سیاسی و سماجی

بس جرم ہے اتنا کہ مسلمان ہیں ہم لوگ!!

وطن ِ عزیز میں مسلمانوں کا خدا ہی محافظ ہے، دن بدن حالات دگرگوں ہوتے جارہے ہیں، پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں میں اکثریت رکھنے والی حکمراں جماعت تیزی کے ساتھ مسلم مخالف قوانین پاس کرتی جارہی ہے، ماب لینچنگ کے واقعات روز کا معمول بن چکے ہیں، ملک بھر سے ماب لینچنگ کے خلاف سخت قانون کی مانگ بڑھ رہی ہے، اس قسم کے واقعات سے دنیا بھر میں ہندوستان کی ساکھ بری طرح متاثر ہورہی ہے، بیرونی ممالک کی کمپنیاں ملک میں سرمایہ کاری سے گریز کررہی ہیں، جس کے ملکی معیشت پر خطرناک منفی اثرات پڑرہے ہیں، ملک کی سب سے بڑی اقلیت شدید خوف وہراس کا شکار ہے، ہونا تویہ تھا کہ حکومت فوراً حرکت میںآتی اور لنچنگ میں ملوث درندوں کے خلاف سخت قانون پاس کرکے عوام کے جان ومال کا تحفظ کرتی لیکن انتہائی اہمیت کے حامل ان مسائل کو نظر انداز کرکے حکومت نے طلاق ثلاثہ بل پاس کرنے میں غیرمعمولی عجلت کا مظاہرہ کیا، پھر اس پر زیادہ وقت نہیں گزرا کہ دہشت گردی سے متعلق ایک سیاہ قانون منظور کرایا گیا، اس قانون کی رو سے حکومت کسی بھی شخص کو گرفتار کرکے پس دیوار زنداں کرسکتی ہے، یہ نیاقانون اس قدر ظالمانہ ہے کہ اس کی روسے مرکزی حکومت کسی بھی آدمی کو دہشت گرد قراردے سکتی ہے، اس قانون کا اگر سب سے زیادہ غلط استعمال کس کے خلاف ہوگا تووہ مسلمان ہوں گے، ویسے مسلمان برسوں سے غیرقانونی گرفتاریوں سے پریشان ہیں بے قصورمسلم نوجوانوں کو بیس بیس سال تک جیل میں بندرکھنا ایک معمول بن چکا ہے، ملک میں اگرچہ مسلمان اقلیت میں ہیں لیکن ملکی جیلوں میں سب سے زیادہ تعداد مسلم نوجوانوں کی ہے۔
دوسری طرف ملک کے مسلمانوں پر NRCکی شکل میں شہریت کے نئے قانون کی تلوار لٹک رہی ہے، آسام میں NRCکے ذریعہ لاکھوں مسلمانوں کو شہریت سے محروم کیا جاچکا ہے، آرایس ایس نے یہ گمان کررکھا تھا کہ NRCکی زد میں صرف مسلمان ہی آئیں گے لیکن جب اس کی زد میں کئی لاکھ غیرمسلم بھی آگئے تو آرایس ایس کی صفوں میں کھلبلی مچ گئی اور اس نے اپنے حالیہ اجلاس میںاعلان کیا کہ NRCکے نتیجہ میں شہریت سے محروم ہونے والے سارے ہندووں کو شہریت دی جائے گی، آسام میں NRC کے نفاذ سے بی جے پی کے مسلمانوں کے خلاف پروپیگنڈہ کی قلعی بھی کھل گئی، بی جے پی کا کہنا تھا کہ آسام میں لاکھوں کی تعداد میں مسلم گھس پھیٹی پائے جاتے ہیں جبکہ NRC کے نتائج نے فرقہ پرستوں کے اس پروپیگنڈہ کو غلط ثابت کردیا، بی جے پی قائدین بہار،ہریانہ اور دیگر ریاستوں میں بھی NRC کا مطالبہ کررہے ہیں، NRCکے نام سے ملک بھر میں مسلمانوں کو شدید خوف وہراس کا نشانہ بنایا جارہا ہے، آسام میں ایک مسلم خاتون کو جب پتہ چلاکہ NRC سے اس کا نام خارج ہے تو وہ مایوسی کے عالم میں خود کشی کربیٹھی، خودکشی اسلام میں حرام ہے، اور مسلم خاتون کا یہ اقدام سراسرغیراسلامی ہے لیکن اس واقعہ سے اس دہشت کا اندازہ کیاجاسکتا ہے جو NRC کے نام پر لوگوں میں پھیلائی جارہی ہے۔
ابھی ملک NRCکی دہشت سے نکلنے نہیں پایا تھا کہ حکومت نے کشمیر سے متعلق ایک انتہائی اہم فیصلہ لے لیااوردفعہ نمبر 370ختم کرکے پوری ریاست کو ایک بڑی جیل میں تبدیل کردیا گیا، بی جے پی حکومت کا یہ اقدام سراسر مسلم دشمنی پر مبنی ہے، اگر حکومت اس معاملہ میں مخلص اور غیرجانبدار ہوتی تووہ دیگر ریاستوں سے تعلق رکھنے والے اس قسم کے دفعات کا بھی خاتمہ کردیتی،ناگالینڈ،میگھالیہ اور اروناچل جیسی ریاستوں کو روز اول سے مختلف دفعات کے تحت خصوصی مراعات حاصل ہیں،صرف کشمیر کو اس لئے نشانہ بنایا گیا کہ وہ مسلم اکثریتی ریاست ہے، جہاں تک کشمیر سے متعلق ملک کے مسلمانوں اور تمام ہندوستانی باشندوں کے موقف کا تعلق ہے تو اس میں کوئی دورائے نہیں کہ کشمیر ہندوستان کا اٹوٹ حصہ ہے اور رہے گا لیکن جس طرح کشمیر کاہندوستان کا اٹوٹ حصہ ہونا ایک حقیقت ہے اسی طرح یہ بھی حقیقت ہیکہ کشمیری بھی ہندوستان کے باعزت شہری ہیں جس طرح کشمیر کی حفاظت ہمارا فریضہ ہے اسی طرح کشمیریوں کے حقوق کا تحفظ،ان کی مذہبی آزادی،سماجی انصاف اور ان کے ساتھ شہریانہ برتاؤ بھی حکومت کی ذمہ داری ہے، کشمیریوں کو ملک کے دیگر شہریوں کی طرح عزت کے ساتھ آزادانہ جینے کا بھرپور حق حاصل ہے اور ان سے اس حق کو چھیننا سراسر ظلم اور ناانصافی ہے، اس وقت کشمیر کی سنگین صورتحال نے ہرانصاف پسند ہندوستانی کو بے چین کرکے رکھ دیا ہے، ریاست کے 80لاکھ باشندوں کو فوجی محاصرہ کے اندر محصور کردیا گیا ہے، دواؤں کی عدم دستیابی کی وجہ سے بیمار موت کی آغوش میںجارہے ہیں، شیرخوار بچے دودھ نہ ہونے کی وجہ سے بلک بلک کر اپنی جان دے رہے ہیں،گھروں میںاناج اور اشیاء مایحتاج کے ختم ہونے سے فاقہ کی صورتحال کا سامنا ہے، حتیٰ کہ مرنے والوں کو گھروںہی میں دفنایا جارہا ہے، دیڑھ ماہ کا عرصہ بیت چکا ہے لیکن کشمیریوں کی مصیبت ختم ہوتی نظر نہیں آرہی ہے،آخر یہ کونسی انسانیت ہے اور کہاں کا انصاف ہے کہ ایک پوری قوم کو تباہی کی طرف ڈھکیلا جارہا ہے، کیایہ کشمیریوں کی نسل کشی نہیں؟اور کیا اس سے دنیا والوں کی نگاہ میں ہماری شبیہ خراب نہیں ہوگی؟ یہ کیسی سوچ ہے کہ ہم کشمیر سے تو محبت کریں مگر کشمیریوں کو بھوکوں ماریں،کشمیر وطن عزیز کا اٹوٹ حصہ ہے، اُس کی ایک ایک اینچ زمین کے لئے ملک کا مسلمان اپنی جان کا نذرانہ پیش کرے گا لیکن کوئی بھی انصاف پسند انسان ظلم وجبر کی موجودہ ہولناک صورتحال کو درست قرارنہیں دے سکتا۔
موجودہ حالات فی الواقع نہایت صبر آزما ہیں،ملک میں مسلمانوں کے لئے ہر طرف سے عرصہ حیات تنگ کیا جارہا ہے،حالات کی سنگینی روز بروز شدت اختیار کرتی جارہی ہے لیکن ہمیں مایوس ہونے کے بجائے اپنے اندرونی احوال کی درستگی پر توجہ دینے کی ضرورت ہے، ہم اپنے جوانوں کو زیادہ سے زیادہ تعلیم کے زیور سے آراستہ کرنیکی فکر کریں، مسلم معاشرہ میں خواندگی کی شرح بہت کم ہے،ہماری زبوںحالی کی ایک اہم وجہ تعلیمی پسماندگی ہے،ضرورت اس بات کی ہے کہ ملک گیر سطح پر تعلیم کے لئے مہم چلائی جائے،بالخصوص کلیدی انتظامی شعبوں پر مسلم امیدواروں کو پہونچانے کیلئے سیول سرویسس کے امتحانات کے لئے مسلمان بچوں کو تیار کرنا ضروری ہے، آئی اے ایس،اور آئی پی ایس میں مسلم تناسب بہت کم ہے، اسی طرح شادی بیاہ میں اسراف وفضول خرچی کے خاتمہ کے لئے شعوربیداری نہایت ضروری ہے،اس وقت ملت کا کروڑوں کاسرمایہ شادی بیاہ کی فضول خرچیوں کی نذر ہورہا ہے، جبکہ اس خطیر سرمایہ کو ضروری ملی کاموں میںاستعمال کرکے بہت سے مسائل حل کئے جاسکتے ہیں، نیز عام مسلمانوں میں پختہ سیاسی شعور اور اپنے حقوق کے تحفظ کا احساس جگانا بھی ضروری ہے، ملکی سیاست میں مسلمانوں کی بے وزنی ضرب المثل بنتی جارہی ہے، آزادی کے بعد سے اب تک مسلم اقلیت ہمیشہ بعض نام نہاد سیکولر پارٹیوں کاووٹ بنک بنی رہی، جبکہ ان پارٹیوں نے ہمیشہ مسلمانوں کو نظرانداز کیا، بعض حلقوں کی جانب سے ملک کے دلت اور مظلوم طبقات کو ساتھ لے کر آگے بڑھنے کی تجویز رکھی جارہی ہے، دلت اور سماج کے دیگر مظلوم طبقات کے ساتھ مسلمانوں کے اتحاد کا تجربہ کیاجاسکتا ہے، اس سلسلہ میں مسلم قائدین کو لائحہ عمل مرتب کرناچاہئے، اسی طرح NRCجیسی صورتحال سے نمٹنے کے لئے ضروری ہے کہ مسلمان قبل ازوقت اپنے دستاویزات درست کرلیں تاکہ عین وقت پر دشواری کا سامنا نہ ہو،اس وقت سب سے بڑاجہاد برادران وطن میں اسلام کا تعارف کرواناہے، نفرت کی عمومی فضاء کا مقابلہ پیام انسانیت اور خدمت خلق کے ذریعہ کیا جاسکتا ہے، اور اس راستہ سے ملک کی دیگر غیرمسلم اقلیتوں کو دامن اسلام سے وابستہ بھی کیاجاسکتا ہے۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
×