احوال وطن

ملک کے موجودہ حالات نے ہر کسی کے ذہنوں میں فرقہ واریت کا زہر گھول دیا ہے

ممبئی: ممبئی سلسلہ وار بم دھماکوں کی آڑمیں مسلمانوں کو بدنام کرنے کی سازش رچی گئی تھی نیز کسی ایک شخص کے غیر سماجی فعل سے پوری قوم کو بدنام نہیں کیا جاسکتا اور نا ہی وہ اس قوم کی شناخت ہوسکتی ہے۔ ان خیالات کا اظہار نامور ٹی وی جرنلسٹ جتیندر دکشت نے بابری مسجد کی شہادت کے بعد ممبئی میں ہوئے فرقہ وارانہ فسادات اور اس کے بعد ہوئے سلسلہ وار بم دھماکوں پر لکھی گئی اپنی کتاب ممبئی آفٹر ایودھیا پراسٹی ان فلکس پر اظہار خیال کرتے ہوئے کہا۔

نامور ٹی وی چینل اے بی پی مازھا کے ویسٹرن انڈیا چیف جتیندر دکشت نے ممبئی کے گنجان مسلم آبادی والے علاقے کے ڈونگری سے قریب مسجد بندر اسٹیشن کے نزدیک پرورش پائی تھی۔ انہوں نے اپنی کتاب میں ان فرقہ وارانہ فسادات اور بم دھماکوں کا تفصیلی جائزہ لیا ہے۔ فرقہ وارانہ فسادات کے ایام کا ذکر کرتے ہوئے دکشت نے کہا کہ ا ن کے بچپن کی بات ہے جب گستاخ رسول ﷺ سلمان رشدی کی کتاب شیطانی آیات کے خلاف ممبئی کے محمد علی روڈ پر احتجاج ہوا تھا۔ جس کے بعد پولیس نے فائرنگ کی تھی۔ جس میں 12 مسلم نوجوانوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا گیا تھا۔ نیز اس احتجاج میں وہ بھی صرف ایک تماشائی کی حیثیت سے شامل ہوئے تھے۔ اور اس وقت ان کے پیر پر بھی کانچ کی بوتلیں لگیں تھی جس سے وہ لہو لہان ہوگئے تھے۔

جتیندر دکشت نے کہا کہ انہیں زخمی حالت میں ایک باشرع مسلمان بزرگ نے اپنے ہاتھوں سے اٹھاکر گھر تک پہنچایا تھا۔ جسے وہ کبھی فراموش نہیں کرسکتے۔ تین برسوں کی انتھک محنتوں سے لکھی جانے والی اس کتاب میں دکشت نے بابری مسجد کی شہادت کے بعد ممبئی کے بدلتے چہرے کا تذکرہ کیا ہے۔ اور انہوں نے 1990ء سے کشمیر میں جاری خونی جنگ کا ممبئی میں ہوئے فرقہ وارانہ فسادات اور بم دھماکوں کا ذکر کرتے ہوئے کہا ہے کہ ملک کے موجودہ حالات نے ہر کسی کے ذہنوں میں فرقہ واریت کا زہر گھول دیا ہے۔ نیز اگر اب بھی ہم نہیں سنبھلے اور ہندو۔مسلم اتحاد کو برقرار نہیں رکھا تو پھر وہ دن دور نہیں جب ملک کو خانہ جنگی کا سامنا کرنا پڑے گا اور ہم تباہی و بربادی کے دہانے پر کھڑے ہوجائیں گے۔

دکشت نے اپنی کتاب میں ممبئی میں ہوئی گینگ وار کا بھی تذکرہ کیا ہے اور کہا ہے کہ کس طرح سے بابری مسجد کی شہادت کے بعد انڈر ورلڈ پر بھی فرقہ واریت کا رنگ چڑھ گیا تھا نیز کس طرح سے شہر کی سیاست میں بھی تبدیلیاں رونما ہوئی تھی۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
×