احوال وطن

ممبئی فسادات: 30سال بعد بھی مظلومین انصاف کے منتظر، سپریم کورٹ کے احکام بھی نظر انداز

ممبئی ،4دسمبر(عصرحاضر) ممبئی میں 6،دسمبر کو اجودھیا میں بابری مسجد کی شہادت کے بعد ہونے والے دسمبر 1992 اور جنوری 1993 میں دو دور کے خونریز فرقہ وارانہ فسادات کے سلسلے میں سری کرشنا کمیشن رپورٹ کامقدمہ ایک عرصہ سےسپریم کورٹ میں التواء کا شکاررہا،لیکن وکیل شکیل احمد شیخ کی ایک عرصہ پر سپریم کورٹ نے مہاراشٹر حکومت کو حکم دیا ہے کہ جو مظلومین اورمتاثرین مالی امداد سے محروم رہ گئے اور جوفساد میں لاپتہ ہیں،ان کی تلاش کے ساتھ ہی پسماندگان کو معاوضہ دیاجائے،اطلاع کے مطابق ریاستی حکومت نے فی الحال اس ضمن میں کوئی اہم اقدام نہیں کیا ہے اور نہ اسے گمشدہ افراد کی تلاش میں کوئی دلچسپی نظر آتی ہے۔ واضح رہے کہ سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد بھی سرکاری سطح پر اور نہ ہی عوامی سطح پر کوئی سرگرمی مظلوموں کو انصاف دلانے کیلئے نظرآرہی ہے۔وقت کی ضرورت ہے کہ ان متاثرین کو انصاف دلانے کے لیے اس عدالتی کوشش کو آگے بڑھایا جائے، کیونکہ فی الحال اس معاملہ میں کسی کو کوئی دلچسپی نہیں ہے اور مظلومین انصاف کے لئے ترس گئے ہیں جن میں ایک بے قصور اور پولیس کی گولی کا شکار بنے رفیق ماپمر ہیں۔ان کے پاؤں میں گولی لگی تھی۔ رفیق ماپکر جوکہ وڈالا کی ہلال یا ہری مسجد میں نمازیوں پر ہونے والی اندھادھند پولس فائرنگ میں زخمی ہوگئے تھے ۔ اور عدالت کے چکر لگا لگا کر تھک چکے ہیں۔لیکن انہیں انصاف نہیں ملا ہے، انہوں نے رفیع احمد قدوائی مارگ پولیس اسٹیشن سے وابستہ انسپکٹر نکھل کاپسے کے خلاف مقدمہ دائر کیا تھا اور 2016 میں سیشن کورٹ نے مقدمہ خارج کردیا تھا۔حالانکہ کاپسے کا نام جانبداری اور ناانصافی کرنے بلکہ لوٹ مار میں شامل پولیس اہلکاروں کی فہرست میں شامل ہے جس جسٹس بی این سری کرشنا نے اپنے رپورٹ میں جاری کی ہے۔مگر کاپسے کے خلاف کارروائی کے بجائے اسے ترقی دے دی گئی ہے۔ عروس البلاد ممبئی میں اجودھیا میں 6دسمبر کوبابری مسجد کی مسماری کے بعداور پھر جنوری 1993میں دوسرے دور کےخونریز فسادات کو تقریباً 30سال گزرچکے ہیں،جسٹس بی این سری کرشنا کی سربراہی میں قائم کئے گئے تحقیقاتی سری کرشنا کمیشن کی رپورٹ کو حکومت کے روبروپیش کئے ہوئے بھی لگ بھگ 24 برس ہوچکے ہیں۔فاروق ماپکرکوکن ۔مارکنٹائل بینک میں ملازمت کرتے ہیں ، نے اس تعلق سے کہاکہ انہیں سرکاری معاوضہ مل گیا ہے،لیکن بے قصوروں کو بلااشتعال گولی کا نشانہ بنانے والے انسپکٹر کاپسے کو اس کے کیے کی سزا نہیں ملی ہے۔ سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد ہی مختلف سیاسی پارٹیوں اور لیڈروں نے حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ کمیشن کی اس غیر جانبدارانہ اور منصفانہ رپورٹ کو نافذ کرنے کے ساتھ ساتھ سپریم کورٹ کے ذریعے گمشدہ افراد کی تلاش اور معاوضہ کے لئے اقدام کئے جائیں۔
سری کرشنا کمیشن نے دوواقعات کے بارے میں خصوصی طورپر ذکر کیا ہے کہ پولیس نے بے قصوروں کو بے دردی سے گولی ماری تھی ،ان میں ایک واقعہ جنوبی ممبئی میں محمدعلی روڈ پر واقع سلیمان عثمان بیکری اور متصل مدرسے میں پیش آیا ،اور بے گناہوں کو نشانہ بنایاگیا جبکہ دوسرا واقعہ جنوب وسطی ممبئی میں سیوڑی علاقہ میں واقع ہلال مسجد میں پیش آیا جب نہتے نمازیوں کو گولی سے بھون دیا گیا اور انہیں شرپسند ثابت کرنے کی کوشش کی گئی ۔کمیشن نے پولیس افسران اور اہلکاروں کی ایک فہرست شائع کی تھی جس میں کہا گیا تھا ،ان پولیس اہلکاروں نے کئی موقعوں پر تعصب کا مظاہرہ کیا جن میں بعد میں ممبئی کے پولیس کمشنر بنائے گئے آرڈی تیاگی سرفہرست تھے ،کمیشن کا خیال ہے کہ پولیس کے ذہن میں ایک عام تاثر ہے کہ مسلمان شرپسند ہوتے ہیں اور اس کا اعتراف خصوصی برانچ کے ایک اعلیٰ افسر وی این دیشمکھ نے بھی کمیشن کے سامنے کیا ہے ۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
×