شخصیات

ہاں میں محمد بن قاسمؒ ہوں۔۔۔!

جی عمادالدین تابعی، صحابی رسولﷺ کا ایمان کی حالت میں دیدار کرنے والا، فاتح سندھ، راجہ داہر کی ظالم سلطنت کی اینٹ سے اینٹ بجانے والا کمسن جرنیل، بے باک قائد، بے خوف لیڈر، جذبۂ شہادت سے معمور، ظلم کے خلاف مؤثر آواز، مظلوموں کا آسرا، ظالموں پر قہر خداوندی بن کر نازل ہونے والا، امت کی ایک بیٹی کی آواز پر، راجہ داہر کی قید میں مسلم خواتین و بچوں کو رہائی دلانے کے لیے حجاز مقدس سے سندھ تک مدد کو آنے والا عظیم سپہ سالار، سندھ کو باب الاسلام بنانے والا غازی، منصف مزاج، عوام کے ساتھ عدل وانصاف کرنے والا، حکومتی انتظامات بہتر طور پر سنبھالنے والا، باہمت، بااخلاق، رحم دل، غم خوار، شیریں زبان، ہنس مکھ مزاج عمادالدین محمد بن قاسم بن محمد بن حکم بن ابی عقیل ثقفی ہوں۔ میری پیدائش ۷۲؍ہجری میں عرب کے مشہور شہر طائف میں ہوئی۔ چچا و سسر حجاج بن یوسف جب عبدالملک بن مروان کے زمانۂ خلافت میں عراق کے حاکم اعلیٰ مقرر ہوئے تو اس نے میرے والد قاسم کو بصرہ کی گورنری پر فائز کیا؛ لہذا ہم اہل خانہ طائف سے بصرہ منتقل ہوئے میری ابتدائی تعلیم وتربیت شہر علم وفن بصرہ میں ہی ہوئی۔ میں زیادہ تعلیم حاصل نہیں کرسکا، جوش جنوں کے ساتھ غربت بھی تعلیم کے راستے میں حائل ہوئی اپنے شوق کو پروان چڑھانے کے لیے میں فوج میں داخل ہوگیا اور دمشق میں فوجی مشقیں کرنے لگا اور اتنے انہماک سے اپنے جنون کو پروان چڑھایا کہ کم عمری میں ہی غیر معمولی صلاحیتوں کا حامل قرار پایا اور فوج کے اعلیٰ عہدے پر فائز ہوگیا۔ ۱۵؍سال کی عمر میں ایران میں کُردوں کی بغاوت کو کچل کر کامیاب و کامران ہوا۔ میری اس بہادری کے چرچے ہونے لگے، کمسنی کی وجہ سے ہر ایک کی آنکھوں کا تارا بن گیا اور بغاوت کچلنے کے بعد مجھے شیراز کا گورنر بنا دیا گیا۔ ۱۷؍سال کی عمر میں مجھے حجاج بن یوسف نے راجہ داہر کی قید میں مسلم تاجروں کے اہل خانہ جس میں یتیم بچے بچیاں شامل تھیں کی بازیابی کے لیے بھیجا- ۱۰؍ رمضان المبارک ۹۲؍ہجری بمطابق ۷۱۱ عیسوی کو میں نے صرف چھ ہزار کی قلیل فوج کو راجہ داہر کی ہزاروں کی فوج کے مقابل کھڑا کردیا۔ ہاں میں وہی محمد بن قاسم ہوں جس کے عزم و استقلال اور قوت ایمانی نے اس ظالم وجابر لٹیرے بادشاہ کی، اسی کی سرزمین پر محض چند ہزار کے متوالوں پر مشتمل فوج کی قیادت میں اینٹ سے اینٹ بجادی اور سندھ کو ہمیشہ ہمیش کے لئے ظلم و استبداد کی بیڑیوں سے آزاد کروایا اور اسے باب الاسلام بنادیا۔
ہاں میں وہی محمد بن قاسم ہوں جس نے فاتح بن کر بھی مفتوح کی عزت افزائی کی ہے۔ کسی فوجی یا عام انسان پر ظلم نہیں کیا، انسانی مساوات کا خیال رکھا۔ بچوں، عورتوں اور بوڑھوں کو قتل نہیں کیا، جنہوں نے ہتھیار ڈال دیے انہیں امان بخشی، میرے حسن اخلاق، حسن سلوک اور عدل و مساوات سے متاثر ہوکر برسوں سے اعلیٰ ذات کے ہندوؤں کے ظلم وستم کے شکار ہونے والے دبے کچلے پچھڑے اور مظلوم افراد نے بیعت کی، ان لوگوں کو راجہ داہر کی حکومت میں کپڑے پہننے کی ممانعت تھی، وہ سر تک نہیں ڈھک سکتے تھے، گھوڑوں پر سوار ہونا ان کے لیے جرم تھا، ان لوگوں نے ذلت و رسوائی کی زندگی کو چھوڑ کر میرا دامن تھاما، مجھے اپنا نجات دہندہ اور محسن سمجھا اور میرے دست و بازو بن کر مجھے قوت بخشی۔ میں یہاں (سندھ میں) تقریباً تین سال رہا جس میں کئی علاقے فتح کیے اور ہر جگہ میں نے اخلاق نبوی کے اس اسوہ حسنہ کو عوام کے سامنے پیش کیا جس نے اجنبی ملک میں بہترین دوست عطا کیے، میں نے سندھ میں اپنی حکومت کے دوران کسی بھی مذہبی مقام کو نقصان نہیں پہنچایا، پنڈتوں، ہندو پجاریوں اور برہمنوں کے ساتھ بھی بہترین سلوک اپنایا، انہیں مندروں میں ان کے مذاہب پر عمل کرنے کی مکمل آزادی بخشی، کسی پر اسلام قبول کرنے کے لیے جبر نہیں کیا، بلکہ وہ لوگ خود ہی ہزاروں سال کی ذلت ورسوائی کو چھوڑ کر اسلام کے آفاقی پیغام کے آگے سرنگوں ہوئے اور ایک ہی صف میں کھڑے ہوکر مساوات کا پیغام عام کیا۔ فتح سندھ کے بعد ہندوستان کے مختلف علاقوں کو جب فتح کرنا چاہا تو عرب کی حکومت تبدیل ہوگئی، مجھے نئے بادشاہ سلیمان بن عبدالملک کے حکم پر عراق روانہ ہونا پڑا، میں حکومتی رسہ کشی، دجل و فریب، خاندانی چپقلش اور بغض و عناد کا شکار ہوگیا، مجھے جیل میں بند کرکے مختلف اذیتیں دی گئیں، تقریباً ۲۳؍سال کی عمر میں مجھے بغض وحسد کی بھینٹ چڑھا دیا گیا اور یوں میں شہادت کے رتبے پر فائز ہوا۔ ہاں میں وہی محمد بن قاسم ہوں جو کئی صدیاں بیت جانے کے بعد بھی لاکھوں کروڑوں دلوں پر راج کر رہا ہوں، میں ایک منصف مزاج، بااخلاق اور باہمت وکم عمر حکمران کے طور پر لوگوں کی توجہ کا مرکز ہوں۔ تیرہ سوسال بیت جانے کے بعد کچھ لوگ ٹوئٹر پر ٹرینڈ چلا رہے ہیں، بعض کم ظرف مسلم نام رکھنے والے مجھے لعن طعن کرتے ہوئے غاصب ولٹیرا ٹھہرا رہے ہیں اور حقیقی ظالم وجابر اور لٹیرے بادشاہ کے حامی ہیں انہیں اپنا ہیرو قرار دیتے ہوئے مجھے کوس رہے ہیں، کوئی انہیں شہادت کے رتبے پر فائز کر رہا ہے، ان کے مجسمے نصب کرنے کی بات کی جارہی ہے انہیں سندھی قوم کا ہیرو قرار دے کر تاریخ سے منہ موڑا جارہا ہے، جب کہ اصل تاریخ میں کون ہیرو ہے اور کون ظالم و لیٹرا؟ یہ سبھی کو معلوم ہے۔ مسلمانوں کا رول ماڈل اور ہیرو تو میں ہوں علاقائی تعصب رکھنے والے اسلام سے نابلد و ناآشنا میری اہمیت و افادیت کیا جانے۔ ہر دور میں کچھ بکے ہوئے اورضمیر فروش گروہوں کا ایک طبقہ موجود رہا ہے جو سچ کو جھوٹ اور جھوٹ کو سچ کہتا آیا ہے۔ ان کے ٹرینڈ چلانے سے میری عظمت پر کوئی آنچ نہیں آنے والی، بلکہ چاند پر تھوکنے سے تھوک خود کے ہی منہ پر گرتا ہے اور یہ نظارہ ساری دنیا نے ایک بار پھر دیکھ لیا۔ ہاں میں وہی محمد بن قاسم ہوں جس نے ایک مظلوم مسلم بہن کی پکار پر ہزاروں میل کا سفر طے کر کے، ظلم و استبداد کی چکی میں پستی ہوئی اور پھنسی ہوئی انسانیت کو آزاد کر کے ہمیشہ کے لئے عدل و انصاف، اخوت و مساوات اور محبت کی وہ تخم ریزی کی ہے جسے چند اوباش اور ہواے نفسانی کے غلام کے تیز و تند نشتر نیست و نابود کرنے اور کاٹنے سے عاجز و قاصر ہیں۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
×