آئینۂ دکناحوال وطن

ملک بھر میں شانِ رسالتﷺ میں گستاخی کے خلاف احتجاجی مظاہروں کے بعد اس پر بھی نظر ضروری ۔ پڑھیے ایک خاص رپورٹ

شانِ رسالت مآبﷺ میں ہونے والی گستاخیوں کے خلاف ملک بھر میں نمازِ جمعہ کے بعد مسلمانوں نے سخت احتجاج کیا، متعدد مقامات پر پولیس کا لاٹھی چارج اور پُر تشدد واقعات کے رونما ہونے کے بعد محکمۂ پولیس کی جانب سے اندھادھند گرفتاریوں کا سلسلہ جاری ہے۔سوشل میڈیا پر ان مظاہروں کی جہاں سراہنا ہورہی ہے وہیں اس پر متعدد قابل غور تبصرے بھی دیکھنے کو ملے۔ ان مظاہروں سے متعلق قائدین نے پہلے ہی عوام کو آگاہ کیا تھا اور اپنے آپ کو علیحدہ کرتے ہوئے عوام الناس سے مظاہرے نہ کرنے کی اپیل کی تھی۔ حالانکہ عوام پر اس کا کوئی اثر نہیں پڑا۔ ان مظاہروں کے مثبت و منفی ملے جلے تأثرات سے بھی آگاہ رہنا ضروری ہے۔ اسی لیے چند فکر مند احباب کے تبصرے میں ذیل میں ملاحظہ فرمائیں:

دیوبند کے معروف سماجی کارکن اور سوشل میڈیا پر گہری نظر رکھنے اور شانِ رسالت میں گستاخی کے خلاف سنجیدہ مہم چلانے والے نوجوان عالمِ دین مولانا مہدی حسن عینی قاسمی نے تبصرہ کرتے ہوئے لکھا کہ

اس سے قطع نظر کہ کل جمعہ کے بعد ہونے والے احتجاجی مظاہروں کے تعلق سے کس کی کیا رائے ہے،کیونکہ نوجوانوں کا خلوص، جذبات اور قربانیاں عزیمت پر مبنی ہیں،لیکن حقیقت ہے کہ بغیر قیادت کے آج ہونے والے مظاہروں سے کافی نقصان ہوا ہے،رانچی میں دو شہادتیں ہوئی ہیں،اترپردیش میں اب تک 227 گرفتاریاں عمل میں آئی ہیں،وزیر اعلیٰ کی سطح پر پورے معاملے کو دیکھا جارہا ہے،ADG لاء اینڈ آرڈر سب پر گینگسٹر لگانے اور سخت کارروائی کرنے کی بات کہہ رہے ہیں،اکثر گرفتار شدگان کی عمر 18 سے 30 کے بیچ کی ہے،بلکہ کئی جگہ نابالغ بچے بھی گرفتار ہوئے ہیں،شام سے اب تک کی تمام کوششیں رائیگاں نظر آرہی ہیں، مقامی پولیس اور انتظامیہ نے پوری طرح ہاتھ کھڑے کردیئے ہیں،دوسری اور مخبرین ایک ایک کی تصویر پہچان پہچان کر ان کو گرفتار کروارہے ہیں،رد عمل کا میکانزم ہمارے یہاں اتنا کمزور،غیر منظم اور جذباتی ہے کہ اس کا نقصان ملت کے اجتماعی حوصلوں کو ہوتا ہے،جماعتیں خود کو الگ کرلیتی ہیں، اور ملت کا سب سے کمزور نچلا طبقہ پستا ہے،عام نوجوان خود کو آگ کی بھٹی میں جھونک دیتے ہیں،بغیر کسی پلاننگ کےاس طرح کا رد عمل خود کو شیر کے منہ میں دینے کے مترادف ہے.اس پر غور و فکر کرنے اور لانگ ٹرم پلاننگ کی ضرورت ہے ورنہ یونہی ملت کے نوجوان بلا کسی مقصد کے جیل کے سلاخوں کے پیچھے دھکیلے جاتے رہیں گے اور سیاسی پارٹیاں اپنے اپنے مفاد کے لئے مسلمانوں کا استعمال کرتی رہیں گی،مہدی حسن عینی دیوبند

معروف سماجی کارکن عبدالرحمن عابد صاحب نے اپنی فیس بک وال پر لکھا کہ

حکومت کی آخر ایسی کیا مجبوری ہے کہ نوپور شرما اور نوین کمار جندل کو گرفتار نہ کرکے ملک بھر کے مسلمانوں کی بے چینی و اضطراب کا امتحان لینے پر تلی ہوئی ہے ، انکے جائز مطالبہ کو تسلیم کرنے کے بجائے جبراً پولس بل کے ذریعہ مسلمانوں کو دبانے کی کوشش کی جا رہی ہے اور نتیجہ میں حالات کو مزید خراب کیا جا رہا ہے! کہیں ایسا تو نہیں کہ کسی سوچی سمجھی اسکیم کے تحت حالات کو خراب کرکے اپنے پاپوں کا گھڑا مسلمانوں کے سر پھوڑنے کی تیاری کی جا رہی ہے؟ اس طرح بی جے پی کے شاطر منصوبہ ساز ایک تیر سے دو شکار کرنا چاہتے ہوں ، ایک طرف نوپور شرما کی گرفتاری سے پہلے سیکڑوں مسلمانوں کی گرفتاریاں اور مقدمات کرکے بی جے پی کے نفرتی سپورٹرز کی منہہ بھرائی سے پولرائزیشن کا کھیل بھی کیا جائے! دوسری طرف دنیا کو یہ باور کرانے کی کوشش کی جائے کہ دیکھئے صاحب! بھارت سرکار تو بڑی انصاف پسند ہے بی جے پی بھی دودھ کی دھلی ہے ، یہ مسلمان ہی سارے فساد کی جڑ ہیں ، جو قانون کو مانتے ہیں نہ حکومت و انتظامیہ کی سنتے ہیں! اس طرح گزشتہ آٹھ برسوں میں بی جے پی سنگھ پریوار کی حکومت میں اکثریت کو اقلیت کا فرضی خوف دکھا کر ہندوؤں کو مسلمانوں کے خلاف صف آراء کرنے کا جو سیاسی’ سماجی اور آئینی جرم کیا گیا ہے ، اسے بھی ان مظاہروں کے پیچھے چھپاکر ، نوپور شرما اور نوین جندال جیسے نفرتی لیڈروں کی جسارت پر ڈھکن لگانے کی کوشش کی جائے…!!!عبدالرحمن عابد 11/6/2022

ابو حنظلہ عبدالاحد قاسمی نے لکھا کہ:

خدا کے لیے غور کیجیے۔1۔ کل جمعہ کے دن بھارت بند کس نے بلایا تھا؟ کسی بھی مسلمان تنظیم یا جماعت نے بند کی اپیل نہیں کی تھی؛ لیکن پھر بھی شوشل میڈیا پر بند کے اشتہارات خوب وائرل ہوئے اور تقریباً ہر گروپ میں پہنچے، حضرت مولانا سید ارشد مدنی صاحب زیدمجدہ کی جانب منسوب ایک فرضی میسیج بھی خوب وائرل ہوا۔ یہ اشتہارات شوشل میڈیا پر چلتے دیکھ کر ہمارے نوجوانوں نے بھی آگے بڑھادیئے۔کیا کوئی بتا سکتا ہے کہ بند کے یہ اشتہارات کس نے بنوائے اور کس کے اشارے پر وائرل کئے گئے؟2۔ جہاں احتجاج ہوئے کیا وہاں جمعہ سے پہلے مسلمانوں نے احتجاج کی پلاننگ کی تھی؟جن شہروں میں احتجاج ہوئے ان میں سے اکثر جگہوں سے یہ اطلاعات ملی ہیں کہ جمعہ سے پہلے مسلمانوں نے احتجاج کی کوئی پلاننگ نہیں کی تھی؛ بلکہ اکثر جگہ کسی کو معلوم بھی نہیں تھا کہ جمعہ کے بعد کوئی احتجاج ہونے والا ہے، بس اچانک جیسے ہی جمعہ کے بعد بھیڑ باہر نکلی نعرے بازی، ہو ہلا اور شور شرابہ شروع ہوگیا، چونکہ سب کے جذبات پہلے سے مشتعل تھے اس لیے مسلم نوجوانوں بالخصوص نوعمر بچوں کی بھیڑ بھی نعرے بازی میں شریک ہوگئی اور جب تک بڑی عمر کے سنجیدہ و سمجھدار لوگ کچھ سمجھ پاتے تب تک معاملہ قابو سے باہر ہوچکا تھا۔کیا کوئی بتا سکتا ہے کہ بغیر کسی اطلاع، اعلان و پلاننگ کے بھیڑ میں اچانک نعرے بازی اور شور و شغب کس نے شروع کیا؟3۔ پتھر بازی کیوں شروع ہوئی؟ کوئی بیوقوف سے بیوقوف مسلمان بھی بلاوجہ پولیس پر پتھر نہیں پھینک سکتا اور موجودہ حالات میں تو اس کا تصور بھی مشکل ہے؛ لیکن پھر بھی اچانک پتھر بازی شروع ہوگئی اور ویڈیوز میں صاف دیکھا جاسکتا ہے کہ نوعمر مسلمان بچے خوب پتھر پھینک رہے ہیں۔کیا کوئی بتا سکتا ہے کہ یہ پتھر بازی کیوں شروع ہوئی اور کس نے شروع کی؟4۔ احتجاج والی جگہوں پر پتھر کہاں سے آئے ؟عموماً شہروں کی گلیوں میں اور بھیڑ بھاڑ والی جگہوں پر اینٹ اور پتھر ڈھونڈنے سے بھی نہیں ملتے؛ لیکن جن علاقوں میں احتجاج ہوئے وہاں کے ویڈیوز دیکھئے کس طرح سڑکوں پر اینٹ پتھر بکھرے پڑے ہیں، کیا کوئی بتا سکتا ہے کہ اچانک اتنی مقدار میں اینٹ پتھر کہاں سے رونما ہوگئے ؟5۔ نوعمر بچے ہی آگے کیوں نظر آئے؟احتجاجات کی ویڈیوز دیکھ لیجیے اکثر جگہ پندرہ سولہ سال کے بچے ہی آگے نظر آرہے ہیں، ظاہر ہے کہ اگر یہ احتجاج مسلمانوں کے باہم مشورے و پلاننگ کے ساتھ ہوتے تو پختہ عمر کے لوگ آگے نظر آتے، بچوں کا آگے نظر آنا کیا کسی کی شرارت کا نتیجہ نہیں ہے ؟مسلمانوں ہوش کے ناخن لو، تمہارے جذبات کا فائدہ اٹھاکر کچھ شرپسند عناصر تمہیں کچلنے کی بڑی بڑی سازشیں تیار کررہے ہیں۔ذرا غور کرو کہ چند روز پہلے تک حکومت کیسی بھیگی بلی بنی ہوئی تھی اور اس کے اپنے میڈیا چینلز کس قدر پریشان تھے، حکومت کی جانب سے صفائی دینے کے لیے کوئی بھی آدمی میڈیا کے سامنے آنے کو تیار نہیں تھا؛ لیکن ان احتجاجات کے بعد ماحول کیسا بدل گیا اور اب حکومت کو نہیں مسلمانوں کو ولین بنادیا گیا، سینکڑوں نوجوانوں کو موقعہ واردات پر ہی پولیس نے توڑ پھوڑ دیا، ہزاروں نوجوانوں کو سلاخوں کے پیچھے بھیجنے کی تیاری ہوچکی ہے، سینکڑوں مکانات پر بلڈوزر پھیرنے کی اسکیمیں چل رہی ہیں اور حکومت کے اس کھلے ظلم کے باوجود صفائیاں بھی مسلمانوں کو ہی دینی پڑ رہی ہیں۔شرپسند عناصر نے نہایت چالاکی و ہوشیاری کے ساتھ ہمارے بیچ گھس کر اپنا کام کردیا اور ہمیں کانوں کان خبر نہ ہوسکی،ہمارے طبقے کے کچھ جذباتی اور مشتعل مزاج شوشل میڈیائی مفکرین نے بھی شوشل میڈیا کے ذریعے آگ میں خوب گھی ڈالا اور اب لٹنے پٹنے والے لوگوں کو مبارکباد بھی پیش کررہے ہیں، حالانکہ ان مفکرین میں سے خود کوئی بھی کہیں نہ زخمی ہوا اور نہ گرفتار ہوا بلکہ زمین پر بھی نظر نہیں آیا، یہ لوگ چاہتے ہیں کہ ہمارا تو بال بھی بیکا نہ ہو لیکن ہمارے علاوہ سب لوگ تلوار لے کر نکل جائیں۔مسلمانو! ناموس رسالت کے لیے جذبات برانگیختہ ہونا فطری بات ہے لیکن خیال رکھیں کوئی ہمارے جذبات کی آڑ میں اپنا کھیل نہ کھیل جائے۔ابوحنظلہ عبدالاحد قاسمی

Related Articles

2 Comments

  1. یہ منفی تبصرے قوم کے اندر بزدلی پیدا کرنا ہے
    حالات کو بڑھا چڑھا کر تبصرے کرنا بزدلی ہے
    ایسے تبصرے وہی لوگ کررہے ہیں جو نام نہاد قائدین کے پالتو چاپلوسی کرنے والے
    پس پردہ اپنے آقاؤں کی پشت پناہی کررہے،اگر ایسا تھا تو منظم احتجاج کرنا چاہئے تھا
    حکومت سے ڈر کر پلنگ کے نیچے کیوں چھپ گئے

  2. یہی ہوگا ۔۔۔جذبات میں بہکنے سے۔۔۔پھر جمعیت پر الزام لگائیں گے کہ وہ کچھ نہیں کرتی ۔۔حالانکہ پھر جمعیت ہی قانونی کارروائی کرا کر انہیں چھڑائے گی

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
×