لو جہاد کے شور کے درمیان آخر کار یوپی کی یوگی سرکار نے لو جہاد کے خلاف قانون بنا کر ہی د م لیا اور گورنر نے دستخط کرکے اسے حتمی شکل دے دی، گذشتہ ہفتہ یوپی کابینہ نے غیر قانونی تبدیلی ٔمذہب مانع آرڈیننس ۲۰۲۰ء کو منظوری دے دی تھی، تاکہ ریاست میں جبری تبدیلی ٔمذہب کے خلاف قانونی سازی کی راہ ہموار ہوجائے، کابینہ کی منظوری کے بعد اسے منظوری کے لیے گورنر کے حوالہ کردیا گیا تھا، گورنر کی دستخط کے ساتھ اب یہ قانون نافذ العمل ہوگیا ہے۔
لوجہاد کے خلاف منظورہ حالیہ قانون میں درج ذیل دفعات شامل کی گئی ہیں: قانون میں بین مذہبی شادی کے لیے اجازت طلب کرنے کی غرض سے عرضی کا ایک ڈرافٹ بھی شامل کیا گیا ہے، اس قانون کی رو سے تبدیلی ٔ مذہب کی غرض سے کی جانے والی تمام شادیاں غیر قانونی قرار پائیں گی،ایسی تمام تنظیموں کے رجسٹریشن ختم کردئے جائیں گے جن کے تحت بڑے پیمانے پر تبدیلی ٔ مذہب کیا جارہا ہو، نیز عام حالات میں اس قانون کی دفعات کی خلاف ورزی کرنے والوں کو ایک تا پانچ سال کی قید اور ۱۵ ہزار روپئے کا جرمانہ ہوگا، شادی سے قبل نام چھپانے کی صورت میں ۱۰ سال سزائے قید بھگتنی پڑے گی، باوثوق ذرائع کے مطابق تبدیلی ٔ مذہب کو قابل سزا اور غیر ضمانتی جرم کے زمرے میں رکھا گیا ہے، شادی کی غرض سے آنے والے دو مختلف مذاہب سے تعلق رکھنے والے جوڑوںکو دو ہفتہ قبل ضلع مجسٹریٹ کو اپنی شادی کی اجازت کے لیے نوٹس دینی ہوگی، مختلف مذاہب سے تعلق رکھنے والے جوڑوںکو بغیر اجازت شادی کرنے کی صورت میں چھ ماہ سے تین سال کی جیل اور ۱۰ ہزار روپئے جرمانہ ادا ہوگا، جہاں تک اس قانون کی حمایت ومخالفت کا تعلق ہے تو اپوزیشن پارٹیوں اور ملک کی دیگر سیکولر جماعتوں نے اس کی شدید مذمت کی ہے اور اسے آئین کے بنیادی حق کے خلاف قرار دیا ہے، لیکن سوال یہ ہے کیا واقعی ملک میں لو جہاد جیسی کسی چیز کا وجود ہے یا یہ محض فرقہ پرست پارٹیوں کا کھڑا کیا ہوا حوا ہے؟ بی جے پی اور آر ایس ایس تو یہ تأثر دے رہے ہیں کہ واقعی ملک میں لوجہاد پایا جاتا ہے، اُن کا کہنا ہے کہ ملک کے مسلم نوجوان ہندو لڑکیوں کو دام محبت میں پھانس کر اُنھیں مذہب ِاسلام میں داخل کررہے ہیں، جہاں تک زمینی حقائق کا تعلق ہے تو یہ سراسر فرقہ پرست ذہنیت کا پروپیگنڈہ معلوم ہوتا ہے، رواں سال کے ماہ فروری میں ملک کے مملکتی وزیر داخلہ جی کشن ریڈی نے لوک سبھا میں ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے کہا تھا کہ ملک میں لو جہاد نام کی کوئی چیز نہیں ہے، ابھی تک کسی ایجنسی نے اس سلسلہ میں کوئی اطلاع یا رپورٹ نہیں دی ہے، اس کے علاوہ مرکز یا ریاستوں نے کوئی ایسا سروے بھی نہیں کرایا جس سے پتہ چلے کہ ملک میں لو جہاد معاملات کتنے ہیں، ان سارے حقائق کے باوجود حیرت ہے کہ بی جے پی زیر اقتدار تین ریاستوں یوپی، ایم پی اور ہریانہ میں مبینہ لوجہاد کے خلاف قانون سازی کی جارہی ہے، حالیہ لوجہاد مخالف قانون دستور ہند میں دی گئی آزادی کے سراسر خلاف ہے، ملک کا دستور ہر شخص کو اپنی پسند کا مذہب اختیار کرنے کی پوری اجازت دیتا ہے۔
لوجہاد وہ مکروہ شیطانی منصوبہ ہے جسے ملک کی فرقہ پرست طاقتیں مسلمانوں کے خلاف پروپیگنڈہ کے لیے استعمال کرتی آئی ہیں، ملک میں لوجہاد نام کی کسی چیز کا کوئی وجود نہیں ہے، البتہ مسلمانوں کو بدنام کرنے اور برادرانِ وطن کو مسلمانوں سے متنفر کرنے کے لیے اس کا خوب حوا کھڑا کیا جاتا ہے، جہاں تک بین مذہی شادیوں کا تعلق ہے تو وہ ہر مذہب کی نوجوان نسل میں تھوڑے بہت فرق کے ساتھ عام ہیں، اس میں کسی خاص مذہب کے لوگ دوسرے مخصوص مذہب کے لوگوں کوٹارگیٹ نہیں کرتے، اس قسم کا رجحان مخلوط تعلیم اور مغربی کلچر کے غلبہ کے نتیجہ میں ہر مذہب کی نوجوان نسل میں عام ہورہا ہے، لوجہاد کی مکروہ اصطلاح کو فرقہ پرست تنظیمیں دو مقاصد کے لیے استعمال کررہی ہیں، ایک تو اس کے ذریعہ غیر مسلم نوجوانوں کی غیر ت کو للکارا جارہا ہے کہ وہ اپنی بہنوں کو مسلم نوجوانوں سے بچائیں، اور جھوٹا پروپیگنڈہ کیا جارہا ہے کہ مسلم نوجوان غیر مسلم لڑکیوں کو دامِ محبت میں پھانس کر انھیں تبدیلی ٔمذہب پر آمادہ کررہے ہیں، دوسرا مقصد لوجہاد کا شور کرکے خود اپنے لوجہادی منصوبہ سے لوگوں کی توجہ ہٹانا ہے، یہ’’ چور مچائے شور‘‘ کے مصداق ہے، اس وقت متعدد ہندو فرقہ پرست تنظیمیں انتہائی منصبوبہ بندی کے ساتھ مسلم لڑکیوں کو مرتد بنارہی ہیں، اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ حالیہ عرصہ میں مسلم لڑکیوں کے غیر مسلم لڑکوں کے ساتھ شادی رچانے کے معاملات اس کثرت سے پیش آرہے ہیں کہ کوئی ہفتہ اس قسم کے واقعات سے خالی نہیں ہوتا، رجسٹرار آف میریج کے دفتروں کے باہر آویزاں نوٹس بورڈ پرغیر مسلم نوجانوں سے شادی کرنے کی خواہش مند مسلم لڑکیوں کی دراخواستوں سے صورت ِحال کی سنگینی کا اندازہ کیا جاسکتا ہے، گذشتہ سالوں میں بنگلور اور وجے پور کے رجسٹرار آف میریج کے دفتر کے باہر نوٹس بورڈ پر ایسی کئی درخواستیں چسپاں دیکھی گئیں، جن میں مختلف مسلم لڑکیوں نے اپنے غیر مسلم دوستوں کے ساتھ شادی کی خواہش کا اظہار کیا تھا، قانونی مراحل سے گزرنے کے بعد آخر کار گوپال کرشنا کی شادی تسنیم کے ساتھ ہوئی، ترون شرما کی روبینا اختر کے ساتھ، آنند کی شادی نگینہ کے ساتھ انجام پائی، جس کی اطلاع رجسٹرار آف میریج کے دفتر کے باہر چسپاں نوٹس بورڈ پر دی گئی، مسلم لڑکیوں کی جن غیر مسلم لڑکوں سے شادی رچائی گئی ان میں کی اکثریت آر ایس ایس اور دیگر فرقہ پرست تنظیموں سے وابستہ تھی۔
چونکا دینے والے اعداد وشمار
۲۹؍ نومبر ۲۰۲۰ ء کے روز نامہ منصف کے سنڈے ایڈیشن نقوش میں ریاض فردوسی صاحب کا اس حوالہ سے ایک چونکا دینے والا مضمون شائع ہوا ہے، جس سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ ملک میں بھگوا تنظیمیں مسلم لڑکیوں کو مرتد بنانے اور دامِ محبت میں پھانس کر ان کی غیر مسلم لڑکوں سے شادی رچانے کی مہم کس شدت کے ساتھ چلارہی ہیں، مضمون نگار کے مطابق ۲۰۲۰ء میں ممبئی تھانہ بھونڈی ممبرا سے کورٹ میریج کے لیے کورٹ میریج رجسٹرار کی آفس میں ۱۴۰ مسلم لڑکیوں نے ہندو لڑکوں سے شادی کرنے کی درخواست دی، مضمون نگار نے لکھا ہے کہ مسلم خواتین گھر سے بھاگ رہی ہیں اور غیر مسلم لڑکوں سے شادی رچار ہی ہیں، اور ہم مسلمان گڑبڑ میں ہیں، آگے مضمون نگار مختلف شہروں میں غیر مسلم لڑکوں سے شادی رچانے والی مسلم لڑکیوں کے اعداد وشمار پیش کرتے ہوئے لکھتے ہیں: ’’چنئی ۵۱۸۰۔ کوئمبتور ۱۲۲۴۰۔ ترچی ۱۴۷۰۔ مدورائی ۲۴۳۰۔ سیلم ۷۴۰۔ حیدرآباد ۳۵۰۰۔ گجرات ۲۵۰۰۔مہاراشٹر ۵۰۰۔ یوپی میں سب سے زیادہ ہیں جہاں غازی آباد میں ۵۰۰ ۔ باغپت سے ۱۲۷۰۔ میرٹھ سے ۹۷۰۔ کانپور ۳۸۹۰۔ بنگال میں ۱۲۰۹۰۔ پچھلے تین سالوں میں مجموعی طور پر ۱۵۰۰۰۰ سے زیادہ مسلم لڑ کیوں نے غیر مسلم مردوں سے شادی کی ہیں۔
بھگواتنظیموں کا طریقۂ کار
مہاراشٹر کے معروف عالم دین آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ کے جنرل سکریٹری مولانا عمرین محفوظ رحمانی نے اپنے ایک مضمون میں مسلم لڑکیوں کو مرتد بنانے کے لیے بھگوا تنظیموں کے مختلف طریقوں پر روشنی ڈالی ہے، جسے ذیل کی سطور میں پیش کیا جاتا ہے:
(۱) باضابطہ ایسے ہندو جوانوں کی ایک ٹیم تیار کی گئی ہے، جن کاکام ہی محبت کے نام پر مسلمان لڑکیوں کو تباہ و برباد کرنا ہے۔یہ لو گ پہلے ہمدردی کے نام پرکسی مسلمان لڑکی سے قریب ہوتے ہیں،پھر محبت کا فریب دیتے ہیں،اورشادی کا وعدہ کرتے ہیں، اور پھر جنسی استحصال کا مرحلہ شروع ہو جاتاہے اور جب وہ لڑکی عفت و عصمت کا گوہر لٹاچکتی ہے او ر اس لڑکے سے شادی کا اصرار کرتی ہے تو پھرکورٹ میں کورٹ میرج کی درخواست دی جاتی ہے۔ میرے علم کے مطابق ایک مہینے کے بعد اس درخواست پر عمل در آمد ہوتا ہے،یہ مدت اس لیے بھی رکھی گئی ہے کہ اگر گھر والوں یا کسی اور کو کوئی اعتراض ہو تو وہ کاروائی کر سکتا ہے،گھر والوں کو نوٹس جاری کرنا بھی لازمی اور ضروری ہے،جس کے ذریعے یہ اطلاع دی جاتی ہے کہ آپ کا لڑکا /لڑکی نے کورٹ میرج کی عرضی داخل کی ہے،اب جب یہ درخواست داخل ہوتی ہے تو خود وہ شادی کی درخواست دینے والا نوجوان کسی ذریعہ سے اس درخواست(جس پر مسلمان لڑکی او ر غیر مسلم لڑکے کا فوٹو ہوتا ہے کہ یہ دونوں شادی کرنے جا رہے ہیں)کی تصویر لے کر کسی اور کے ذریعے سوشل میڈیا پر وائرل کروا دیتا ہے۔جب مسلمانوں کوخبر ہوتی ہے تو وہ اس شادی کو روکنے کی بھرپور کوشش کرتے ہیں۔ سماجی دباو? بنایا جاتاہے،نتیجتاً شادی رک جاتی ہے، اب لڑکی کی نگاہ میں مجرم ہوتے ہیں اس کے ماں باپ، بھائی بہن اور اس کے سماج اورمذہب کے لوگ،اورخود اس غیر مسلم لڑکے کو ’’کلین چٹ‘‘مل جاتی ہے اور وہ انتہائی’’معصوم دیوتا‘‘کے روپ میں سامنے آتا ہے، لڑکی بدنام ہو گئی، خاندان پرننگ وعار کادھبہ لگ گیا، اور یہ لڑکی ہمیشہ کے لیے ’’ڈپریشن‘‘ کاشکار ہو گئی اورایک باوقار اورپاکیزہ زندگی اور بہترین خاندانی نظام کی تشکیل اور قیام سے محروم ہو گئی،کہیں اس کانکاح بھی ہو جائے تو وہ اچھی زندگی نہیں گذار سکتی اور اگر نکاح نہ ہو تو پھر چوری چھپے اس لڑکے سے ملنے،ناجائز تعلقات قائم کرنے کا دروازہ کھلا ہوا ہے۔
(۲) اس سے آگے کی شکل یہ ہے کہ محبت کے فریب میں پھنسا کر اور جذباتی طور پر اپنے آپ سے قریب کر کے’’ترک مذہب‘‘پر آمادہ کیا جاتاہے او ر باضابطہ شادی کر کے چند مہینے یاسال بھرساتھ میں رکھا جاتاہے،اس کے بعدآئے دن کے جھگڑے شروع ہو جاتے ہیں،چونکہ اس شادی کی وجہ سے یہ لڑکی اپنے خاندان اپنے سماج سے بالکل کٹ چکی ہوتی ہے،اس لیے اب واپسی کے دروازے بند ہو چکے ہوتے ہیں، اس لیے اسی’’شوہر‘‘کے ساتھ رہنااس کی مجبوری ہے۔ جس سے فائدہ اٹھا کر وہ شوہر اپنی اس بیوی سے جسم فروشی کرواتا ہے یا پھر طلاق دے کر در در کی ٹھوکریں کھانے پر مجبور کر دیتاہے۔
(۳) اس گھناونے کھیل کا سب سے بڑا اورکھلامیدان کالجس ہیں، جہاں کی مخلوط تعلیم نے اس کھیل کے لیے بہترین اور محفوظ اسٹیج فراہم کیا ہے، کتنے غیر مسلم لڑکے ہیں جن کو فرقہ پرست تنظیموں کی طرف سے اچھی اردو سکھانے اور بہترین اردوشاعری کی تعلیم دینے کا انتظام کیا گیا ہے۔مسلمان لڑکی کو دام فریب میں پھنسانے کے لیے وہ اس ہنر کا بھی استعمال کرتے ہیں،اورکچی عمر کی جوان لڑکیاں بہت جلد اس ہتھکنڈے سے متاثر ہو کر ان کی آغوش میں چلی جاتی ہیں،اور پھر یہی بے حیائی انہیں ارتداد کی شاہراہ تک پہونچا دیتی ہے۔العیاذ باللّہ!کالج کے علاوہ ٹیوشن کلاسیس بھی اختلاط،بے حیائی اور پھر دین و ایمان سے محرومی کاذریعہ بن رہی ہیں، پڑھنے والے طلبہ تو شکاری بنے ہی ہوئے ہیں،پڑھانے والے ٹیچرس اورپروفیسرس بھی بہتی گنگا میں ہاتھ دھو رہے ہیں،ایسے واقعات بھی سامنے آچکے ہیں کہ کسی ٹیچر نے نوٹس دینے کے بہانے گھر بلایا اور پھر ورغلا کر یا زبردستی اس لڑکی کے ساتھ غلط حرکتیں کیں اور خفیہ طریقے سے اس کاویڈیو بنا لیا اور بعد میں وہی ویڈیو دکھا کر اس لڑکی کو بلیک میل کرنے کا سلسلہ شروع کر دیاگیا،جس کانتیجہ یہ نکلا کہ وہ لڑکی غیروں کے ہاتھوں میں ’’کھلونا‘‘بن گئی،مہاراشٹر کے پربھنی شہر کے بعض احباب نے یہ اطلاع دی کہ اس طرح کے ویڈیو با ضابطہ ٹیچرس نے ایک دوسرے کو بھیجے،اور اس پر اس طرح کے تفریحی جملے لکھے کہ’’دیکھا میں نیکیسے بیوقوف بنایا،‘‘یا’’اس لڑکی کومیں نے کیسے خراب کیا؟‘‘ اس طرح کے ویڈیو کا یہ نتیجہ بھی سامنے آیا کہ لڑکی کانکاح ہونے کے بعد بھی گھر اجاڑ دینے کی دھمکی دے کرنکاح کے بعد بھی جنسی استحصال کیا گیا،اور اپنے آپ کو بچانے کے لیے وہ ’’لڑکی‘‘ہر قسم کے مطالبات پورے کرتی رہی۔
(۴) جو مسلمان لڑکیاں دینی ذہن یاگھر کی تربیت کی وجہ سے کچھ محتاط ہوتی ہیں،ان کو قابو میں لانے کے لیے دوسری غیر مسلم لڑکیوں کا سہارا لیا جاتا ہے وہ لڑکیاں اس لڑکی سے دوستی کرتی ہیں اور پھر وہ اپنے بھائی یا دوست کی حیثیت سے غلط قسم کے لڑکوں سے ان کاتعارف کراتی ہیں، اور پھر بات بڑھتے بڑھتے بیحیائی،یا ارتداد تک پہونچتی ہے۔
(۵) موبائیل اور زیراکس کی دوکانوں کے ذریعے بھی مسلمان لڑکیوں کے نمبراوران کی تصویریں اوردوسری معلومات ان لڑکوں تک پہونچائی جارہی ہے،جو اس کام پر لگے ہوئے ہیں، ویسے بھی سوشل میڈیا کے ذریعے مسلمان لڑکیوں تک پہنچنا آسان ہوگیا ہے،مسلمان بن کر بھی بعض غیر مسلم لڑکے مسلمان لڑکیوں سے فیس بک وغیرہ پر دوستی کرتے ہیں،اور جب بات آگے بڑھ جاتی ہے اور ملاقاتیں شروع ہو جاتی ہیں اور یہ راز کھلتا ہے کہ’’محبوب‘‘مسلمان نہیں ہے غیر مسلم ہے، تب تک بہت دیر ہو چکی ہوتی ہے۔
(۶) مسلمان لڑکیوں کو ورغلانے اوردام فریب میں پھنسانے کے لیے روپئے پیسے کا بھی بے دریغ استعمال کیا جا رہا ہے، کئی علاقوں سے یہ خبر مل چکی ہے کہ بڑے قیمتی تحفے مسلمان لڑکیوں کو دیئے جاتے ہیں اوران کے ذریعے ان کے دل میں جگہ بنائی جاتی ہے، اسی طرح ہمدردی کاہتھیار بھی استعمال کیا جاتاہے،کسی ذریعہ سے اگر معلوم ہو گیا کہ یہ لڑکی پریشان ہے،یا اس کے گھر کے حالات اچھے نہیں ہیں یا پھر یہ کہ اس کے گھر کے لوگ اس پر توجہ نہیں دیتے ہیں تو فوراً’’بھیڑ کی کھال‘‘اوڑھ کرکوئی بھیڑیا سامنے آ جاتاہے اور مصنوعی ہمدردی کاڈرامہ رچاتا ہے اور پریشانیوں اور مشکلات سے جوجھ رہی لڑکی اسے اپنا ہمدرد سمجھ کر اس کے قریب ہوتیجاتی ہے۔ یہاں تک کہ عفت و عصمت کا گوہر لٹا بیٹھتی ہے یا پھر فریب محبت میں گرفتار ہوکر دین وایمان تک سے محروم ہوجاتی ہے۔
جناب جاوید علی صاحب نے ماہنامہ افکار ِملی میں شائع ایک مضمون میں بھگوا تنظیموں کی ارتدادی سرگرمیوں کے طریقۂ کار کی وضاحت کرتے ہوئے لکھا ہے کہ’’اس کے لیے تین جہات سے کام ہورہا ہے: (۱) ہندو کلچر ورسوم کی وسیع پیمانے پر اشاعت، سبزیری خوری کی تائید وتوصیف اور گوشت خوری کی مذمت، تقریبات میں شرکت کی دعوت، جیسے دسہرہ، دیوالی، بھومی پوجا وغیرہ۔ (۲) ہندو پوروجوں (آباء واجداد) کو پہچاننے کی دعوت دینا، اس کا اعلان کہ مسلمان ہندوؤں کی اولاد ہے، اپنے اصل اجداد سے واقف ہونے اور ان کے عظیم کارناموں پر فخر کرنے کی دعوت دینا، یہ پورج ہیں:رام کرشن ارجن وغیرہ۔ (۳) مسلمانوں میں غیر اسلامی تہذیب کو فروغ دینا، اس ضمن میں ہندو مسلم کی شادیوں کو بڑھاوا دینا۔
سد باب کی تدابیر
موجودہ دور میں جب کہ ہزاروں کی تعداد میں دینی مدارس کام کررہے ہیں اور مختلف دعوتی تنظیمیں اور تحریکات سرگرم عمل ہیں، مسلم معاشرہ میں پھیلا ہوا ارتداد کا یہ طوفان نہ صرف انتہائی تشویشناک ہے، بلکہ مسلم قیادت کے لیے لمحۂ فکریہ ہے کہ اس کی تمام تردینی دعوتی سرگرمیوں کے باوجود آئے دن ارتدادی سرگرمیوں میں اضافہ ہی ہوتا جارہا ہے، ارتداد کے اس سیلاب کو کیسے روکا جائے یہ ایک چبھتا ہوا سوال ہے، اس سلسلہ میں مولانا عمرین محفوظ رحمانی نے جن انسدادی تدابیر کا اپنے مضمون میں ذکر کیا ہے ان پر نہ صرف سنجیدگی کے ساتھ غور کرنے کی ضرورت ہے، بلکہ انھیں عملی جامہ پہنانا وقت کا تقاضا ہے، تدابیر درج ذیل ہیں:
(۱) اسلامی نظام کے مطابق مسلمان بچیوں کو پردے کا پابند بنایا جائے،ان میں حیاداری، عفت و عصمت کی حفاظت کاجذبہ،اورعقیدہ توحید و رسالت کی عظمت پیدا کی جائے۔روزانہ ہمارے گھروں میں آدھے گھنٹے ہی سہی کسی اچھی مستند اور ذہن و دل کو متاثر کردینے والی کتاب کی تعلیم کی جائے۔
(۲) مخلوط نظام تعلیم سے اپنی بچیوں کو بچایا جائے،غیر مخلوط تعلیمی نظام کے قیام پر بھرپور توجہ دی جائے اور محفوظ ماحو ل میں معیاری تعلیم کاانتظام کیا جائے۔
(۳) جو لڑکیاں اسکولوں اور کالجوں میں پڑھ رہی ہیں،ان کی دینی تعلیم وتربیت اورذہن سازی کی بھرپور کوشش کی جائے،ان کی عادات، اطوار،اخلاق پر پوری نظررکھی جائے،کردار سازی میں معاون بننے والا لٹریچر انہیں مطالعے کے لیے دیا جائے۔
(۴) ٹیوشن کلاس کے نام پر اجنبی لڑکوں سے اختلاط کا موقع نہ دیا جائے،کسی ٹیچر یاساتھی طالب علم کے گھر پر کسی تعلیمی ضرورت کے نام سے بھی جانے کی اجازت نہ دی جائے، کالج لانے لے جانے کاخودانتظام کیا جائے۔
(۵) اینڈرائڈ موبائیل اور بائک خرید کر نہ دی جائے، یہ دونوں چیزیں بے حیائی کے دروازے کھولنے والی اور عفت وعصمت کی تباہی کے دہانے تک پہونچانے والی ہیں۔
(۶) موبائیل ریچارج یازیراکس کے لیے غیرمسلموں کی دوکان پرجانے کی اجازت نہ دی جائے، اسی طرح کالج کے اندر یا اس سے قریب غیرمسلموں کے کینٹین سے بچنے کی ہدایت دی جائے۔
(۷) غیر مسلم لڑکیوں کی دوستی سے بھی روکا جائے کہ آئندہ یہ دوستی بھی کسی فتنہ کادروازہ بن سکتی ہے۔
(۸) بچیوں کے مسائل اور ان کو پیش آنے والی پریشانیوں پر توجہ دی جائے، یاد رکھیں! گھر میں توجہ کی کمی باہر کا راستہ دکھاتی ہے۔
(۹) اگربچیاں کسی تعلیمی ضرورت سے انٹرنیٹ استعمال کررہی ہیں تو ان کی بھرپور نگرانی کی جائے،اس لیے کہ بھٹکنے اور بہکنے کے اکثر دروازے انٹر نیٹ کے ذریعہ کھلتے ہیں۔