ خرید لیں تاکہ جمعہ کے موقع پر زیب تن کیا جاسکے اور وفود کے استقبال کے لیے اس کو استعمال کیاجاسکے تو اللہ کے نبی نے منع کردیا اور فرماکہ لاحظ لہ فی الاخرۃ دنیا کی زیب وزینت میں لگ کر آخرت کے نعمتوں کو فراموش کردینے والے کا آخرت میں کوئی حصہ نہیں ہے معلوم ہوا کہ ہمیں ہر حال میں آخرت کی نعمتوں کو پیش نظر رکھنا چاہیے ..آج کے دور میں ہمیں اپنے ایمان ویقین کو بنانے کی اشد ضرورت ہے.اللہ کی ذات عالی پر توکل پر اور دنیا کی محبتوں کو نکالنے پر محنت کرنی کی ضرورت ہے ان ہنگامی حالات میں جو بندہ اللہ کے کام آئے گا اس کو اللہ پاک ساتھ لے لیں گے اور جو کام نہیں آئے گا اس کو بازو رکھ دیا جائے گا اور اس کی کوئی فکر نہیں ہوگی کہ وہ باقی رہے یا ہلاک ہوجائے اس لیے اپنے آپ کو بناؤ ان حالات میں انہی لوگوں کے دل مضبوط رہیں گے جن کے پاس اکلِ حلال ہے پاکبازی کی زندگی وہ گذار رہے ہیں .حرام غذا سے پلنے والا بدن اور دل کمزور ہی ہوتا ہے اس کے پاس دنیا کی ہر چیز کا ڈر ہوتا ہے سوائے خدا تعالی کے یہی وجہ ہیکہ صحابہ کرامؓ جنگوں اور مقابلوں میں صرف ایک ایک کھجور یا اس کی گٹھلی چوس کر ہی لڑتے تھے ان کے پاس یہ طاقت ان کی اسی پاکیزہ اور حلال روزی کی وجہ سے آتی تھی ابوذر غفاریؓ جب حضور سے ملنے مکہ آئے تو کوئی ان کو جانتا نہیں تھا تو پورے تیس دن صرف زمزم کاپانی پی کر وہ زندہ رہے اور پہلے سے زیادہ صحت مند اپنے آپ کو محسوس کرنے لگے یہ قوت وطاقت ان کو اسی پاکیزہ پانی سے میسر آئی ہے مسلمانوں کو بھی چاہیے کہ وہ حالاتِ زمانہ سے نہ گھبرائیں بلکہ تعلق مع اللہ پیدا کریں توبہ واستغفار کے ذریعہ دعاؤں کے ذریعہ نمازوں کے اہتمام کے ذریعہ اپنے رب کو راضی کرنے کے لیے طاعات اپنے اندر پیدا کریں (2)دوسرا کام اس وقت جو اہم اورضروری ہے وہ اسباب کے اعتبار سے ہم کو اپنا ووٹر آئی ڈی کارڈ‘ آڈھار کارڈ اور ہر وہ ضروری دستاویزات تیار کرنا ہے جو حکومت وقت کو مطلوب ودرکار ہے امت کے تحفظ کے لیے اپنی خدمات کو پیش کریں پڑھے لکھے لوگ ان پڑھ لوگوں کی مدد و تعاون کریں اس کو اپنا فریضہ سمجھیں اوریہ کام اس وقت نفل عبادات سے بھی افضل ہے رات بھر نوافل پڑھ کر دن بھر روزہ رکھ کر ہم اللہ کو راضی کرتے ہیں بالکل اسی طرح آج کے سنگین حالات میں ہم یہ کام کرکے بھی وہی اجر وثواب حاصل کرسکتے ہیں جو بندہ امت کا تحفظ نہیں کرسکتا ہے اللہ تعالی اپنی حفاظت سے بھی اس کو خارج کردیتے ہیں جو جس طرح سے ملت اسلامیہ کی مدد کرسکتا وہ کرے اس میں کوئی کسرنہ چھوڑے الساعی علی الارملۃ کالمجاھد فی سبیل اللہ ..اوکما قال …بیواؤ ں محتاجوں یتیموں اور بے کسوں کی مدد کرنا ان کا کسی بھی اعتبار سے تعاون کرنے کو جہاد فی سبیل اللہ تعبیر کیا گیا ہے جس سے معلوم ہوتا ہیکہ ان سنگین حالات میں بھی قریوں اوردیہاتوں میں چونکہ اکثریت نہ پڑھے لوگوں کی رہتی ہے ان کی رہبری کرنا ان کا کام بنانا بھی افضل العبادات کہلاتاہے….شہروں میں تو کچھ لوگ تعلیم یافتہ ہوتے ہیں ان کے پاس وسائل ہوتے ہیں جس سے وہ اپنے تمام ضروری کاغذات تیار کرلیں اور دیہات کے لوگوں کو بنو اکر دیں اور اس حوالہ سے ان میں شعور بیدار کریں کہ جو بھی بچہ یا بچی اٹھارہ سال کی عمر کو پہنچ گئے ہوں ان کے ووٹر آئی ڈی کارڈ آدھار کارڈ اور دیگر دستاویزات تیار کرائیں ……ان شاء اللہ ملک کے حالات از خود بدل جائیں گے بس ایمان والوں کو چاہیے کہ وہ اپنے آپ کو بدل لیں اللہ کی طاعات ومرضیات والی زندگی گزاریں اور دعاؤں کا خاص اہتمام جاری رکھیں …اللہ پاک توفیق عمل نصیب فرماے …….آمین

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
×