سیاسی و سماجی

نئی قومی تعلیمی پالیسی کے مدارس پر کیا اثرات پڑ سکتے ہیں ؟

مذکورہ بالا عنوان پر آج ایک کلاوڈ ڈسکشن میں شرکت کا موقع ملا، ذیل میں راقم نے جو کچھ عرض کیا اسے مرتب کر کے پیش کیا جا رہا ہے۔
ظاہر ہے کہ ابھی پالیسی کا مسودہ صرف ایک گائیڈ لائن ہے، اس کا مکمل پروگرام ڈزائن ہونا اور قانون سازی ابھی باقی ہے، حتمی طور پر کوئی بات اس کے بعد ہی کہی جا سکتی ہے، یوں بھی یہ مسودہ تضادات و ابہام کا پلندہ ہے، خوشنما عناوین کے ساتھ بہت کچھ پردہ خفا میں رکھا گیا ہے اس لیے بہت زیادہ اس پر بھروسہ کرنا اور صرف مثبت اپروچ کی بات درست نہیں، بلاشبہ اس میں اچھے پہلو ہیں ، مثبت چیزیں ہیں مگر برسراقتدار جماعت کے نیت کارکردگی اور مقاصد کو دیکھتے ہوئے یہ بھروسہ صرف مسٹر پرائمنسٹر کا جملہ "سب کا وشواس” محسوس ہوتا ہے ، اور پھر بعض تجزیہ نگاروں کے مطابق اس پالیسی میں آر ایس ایس کی ۶۰ فیصد آرا تسلیم کی گئی ہیں ، اس لیے ہمیں اس کا مطالعہ کرنا چاہیے، خدشات پر توجہ دینی چاہیے اور مستقل و متحد اقدام کرنا چاہیے۔
1۔ ۔۔۔۔ پوری پالیسی کے مطالعہ سے اندازہ ہوتا ہے کہ سیکولرزم کو ختم کر کے ایک نئی سوچ کو نافذ کرنے کا ارادہ ہے۔
2۔۔۔۔ مدارس کا پوری پالیسی میں کہیں ذکر نہیں ہے، البتہ ایک لفظ Alternative یعنی متبادل کا استعمال کیا گیا ہے، اب اسکی مراد کیا ہو گی مدارس، گروکل، آشرم یا پاٹھ شالہ معلوم نہیں۔
3۔۔۔۔ پالیسی میں جہاں متبادل تعلیم کا تذکرہ ملتا ہے وہاں یہ بھی وضاحت ہے کہ متبادل تعلیم میں بھی قومی نصاب لازمی ہو گا تبھی ان متبادل اداروں کی تعلیمی حصہ داری قبول ہو گی، ( قومی نصاب کے کچھ رجحانات این سی آر ٹی کی تبدیلیوں سے واضح ہو چکے اور کچھ اس پالیسی سے ظاہر ہیں) اب سوال ہے کہ اگر متبادل میں مدارس کو شامل کیا گیا تو پھر وہ بھی اس قومی نصاب کے پابند ہوں گے، یہ بھی وضاحت ہے کہ بتدریج متبادل اسکولی نمونوں کو میں اسٹریم میں لایا جائے گا۔
4۔۔۔۔ بعض لوگ پالیسی میں مدارس کا ذکر نہ ہونے کو مثبت سمجھ رہے ہیں لیکن مجھے یہ غلط فہمی محسوس ہوتی ہے کیونکہ جب ذکر نہیں ہو گا تو مدارس کی تعلیمی حصہ داری جو ملک کے تعلیمی نظام کا بڑا حصہ ہے بالکل ہی ختم ہو جائے گی بلکہ اس کا مذاق بنانا مزید آسان ہو گا۔
5۔۔۔۔ کالجز کو ڈگری دینے کا مجاز کر دیا گیا ہے تو گویا الحاق ( Affiliation)کی شکل ختم ہو جائے گی ، اس طرح مدرسی سند بے حیثیت ہو گی اور یونیورسٹی میں داخلہ ممکن نہ ہو گا، یہ کہنا کہ یونیورسٹی ایک Autonomous Body ہے اسے الحاق کا باقی رہے گا قبل از وقت ہے ، اس پالیسی کی روح اور اختیارات کو سلب کرنے کی پالیسی شاید اسے باقی نہ رہنے دے۔
6۔۔۔۔ پوری پالیسی میں کہیں بھی عربی کا ذکر نہیں ہے جو خود ہی ایک بڑا سوال ہے، دیگر پہلووں کے علاوہ اس کے اثرات از خود اس الحاق پر پڑیں گے۔
7۔۔۔۔ یہ پالیسی ایک اسٹینڈرڈ کی بات کرتی ہے، بھارتی کلچر بھارتی سنسکرتی بھارتی ثقافت بھارتی علوم و تاریخ و تہذیب کو پرموٹ کرتی ہے، سوال یہ ہیکہ کیا مدارس اس سے بچیں گے، اگر دستور کی دفعہ ۲۹۔۳۰ کا حوالہ دیا جائے تو کیا اب اس حکومت سے یہ امید کی جائے کہ وہ دستور میں ترمیم اور چھیڑ چھاڑ سے گریز کرے گی۔
8۔۔۔۔ اگر مدرسہ بورڈ کو ہی حکومت لازم کر دے تو آزاد مدارس کیا کریں گے جیسا کہ بعض صوبوں میں مدرسہ بورڈ ریفارم کی تیاریاں چل رہی ہیں، مدرسہ بورڈ سے ملحق مدارس کیا قومی نصاب پڑھائیں گے یا پھر ۔۔۔۔ ؟
9۔۔۔۔ اس پالیسی کے تحت ابتدائی تین سال کی تعلیم لازمی ہو گی ، تو کیا بچے کو مدرسہ میں پڑھنے کا تسلیم کیا جائے گا، جب RTE کا قانون آیا تھا تو اس میں یہی خطرہ تھا بلکہ والدین کی گرفت کی بات کہی گئی تھی جس پر گفت و شنید کے بعد مدارس کو استثنا دے دیا گیا تھا، یہ پالیسی اس پہلو سے مزید خطرناک ہے کہ ابتدائی تین سال کی تعلیم کے لیے تین سالہ بچے آنگن واڑی کی تربیت میں دیے جائیں گے جہاں اغلب یہ ہیکہ انھیں پراچین بھارت کی سنسکرتی و شخصیات کے احترام کی تربیت اسی عمر میں دی جائے گی۔
10۔۔۔ ایک موقر شخصیت نے خیال ظاہر کیا تمام مدارس کو اس نئی تعلیمی پالیسی کے پیش نظر اور آگے کے مراحل دیکھتے ہوئے متفقہ طور پر نصاب تعلیم (جزوی فرق کے ساتھ) اور مدت تعلیم یکساں طے کرینا چاہیے، دوسرے محترم نے صاف کہا کہ ہمیں وقت رہتے قانونی گرفت سے بچنے کے لیے سنجیدگی سے کوئی لائحہ عمل طے کر لینا چاہیے، راقم نے ان دونوں باتوں کو ملحوظ رکھ کر تیسری بات اور آگے کی کہی( جو میں پہلے کئی بار لکھ چکا ہوں ) کہ ملک میں کئی منظور شدہ تعلیمی بورڈ ہیں ، ہمیں یعنی ملی تنظیموں اور اداروں کو غور کرنا چاہیے اور یہ متحدہ کوشش کرنی چاہیے کہ وہ اپنا ایک تعلیمی بورڈ منظور کرائیں ، جس کا اپنا نصاب ہو ، وہ نصاب میں جزوی آزادی کے ساتھ مدارس کو ایک متعین فیس کے ساتھ الحاق دے اور ایکزام کنڈکٹ کرائے ، اسکے متوسطہ کو ہائی اسکول اور عالمیت کو 12th کی سند دے، اس طرح ہمارے مدارس منظور شدہ بھی ہو جائیں گے ، اس زمانہ کے مطابق بنیادی ضرورت ہائی اسکول کی سند بھی مل جائے گی، مین اسٹریم سے اپنے تشخص کے ساتھ تعلق بھی ہو جائے گا اور حکومتی دست برد سے بچنے کے لیے مستقل تحفظ ( Permanente Protection) بھی حاصل ہو گا، اسکے متعلقہ پہلووں پر بہت سنجیدگی سے غور کرنے اور عمل کرنے کی ضرورت ہے ۔
نوٹ: اس پالیسی بحیثیت اقلیت مسلمانوں کو اور دیگر اقلیات کو کیا نقصان ہو گا، اختیارات محدود کرنے ، رزرویشن ختم ہونے اور پرائیوٹائیزیشن کے کیا نقصانات کس کو ہوں گے اس پر ہم پہلے کچھ روشنی ایک مضمون میں ڈال چکے ہیں۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
×