ہاں میں یتیم ہوں۔۔۔!
جی ہاں میں یتیم ہوں، شیر خوار بچہ ؍ بچی ہوں، آٹھ سالہ یتیم لڑکا، پانچ سالہ یتیم لڑکی، جی سن شعور کو پہنچنے کے قریب کی عمر کی لڑکی جس کے سر سے اس کے والد کا سایہ رضائے الہٰی سے اُٹھ چکا ہے، وہ والد جو اپنے بچوں کو تحفظ فراہم کرتا ہے، جو اپنی بچیوں کی خوشیوں کی خاطر تمام مصائب جھیلتا ہے، ہر الجھن کو برداشت کرتا ہے، تمام تکالیف سہہ کر اسے خوشی مہیا کراتا ہے، کھانے پینے کا انتظام کرتا ہے، محنت مزدوری مشقت برداشت کرتا ہے، اپنی اولاد کے لئے آسائشیں زندگی مہیا کرتا ہے ؛ لیکن ہم یتیم جن کے سر پر والد کا سایہ نہیں ہے، انہیں موجودہ دنیا میں طرح طرح کے ظلم وستم برداشت کرنے پڑتے ہیں، مختلف قسم کی مصیبتوں سے دوچار ہونا پڑتا ہے، باپ کے نہ ہونے کی وجہ سے والدہ پریشان رہتی ہیں ، وہ اپنی استطاعت کے مطابق اپنے بچوں کو خوش رکھناچاہتی ہے؛ لیکن وہ اپنے بچوں کو خوشی نہیں دے پاتی؛ محنت مزدوری کرتی ہے، لوگ ہماری ماں کو طعنے دیتے ہیں، پھبتیاں کستے ہیں وہ رو رو کر پریشان رہتی ہیں؛ ظالم سماج کی گندی سوچ انہیں تکلیف میں مبتلا کرتی ہے، لیکن اپنے بچوں کی آنکھوں میں آنسو نہیں دیکھناچاہتی۔ ہمارے یتیم ہوجانے کے بعد ہمارے عزیز واقارب ہم سے رشتہ توڑ لیتے ہیں ہمارا خدا کے علاوہ کوئی پرسان حال نہیں ہوتا،کوئ ہماری پریشانی کے ازالہ کی کوشش نہیں کرتا ہے، ہم خدا کے رحم وکرم پر زندہ رہتے ہیں، ہمارے باپ کی جائیداد کو ہمارے چچا ہڑپ کرناچاہتے ہیں، ہمارے گھر میں بھی ہمارے لئے رہنا مشکل ہوگیا ہے، اللہ کی زمین اپنی تمام تر وسعت کے باوجود ہم پر تنگ کردی جاتی ہے، ہماری والدہ کو ستایاجاتا ہے، والد کے چلے جانے کے بعد ہماری تعلیم وتربیت بہت مشکل سے ہوپاتی ہے،ہم اپنی ماؤں کا ہاتھ بٹاتے ہیں؛ مزدوری کرتے ہیں، لیکن وہ کافی نہیں ہوتا، مسلم معاشرے میں بے جا رسوم ورواج نے ہماری مصیبتوں میں اضافہ کردیا ہے وہ صاحب مال جو اپنی اولاد کی شادی بیاہ میں بے جا اصراف کرتے ہیں اگر کچھ حصہ ہم یتیم، والد کے سہارے سے محروم والدہ کے آنچل سے دور بچوں اور بچیوں پر خرچ کرناشروع کردیں، کاش ہمارے لیے کچھ ایسی تنظیموں کی بنیاد ڈالی جائے جو منصفانہ طریقے پر عدل و انصاف کرتے ہوئے کرپشن سے پاک ہوکر ہماری بدحالی دور کرنے کا ذمہ لے تو ہم یوں پریشان نہ رہیں، ہمارے عزیز واقارب جو ہم سے ہمارے یتیم ہونے کی وجہ سے دوری بنالیتے ہیں وہ اگر اس طرح کا رویہ نہ اپنائیں، ہمیں اپنا ہی سمجھیں، ہمیں بوجھ نہ سمجھیں، اسلامی اصول پر قائم رہیں، اسلام نے جو یتیموں کے حقوق دیے ہیں اس کی پاسداری کریں تو ان شاء اللہ ہماری پریشانیاں دور ہوسکتی ہیں۔ بعض بندگانِ خدا ایسے ہیں جو اپنے رشتے داروں کے یتیم بچوں کی مکمل کفالت کرتے ہیں، ان کی تمام ضروریات کا خیال رکھتے ہیں، انہیں اپنا ہی بچہ سمجھتے ہیں، ان یتیم بچوں کی پرورش اور ان یتیم بچیوں کی شادی بیاہ کا خرچ برداشت کرتے ہیں؛ لیکن بعض ایسے ہوتے ہیں جو انہیں بوجھ سمجھتے ہیں، ان یتیم بچوں اوربچیوں کی مدد تو دور انہیں مارتے پیٹتے ہیں، ان پر ظلم و ستم کرتے ہیں، انہیں ہرطرح سے پریشان کرتے ہیں، ان کے والد کی جائیداد سے محروم کردیتے ہیں، ان کا مال کھاجاتے ہیں، ایسے لوگ قیامت کے دن خدا کے حضور کیا منہ دکھائیں گے۔ اسلام نے یتیم بچوں کا مال نہ کھانے کو کہا ہے، یتیم بچوں اور بچیوں کے ساتھ حسن سلوک کا معاملہ کرنے کو کہا ہے، سلوک بھی ایسا کہ جیسا اپنے سگے بچوں سے کیاجاتا ہے، جس طرح وہ اپنے بچوں سے پیار و محبت کرتے ہیں، ہم سے بھی کریں، یہ اسلام کا تقاضہ ہے، اگر ہم والد کے سایے سے محروم بچوں کے ساتھ الفت و محبت کا رویہ اپنایاجائے تو ہم احساس محرومی کے شکار نہ ہوں، ہمیں کوئی پریشانیاں لاحق نہیں ہوں گی، ہم بھی ان بچوں کی طرح جن کے والد خدا کے حکم سے زندہ ہیں خوش رہ سکتے ہیں۔ ہماری پریشانیاں کم ہوسکتی ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے بھی اپنے قرآن مقدس میں ہمارے ساتھ لوگوں کو بہتر رویہ اپنانے کی کوشش کی ہے، ہمارے ساتھ انصاف سے کام لینے کو کہا گیا ہے۔ نبی پاک ﷺ نے بھی فرمایا ہے کہ ’’اللہ روزِ قیامت اس شخص کو عذاب نہیں دے گا، جس نے یتیم کے ساتھ حسنِ سلوک کیا۔ شفقت سے پیش آیا اور اس کے ساتھ ہمیشہ نرمی و محبت سے بات کی۔‘‘، حضور اقدس ﷺ کا فرمان ہے کہ جو شخص یتیم کے سر پر شفقت سے ہاتھ پھیرتا ہے اللہ اسے ہر بال کے بدلے نیکیاں دیتا ہے۔ ہمارے ساتھ انصاف، حسن سلوک کرنے کی تلقین کے بعد بھی ہمارا معاشرہ ہم سے بے گانہ ہے، ہمیں بے یار و مددگار چھوڑے ہوا ہے، ہم پر ظلم روا رکھا ہے، ہمارے یتیم ہونے کی وجہ سے ہماری دادیاں ہمیں ستاتی ہیں، ہمارے چچا ہمیں مارتے ہیں، ہماری پھوپھیاں ہمیں کوستی ہیں، گویا ہم ہی والد محترم کے دنیا سے چلے جانے کا سبب ہوں۔ خدا کےلیے ایسا نہ کریں، ہم بھی انسان ہیں، ہمارے پاس بھی دل ہے، جب ہم یتیم بچوں ؍بچیوں پر ہمارے اپنے ظلم وستم کے پہاڑ توڑتے ہیں تو آہ نکلتی ہے۔ خدارا اس آہ سے بچیں اور اپنی عاقبت سنوارنے کی کوشش کریں۔ خدائی احکام پر عمل پیرا ہوں اور ہمیں معاشرتی ڈھانچے میں شامل کرکے ہماری تعلیم وتربیت، ہمارے اخراجات اور ہماری شادی بیاہ میں امداد و تعاون کریں تاکہ خدا آپ سے راضی ہو۔