شخصیات

حضرت الاستاذ مولانا جمیل احمد سکروڈوی رحمۃ اللہ علیہ؛ نقوش وتأثرات

۲۴/ رجب المرجب ۱۴۴۰ھ مطابق  ۳۱/ مارچ ۲۰۱۹ء بروز دوشنبہ (پیر) کی بات ہے،راقم الحروف دیوبند اور دہلی کے سفر سے حیدرآباد واپس ہو رہا تھا، عصر کی نماز کے بعد جب واٹسپ کھولا تو دار العلوم دیوبند کے قدیم ترین استاذ حضرت مولانا جمیل احمد سکروڈوی صاحب کی وفات کی خبر ملی، اپنے کسی استاذ محترم کی وفات پر ایک طالبِ علم کو جو غم لاحق ہوتا ہے، وہ مجھے بھی لاحق ہوا، ترجیع اور دعائے مغفرت کے بعد مزید تفصیل معلوم کرنے کی کوشش کی تو معلوم ہوا کہ حضرت اسی مہلک مرض میں اللہ کو پیارے ہوئے ہیں جس میں وہ کافی دنوں سے مبتلا تھے، یعنی آپ کو شہادت کی موت نصیب ہوئی۔ اپنی تدریسی مصروفیت اور مدرسہ کی اضافی ذمہ داریوں کی وجہ سے دل کی امانت قلم کے سپرد نہ ہوسکی، جس کی وجہ سے عقیدت کی چند سطریں لکھنے میں ایک ماہ سے زیادہ کی تاخیر ہو گئی۔

حضرت الاستاذ سے پہلی غائبانہ ملاقات:

جس وقت میں مدرسہ عربیہ ریاض العلوم گورینی، جون پور میں بغرضِ تعلیم مقیم تھا، میرے کمرے میں نیچے درجہ کے دو طالبِ علم نور الانوار کی اردو شرح ‘‘قوت الاخیار’’ کے تلفظ کے سلسلے میں اپنی اپنی تحقیق پیش کر رہے تھے، ایک طالب علم ‘‘قوَّت الاخیار’’ (واؤ کی تشدید کے ساتھ) کی وکالت کر رہا تھا، جب کہ دوسرا ‘‘قوْت الاخیار’’ (واؤ کے سکون کے ساتھ) کا مدعی تھا، میں چوں کہ عربی چہارم کا طالبِ علم تھا، دونوں نے میری عدالت میں مقدمہ دائر کیا، میں نے اس کتاب پر ایک نظر ڈالی اور لغت اور رسم الخط کو بنیاد بنا کر فیصلہ کیا کہ قوت (بسکون الواؤ بمعنی خوراک) صحیح ہے، قوّت بمعنی طاقت درست نہیں ہے۔ اِس طرح میں نور الانوار کے شارح حضرت مولانا جمیل احمد سکروڈوی رحمۃ اللہ علیہ سے متعارف ہوا۔ اور پھر تکمیل الامانی، فیضِ سبحانی، اشرف الہدایہ، درسِ طحاوی اور التقریر الحاوی کے ذریعہ تعارف وشناسائی کا یہ رشتہ مزید پختہ ہوتا گیا۔

دار العلوم دیوبند کے تین سالہ طالب علمی کے زمانہ میں شروع کے دو سال حضرت الاستاذ کو دور سے ہی دیکھنے کا موقع ملا، تیسرے سال جب میں تکمیلِ افتا کا طالبِ علم بنا تو میری دیرینہ آرزو پوری ہوئی اور باضابطہ رو برو ہونے اور ان کے سامنے زانوئے تلمذ وادب تہ کرنے کی سعادت ملی۔

‘قواعد الفقہ’ کا سبق اور میرا تأثر:

بقول مولانا ریاست علی بجنوری رحمۃ اللہ علیہ، سابق استاذِ حدیث دار العلوم دیوبند: عالم جب بوڑھا ہوتا ہے تو اس کا علم جوان ہوتا ہے۔ مولانا جمیل احمد سکروڈوی رحمۃ اللہ علیہ اس کی واضح مثال تھے، حضرت کا بوڑھاپا اُن کے علم کی جوانی اور جولانی کی عکاسی کیا کرتا تھا، حضرت کا سبق سن کر ایسا لگتا تھا کہ اللہ تعالی نے حضرت کو خاص اسی کتاب کی تشریح وتفہیم کے لیے پیدا کیا ہے۔ اور اسی لیے درس وتدریس میں جن امور کی رعایت سے طلبہ کو پوری تشفی ہو سکتی ہے، حضرت الاستاذ اس میں کسی طرح کی کمی جائز نہ رکھتے، مطالبِ کتاب کو خوب کھول کر سامنے رکھنے کی سعی فرماتے تھے۔ چوں کہ یہ دنیا دار الاسباب ہے، اس لیے ظاہر ہے کہ اِس حصولِ کمال کے لیے حضرت نے بہ طور سبب کس قدر گہرے مطالعہ اور وسیع معلومات کی محنت برداشت کی ہوگی۔

سبق کا پر سکون، پر تبسم اور پر محبت لہجہ پھول برسنے کا منظر پیش کرتا تھا، آپ کے پر مغز درس نے کم از کم میرے اوپر ایسی سحر کاری کر رکھی تھی کہ میں بلا وجہ حضرت کے سبق سے غیر حاضر نہیں رہتا تھا؛ بلکہ آپ کی درسی تقریر پابندی سے لکھا کرتا تھا، آپ کی درسی تقریر آسان اور مرتب ہوتی تھی، اسی لیے سبق درس گاہ ہی میں یاد ہو جاتا تھا، میں بلا مبالغہ یہ کہہ سکتا ہوں کہ آپ سینہ بہ سینہ علم منتقل کرنے کی صلاحیت کے مالک تھے، جس کی نظیر تلاش کرنا بہت آسان نہیں ہے۔

اہلِ علم جانتے ہیں کہ ‘قواعد و امثال کی تطبیق اور قواعد پر جزئیات کی تفریع’ قواعد الفقہ کا خاص موضوع ہے، قواعد الفقہ کے حاشیہ میں امثال وجزئیات موجود ہیں، لیکن حضرت الاستاذ کا کمال یہ تھا کہ وہ انھی جزئیات وامثال کو اتنا آسان اور دل چسپ بنا کر پیش کرتے تھے کہ قلب وذہن میں سکون محسوس ہوتا تھا، ما فی الضمیر کی ادائیگی کے لیے وزن کر کے الفاظ استعمال کرتے تھے، بعض دفعہ نئی اور عام فہم مثالیں بھی پیش کیا کرتے تھے، الغرض آپ کی مربوط گفتگو، سمجھانے کا دل نشیں انداز، تمثیل کی مہارت، انطباقِ جزئیات کی صلاحیت، صاف گوئی کا ملکہ، اصول وضوابط کی پابندی، گاہے گاہے وعظ ونصیحت اور بہت کچھ؛ بالکل نرالا، ممتاز اور منفرد معلوم ہوتا تھا، اسی لیے تکمیلِ افتا کے چوتھے گھنٹے کا نصفِ اول  جب مکمل ہوتا تھا تو حصولِ علم کے اعتبار سے کوئی طالبِ علم خود کو تہی دامن نہیں سمجھتا تھا۔ بات بات میں مسکراتے ہوئے فرمایا کرتے تھے: آپ لوگ دار العلوم کا کریم اور خلاصہ ہیں۔

علمی ترقی اور تدریس میں برکت:

یقیناً زندگی میں عظیم الشان کارنامے سر انجام دینے کے لیے اپنے وقت کا صحیح استعمال بہت ضروری ہے۔ ‘وقت کی پابندی’ زندگی کی پہچان اور ہمارے اکابر کی شان رہی ہے، حضرت الاستاذ اِس حوالہ سے احاطۂ دار العلوم میں ضرب المثل تھے، آپ کی علمی ترقی اور شہرت اِسی پابندیٔ وقت سے مربوط تھی، اور اسی لیے صرف نصف گھنٹہ پڑھانے کے باوجود آپ کے سبق میں برکت بہت ہوتی تھی۔

پابندیٔ وقت پر یاد آیا، دار العلوم دیوبند میں معین مدرسی کے زمانے میں مسجدِ قدیم کی داہنی جانب بالائی منزل پر میری قیام گاہ تھی، ظہر بعد جب میں ثانویہ کے لیے نکلتا تھا تو دفترِ تعلیمات کے راستے تفسیر کی درس گاہ کے پاس سے گذرتا تھا، میں جب بھی اس مقام پر پہونچتا تھا، حضرت الاستاذ ٹہلتے ہوئے ملتے تھے، اس وقت تکمیلِ تفسیر میں حضرت کا پہلا گھنٹہ تھا، موسم گرما میں بھی یہی معمول تھا، ایسا بہت کم ہوا کہ میں اُن سے پہلے اس جگہ سے گذر گیا اور وہ بعد میں آئے ہوں، حضرت کی وہ ملاقات بہت یاد آتی ہے؛ کیوں کہ باہم گفتگو کی سعادت ملتی تھی، حضرت کبھی نصیحت فرماتے، تو کبھی اپنے تجربات سے مستفید کرتے، طریقۂ تدریس پر بھی روشنی ڈالتے تھے، اکثر میری حوصلہ افزائی کے لیے کہا کرتے تھے: مولوی تبریز! وقت کے بہت پابند ہو۔ حالاں کہ میری اور ان کی پابندیٔ وقت میں عادت اور خوف کا فرق تھا۔

آپ کی تدریس میں برکت کی ایک وجہ یہ بھی محسوس ہوتی تھی کہ آپ درس میں بلا وجہ کی گفتگو سے بالکلیہ  پرہیز کیا کرتے تھے، آپ کی خارجی گفتگو بھی نصیحت آمیز اور سبق ہی سے متعلق ہوتی تھی۔

سرکارِ دو عالم نبی رحمت ﷺ کسل اور سستی سے اللہ کی پناہ مانگا کرتے تھے؛ کیوں کہ سستی اور کسل مندی دنیا اور آخرت دونوں اعتبار سے نقصان دہ ہے، حضرت الاستاذ لحیم شحیم ہونے کے با وجود چاق وچوبند اور پھرتیلے تھے، درس گاہ کی جانب برق رفتاری سے آنے کا معمول تھا، اور روز مرہ کی زندگی میں بھی تیز رفتار تھے، آپ کی ترقی اور درس میں برکت کی یہ وجہ بطورِ خاص قابلِ ذکر اور لائقِ تقلید ہے۔

حضرت الاستاذ بحیثیت محقق:

طلبہ کے قلب وذہن میں مطالبِ کتاب جاگزیں کرنے کے لیے مدرس کا ‘فن’ پر عبور حاصل کرنا بہت ضروری ہوتا ہے، حضرت الاستاذ کاسبق اِسی لیے دل نشیں ہوتا تھا کہ آپ کو متعلقہ فن پر بصیرت حاصل تھی۔ حضرت حکیم الامت فرماتے ہیں: محقق ہونے کی علامت میں سے یہ بھی ہے کہ اس کی بات سے اطمینان اور قلب کو قرار ہو جائے۔ (کمالاتِ اشرفیہ، ص/۴۶) حضرت تھانوی نے محقق کے سلسلے میں جو تحقیق بطور علامت پیش کی ہے، میں حضرت الاستاذ کو اِس سانچے میں بالکل فٹ دیکھتا ہوں اور اِس معنی کر حضرت کو محقق کہنا اور لکھنا صرف عقیدت نہیں؛ بلکہ حقیقت ہے۔ میرے اِس دعوی کی دلیل حضرت کی وہ شروح بھی ہیں جن سے دنیائے مدارس آج بھی استفادہ کر رہی ہے۔ حضرت کی شروحات میں یہ شکایت سننے میں نہیں آتی ہے کہ فلاں عبارت کا مطلب اور اس کی شرح تشنہ یا ناقابلِ فہم ہے۔ اور یہی حال ان کی درسی تقریروں کا  تھا کہ سبق کے اختتام پر متعلقہ کتاب کا کوئی گوشہ پردۂ خفا میں نہیں ہوتا تھا؛ بلکہ اس حوالہ سے طلبہ شاداں اور فرحاں ہوتے تھے۔ آہ! دار العلوم دیوبند کے طلبہ اپنے مایہ ناز ‘محقق’ سے محروم ہو گئے۔ ع

بہت مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا

صحتِ مذاق وسلامتِ فہم:

حضرت حکیم الامت کے ملفوظات میں ہے: اکابر کے علوم سے اپنے علوم کی موافقت بڑی دولت ہے، جو نعمت ‘صحتِ مذاق وسلامتِ فہم’ کی علامت ہے؛ اس لیے قابلِ شکر ومسرت ہے۔ (کمالاتِ اشرفیہ، ص/۴۶) حضرت الاستاذ مولانا سکروڈوی کی درسی تقریر سننے اور ان کی شروحات دیکھنے کے بعد بلا تکلف یہ شہادت دی جا سکتی ہے کہ حضرت الاستاذ اکابر کے علوم کے امین تھے؛ اسی لیے انھوں نے اکابر کے طرز اور روِش سے ہٹنا کبھی گوارا نہیں کیا۔ انھوں نے درس میں اسی علم کی ترجمانی کی جو اکابر سے منقول ہے اور اپنی شروحات میں انھی مصادر ومآخذ سے استفادہ کیا جن پر ہمارے اکابر واسلاف نے اعتماد کیا ہے۔ نور الانوار، حسامی اور ہدایہ جیسی کتابوں پر ہمارے اکابر نے جو حواشی لکھے ہیں، آپ نے اُن سے خوب فائدہ اٹھایا ہے۔

یہ صحتِ مذاق اور سلامتِ فہم کی دولت ہی ہے کہ آپ کی درسی تقریروں، افادات، اور شروحات کا جادو سر چڑھ کر بولا، چناں چہ دیگر زبانوں میں بھی آب کی کتابوں کے ترجمے ہوئے اور آپ کی علمی شہرت پڑوسی ممالک کے عربی مدارس تک پہنچی۔

صحتِ مذاق اور سلامتِ فہم کا عکسِ جمیل حضرت الاستاذ کی زندگی میں اس لیے نمایاں تھا کہ آپ تزکیۂ قلب کے لیے ہمیشہ کوشاں رہے، چناں چہ ابتدا میں آپ مشہور بزرگ عالمِ دین مولانا اسعد اللہ صاحب، ناظم مظاہر علوم سہارن پور سے وابستہ ہوئے، ان کی وفات کے بعد حکیم الاسلام قاری محمد طیب صاحب، سابق مہتمم دار العلوم دیوبند سے متعلق  ہوئے، قاری صاحب کے انتقال کے بعد مفتی مظفر حسین صاحب ، ناظم مظاہر علوم وقف کی خدمت میں حاضر ہوئے اور اخیر میں بنگلہ دیش کے مشہور بزرگ مفتی عبد الرحمن صاحب  کے حلقۂ تربیت وتزکیہ میں شامل ہوئے، اور ان سے اجازت وخلافت حاصل ہوئی۔ حضرت الاستاذ کے یہ چاروں شیوخ بلا واسطہ یا بالواسطہ سلسلۂ تھانوی کی یادگار ہیں؛ اِس لیے حضرت تھانوی کی صحتِ مذاق اور سلامتِ فہم کا عکس حضرت الاستاذ کی زندگی میں نمایاں ہونا ضروری بھی تھا، اہلِ دل اِس نکتہ کو خوب سمجھیں گے۔  ؂

کتنی مشکل سے اجالوں کی نظر پائی ہے
رات کا زہر پیا ہے تو سحر پائی ہے

سادگی اور تواضع کی کچھ یادیں:

حضرت الاستاذ کی زندگی نہایت سادہ تھی؛ کیوں کہ وہ بے حد خاکسار، منکسر المزاج اور متواضع واقع ہوئے تھے، بے مثال استاذ اور باکمال شارحِ کتبِ کثیرہ ہونے کے باو جود سادہ اور معمولی لباس زیبِ تن فرمایا کرتے تھے، پیر میں پرانی وضع کا معمولی جوتا پہنا کرتے تھے، دیوبند کی گلیوں میں اکثر پیادہ پا نظر آ جاتے تھے، بعض دفعہ کسی دکان پر بیٹھے ہوئے بھی دِ کھتے تھے، لیکن اپنی سادہ وضع کے ساتھ درس گاہ اور مجمعوں میں جب گویا ہوتے تو اپنا لوہا منواتے تھے؛ کیوں کہ جوہر شناس تلوار کی کاٹ دیکھا کرتے ہیں، غلاف اور نیام کی خوب صورتی نہیں۔

۱۔ حضرت کی وفات سے تقریباً نو ماہ قبل دیوبند حاضری کے موقع پر میں بغرضِ عیادت حضرت کے یہاں بھی حاضر ہوا، آپ کچھ طلبہ کے ساتھ معمولی بستر پر بیٹھے ہوئے محوِ گفتگو تھے، وہی پرانا اندار اور وہی پر تبسم چہرہ دیکھ کر بہت خوشی ہوئی۔ مجھ حقیر سے بہت محبت سے پیش آئے، دورانِ گفتگو ‘‘تبریز’’ بھائی ان کی زبان پر آ جاتا تھا۔  اُن کی اِس تواضع پر مجھے بہت حیا آئی اور حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی وہ روایت یاد آئی جس میں وہ ارشاد فرماتے ہیں: جب میں نے حضور ﷺ سے عمرہ کے سفر کی اجازت چاہی تو آپ نے نہ صرف یہ کہ اجازت دی، بلکہ ارشاد فرمایا: لا تنسانا يا أخي من دعائك. (بخاری) یعنی آپ ﷺ نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو بھائی کہہ کر دعا کی درخواست کی جو آپ ﷺ کی تواضع اور خاکساری کا اعلی نمونہ ہے۔ بطور ہدیہ جو پپیتا میں حضرت کے لیے ساتھ لے گیا تھا، وہ تمام شرکائے مجلس کو ہی کھلا دیا، ہمارے بہت منع کرنے کے باوجود مزید ضیافت فرمائی۔ چوں کہ آپ جس مرض میں مبتلا تھے، اس کی وجہ سے آپ کے بال جھڑ چکے تھے، اس کے باوجود آپ کے چہرے اور رکھ رکھاؤ سے بالکل اندازہ نہیں ہو رہا تھا کہ آپ کسی مہلک مرض کے شکار ہیں۔

ہزاروں غم سہے، لیکن نہ آئے آنکھ میں آنسو
ہم اہلِ ظرف ہیں، پیتے ہیں، چھلکایا نہیں کرتے

۲۔ غالباً پانچ سال پہلے کی بات ہے، ایک طالب علم کے ساتھ میں بغرضِ ملاقات ودعا ‘مکتبہ البلاغ’ پہنچا، دورانِ گفتگو حضرت نے پوچھا: تمھارے ساتھ یہ کون ہے؟ میں نے کہا: دار العلوم دیوبند کے طالبِ علم ہیں، اور معین مدرسی کے سال ان کا ‘مفتاح العربیہ’ کا سبق مجھ سے متعلق تھا۔ حضرت نے دو چائے منگوائی اور اس طالبِ علم سے کہا: بڑوں کے ساتھ آنے والا بھی بڑا شمار ہوتا ہے۔ یہ حضرت کی تواضع تھی، ورنہ نہ میں بڑا تھا اور نہ وہ طالبِ علم؛ بلکہ میں حضرت کا شاگرد تھا، اور وہ شاگرد جیسے تھے۔

استغنا وبے نیازی:

تواضع اور خاکساری کے ذیل میں بطور تکملہ مذکورہ بالا عنوان کا ا ضافہ ضروری معلوم ہوتا ہے، استغنا اور بے نیازی ہمارے اکابرِ دیوبند کی خصوصی شناخت ہے۔ میرا یہ احساس ہے کہ حضرت الاستاذ استغنا اور بے نیازی کی زندہ مثال تھے۔ میرے اِ س احساس کی دلیل یہ ہے کہ تکمیلِ افتا کا ایک سال مکمل ہوگیا؛ لیکن اِس دوران حضرت الاستاذ نے کبھی اپنی کسی شرح یا کتاب یا اپنے مکتبہ کا تذکرہ نہیں کیا، نہ تعریف کے اندازمیں نہ بطور حوالہ اور نہ ہی خرید وفروخت کی ترغیب کے لیے۔ حضرت کی کتابِ زندگی کا یہ وہ نمایاں باب ہے جسے ترقی برائے آخرت کے لیے بطور مطالعہ منتخب کیا جا سکتا ہے۔ علاوہ ازیں میں جب بھی بغرضِ ملاقات ‘مکتبہ البلاغ’ جاتا تھا، کم از کم مجھ سے کبھی نہیں کہا کہ میرے مکتبہ کی فلاں کتاب تمھارے پاس ہے یا تم نے اس کا مطالعہ کیا ہے یا تم نے خریدی ہے؟

عمل کا جذبہ:

حضرت الاستاذ کا علم شہرۂ آفاق تھا، بہر حال عملی زندگی تو اس سلسلے میں مجھے مشاہداتی طور پر زیادہ واقفیت نہیں ہے، تاہم ایک واقعہ سے میں نے خوب سمجھا کہ آپ میدانِ عمل کے مردِ مجاہد بھی تھے۔ افتا کے سال پندرہ شعبان کو بعد نمازِ عصر ‘مکتبہ البلاغ’ میں حضرت سے ملاقات ہوئی، حضرت نے افطار کے انتظام کے لیے اپنے گھر فون کرنے کے بعد کہا: کل رات ایک جگہ دورانِ  تقریر میں نے پندرھویں شعبان کے روزہ کی فضیلت سنائی، مجھے شرم آئی کہ دوسروں کو اِس روزے کی ترغیب دوں اور خود اِس دن کھاتا پیتا پھروں؛ اس لیے آج روزہ رکھ لیا ہے۔ اس سے دیگر ضروری معمولات کی پابندی کا بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ بہر حال قول وعمل کی یکسانیت کی ایسی مثال ہر ایک کی زندگی میں نہیں ملا کرتی۔ یقیناً کردار وگفتار میں اتحاد جواں حوصلہ اور اولو العزم لوگوں کا مقدر بنتا ہے، اور یہی وہ نسخہ کیمیا ہے جو انسان کو دنیا اور آخرت دونوں جگہ قبولیت ومقبولیت کا تمغہ عطا کرتا ہے؛ بلکہ تمام خوبیوں اور قابلیتوں کی پختہ کامی کا راز اسی فلسفہ میں مضمر ہے۔

بے اصولی سے نفرت:

اگرچہ آپ تواضع کے پیکر تھے اور انکسار فطرت بن گیا تھا، مگر جرأتِ حق کے حوالے سے آپ بپھرے ہوئے شیر اور مردِ مجاہد معلوم ہوتے تھے، خلافِ اصول بات پیش آنے پر سخت ناراض ہوتے تھے، ایسا اِس لیے بھی تھا کہ آپ سلسلۂ تھانوی سے مربوط تھے، اور یہ حقیقت ہے کہ چشمۂ تھانوی سے جو بھی سیرابی کی سعادت حاصل کرتا ہے، اصول پسندی اس کی طبیعت کا حصہ بن جاتی ہے۔ میرے افتا کے سال پڑوسی ملک کے ایک طالبِ علم ‘سماعت’ کر رہے  تھے، ایک مرتبہ دو تین روز کی غیر حاضری کے بعد حاضر ہوئے، غیر حاضری کی اس بے اصولی پر اُن طالبِ علم کو اتنا ڈانٹا کہ درس گاہ میں سناٹا چھا گیا، اور مجھے لگا کہ صرف یہی ایک طالبِ علم داخلِ افتا ہیں جنھیں پڑھانے کی ذمہ داری حضرت کے سپرد کی گئی ہے؛ اس لیے ان کی غیر حاضری پر اس قدر سخت ناراضگی کا اظہار فرمایا۔ حضرت فرمایا کرتے تھے: درس گاہ میں آنا اور نہ آنا آپ کے اختیار میں ہے، لیکن درس گاہ میں آنے کے بعد آپ کااختیار ختم ہو جاتا ہے؛ اس لیے آپ کی بے اصولی نا قابلِ برداشت ہے۔

 

سبق کے کچھ انمٹ نقوش:

یہ واقعہ ہے کہ بعض دفعہ حافظہ کا غیر معمولی تاثر کسی بات کو ہمیشہ کے لیے محفوظ کر لیتا ہے۔ حضرت الاستاذ کی بہت سی باتیں میرے قلب وذہن میں اسی لیے محفوظ ہیں کہ ان میں تاثیر کی صلاحیت تھی اور مجھ میں تأثر کی، اس لیے یہاں کچھ یاد گار باتیں سپردِ قلم کر رہا ہوں۔ روایت بالمعنی کے باوجود حتی الوسع حضرت کے الفاظ دہرانے کی میں نے کوشش کی ہے۔

۱۔ عام طور پر کسی چیز میں تکرار پسندیدہ نہیں ہوا کرتا، لیکن سلام میں تکرار محمود اور مطلوب ہے۔ حدیث میں ‘أفشوا السلام’ کی جزا ‘تدخلوا الجنۃ’ آئی ہے، یعنی سلام کیا کرو، اس کے نتیجے میں جنت ملے گی۔ غور کیجیے ‘تدخلوا الجنۃ’ جوابِ امر ہے، اور جوابِ امر کا ترتب امر پر واجب ہوتا ہے؛ اس لیے سلام کو مروج کرنا چاہیے، آج اس کا رواج بہت کم ہوگیا ہے۔

۲۔ حدیث کا مفہوم ہے: جب انسان بوڑھا ہوتا ہے تو اس کے اندر دو چیزیں جوان ہوتی ہیں: (۱) حبِ مال (۲) درازیٔ عمر کی چاہت۔ لیکن یہ عیب نہیں ہے اور نہ ہی اس پر گناہ ہوگا؛ کیوں کہ نبی ﷺ فطرت بیان کرتے ہیں اور فطرت کا بیان گناہ نہیں ہے۔

۳۔ لا یَخدع ولا یُخدع: حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے بارے میں کسی نے یہ جملہ کہا تھا کہ نہ وہ دھوکہ دیتے ہیں اور نہ دھوکہ کھاتے ہیں۔ دھوکہ نہ دینا کمالِ دین کی پہچان اور اس کا اثر ہے، اور دھوکہ نہ کھانا یہ کمالِ عقل کا نتیجہ ہے۔

۴۔ اصول الشاشی، نور الانوار، حسامی اور مسلم الثبوت؛ ان کتابوں کا مقصد ‘امثال پر قواعد کا انطباق اور اصول پر جزئیات کی تفریع’ ہے۔

۵۔ اِحْرِصْ عَلَی الْمَوْتِ تُوْهَبُ لَكَ الْحَیَاۃُ: حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے یہ تاریخی جملہ حضرت خالد بن الولید رضی اللہ عنہ سے کہا تھا۔

حضرت الاستاذ سے آخری ملاقات:

۲۸/ ذی قعدہ ۱۴۳۹ھ مطابق ۱۱/ اگست ۲۰۱۸ء کی بات ہے، دار العلوم وقف میں منعقد ایک سیمینار میں شرکت کی غرض سے میں دار العلوم وقف آیا ہوا تھا، بعد نمازِ عصر مکتبہ البلاغ میں حضرت سے سلام ومصافحہ کی سعادت ملی، چہرہ ہشاش بشاش تھا، داڑھی کے بال قدرے بڑے نظر آئے، ہم نے اِس پر خوشی کا اظہار کیا۔ یہ حضرت سے آخری ملاقات تھی۔

موت بھی زندگی ہے:

جو شخص بھی کوئی کام مخلوق کو دکھانے کے لیے نہیں؛ بلکہ خالق کا حکم بجا لانے کے لیے کرتا ہے، اس کی زندگی تو زندگی ہے ہی، اس کی موت بھی زندگی ہے۔ ایک عالمِ دین کی موت اور اس کی شام زندگی، صبح دوامِ زندگی کا پیغام ہوتی ہے۔ بہ قول مولانا مناظر احسن گیلانی: زندگی کی قیمت اگر صرف کام سے لگائی جائے تو ان میں ناکام کون ہے؟ پھر قیمتوں میں تفاوت کیوں پیدا ہوتا ہے؟ اس  لیے نہیں کہ چوبیس گھنٹوں کی حرکت کس کی کتنی ہے، حرکت تو سب کی تقریباً برابر ہے، یہ حرکت کس مقصد کے تحت سر انجام ہوئی، قیمت اس کی لگائی جاتی ہے۔

چوں کہ حضرت الاستاذ کی پوری زندگی علمِ دینِ متین کی شرح وتفصیل میں گذری ہے؛ اس لیے ان کی موت ان کے حق میں یقیناً دائمی زندگی کا آغاز ہے، اور اللہ تعالی ان کی با مقصد زندگی کی قمیت اپنی شایانِ شان ہی طے کریں گے۔ یہ سوچ کر دل کو صبر اور قرار ملتا ہے۔

 

مختصر سوانحی خاکہ:

آپ کا پورا نام (مولانا) جمیل احمد بن جان محمد ہے، آپ ۱۹۴۲ء (یا ۱۹۴۶ء) کے آس پاس سکروڈہ، ضلع ہریدوار (اتراکھنڈ) میں پیدا ہوئے، ابتدائی تعلیم مدرسہ کاشف العلوم، چھٹمل پور اور مظاہر علوم سہارن پور میں حاصل کی۔ اعلی تعلیم کے لیے دار العلوم دیوبند تشریف لائے اور ۱۳۹۰ھ مطابق ۱۹۷۰ء میں فراغت حاصل کی۔ مدرسہ رحمانیہ، ہاپوڑ، مدرسہ کاشف العلوم اور مدرسہ قاسم العلوم گاگل ہیڑی، سہارن پور میں چند سال تدریسی خدمت انجام دی۔ ۱۹۷۷ء میں باضابطہ دار العلوم دیوبند میں بحیثیت استاذ تشریف لائے، تقسیم کے وقت دار العلوم وقف چلے گئے تھے، جہاں ترمذی، بخاری اور مسلم جیسی اہم کتابیں زیرِ تدریس رہیں، ۲۰۰۰ء میں دوبارہ دار العلوم دیوبند آ گئے اور اخیر تک یہیں رہے۔ (مختلف مضامین سے ماخوذ)

آخری بات:

اِس تحریر میں کچھ طالبِ علمانہ تأثرات پیش کرنے کی کوشش کی گئی ہے؛ بلکہ اِس تحریر کے ذریعہ صرف ان دھندلے نقوش میں رنگ بھرنے کی سعی کی گئی ہے جو حضرت الاستاذ سے ملنے اور ان کے سبق میں بیٹھنے کے بعد دل ودماغ پر مرتسم ہوگئے تھے، ورنہ نقوشِ حیاتِ جمیل بہت ہیں، با توفیق لوگ ان شاء اللہ مفصل کام کریں گے۔ اللہ تعالی حضرت الاستاذ کی بال بال مغفرت فرمائیں اور جنت الفردوس میں اعلی مقام عطا فرمائیں اور ہم سب طلبہ کو ان کے نقشِ قدم پر چلنے کی توفیق عطا فرمائیں۔

فنا کے بعد زندہ ہے، شانِ رہبری تیری
ہزاروں رحمتیں ہوں اے میرِ کارواں تجھ پر

٭٭٭

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
×