شخصیات

ہاں میں صفورا زرگر ہوں۔۔۔!

جی صفورا زرگرکشمیری خاتون آہن، اعلیٰ تعلیم یافتہ، طلبہ لیڈر، قوم کی انقلابی بیٹی، بیدار مغز، غیرت مند، جرأت مند، حوصلہ مند، باہمت ، بے باک، نڈر، بے خوف، دلیر، باکردار،باحیاء، پاک دامن، وفاشعار ، پیکر امن، محب وطن، بچپن سے پاکستانی ہونے کا طعنہ سننے والی، جامعہ ملیہ اسلامیہ کی پی ایچ ڈی اسکالر، جامعہ کوآرڈی نیشن کمیٹی کی رکن، سی اے اے جیسے کالے قانون کے خلاف آواز اُٹھانے والی، جامعہ ملیہ اسلامیہ کے درودیوار سے انقلاب وانقلاب وانقلاب اور آزادی کا نعرہ بلند کرکے پورے ملک میں سی اے اے تحریک کو پروان چڑھانے والی جامعہ کی آواز، انقلاب پسند، حق کے لیے لڑنے والی، اقلیتوں کے مستقبل کے لیے فکر مند، آزاد ہند میں عوامی آزادی کے لیے ، عوام کے حقوق کےلیے، آئین مخالف کالے قانون کے خلاف آواز اُٹھانے کے جرم میں قیدو بند کی صعوبتیں برداشت کرنے والی، مجبوروبے کس، معصوم ہوتے ہوئے گنہ گار، سازشوں کی شکار، دہلی میں فساد بھڑکانے کے الزام میں کئی ماہ سے تہاڑ جیل کی کال کوٹھری میں ننھی جان کو کوکھ میں لیے پابند سلاسل صفورا زرگر ہوں۔
میری پیدائش ۱۹۹۳ میں کشمیر کے کشتواڑ میں صابر حسین زرگر کے یہاں ہوئی، پیدائش کے کچھ برسوں بعد والد محترم کے فرید آباد ٹرانسفر ہوتے ہی دہلی آگئی اور یہیں اول تا آخر تعلیم وتربیت ہوئی۔ مختلف کالجوں سے اعلیٰ ڈگریاں حاصل کرنے کے بعد دیارِ شوق اور شہرِ آرزو جامعہ ملیہ اسلامیہ کی انقلابی سرزمین پر علم میں پختگی کے لیے قدم رکھی، فی الحال جامعہ کی ایم فل کی طالبہ ہوں۔ ۶؍اکتوبر ۲۰۱۸ کو دوران طالب علمی صبور احمد شروال کو رفیق منتخب کیا اور نکاح کے مقدس بندھن میں بندھ کر وفا شعار بیوی بن گئی۔ ہاں میں وہی صفورا زرگر ہوں جسے شاہین باغ کی دنگائی اور جامعہ کی غیر شادی شدہ طالبہ کہا جارہا ہے، جس کے حاملہ ہونے کا مذاق اڑایاجارہا ہے، جسے برے القابات سے نوازا جارہا، اور برے اطوار والی لڑکی بتایا جارہا ہے، یہ سب کچھ کرنے والے وہ لوگ ہیں جو انسانیت سے عاری ہیں، جو انسان نما بدزبان جانور ہیں۔ حیوانیت جن کا شیوہ ہے۔ نفرت جن کا پیشہ ہے۔ عداوت جن کا مذہب ہے۔ انسانیت دشمنی جن کا اوڑھنا بچھونا ہے۔ جنہوں نے جنین کو ماں کا پیٹ چاک کرکے نکالا اور نیزے پر اچھال کرکے خوشیاں منائی ہیں۔ ایسے ظالم و جابر اور متعصبانہ ذہن رکھنے والے نفرت کے سوداگر، بے ضمیر لوگوں نے میری کوکھ میں پل رہے جنین کو دنیا میں آنے سے پہلے ہی معطون کرنے کی کوشش شروع کردی ہے۔ ان ارذل الخلائق کی پشت پناہی کرنے والے وہ نام نہاد مہذب اور دانشوران ہیں جو دوسروں کو عورت کی عزت کرنے کا گیان بانٹتے ہیں۔ حاملہ ہتھنی کی موت پر مگر مچھ کے آنسو رونے والے انسانیت دشمن اندھ بھکت میرے حاملہ ہونے کے باوجود جیل میں بند ہونے پر خوشیاں منارہے ہیں۔ انسانیت کی یہ کون سی صفت ہے جس میں جانور کی موت پر واویلا مچایا جائے اور ایک حاملہ طالبہ کے قید و بند پر خوشیوں کے نغمات گنگنائے جائیں۔ عورتوں کی عزت وتوقیر سے عاری، ماں بہن بیوی اور بھائی کے حدود وقیود سے آزا د، بنا شادی کے بچے پیدا کرنے والے سلیبرٹیوں کو مبارکبادی دینے والے اور لینے والے مجھ پر الزام تراشیاں کررہے ہیں کہ میں بنا شادی کے ماں بن گئی ہوں۔ اخلاق سے نابلد مجھے اخلاق کا درس دینے کی کوشش کررہے ہیں؛ حالانکہ دنیا جانتی ہے کہ میں شادی شدہ، پاکدامن اور عفت مآب وفاشعار خاتون ہوں اور اہل حق سے ہوں اس لیے مجھ پر الزامات لگ رہے ہیں؛ کیوں کہ اہل حق پر الزامات آج سے نہیں زمانہ قدیم سے ہی لگتے چلے آئے ہیں، جب ہماری اماں عائشہؓ صدیقہ پر الزام عائد کیاجاسکتا ہے تو پھر میں کون ہوتی ہوں۔ مجھے اس بات کا غم نہیں ہے۔ میں کل بھی مضبوط تھی اور آج بھی مضبوط ہوں۔ میں کل بھی فسطائیت کے خلاف بلند آواز تھی اور آج بھی دنگائیوں کے خلاف بلند دیوار ہوں۔ نہ تو کل میں نے ظالموں کے سامنے گھٹنے ٹیکے ہیں اور نہ آئندہ ظلم کے سامنے ہمت ہار جاؤں گی۔
ہاں میں وہی صفورا زرگر ہوں جس نے ۱۵؍دسمبر کو شہر آرزو میں طلباء کو پولس کی بربریت کا شکار ہوتے دیکھا، لائبریری میں پڑھ رہے طلبا کو خون میں لت پت پڑے دیکھا، لڑکیوں کے ہاسٹل میں ان کے نازک جسموں سے خون رستے دیکھا، میں خود ۱۵؍دسمبر کو ظلم کا شکار ہوئی ،خوف سے بے ہوش ہوئی؛ لیکن مجھے ہی شکار کرلیاگیا ، مجرم جب منصف بن جائے تو وہ مظلوم کو ہی ظالم بناکر پیش کرتا ہے میرے ساتھ بھی یہی معاملہ ہوا ہے، میں نے آئین کے تحفظ کی بات کی ، میں نے شہریت قانون کے خلاف آواز اُٹھائی ، دہلی فساد متاثرین سے ہمدردی کی تو جیل کی قید و بند بطور انعام ملی اور جنہوں نے دہلی فساد کو بھڑکایا، جنہوں نے ’گولی مارو سالوں‘ کا نعرہ دیا، جنہوں نے بولی کی بھاشا نہ سمجھنے پر گولی کی بھاشا سمجھانے کو کہا، جنہوں نے کرنٹ لگانے کی بات کی وہ آزاد گھوم رہے ہیں۔ جنہوں نے سر عام پولس کی موجودگی میں فساد بھڑکانے کی بات کی وہ دلارے بنے ہوئے ہیں۔ کیوں؟ اس لیے کہ وہ ابھی حاکم ہیں، وہ گنہ گار ہوتے ہوئے بھی معصوم ہیں اور میں اور مجھ جیسی دیگر لڑکیاں اور لڑکے جو انصاف کے علمبردار ہیں، جو آئین وقانون کی بات کرتے ہیں وہ مجرم ہیں؛ اس لیے وہ پابند سلاسل کیے جارہے ہیں۔ ظالموں کو عہدوں سے نوازا جارہاہے، معصوموں کو جیلوں میں ٹھونسا جارہا ہے۔ گولی چلانے والوں کو ضمانت مل رہی ہے اور دستور کی دہائی دینے والوں کی درخواست ضمانت رد کی جارہی ہے۔ آگ لگانے والے آزاد گھوم رہے ہیں اور آگ بجھانے والوں کو مجرم بناکر پیش کیا جارہا ہے۔ نفرت آمیز تقریر کرنے والے آرام سے گھوم رہے ہیں اور محبت کا گیت گانے والے قید وبند کی صعوبتیں جھیل رہے ہیں۔ دستور کی خلاف ورزی کرنے والے معصوم بن گئے اور دستور کے تحفظ کیلئے احتجاج کرنے والے مجرم بنا دیئے گئے ہیں۔
ہاں میں وہی صفورا زرگر ہوں جس نے عید سے قبل جیل کی سلاخوں میں بند رہتے ہوئے درد سے بھرا خط اپنی ماں عزیز واقارب ، جامعہ اور ملک کےلیے لکھا،خط میں والدین کی شفقت ، ماں کی ممتا، بہن کی محبت کو یاد کرکے روئی، طلبہ کی ڈھارس بندھائی، اپنے قریبی طلبہ لیڈر میران حیدر، آصف اقبال اور شفاء الرحمان وغیرہ جنہیں بھی کال کوٹھری میں ڈال دیاگیا ہے یاد کی ، خط میں خود کے صبر اور ملک کی سلامتی کےلیے اور ملک کے روشن مستقبل جامعہ کے لیے دعا کی اپیل کی ۔ ہاں میں وہی صفورہ زر گر ہوں جو جیل میں اپنی کوکھ میں پل رہے معصوم کے ساتھ صبر آزما حالات سے دوچار ہوں، دردوکرب میں ہوں؛ لیکن خدا کی رحمت سے مایوس نہیں ہوں، مجھے امید ہے کہ جس طرح خدا نے محمد بن قاسم کو بھیج کر دیبل کی جیل سے بے قصور مسلم خواتین کو آزاد کروایا تھا اسی طرح یہاں بھی کسی قاسم ومحمود کی اولاد کو بھیج کر نفرت وظلم کی شکار مجھ جیسی لاکھوں مظلومین کی مدد کرے گا ۔ کیوں کہ ‘دیبل سے لے کر تہاڑ تک’ ظالموں کا ایک ہی گروہ ہے اور مظلوموں کے خلاف ایک ہی رویہ ہے صرف مظلوں پر ظلم وزیادتی اور ظلم زیادہ دن تک قائم نہیں رہتا، اللہ جلد ہی ظالموں کو نشان عبرت بنادیتا ہے اور مجھے امید ہے کہ ان شاء اللہ جلد ہی وہ دن آنے والا ہے ‘
جب ظلم و ستم کے کوہ گراں
روئی کی طرح اڑ جائیں گے
ہم محکوموں کے پاؤں تلے
جب دھرتی دھڑ دھڑ دھڑکے گی
اور اہل حکم کے سر اوپر
جب بجلی کڑ کڑ کڑکے گی
جب ارض خدا کے کعبے سے
سب بت اٹھوائے جائیں گے
ہم اہل صفا مردود حرم
مسند پہ بٹھائے جائیں گے
سب تاج اچھالے جائیں گے
سب تخت گرائے جائیں گے
بس نام رہے گا اللہ کا
جو غائب بھی ہے حاضر بھی
اور راج کرے گی خلق خدا
جو میں بھی ہوں اور تم بھی ہو’
(فیض احمد فیض)۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
×