ارتداد کا فتنہ عروج پر، نئی نسل کے ایمان کی حفاظت وقت کی اہم ترین ضرورت ہے!
بنگلور: 11؍اگست (پریس ریلیز) مرکز تحفظ اسلام ہند کے زیر اہتمام منعقد آن لائن سہ روزہ اصلاح معاشرہ کانفرنس بعنوان ”مسلم لڑکیاں ارتداد کے دہانوں پر: اسباب اور حل“ کی پہلی اور افتتاحی نشست سے صدارتی خطاب کرتے ہوئے آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے رکن حضرت مولانا محمد الیاس بھٹکلی ندوی صاحب نے فرمایا کہ امت مسلمہ جن بڑے بڑے مسائل سے دوچار ہے ان میں سے ایک بڑا اور سنگین مسئلہ ”فتنہ ارتداد“ اس وقت اپنے عروج پر ہے۔ مولانا نے فرمایا کہ مسلم لڑکیاں غیر مسلم نوجوانوں کے دام الفت میں گرفتار ہوکر مرتد ہوتی جارہی ہیں اور پھر مذہب اسلام سے خارج ہوکر، ماں باپ کو شرمسار کرتے ہوئے غیر مسلموں کے ساتھ شادیاں رچا رہی ہیں، مسلم لڑکیوں کے ارتداد کی خبریں مسلمانوں پر بجلی بن کر گر رہی ہیں اور ہر غیرت مند مسلمان کا دل ٹکڑے ٹکڑے ہو رہا ہے۔ ارتداد کی خبریں سن کر مسلم معاشرہ سخت کربناک حالات سے دوچار ہے۔ مولانا بھٹکلی نے فرمایا کہ ارتداد کے اس نئی لہر سے ہر ایمان والے کا بے چین ہونا فطری ہے لیکن ہمیں اس کے اسباب پر غور کرکے اسکا حل تلاش کرنا چاہیے۔ مولانا نے فرمایا کہ اگر مسلم معاشرہ کا جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوتا ہیکہ مسلم لڑکیوں کے ایمان سے ہاتھ دھونے اور ارتداد کی لپٹ میں آنے کی بنیادی وجہ دینی تعلیم سے ناواقفیت اور دوری ہے۔ ظاہر ہے جو بچی بے دینی کے ماحول میں پرورش پا کر بڑی ہوگی اور وہ اسلامی تعلیمات سے آگاہ نہیں ہوگی تو پہلے ہی وہ اُس حد کے قریب چل رہی ہے جہاں سے ارتداد کا راستہ آسانی سے مل جاتا ہے۔ اس لیے مسلم والدین سے گزارش ہیکہ خود بھی دیندار بنیں اور گھر میں بھی دینداری کا ماحول بنائیں۔ مولانا نے فرمایا کہ عصری تعلیم ضرور دلائیں لیکن اس سے قبل انہیں دینی تعلیم سے آراستہ کروائیں۔ مولانا نے فرمایا کہ بچپن سے دینی تعلیم ایسی مضبوط ہوکہ ہمارے بچے یورپ اور امریکہ کے کلیساؤں میں جاکر بھی دین کے داعی بنیں۔ مولانا ندوی نے فرمایا کہ مخلوط تعلیمی نظام اور نئی تعلیمی پالیسی کی وجہ سے بھی مسلم معاشرے میں ارتداد کے واقعات بڑھ رہے ہیں لہٰذا پوری ملت اسلامیہ بالخصوص حضرات علماء کرام کو چاہیے کہ وہ مکاتب کے نظام کو مضبوط اور مستحکم کریں اور ہرگاؤں گاؤں اور شہرشہر میں مکاتب کو قائم کریں اور اپنے بچوں کو ان مکاتب کی طرف متوجہ کریں جس سے ان کے اندر دینی ماحول پیدا ہو تاکہ وہ کفر و ارتداد کے طوفانوں سے اپنے دین و ایمان کی حفاظت کرسکے۔
اصلاح معاشرہ کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے معروف عالم دین حضرت مولانا خالد بیگ ندوی صاحب (مہتمم دارالارقم ٹمکور) نے فرمایا کہ اس وقت ملک اپنی تاریخ کے سنگین دور سے گزر رہا ہے بالخصوص مسلمان ہندوستان کے سب سے خطرناک دور سے گزر رہے ہیں۔ لیکن اس آزمائش اور فتنوں کے دور میں ہمیں گھبرانے کی ضرورت نہیں بلکہ ہمیں خواب غفلت سے بیدار ہوکر حالات کا مقابلہ کرنا ہے۔مولانا نے فرمایا کہ اس وقت جو واقعات پورے ملک میں ہورہے ہیں اسکے چند وجوہات ہیں۔ اقتدار پر موجود بھگوا پارٹی کا ایجنڈا ہی ملک کو ہندو راشٹر بنانا ہے۔ اور وہ اس کیلئے ہر ممکن کوشش کررہے ہیں۔ مولانا نے فرمایا کہ یہ ملک ایک سیکولر ملک ہے جہاں مختلف مذہب کے ماننے والے رہتے ہیں، اسی میں مسلمان بھی اپنی دینی تشخص کے ساتھ رہتے ہیں اور آگے بھی رہیں گے۔ لیکن مسئلہ یہ ہیکہ موجودہ حکومت مسلمانوں کو ہندو رنگ میں رنگا چاہ رہی ہے۔ مولانا ندوی نے فرمایا کہ بابری مسجد، این آر سی، یکساں سول کوڈ کے مسائل یقیناً بڑے ہیں لیکن میرے نزدیک اس سے بھی سنگین مسئلہ 2020 ء کی نئی تعلیمی پالیسی کا ہے۔ مولانا نے فرمایا کہ اب تک ہمارا تعلیمی نظام سیکولر تھا لیکن اب یہ نئی تعلیمی پالیسی کو مکمل ہندو رنگ میں رنگ دیا گیا ہے۔ اور اس نظام میں تعلیم حاصل کرنے والے ہماری نئی نسلیں چند سال میں ہندو سوچ اور تہذیب اپنانے لگے گی اور ہزاروں معصوم مسلم بچے ارتداد کر دہانوں پر ہونگے۔ جو ملت اسلامیہ ہندیہ کا سب سے بڑا المیہ ہوگا۔ لہٰذا ہمیں اس طرف توجہ دینی کی سخت ضرورت ہے۔ مولانا خالد بیگ ندوی نے فرمایا کہ ہماری نئی نسل بالخصوص دختران ملت میں بڑھتے ارتداد کے واقعات کی بنیادی وجہ دینی تعلیم سے دوری، انٹرنیٹ اور موبائل کا غلط استعمال، مخلوط تعلیمی نظام اور شادی کو مشکل کرنا ہے۔لہٰذا ہمیں چاہیے کہ ہم لوگ اسلامی اسکول اور کالجز کا قیام عمل میں لائیں تاکہ ہمارے بچے اسلامی ماحول میں تعلیم حاصل کرسکیں، مکاتب کے جال کو ہر محلے اور ہر گاؤں میں قائم کریں تاکہ نونہالان امت کے ایمان مضبوط ہوسکے اور انکا بچپن سے اسلامی مزاج بن سکے۔ مولانا نے فرمایا کہ اسی طرح ہفتے میں ایک مرتبہ ہر محلے میں مستورات کا اجتماع کریں اور انہیں دین کی باتیں بتائیں۔نیز ہر علاقے میں شادی کونسل سنٹر قائم کریں اور بالخصوص ہماری بچیوں کو کم از کم ہفتے میں ایک مرتبہ اسلامی شادی اور اسکی اہمیت سے انہیں واقف کروائیں اور اسی کے ساتھ اسکول اور کالجز میں پڑھنے والے بچوں کی کارنرس میٹنگ کروائیں اور انکی ذہن سازی کریں۔ کیونکہ جب تک ذہن اسلامی رہے گا کوئی فتنہ انکا کچھ نہیں بگاڑ سکے گا۔ لہٰذا اس کاموں کیلئے امت مسلمہ بالخصوص حضرات علماء کرام کو آگے آنا ہوگا ورنہ کل قیامت کے دن ہمیں جواب دینا پڑے گا۔
قابل ذکر ہیکہ یہ اصلاح معاشرہ کانفرنس مرکز تحفظ اسلام ہند کے بانی و ڈائریکٹر محمدفرقان کی نگرانی اور مرکز کے رکن شوریٰ مولانا محمد طاہر قاسمی کی نظامت میں منعقد ہوئی۔ کانفرنس کا آغاز مرکز کے آرگنائزر حافظ محمد حیات خان کی تلاوت سے ہوا۔ دونوں اکابر علماء کرام نے مرکز تحفظ اسلام ہند کی خدمات کو سراہتے ہوئے خوب دعاؤں سے نوازا اور اس کانفرنس کو وقت کی اہم ترین ضرورت قرار دیا۔ اختتام سے قبل مرکز کے ڈائریکٹر محمد فرقان نے تمام مقررین و سامعین اور مہمانان خصوصی کا شکریہ ادا کیا اور حضرت مولانا خالد بیگ ندوی صاحب کی دعا سے یہ کانفرنس اختتام پذیر ہوا۔