شخصیات

مملکت خدا داد یا علماء کا مقتل؟

اسلام کے نام پر تشکیل پانے والی اور مملکت خدا داد کا عجیب حال ہے۔ جس ملک کے قیام میں علماء نےکلیدی رول ادا کیا تھا اور جس کی گیسوے برہم کو سنوارنے میں انہوں نے کوئی کسر باقی نہیں رکھی تھی۔ آج وہ سرزمین علماء کے مقتل کا منظر پیش کررہی ہے۔ گزشتہ چند دہائیوں سے تسلسل کے ساتھ علماء کا ٹارگٹ کلنگ جاری ہے۔ کراچی کی سڑکوں پر اب تک درجنوں علماء ربانیین کو لہو سے نہلایا جا چکا ہے۔ خونخوار بھیڑیوں کی درندگی سے شیخ الاسلام حضرت مفتی محمد تقی عثمانی جیسی بین الاقوامی شہرت کی حامل شخصیت تک محفوظ نہیں رہی۔ ظالموں نے انھیں بھی گولیوں کا نشانہ بنایا۔ یہ تو خدائے ذوالجلال کی غیبی نصرت تھی کہ حضرت بال بال بچ گئے۔ پاکستان میں علماء کی مظلومانہ شہادتوں کی داستان کافی طویل اور المناک ہے۔ مولانا سعید احمد جلال پوری، مولانا اسلم شیخو پوری اور مولانا سمیع الحق جیسی دسیوں شخصیات ہیں جو فرقہ وارانہ درندگی کی بھینٹ چڑھ گئیں۔ علم وعمل کے بے شمار چراغوں کو سفاک درندوں نے ہمیشہ کے لئے گل کردیا۔
گزشتہ چند دہائیوں سے تواتر کے ساتھ علماء کو نشانہ بنایا جارہاہے۔ اکتوبر1997 کو کراچی میں مولانا انیس الرحمان درخواستی کو شہید کردیا گیا۔ مولانا درخوستی حافظ الحدیث مولانا عبد اللہ درخواستی کے نواسے اور کراچی کی مشہور دینی درسگاہ جامعہ انوار القرآن کے شیخ الحدیث تھے۔ نومبر 1997کو مولانا ڈاکٹر حبیب اللہ مختار کو اور مفتی عبدالسمیع کو دن دھاڈے شہید کردیا گیا۔ مولانا حبیب اللہ مختار جامعۃ العلوم الاسلامیہ بنوری ٹاؤن کے رئیس تھے آپ خالص علمی وتحقیقی شخصیت تھی۔ ہمیشہ علمی کاموں میں مصروف رہتے تھے۔ 18 مئی 2000کو حضرت مولانا یوسف لدھیانوی کوشہید کردیا گیا مولانا جامعۃ العلوم الا سلامیۃ بنوری ٹاؤن کے استاذ حدیث اور عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت کے نائب امیر تھے اور سو سے زائد کتابوں کے مصنف تھے۔ روزنامہ جنگ میں آپ کا معروف کالم آپ کے مسائل اور انکا حل طویل عرصہ تک شائع ہوتا رہا جسے بعد میں کئی جلدوں میں مرتب کرکے شائع کردیا گیا۔ مولانا نے پوری زندگی اشاعت و خدمت دین میں گزاری اور باطل فرقوں کی سرکوبی کے لئے اپنی زبان وقلم کو خوب استعمال کیا۔ مولانا ایک عظیم مذھبی اسکالر تھے۔ 30 مئی 2004 کو مفتی نظام الدین شامزی کو فائرنگ کرکے ہلاک کردیاگیا۔ آپ علوم الحدیث میں سند کی حیثیت رکھتے تھے قریب بیس سال تک آپ نے جامعہ فاروقیہ میں تدریسی خدمات انجام دیں جبکہ شہادت تک جامعہ علوم الاسلامیہ بنوری ٹاؤن کے شیخ الحدیث اور شعبہ تخصص فی الفقہ والافتاء کے نگران و مشرف رہے۔ تقریبا اڑتالیس سال تک افتاء نویسی کام انجام دیا۔ اکتوبر 2004 کو مفتی جمیل خان اور ان کے ساتھی مولانا نذیر احمد تونسوی کو بے دردی کے ساتھ شہید کردیا گیا مفتی جمیل خان شہید اقرأ روضۃ الاطفال کے بانی اور عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت کی مرکزی شوری کے رکن اور نائب امیر تھے اور جامعہ علوم الاسلامیہ کے مایہ ناز سپوت اور روزنامہ جنگ کے اسلامی صفحہ اقرأ کے مرتب تھے.. مولانا نذیر احمد تونسوی عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت کے مبلغ تھے۔
تازہ واقعہ گزشتہ 10 اکتوبر 2020کو پیش آیا جب نامور عالم دین جامعہ فاروقیہ کراچی کے مہتمم اور علماء کمیٹی کراچی کے سربراہ مولانا ڈاکٹر عادل خان ایک قاتلانہ حملے میں شہید کردئیے گئے۔ ذرائع کے مطابق کراچی کے علاقے شاہ فیصل کالونی میں واقع شمع شاپنگ سینٹر کے قریب چند نا معلوم موٹر سائکل سواروں نے مولانا عادل خان کی ڈبل کیبن گاڑی پر فائرنگ کی جس کے نتیجے میں مولانا ڈاکٹر عادل خان زخمی اور ان کے ڈرائیور مقصود احمد موقع پر ہی شہید ہو گئے بعد ازاں اسپتال منتقلی کے دوران مولانا عادل خان نے جان جان آفریں کے سپرد کردی۔ مولانا عادل خان کی شہادت در اصل پاکستان میں جاری مذھبی شخصیات کے بہیمانہ قتل کا المناک تسلسل ہے یہ کوئی پہلی مظلومانہ شہادت نہیں اس سے قبل درجنوں علماء بربریت کا شکار ہو چکے ہیں اس قسم کے ہر خونی واقعہ کے بعد مجرموں کو کیفر کردار تک پہونچانے کے حکوتی دعوے سامنے آتے ہیں۔ لیکن مجرم کبھی گرفت میں نہیں آتے۔
مولانا عادل خان پاکستان کے نامور عالم دین استاذ الاساتذہ شیخ الحدیث حضرت مولانا سلیم اللہ خان صاحب کے فرزند ارجمند تھے وہ ایک صاحبِ بصیرت جہاں دیدہ اور عالم اسلام کے احوال سے واقف نیز اسلام اور مسلمانوں کےخلاف ہو رہی صلیبی وصہیونی سازشوں سے باخبر عالم دین تھے۔ دور اندیش متحرک اور فعال شخصیت کے مالک تھے مزاج میں وسعت سوچ میں گہرائی رکھتے تھے۔ تمام دینی کاموں کی حوصلہ افزائی فرماتے تھے۔ مولانا عادل خان دینی وعصری علوم کا حسین سنگم تھے وہ جہاں اردو کے ادیب اور مصنف تھے وہیں عربی اور انگریزی میں بھی غیر معمولی دسترس رکھتے تھے۔ مولانا عادل خان ہمیشہ ملک اور ملت اسلامیہ کے لئے متفکر رہاکرتے تھے۔ حالیہ عرصہ میں یہ فکر دامن گیر ہوئی تھی کہ نئی نسل کو تحریک پاکستان سے کیسے واقف کرایا جائے۔ اسکے لئے انہوں نے ایک ہزار صفحات پر مشتمل ایک کتاب کو حادثہ سے کچھ ہی دنوں قبل مکمل کی تھی مولانا عادل خان نے اپنی پوری زندگی خدمت دین کے لئے وقف کر رکھی تھی وہ زندگی بھر اشاعت دین کا فریضہ بڑی جاں فشانی کے ساتھ انجام دیتے رہے۔ مولانا عادل ملک میں پھیلی فرقہ واریت کی آگ پر فکرمند رہا کرتے تھے وہ اپنے وطن کو فرقہ واریت سے پاک ایک پر امن ملک کے طور پر دیکھنا چاہتے تھے۔ گزشتہ ماہ محرم الحرام میں جب ملک کی سڑکوں پر کھلے عام صحابہ علیہم الرضوان کی شان میں گستاخی کی گئی تو وہ سخت بے چین وبے تاب ہوگئے اور کسی ایسے لائحہ عمل کے لئے کمر کس لیا جس کے بعد پھر کبھی ناموس صحابہ پر کسی انگلی نہ اٹھ سکے۔ اس کے لئے انہوں نے تمام مکاتبِ فکر کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کیا اور توہینِ صحابہ کےخلاف ملک بھر میں عظیم الشان جلسوں کا انعقاد عمل میں لایا۔ اس تعلق سے ان کی فکرمندی کا اندازہ ان کے اس ٹویٹ سے کیا جاسکتا ہے جو انہوں نے اپنی شہادت سے بیس گھنٹے پہلے کیا تھا۔ انہوں لکھا: یا اللہ! اس زبان سے قوت گویائی کو ختم کر جس زبان سے حضرت محمدﷺ حضرت ابوبکر عمر عثمان علی اور امی عائشہ رضی اللہ عنہم کے بارے میں برا لفظ نکلے۔ مولانا عادل تحریک دفاعِ صحابہ کے عظیم سپاہی تھے۔
مولانا عادل خان علیہ الرحمہ نے1973 میں مشہور درسگاہ جامعہ فاروقیہ کراچی سےسند فراغت حاصل کی۔ 1976میں کراچی یونیورسٹی سے ہیومن سائنس میں بی اے کیا۔ 1978میں عربی سے ایم اے کیا پھر 1992 میں اسلامک کلچر میں ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی۔ 1980 سے تا شہادت ماہنامہ الفاروق اردو عربی انگریزی کے اڈیٹر رہے۔ مولانا عادل خان اپنے والد گرامی کے شانہ بشانہ تحریک سواد اعظم میں سرگرم حصہ لیا۔ 1986 سے2010 تک جامعہ فاروقیہ کراچی کے جنرل سکریٹری رہے۔ کچھ عرصہ انہوں نے امریکہ میں قیام فرمایا۔ اس دوران وہاں ایک بڑا اسلامک سینٹر قائم کیا۔
مولانا عادل خان 2010 سے 2018 تک ملیشیا کی مشہور یونیورسٹی میں کلیہ معارف الوحی اور انسانی علوم میں پروفیسر کی حیثیت سے خدمات انجام دیں۔ مولانا عادل خان وفاق المدارس العربیہ پاکستان کی مرکزی کمیٹی کے سینیر رکن اور وفاق المدارس کی مالیاتی نصابی اور دستوری کمیٹی کے چیرمین بھی رہ چکے ہیں۔ آپکو 2018 میں تحقیق وریسرچ میں ملیشیا ہائر ایجوکشن کی جانب سے فائیو اسٹار رینکنگ ایوارڈ سے نوازا گیا اور یہ ایوارڈ ان کو انٹرنیشنل اسلامک یونیورسٹی کے صدر کے ہاتھوں دیا گیا۔
مولانا عادل کی شہادت ملت اسلامیہ کے لئے عظیم سانحہ ہے ان کی شہادت سے امت مسلمہ ایک عظیم اسکالر اور ایک بافیض عالم دین سے محروم ہو گئی۔ مولانا عادل اپنے رب کے حضور حاضر ہو گئے لیکن کیا پاکستان کی سرزمین پر علماء کے خون کی ارزانی کا سلسلہ تھم سکے گا؟ کیا فرقہ واریت کےعفریت کو لگام دی جاسکےگی؟ اور کیا عادل صاحب کا سانحہ ارباب اقتدار کو علماء کے تحفظ کے تعلق سے جھنجھوڑ سکے گا؟ ان سوالات کے جوابات آنے والا وقت دے گا۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
×