شخصیات

مولانا عبد الباری فرنگی محلیؒ اور تصوف وسلوک

پچھلی صدی کی قدر آور شخصیتوں میں ایک نمایاںنام حضرت مولانا محمد قیام الدین عبد الباری فرنگی محلی ؒ (۱۸۷۸-۱۹۲۶ء) کا بھی آتا ہے،آپ کی دینی ، ملی اور سیاسی وسماجی خدمات کا دائرہ بہت زیاد ہ وسیع ہے، جس کی وجہ سے ہر طبقہ میں آپ معروف تھے، خانوادۂ فرنگی محل میںبحر العلوم علامہ عبد العلی کے بعد ارباب فرنگی محل میں مولانا ابوالحسنات عبد الحیؒ اور مولانا عبد الباریؒ عزت و شہرت اور علم و عرفان کے آفتاب ومہتاب تھے۔ فرنگی محل میں ایسی شہرت کہ جو ہندوستان سے گذر کر عرب وعجم تک پہنچی ہو ان دونوں کےسوا کسی کوحاصل نہیں ہوئی۔
مولانا عبدالباریؒ اورذوق تصوف و تدریس:
خانوادۂ فرنگی محل سے متعلق جوکتابیں دستیاب ہیں ،ان کے مطالعہ سےمعلوم ہوتا ہےکہ علماۓ فرنگی محل بہ اعتباراپنے ذوق کے تین قسم کے ہیں :
۱ ۔ایک وہ لوگ ہیں جن کی پوری عمر معقولات پڑھانے اور تصنیف و تالیف میں گذری اور انہوں نےہمیشہ حواشی و شروح کےلکھنے کا سلسلہ قائم رکھا۔
۲۔ دوسرے وہ حضرات ہیں جنہوں نے معقولات سے شغف رکھا اور تصوف کو اپنی ترجیحات میں شامل کرلیا؛ چناچہ تعلیم و ارشاد خلائق میں اپنی عمربسر کردی۔
۳۔تیسرے وہ اولوالعزم اور باہمت حضرات ہیں جنہوں نے باوجود اس کے کہ تصوف و طریقت کی چاشنی چکھی پھر بھی سماج اور قومی معاملات اور سیاسی مسائل او ر معاشرت کے ارتباط سے بے تعلقی اختیار نہیں کی، اس تیسری قسم کے حضرات بالکل نفسانیت سے بے تعلق اور للہیت کے گرویدہ تھے ، کسی کام میںاس وقت تک دخل نہیں دیتے تھے جب تک یہ نہ سمجھ لیتے کہ اس میں جہت دینی بھی ہے، اور جب ان کو اس امرکا علم ہوتا کہ یہ امر دینی ہے تو پھر کسی شخص یا ادارہ کی پرواہ نہ کرتے اور عموماً خود غرــضی ، مفاد پرستی اور دنیاداری سےلاتعلق رہتے ان کی زندگی ان صلاتی ونسکی ومحیاي ومماتی للہ رب العالمین کی آئینہ دار تھی۔
حضرت مولانا قیام الدین عبد الباری رحمۃ اللہ علیہ کا شمار اسی تیسری قسم کے خوش نصیب علماء میں ہوتاہے، درسی اور غیر درسی کتابوں کی معلومات اور مطالعہ بہت وسیع تھا؛ لیکن تصوف وتاریخ تصوف پر گہری نظر اور غیر معمولی بصیرت بھی خوب تھی کیوں کہ تصوف وطریقت کی دولت آپ کو ورثہ میں ملی تھی ، آپ اپنے خاندانی سلسلۂ تصوف و طریقت کے امین و پاسبان تھے؛ اسی لئے آپ شریعت وطریقت کے جامع ، تصوف و سلوک کے شناور اور جذب و حال کے ذوق آشنا تھے۔
مولانا عبد الباری ؒکی ہمہ جہت خدمات کی بنیادی وجہ:
مولانا عبد الباریؒ کی تدریسی خدمات کا اپنے دور میں ایسا شہرہ تھا کہ دور دراز سے ہزاروں تشنگان علوم آپ کے حلقۂ درس میں شامل ہوئے، جس کی وجہ سے آپ نے مدرسہ نظامیہ فرنگی محل بھی قائم کیا، آپ کو زمانۂ طالب علمی ہی سے تصنیف وتالیف کا بڑا شوق تھا ، تذکرۂ علماء فرنگی محل کے مصنف اور دیگر سوانح نگاروں نے ان کی ایک سو دس کتابوں کا تذکرہ کیا ہےان کتابوں کے موضوعات اور نام دیکھ کر معلوم ہوتا ہے کہ مولانا عبد البار ی ؒ نے کوئی ایسا فن نہیں چھوڑا جس میں خامہ فرسائی نہ کی ہو۔ اس کے علاوہ قومی وملی جدو جہد میں بھی آپ نے حصہ لیا؛ تحریک خلافت ، خدام کعبہ، جمعیۃ العلماءاور تحریک خدام الحرمین وغیرہ آپ کی سیاسی بصیرت اور ملی خدمات کی یاد گاراور آئینہ دارہیں، سیاست دینیہ میں آپ کا مقام اتنا بلند اور رتبہ اتنا اعلی و ارفع تھا کہ اس وقت کے نامور ارباب سیاست کی جبین نیاز آپ کےشعورو آگہی کے آگے جھکا کرتی تھیںصرف ۴۸ سال کی مدت میں تدریسی ، تصنیفی ،عرفانی اورسیاسی خدمات اور اسلام او ر مسلمانوں کے حق میں بے قراری اور تڑپ کی بنیاد میں جس جذبہ کا سب سے زیادہ عمل دخل ہے اسے ’’ تصوف وسلوک ‘‘ کا جذبہ کہا جاسکتا ہےعلم وعرفان کی تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ ایسا تاریخ ساز کارنامہ وہی شخص انجام دے سکتا ہے جسے تصوف وسلوک کی چاشنی بھی ملی ہو اور جسے اہل دل نے علم و عرفان کا جام بھی پلایا ہو،اس دعوے کی دلیل میں بطورشہادت یہاں ایک اقتباس درج کرنا مناسب معلوم ہوتا ہے ، مولانا منظور نعمانی ؒ نے ’’ تصوف کے ابتدائی غور اور تجربہ‘‘ کےنام سے ایک مقالہ لکھا ہے ’’ جو تصوف کیا ہے‘‘ نامی کتاب میں شائع ہو چکا ہے ، مولانا مرحوم نے اس مقالہ میں ایک خدا رسیدہ بزرگ کے ساتھ تصوف کے موضوع پر ہوئی باہمی گفتگو کی تفصیل لکھی ہے ، اس میں ایک جگہ لکھا ہے کہ انہوں نے یہ اشکال کیا کہ تصوف میں مشغولی کی وجہ سے دین کے دوسرے کاموں کا حرج ہوگااس پر ان صاحب ارشاد بزرگ نے جو بات کہی وہ بہت اہم ہے۔
فرمایا : مولوی صاحب ! تصوف دین کے کام چھڑانے کے لئے نہیں ہے بلکہ اس سے تو دین کے کاموں میں قوت آتی ہے اور جان پڑتی ہے ؛ لیکن کیا عرض کیا جائے اللہ کی مشیت ہے ، جن کو اللہ نے دین کے کاموں کے قابل بنایا ہے وہ اب ادھر توجہ ہی نہیں کرتے، حالانکہ اگرتھوڑی سے توجہ بھی ادھر دے د یں تو دیکھیں ان کے کاموں میں کتنی قوت آتی ہے اور جان پڑتی ہے، حضرت خواجہ صاحب نے اور بعد میں حضرت مجدد صاحب ؒ ، حضرت شاہ صاحب، اور حضرت سید صاجب نے ہمارے اس ملک میں دین کے جو خدمتیں انجام دیں اور جو کچھ کر دکھایا ( جن کا سوواں اور ہزرواں حصہ بھی ہماری بڑی بڑی انجمنیں اور جماعتیں نہیں کرسک رہی ہیں ) اس میں ان کے اخلاق اور قلب کی اس طاقت کا خاص دخل تھا جو تصوف کے راستہ سے پیدا کی گئی تھی۔ ( تصوف کیا ہے ، مولانا منظور نعمانی،ص: ۲۲ ناشر: ادارہ اِسلامیات لاہور ، سن اشاعت:۱۹۸۱ء؁)
مولانا عبد الباری ؒ کی ہمہ جہت خدمات کا دائرہ وسیع ہونا ضروری اور یقینی اس لئے بھی تھا کہ آپ کو تصوف و عرفان کی چاشنی اس عمر میں ہی مل چکی تھی جس عمر میں آج بچے کھیل کود میں لگے رہتے ہیں ، ظاہر ہے کہ عہد طفولیت کے بعد جو انی اور جوانی کے بعد بڑھاپے کے ساتھ آپ کا تصوف وعرفان بھی شباب کی عمر کو پہنچا ہوگا ( اس کی تفصیل آگے آرہی ہے) اور اسی شباب تصوف نے بڑھاپے میں بھی آپ کو ملی اور سیاسی خدمات کے لئے ہمیشہ بے چین اور بےقرار رکھا۔
علماء فرنگی محل اور تصوف:
تصوف صدیوں سے اہل علم کے درمیان موضوع بحث رہا ہے ، صدیوں کے اس عملی اور نظریاتی سفر میں تصوف کو جہاں ایسے لوگوں سے بھی سابقہ پڑا جنھوں نے اس سفر کو بے سمت اور اس کے پورے کارواں کو ہی گم کردہ راہ قرار دیا ؛ چنانچہ کسی نے یہ سوال اٹھایا کہ یہ شراب خاص میکدہ اسلام کی کشید کی ہوئی ہے یاکسی باہر کے شراب خانے سے لائی گئی ہے کبھی ستم ظریفوں نے زبان و قلم کا زور لگا کر یہ پرو پیگنڈہ بھی کیا کہ تصوف شریعت کے بالمقابل کوئی دوسری تحریک ہے ، جو کہیں کہیں شریعت سے ہم آہنگ ہو جاتی ہے، اور اکثر جگہ شریعت سے جدا رہتی ہے ۔ لیکن دوسری طرف تصوف کو قدم قدم پر ایسے اہل دل اور روشن ضمیر افراد بھی ملے جنھوں نے اپنا سب کچھ نثار کرکےاس قافلۂ عشق ومستی میں شامل ہونا اپنی سعادت سمجھا؛ چنانچہ کسی نے دنیا کو بتایا کہ تصوف عین تعلیمات اسلام کا خلاصہ اور ارشادات کتاب و سنت کا عطر ہے، کسی نے کہا کہ تصوف مغز اسلام اور روح ایمان ہے یعنی تصوف اس کیفیت احسانی کے لیے مشق و تمرین کا نام ہے جس کا تذکرہ حدیث جبرئیل میں ہے اور سب کی تعبیرات کا نچوڑ یہ کہ تصوف دین کے بنیادی مقصد کے حصول کی جدو جہد کا نام ہے۔
ثانی الذکر تصوف کی حقیقت ومعنویت خانوادۂ فرنگی محل کا ہمیشہ سے اثاثہ رہا ہے چنانچہ اس خانودۂ علم وعرفان نے نہ صرف یہ کہ تصو ف کو غذاے روح بنایا؛بلکہ اس سلسلہ میں عظیم عرفانی سرمایہ اور تالیفی ورثہ بھی چھوڑا ہے ۔فرنگی محل کے جلیل القدر علماء ہمیشہ تصوف کے قائل اور مشائخ صوفیہ سے مربوط رہے ہیں ؛ اسی لیے ہمیں ہر دور میں ایسے علماء نظر آتے ہیںجو ایک طرف تصوف ،تصوف کے رموز و اشارات اور تصوف کے ان اشغال کی تائید و تقویت میں قلم اٹھاتے ہیں جن کا فی الجملہ احادیث و اثار سے ثبوت ہے اور ان اشغال کا رد بھی کرتے ہیں جن کے لئے قرون اولی میں کوئی نظیر نہیں اور جن کی سرحدیں بدعت ؛بلکہ بعض اوقات شرک سے بھی جاملتی ہیں۔
انوار رزاقیہ کے مولف مولانا محمد الطاف الرحمن قدوائی لکھتے ہیں :
علمائے فرنگی محل عموماً صوفی المشرب رہے ہیں ، اوائل عمر میں درسیات علوم ظاہری سے فراغت کرکے درس و اکتساب طریقۂ تصوف شروع کرتے ہیں ،بعض حضرات اسی کی جانب متوجہ ہوجاتےہیں اور علوم ظاہریہ کو بالکل ترک کردیتے ہیں اور اکثر حضرات نے باوجود توغل علوم باطنیہ کے مدت العمر ظاہریہ سے کنارہ کشی نہیں کی جیساکہ جناب حضرت مولانا عبد الحق صاحب قدس سرہ العزیز کے احوال سے معلوم ہوتاہے کہ باوجود چلہ کشی و ریاضت کے درس معقول و منقول کا دیتے تھے اور تالیف و تصنیف میں مشغول رہتے تھے (انوار رزاقیہ ،ص:۶مطبع اشاعت العلوم، لکھنؤ)
مولانا عبد الباری ؒ کا تعلق چونکہ اسی صوفی المشرب خانوادہ سے ہے ؛ اسی لیے بلا شبہ یہ دعوی کیا جا سکتا ہےکہ آپ نے بھی اپنے خون جگر سے اس گلشن کی آبیاری کی ہے بلکہ اس گلستان تصوف میں گلہائے رنگا رنگ کا اضافہ کیا ہے ؛ چنانچہ آپ کے بارے میں آپ کےصاحب زادہ مولانا جمال میاں فرنگی محلی نےلکھا ہے کہ آپ علم و عرفان کے حوالہ سے اس خاندان فرنگی محل کے آخری سب سے بڑے عالم دین اور سیاسی رہنماہونے کے ساتھ آخری بڑے شیخ طریقت اور پیر تصوف تھے۔
مولانا عبد الباری ؒ تصوف کے آئینہ میں :
کتب تصوف کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ تصوف کا مقصو د رضاء خداوندی ، اخلاق عالیہ کا حصول ، رذائل سے اجتناب دل میں یاد الہی کا رسوخ اور عبادات میں ان کی روح یعنی خشوع وخضوع کاحصول ہے۔ ان سب کےحصول کے لیے ذرائع کے درجہ میں بنیادی اور اصولی طور پر تین باتیں ضروری ہیں: (۱) بیعت و صحبت (۲) ریاضت و مجاہدہ (۳) اذکار واشغال
موضوع کی مناسبت اس بات کی متقاضی ہے کہ مولانا عبدالباری ؒ کی صوفیانہ زندگی کا جائزہ ان تینوں ذرائع کی روشنی میں پیش کیا جائے۔
بیعت وصحبت:
اللہ تعالی کا دستور اور سنت یہی ہے کہ حصول کمال کے لیے کسی صاحب کمال ہی کی صحبت ضروری ہے اور تجربہ سے یہ ثابت ہے کہ جو کچھ کسی کو حاصل ہوا ہے، اسی طریقے سے حاصل ہوا ہے ؛اس لیے بغیر کامل کی صحبت کے کوئی کچھ بن نہیں سکتا، اسی لیے حضرات صوفیاء کرام میں بیعت کا معمول رہا ہے ، بقول حضرت حکیم الامتؒ: بیعت کا حاصل احکام ( یعنی ظاہری و باطنی پر استقامت ) اور اہتمام کا معاہد ہ ہے جس کے مسنون ہونے میں کو ئی شبہ نہیں ( شریعت و طریقت ص:۵۸ ) چونکہ انسانی فطرت ہے کہ اگر اپنے کسی عمل پر دوسرے کو گواہ بنا لیاجائے تواس میں قوت بڑ ھ جاتی ہے اس لیے بیعت کا مروجہ طریقہ فطرت انسانی کےعین مطابق بھی ہے۔
فرنگی محل کا خانوادہ اس حوالےسے اپنا نمایاںمقام رکھتاہے ، اس سلسلے میں اس خانوادہ میں اہتمام اور انہماک مثالی ہے ، مولانا عبد البار ی ؒ کےدادا مولانا عبد الرزاق ؒ نے اپنے سلسلۂ بیعت و ارشاد کی حفاظت کے لیےاحسن الخصائل شرح عمدۃ الوسائل نامی کتاب لکھی ہے، جس میں بیعت و صحبت کی ضرورت کو لطیف انداز میں ثابت کیا ہے ، وہ لکھتے ہیں :
آیت: انا عرضنا الامانۃ علی السماوات والارض والجبال فابین ان یحملنھا واشفقن منھا وحملھا الانسان سے معلوم ہوتا ہے کہ انسان نے اللہ کی قدرت کاملہ پر اعتماد کرتےہوئے ’’امانت‘‘ کو اٹھایا، اسی لیے اسے تمام عالم پر فضیلت حاصل ہوئی ، لیکن تجربہ اور مشاہدہ ہے کہ اس امانت کی ادئیگی میں موانع اور عوائق پیش آتے ہیں ؛ کیونکہ ’’ امانت‘‘ ایک عشق ہے اور عشق بہت سے امتحانوں کا باعث ہے ؛چنانچہ نفس و شیطان ہمیشہ اس کی راہ میں رکاوٹ ڈالنے کے لے تیار رہتے ہیں ؛ پس انسان کے لیے ایک ایسا رفیق ضروری ہے جس کی رفاقت میں منزل تک رسائی ہو سکے؛ اس لیے کسی اسرار طریقت کے مالک یعنی شیخ کامل کے ہاتھ پر بیعت کرنی چاہئے؛ بلاشبہ اس تعلیم اور امداد سے ادائے امانت کی راہ ہموار ہوجائے گی۔ (احسن الخصائل ص: ۱۰ ؍اشاعت العلوم ،لکھنؤ)
مو لانا عبد الباری ؒ کی بیعت وصحبت:
مولانا محمد عنایت اللہ صاحب لکھتے ہیں:
مولانا (عبد الباریؒ ) نے کتب تصوف معمولہ اپنے والد ماجد سے پڑھے اور مثنوی شریف جناب مولانا عبدا لغفار ؒسے پڑھی ، ابتدائے سن میں مولانا نے اپنے جد امجد(مولانا عبدالرزاق ؒ) سے بیعت کی تھی،جد امجد قدس سرہ نے صغر سنی کی وجہ سے بجائے گناہوں سے توبہ کرانے شرارتوں سے توبہ کرائی تھی جو نہایت جامع لفظ ہےاور بیعت کے ساتھ ہی پیر ومرشد نےجمیع سلاسل کی اجازت ارشاد بھی مرحمت فرمادی تھی ختم کتب کے بعد والد ماجد سے تجدید بیعت و اجازت حاصل ہوئی اور ادو اشغال معمولہ کی تعلیم والد ماجد ہی سے پائی ۱۳۲۱ ھ؁ میں حاضری بغداد شریف کے موقع پر حضرت پیرعبد الرحمن صاحب ؒ نقیب الاشراف گیلانی زادہ اور حضرت پیرمصطفی صاحب ؒ گیلانی زادہ کلید بردار روضۂ قادریہ سے سلسلہ قادری میں اجازت مرحمت ہوئی ، موخر الذکر بزرگ نے یہ کہہ کر اجازت مرحمت فرمائی کہ حضرت غوثیتؓ کے حسب الحکم اجازت دیتا ہوں ( حسرۃ الافاق بوفاۃ مجمع الاخلاق ص :۶ ؍اشاعت العلوم، لکھنؤ)
مولانا عبد الرزاق فرنگی محلیؒ:
مولانا عبدالرزاقؒ ولادت: ۲۳ ذی الحجہ ۱۲۳۶؁ھ وفات : ۲۵ صفر ۱۳۰۷؁ھ بن مولانا جمال الدین بن مولانا علاء الدین بن مولانا انوار الحق بن ملا احمد عبدا لحق بن ملا محمد سعید سہالوی بن ملا قطب الدین شہید سہالوی ، آپ اپنے زمانہ میں فرنگی محل کے نامور صاحب ارشاد بزرگ و مرجع خاص و عام تھے ، آپ کو اپنے والد اور شاہ محمد نتھر مدراسی ؒ سے سلا سل چشتیہ اور سلاسل بحر العلوم کی اجازت حاصل تھی ، ۱س کے بعد اپنے ماموں مولانا عبد الوالی ؒ کے ہاتھ پر بیعت کی اور انہی سے اجازت و خلافت حاصل ہوئی ، اس کے علاوہ مختلف بزرگوں سے مختلف سلاسل کی احازت بھی ملی تھی جن کا مفصل ذکر آپ نےاپنی کتاب عمدۃ الوسائل اور احسن الخصائل میں کیا ہے، آ پ کے ملفوظات بزبان فارسی سفینۃالنجاۃ اوربزبان اردو انوار رزاقیہ کے نام سے طبع ہوچکے ہیں مولانا عبدا لباری ؒ آپ کے لائق و فائق پوتے ہیں۔(احسن الخصائل شرح عمدۃ الوسائل، شرح و متن : از افادات : حضرت مولانا شاہ محمد عبدا لرزاق قدس سرہ ؍تذکرہ علمائے ہند ص : ۱۱۸؍ ممتاز علماء فرنگی محل لکھنو ، یسین اختر مصباحی ص: ۱۶۷ اکبر بک سیلر لاہور)
مولانا عبد الوہابؒ فرنگی محلی :
مولانا عبد الرزاقؒ فرنگی محلی کی اولاد آپ کی حیات میں ہی فوت ہو گئی تھی،صرف مولانا عبد الوہابؒ فرنگی محلی آپ کے بعد بقید حیات رہے ، مولانا عبد الوہاب ؒ( وفات : ۲ محرم الحرام ۱۳۲۱؁ھ) اپنے والد مولانا عبد الرزاقؒ فرنگی محلی کے لائق فرزند تھے اور اپنے وقت کے جلیل القدر عالم دین اور شیخ طریقت تھے ، کتب درسیہ کے ساتھ اور ادو اشغال اور تصوف کی تعلیم بھی اپنے والدماجد سے پائی ، والد ماجد کی وفات کے بعد ان کے جانشین ہوئے ، مولانا عبد الوالی فرنگیؒ محلی سے بھی آپ کواجازت اور بیعت حاصل تھی، حضرت مولانا عبد الباری ؒ آپ کے نامور فرزند ہیں ، آپ نے اپنے جلیل القدر والد ماجد مولانا عبدا لوہاب ؒ کے احوال پر مشتمل ایک کتا ب تحریر فرمائی ہےجو حسرۃ المسترشد بوفاۃ المر شد کے نام سے شائع ہو چکی ہے۔ (ممتاز علماء فرنگی محل لکھنؤ؍ ص:۱۷۷)
مولانا عبد الباریؒ کا سلسلۂ طریقت:
مولانا عبد الباری ؒ کے پیرو مرشد مولانا عبدا لوہاب فرنگی محلی اپنے والد مولانا عبد الرزاق فرنگی محلی کے اور وہ مولانا عبد الوالی فرنگی محلی اور وہ مولانا احمد انوار الحق فرنگی محلی اوروہ مولوی احمد عبد الحق فرنگی محلی کے خلیفہ تھے اور وہ حضرت سید عبد الرزاق بانسوی کے مرید اور خلیفہ تھے ، آخر الذکر بزرگ اٹھارہ واسطوںسے سلسلہ قادریہ کے بانی شیخ عبد القادر جیلانی ؒ تک پہنچتے ہیں اور شیخ عبد القادر ؒسے سرکار دو عالم ﷺ تک کاسلسلہ اکثر کتابوں میں درج ہے ، خود مولانا عبد الباری ؒ نے اپنے سلسلۂ طریقت اور شجرہ روحانی کا تفصیلی تذکرہ افضل الشمائل ترجمہ احسن الخصائل میں کیا ہے۔ دیکھیے (افضل الشمائل ص:۲۵تا ۲۶)
مولانا عبد الباریؒ اور سلسلۂ قادریہ رزاقیہ:
خانوادۂ فرنگی محل کے جد اعلی حضرت ملاقطب الدین شہید سہالوی ؒ، ان کے بعض فرزند اور اس خاندان کے دیگر بعض افراد سلسلۂ چشتیہ صابریہ سے منسلک ہوئےتھے ؛ لیکن حضرت قطب شہید کے فرزند استاذا لہند ملا نظام الدین اور ان کے پوتے مولانا احمد عبد الحق ایک ایسے بزرگ کے وسیلے سے سلسلہ قادریہ میں داخل ہوئے جو عارف رموز طریقت و شریعت تھے مگر بظاہر نوشت وخواند سے بھی نا آشنا تھے اور بارہ بنکی اور لکھنو کے دیہات کی بولی بولتے تھے ، چنانچہ آوت ہے جاوت ہے ان کی زبان تھی ان بزرگ کانام نامی سید السادات شاہ عبد الرزاق علیہ الرحمۃ تھا ، حـضرت موجودہ اتر پردیش کے ایک گاؤں بانسہ شریف میں مقیم تھے جو بارہ بنکی اور لکھنو کے مضافات میں واقع ہے اور وہیں آپ کا مرقد بھی ہے جب خاندان فرنگی محل کے بزرگ ملا نظام الدین اور بھتیجے ملا احمد عبد الحق ان سے بیعت ہوئے تو ارباب علم کو شکایت پیدا ہوئی ؛ کیونکہ حضرت سید عبدالرزاق بانسوی عالم نہ تھے اور ملا نظام الدین اور ملا احمد عبد الحق کی ایک عالم کی حیثیت سے دور دور شہرت تھی، مولاناشبلی نعمانی نے اپنے مضمون ’’ ملا نظام الدین ‘‘ کےزیر عنوان اس کی تفصیل کے تحت یہ بھی لکھا ہے:
ملا صاحب کے تلامذہ میں سے ملاکمال علوم عقلیہ میں بڑی دستگاہ رکھتے تھے اور چوں کہ بے انتہا ذہین و طباع تھے ، کسی کو خاطر میں نہ لاتے تھے، ملاصاحب کی بیعت پر روبرو گستاخانہ عرض کیا کہ آپ نےایک جاہل کے ہاتھ پر کیوںبیعت کی،اس پر بھی قناعت نہ کرکے شاہ صاحب کی خدمت میںپہنچے اور فلسفہ کے چند مشکل مسئلہ لے کر گئے مشہور ہے کہ شاہ صاحب نے خود ان مسائل کو چھیڑا اور ملا کمال کی خاطر خواہ تسکین کردی ؛چنانچہ اس وقت ملا کمال اور ان کے ساتھ بہت سے علماء شاہ صاحب کے قدموں میں گر پڑے اور ان کے ہاتھ پر بیعت کی۔(’’ملا نظام الدین ‘‘ تحریرشبلی نعمانی :بحوالہ سیدالاحرار ص:۱۵۳ )
اور اس طرح خانوادۂ فرنگی محل سلسلۂ چشتیہ صابریہ اور قادریہ دونوں سلسلوں کے روحانی فیض کا مرکز بنا ، سید عبد الرزاق بانسوی کے نام پر اس سلسلہ کو سلسلۂ قادریہ رزاقیہ کہا جاتا ہے ۔ ملا نظام الدین نے اپنے مرشد کے حالات پر ایک مستقل کتاب ’’ مناقب رزاقیہ‘‘ تالیف کی ہے۔۱۳۳۶؁ھ میں شاہ عبد الرزاق بانسوی کی وفات کے بعد ملا نظام الدین نے ان کے خلیفہ سید اسماعیل بلگرامی سے باطنی فیوض حاصل کیے، ملا عبدالحق فرنگی محلی، ان کے فررزند مولاناانوار الحق جو سلسلہ قادریہ کے ایک نمایاں بزرگ تھے ۔ اور مولانا انوارالحق کےجانشیں مولانا عبد الوالی فرنگی محلی کے واسطوں سے یہ سلسلہ قادریہ رزاقیہ مولانا عبد الباری ؒکے دادا مولانا عبد الرزاق فرنگی محلی تک پہنچا اور ان کے واسطے سے مولانا عبد الوہاب فرنگی محلی سے ہوکر مولانا عبد الباری فرنگی محلی تک پہنچا ۔چنانچہ آپ نے اپنے والد ماجد مولاناعبد الوہاب فرنگی محلی سے قادری سلسلے میں بیعت کی اور خلافت و اجازت بھی حاصل کی ، اگر چہ آپ کو وقت کے دگر مشائخ سے مختلف سلاسل کی اجازت بھی حاصل تھی ، جس کا مختصر تذکرہ ماقبل میں ہوچکا ہے، اس کے باوجودآپ قادری مشرب اور قادریہ رزاقیہ سلسلے میں مرید کیا کرتے تھے۔
سید الاحرار ،ص:۱۵۱ سید اشتیاق اظہر، مولانا حسرت موہانی میموریل سوسائٹی کراچی۔
مقدمہ ارکان شریعت ، تصنیف :مولانا عبد الباری فرنگی محلی ،ناشر : شعبہ نشر و اشاعت جامعہ چشتیہ ردولی شریف فیض آباد سن اشاعت :۲۰۱۵؁ء۔
مقدمہ: الھدایہ ( مزارات پر قبہ جات کی شرعی حیثیت ) تصنیف مولانا عبد الباری فرنگی محلی ، ناشر: شعبہ نشرو اشاعت جامعہ چشتیہ ردولی شریف فیض آباد ،سن اشاعت ۲۰۱۴؁ء۔
عمدۃ الوسائل ص:۱۲ تالیف: مولانا عبدالرزاق فرنگی محلی ۔
حدائق الحنفیہ ،ص: ۴۶۹مولانا فقیر محمد جہلمی۔
مولانا عبدا لباری ؒاور ریاضت و مجاہدہ:
چوں کہ عشق اور امانت جس کا ذکر ماقبل میں آچکا ہے بہت سے امتحانوں کا باعث ہے ، تصوف کےمقاصد کے حصول کی راہ میں بہت سے موانع پیش آتے ہیں ، ان موانع اور رکاوٹوں کو دور کرنے کے لیے کچھ تدبیروں کی ضرورت پڑتی ہے ، شریعت نے ان تد بیروں کو کسی خاص شکل میں متعین نہیں کیا ہے ،اس لیے اہل تصوف کے یہاں تلاش مرشد اور بیعت و صحبت کےبعد دوسرا اہم اور ضروری کام ریاضت اور مجاہدۂ نفس ہے،یہ ریاضت ومجاہدہ نہ عبادت ہے اور نہ مقصود، اگر کسی کو بغیر مجاہد ہ مقصود تصوف حاصل ہوجائے تو اسے اس کی کچھ ضرورت نہیں ؛چنانچہ صحابہ کرام ؓکو حضور ﷺ کے فیض صحبت سے مجاہدہ کی کوئی ضرورت نہیں ہوتی تھی ، آج بھی اگر کسی کی استعداد عالی ہویا مرشد قوی اور ماحول پر نور ہو تو زیادہ مجاہد ہ اور رریاضت کی ضرورت نہیں پڑتی۔
مولاناعبد الباری ؒ چونکہ ایک روحانی ماحول میں پیدا ہوئے تھے ، تصوف و سلوک موروثی تھا، اس لیے آپ کی استعدا د عالی رہی ہوگی، اس پر مستزاد یہ ہے کہ آپ کے مرشدین میں مولانا عبد الرزاق صاحب ؒ اور مولانا عبد الوہاب صاحب ؒ جیسے کامل روحانی نام ہیں؛ اس کے باجود آپنے ریاضت و مجاہدہ کو اپنے اوپر لازم کر رکھا تھا، سلسلہ قاردیہ رزاقیہ میں بیعت کے بعد جو ریارضات و مجاہدات متعین ہیں ،ان میں مولانا عبد الرزاق فرنگی محلی ؒ نے اپنی کتاب عمد ۃ الوسائل میں درج کیے ہیں مولانا عبد الباری فرنگی ؒ نے اپنے دادا کی اس کتاب کا اردو ترجمہ کیا ہے جو اسی کتاب کے ساتھ مطبوع ہے ، مولانانے’’ مترجم کہتا ہے ‘‘ کے عنوان سے جگہ جگہ اضافی مجاہدات اور تفصیلی ریاضات کو ذکر کیا ہے ،مثلاتہجد سے لیکر عشاء تک کے جو معمولات درج کیے ہیں وہ آج کے دور کے لحاظ سے بہت سخت اور کم ہمتوں کے لیے مشکل ہیں ، لاالہ الااللہ کی ضرب ، مافی قلبی غیر اللہ کے ورد کا طریقہ ، دوران وضو مختلف دعاؤں کا التزام ، ذکر کی مخصوص ہیئت ، بیداری برائے تہجد کے معمولات ، چاشت کا طریقہ ، نماز ظہیرہ کا معمول، ھوالاول، ھوالاخر ، ھوالظاھر اور ھوالباطن کے ورد کا مخصوص انداز ، اسم محمد ، اسماء خلفاء راشدین، حضرات حسنینؓ، حضرت فاطمہؓ کے ناموں کے ذکر کا خاص طریقہ، تہجد سے فراغت اور نماز فجر سے پہلے دورد کی کثرت، نماز فجر کے بعد اورادماثورہ کی پابندی وغیرہ یہ وہ ریاضات و مجاہدات ہیں جن کے بارے میں مولانا عبدالباری ؒنے اپنے دادا بزرگ وار کے حوالہ سے لکھا ہے :حضرت جدی مرشدی نے ارشاد فرمایا : ہر سالک کو جس کو اس خاندان سے تعلق ہے اسے یہ معمولات اور مجاہدات انجام دینے چاہییں افضل الشمائل میں مولانا ؒ نے اوراد ووظائف کی مخصوص ہیئت کے سلسلہ میں یہ بھی لکھا ہے:
مترجم کہتا ہے کہ ایسے ہی سنا اور ایسے ہی سیکھا ہے میں نے اپنے پیر ومرشد مولانا مولوی عبد الوہابؒ صاحب مد ظلہ العالی سے۔
یہاں بہت اختصار سے سلسلۂ قادریہ رزاقیہ سے منسلک ہونے والے سالکین کے لیے متعین کیے گئے یومیہ معمولات کا تذکرہ کیا گیا ہے ، تفصیل اصل کتاب میں دیکھی جاسکتی ہے ، یومیہ معمولات کےعلاوہ محرم، عاشورہ ، صفر ،ربیع الاول وغیرہ کے مخصو ص معمولات الگ ہیں نیز صلاۃ الاسراء، لیلۃ البراءۃ کے علاوہ صلاۃ الرغائب وغیرہ کی پابندی کے ساتھ کچھ خاندانی اور موروثی معمولات کا ذکر بھی اس کتاب میں موجود ہے ان تفصیلات سے مولانا عبد الباری ؒ کی ریاضات و مجاہدات کا اندازہ لگانا بہت آسان ہے، شہادت کے لیے ایک اقتباس درج کیا جاتا ہے : مولانا محمد عنایت اللہ صاحب جومولانا عبد الباری ؒ کے سوانح نگار ہیں اپنی کتا ب میں ’’پابندئ مذہب‘‘ کے عنوان کے تحت لکھتے ہیں:
مذہبی امور کی پابندی مولانا نہایت متقشف علماء کی طرح فرماتے تھے ، بلوغ سے لیکر بیماری تک نماز قضاء ہونے کا تو کیا ذکر کبھی جماعت بھی سوائے ایک مرتبہ کے مولانا کی ناغہ نہیں ہوئی اور اس پر اس قدر سختی سے پابندی فرماتے تھےکہ سفروں میں ہمیشہ محض ضرورت جماعت کی وجہ سے دوشخصوں کو ضرور ہمراہ رکھتے تھے عبادت میں فرائض اور واجبات ایک طرف مولانا نوافل اور مستحبات کو بھی ترک نہیں فرماتے تھے۔ سنن راتبہ کے علاوہ ہمیشہ سنت عصر اور قبل عشاء کی چار سنتوں پر مداومت فرماتے بعد سنت فجر داہنی کروٹ لیٹ کر ایک تسبیح سبحان اللہ و بحمدہ ، سبحان اللہ العظیم و بحمدہ، استغفراللہ العظیم من کل ذنب و خطیئۃ واتوب الیہ ہمیشہ پڑھتے تھے اور بعد نماز فجر کسی سے بات نہ فرماتے اور غالبا لاالہ الا اللہ وحدہ لاشریک لہ لہ الملک ولہ الحمد وھو علی کل شئی قدیر کی تسبیح پڑھتے ، بعد طلوع آفتاب اشراق کی نماز پڑھ کر تکلم فرماتے شب کوعبادات معمولہ کرتے البتہ اشغال و اوراد اہل تصوف شاذو نادر کرتے، رمضان شریف میں بہت کم (دوتین گھنٹے سے زائد نہیں ) آرام فرماتے اور شب و روز میں ایک اور کبھی دوقرآن شریف ختم فرماتے ، رمضان میں عصر کے بعد بھی مغرب تک تکلم نہیں فرماتے اور اوراد خاندا نی پڑھتے رہتے، روزے بھی سوائے حاجت شدت مرض کے کبھی قضا نہیں ہوئے نوافل میں نو ذی الحجہ اور محرم کے دو روزوں کے پابند تھے اور دو یوم شعبان میں بھی اکثر روزہ رکھتے…..ہر وقت باوضورہتے۔(حسرۃ الافاق ،ص:۳۱ محمد عنایت اللہ ،اشاعت العلوم لکھنو)
مذکورہ تفصیل کی روشنی میں یہ نتیجہ اخذکرنا آسان ہے کہ مولانا عبد الباری ؒ نے تصوف میں کمال کے لیے مجاہدہ ٔ نفس کے واسطے مجاہدہ جسمانی ( قلت طعام ، قلت منام ،قلت کلام اور قلت اختلاط مع الانام) کو بھی برداشت کیا ہوگا ؛اس لیے اس حوالے سے مزید خامہ فرسائی کی ضرورت محسوس نہیں ہوتی۔
مولانا عبد الباری ؒ اور اشغال:
’’شغل‘‘ بھی اہل تصوف کا اصطلاحی لفظ ہے ، جس کا مطلب یہ ہے کہ دل کی توجہ کو کسی ایک نقطہ پر مرکوز کرنے کے لیے کوئی عمل کیا جائے؛ تاکہ قلب ہمہ وقت اللہ تعالی کی جانب متوجہ رہے، اسی مقصود کے پیش نظر اہل تصوف اور اس فن کے ماہرین کبھی ذکر کا جہر اً حکم دیتے ہیں، کبھی اس کے لیے بیٹھنے کی کوئی خاص ہیئت بتاتے ہیں ، کبھی ذکر کی تعداد متعین کرتے ہیں، کبھی ضربیں لگواتےہیں، کبھی کلمہ اور کبھی اسم ذات رٹاتے ہیںوغیرہ، مولانا عبد الباری ؒ یقینا اس مرحلہ سے بھی گذرے ہوں گے؛ کیوں کہ وہ اس سلسلہ ٔقادریہ رزاقیہ میں اپنے دادا اور اپنے والد کےجانشین تھے، جس کی تفصیل مولاناعبد الباری ؒنے افضل الشمائل میں لکھ دی ہے، اس اجمال کی تفصیل کے لیے ’’ ریاضت و مجاہدہ‘‘ کے زیر عنوان جو اقتبا س لکھا گیا ہے اسے دوبارہ دیکھ لینا مناسب ہے ۔ اشغال کے موضوع پر مولانا عبد الباریؒ کی مستقل ایک کتاب بھی ہے جو ’’ رسالہ اذکار و اشغال‘‘ کے نام سے موسوم ہے۔
مولاناعبد الباریؒ بہ حیثیت شیخ طریقت -ایک جائزہ:
چوں کہ بیعت و صحبت کے لیے ایک شیخ کامل کی ضرورت پڑتی ہے، جس کے ہاتھ میں ہاتھ دیکرسالک مطمئن ہوجائے؛ اس لیے مشائخ تصوف نے شیخ کامل کی پہچان کےلیے کچھ شرطیںذکر کی ہیں ، جن کو دیکھ کر شیخ کامل کی پہچان کی جا سکتی ہے ؛ چنانچہ مولانا عبد الباری ؒ کے بزرگوار دادا مولاناعبد الرزاق فرنگی محلی نے اپنی عربی کتاب احسن الخصائل میں ،شاہ ولی اللہ محدث دہلوی ؒ کی کتاب ’’القول الجمیل ‘‘ کے حوالہ سے کچھ اہم علامات اور شرائط کا تذکرہ کیا ہے ، چوں کہ مولانا عبد الباری ؒ سلسلہ ٔ قادریہ میں مقام مشیخت پر بھی فائز تھے؛ اس لیے مولانا مرحوم کو ان علامات کے آئینہ میںبھی دیکھنا مناسب معلوم ہوتا ہے ۔
مولاناعبد الرزاق فرنگی محلیؒ نے اس حوالے سے جو کچھ لکھا ہے اس کا خلاصہ درج ذیل ہے:
(۱)علم شریعت سے بقدر ضرورت واقف ہو۔ (۲)اعمال و اخلاق میں شریعت کا پابند ہو۔ (۳) بزرگوں کی صحبت اٹھائی ہو اور ان کی خدمت بھی کی ہو۔ (۴) سلوک و طریقت کا ماہر ہو۔ (۵) نفس پر قابو یافتہ ہو۔(۶) شیخ نے بیعت کی اجازت دی ہو۔
مولانا عبد الباریؒ بہ حیثیت عالم دین:
مولانا عبد الباری ؒ جس خانوداۂ فرنگی محل سے تعلق رکھتے تھے ، اس خاندان نے علم و فن کو مقصد زندگی بنا لیا تھا، بقول علامہ شبلی: یہ بات صرف ملا قطب الدین شہید کو حاصل ہے کہ پورے دوسو برس تک متواتر اور بلا فصل ان کی نسل میں علماء ہوتے چلے آئے ہیں اورآج بھی یہ سلسلہ قائم ہے ، مولانا عبد الباری ؒکے علمی مقام کےلیےصرف اتنی بات کافی ہے کہ حسرۃ الافاق کےمصنف نے آپ کی ایک سو دس تصانیف کا ذکر کیا ہے، ان تالیفات کےعلاوہ حواشی بھی ہیں مدرسہ نظامیہ فرنگی محل میں درس و تدریس و کار افتاء کی ذمہ داری اس پرمستزاردہے، نزھۃ الخواطر کے مصنف رقم طراز ہیں:
وأکثر اشتغالہ فی الأخیر بالحدیث والقرآن وکان لہ درس فی المثنوی للعارف الرومی فی بیتہ و تخرج علیہ عدد کبیر من الفضلاء و کانت لہ عنایۃ بالمؤ سسات العلمیۃ والمشاریع التعلیمۃ( نزھۃ الخوا طر)
مولانا عبد الباریؒ بہ حیثیت پابند شریعت:
اس کا ذکر ماقبل میں حسرہ الافاق کے حوالہ سے آچکا ہے ،جس میںجماعت کی پابندی کے ساتھ شرعی امور کے لحاظ کا حد درجہ شوق مذکور ہے ، یہاںصرف ایک اقتباس درج کیا جاتا ہے جس سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ آپ شریعت و سنت پر عمل آور ی کو کسی قدر ضروری سمجھتے تھے ، مولانا عبدا لباری فرنگی محلی ؒ خود اپنے بارے میں ’’ التعلیق المختار علی کتاب الاثار‘‘ کی تمہید میں لکھتے ہیں :
لما فرغت من تحصیل کتب الدرسیۃ معقولا و منقولا واشتغلت بعلم الحدیث الشریف فروعا و اصولا—فخطر ببالی ن اعمل عملا یکون وسیلۃ لرضاء اللہ و کفارۃ لما جنیت فی صغری من تضییع الأوقات باکتساب الخرافات ،شرح اللہ صدری أن أخدم ھذا الفن المنیف واصرف أو قاتی فی خدمۃ الحدیث الشریف لعل اللہ یحشر نی فی زمرۃ المحدثین —-(التعلیق المختار ص: ۴۸ الرحیم اکیڈ می کراچی سن طباعت ۱۴۱۰)
خلاصہ یہ کہ بچپن کی شرارتوں کے ازالہ اور کفارہ کے لیے علم حدیث کی خدمت انجام دینا ضروری سمجھاگیا ،ظاہر ہے ایسا خیال اور ایسا جذبہ اسی ُذات کے ذہن و خیال میں آئے گا جسے شرعی احکام :اوامر کا امتثال اور نواہی سے اجتناب کی فکر ہو ، ’’فی صغری‘‘ کی قید اس پر بھی دال ہے کہ بلوغت کے بعد خلاف شرع امور کے ارتکاب سے بالکلیہ پر ہیزکیا جاتا ہوگا، علاوہ ازیں مولانا عبدا لباری ؒ کوکم سنی میں ہی بیعت کاشرف حاصل ہو چکا تھا ؛چنانچہ اُس وقت آپ کے دادا نے بچپن کی تمام شرارتوں سے توبہ کرائی تھی ۔التعلیق المختار کی وجہ تالیف سے یہ نتیجہ اخذ کرنا غلط نہیں ہوگاکہ علم حدیث کی یہ خدمت درحقیقت ان شرارتوں سے عملی توبہ تھی ان الحسنات یذھبن السیئات کی روشنی میں آپ کے دادا مولانا عبد الرزاق فرنگی محلی نے احسن الخصائل میں لکھا ہے کہ اگربتقضائے بشریت کسی گنا ہ صیغرہ کا بھی ارتکاب ہوجائے تو بیعت تو بہ کی تجدید کرلینی چاہئیے۔
شیخ کامل کی ان دو شرطوں کےعلاوہ مزیدجن شرطوں کا تذکرہ کیا گیا ہے، مولاناعبد الباری ؒ ان شرطوں کے بھی جامع تھے، چوں کہ ا س مقالہ کی تفصیلات سے اس پر روشنی پڑتی ہے ؛ اس لیے ان شرطوں کاتذکرہ تکرار محض ہوگا۔
مولاناعبد الباری ؒ کا تصوف اور حلقۂ دیوبند:
مولانا عبد الباری ؒ خاندانی صوفی تھے، آپ کے سلسلہ طریقت میں شروع سے ہی کچھ ایسے صوفیانہ رجحانات موجود رہے اور جن پر پابند ی سے عمل کیا جاتا تھا کہ انھیں علماء دیوبنددرست نہیں سمجھتے تھے ؛ کیوں کہ وہ اعما ل اقرب الی النصوص نہیں تھے؛ مزاروں پر فاتحہ خوانی، چادر پوشی، میلاد خوانی، قوالی کے علاوہ آپ کے یہاںبوقت حاجت صلاۃالاسراء،شیخ عبد القادر جیلانی ؒ اور دیگر شیوخ قادریہ کے ناموںکا ورد، شب براءت کی نماز ، صلاۃ الرغائب، ربیع الاول کے خاص معمولات وغیرہ جن کی تفصیل خود مولانامرحوم نے احسن الخصائص میں درج کی ہے ایسے مسائل ہیں جنھیں حلقۂ دیوبند نےبدعات و خرافات میں شمارکیا ہے ، عرس کے لیے مختلف مزارات کی جانب آپ پابندی سے سفرکیا کرتے تھے، غنا، مزارات کی پختہ تعمیر کے جواز میں آپ نے مستقل کتابیںلکھی ہیں ، جن کے جوابات علماءدیوبند کی جانب سے لکھے جاچکے ہیں۔
چوں کہ خانوادۂ فرنگی محل اور مولاناعبدا لباری ؒکے نزدیک ان اعما ل کے دلائل تھے جو اگر چہ علمائے دیوبند کے نزدیک کمزور اور مؤول تھے، لیکن ان حضرات کے نزدیک قابل عمل تھے، اس لیے وہ حضرات ان کے حامی اور ان پرعامل تھے اور یہی وجہ ہےکہ مولانا عبد الباری ؒ بعض اعتقادی اور عملی مسائل میں حلقۂ دیوبند سے اختلاف کے باجود معتدل المزاج اور فکری اعتبار سے اعتدال پسند تھےاور اسی لیے ہر حلقہ اور ہر اسٹیج پر مقبول تھے۔
اجازت و خلافت کا سلسلہ:
مولانا عبد الباری ؒ نے جن حضرات کو بیعت کی اجازت دی تھی ، ان کےاسمائےگرامی باضابطہ طور پر محفوظ نہیں ہیں؛ تا ہم بعـض تحریرو ں سے معلوم ہوتا ہے آپ نے سلسلۂ قادریہ میںاجازت و خلافت کا سلسلہ جاری رکھا تھا؛ مولانا محمد عنایت اللہ صاحب نے حسرۃ الافاق میں ’’ مولانا کے مریدین ‘‘ کے زیر ِعنوان جو تفصیل لکھی ہے اسے یہاں درج کرنا مناسب ہے، وہ لکھتے ہیں :
مولانا کے مریدین کی بھی فہرست تلامذہ کی طرح نہیں ہے نہ ان کا کوئی رجسٹرکبھی مولانا یا ان کے خاندان میں رکھنے کادستور رہا اس لیے صحیح شمار بتانا نا ممکن ہے البتہ کم از کم جو تخمینہ کیا جا سکتا ہے اس کی تعداد سیکڑوں تک پہونچتی ہے ۔ جن میں مولانا محمد علی اور مولانا شوکت علی سے لیکر خاکسار تک داخل ہے ۔ جن حضرات کو مولانانے اجازت ارشاد بھی عطا کی تھی ان کی تعداد بھی ایک درجن سے زائد ہے لیکن سچ یہ ہے کہ مولانا کا حقیقی مجاز وہی ہے جو مولانا سے توسل کو اپنے لیےباعث صد افتخار سمجھتا ہو اور جسنے ان کے طریقے پر چلنا اور ان کی اتباع کرنا اپنے لیے دلیل راہ سمجھا ہو ۔(حسرۃ الافاق ؍ص: ۴۶)
اسی طرح مولانا حسرت موہانی کی درخواست پر آپ نے انھیں تحریری طور پر اجازت بیعت دی تھی ؛ مولانا حسرت موہانی جیل میں کسی قیدی کوبیعت کرنا چاہتے تھے ،چوں کہ مولانا حسرت موہانی مولانا عبد الوہابؒ فرنگی محلی کے مرید تھے ؛ لیکن اس وقت وہ بقیدحیات نہیںتھے؛ اس لیے ان کے جانشیں اور خلیفہ مولانا عبد الباری فرنگی محلی کو خط لکھا کہ بر وقت ضرورت مجھ کو سلسلہ چشتیہ صابریہ، رزاقیہ انواریہ،والیہ رزاقیہ میں بیعت لینے کی اجازت مرحمت ہو، آپ کی اجازت کو اپنے اور آپ کے مرشد ؒ کی اجازت کے قائم مقام سمجھوں گا، اس کے جواب میں مولانا عبدالباری ؒ نے جو خط لکھا وہ یہاں درج کیا جاتا ہے:
’’ آپ کاخط مولانا عبد الوالی صاحب کےعرس کے دوران پہنچا جو آپ کی شرکت کا قائم مقام ہے ‘‘میں آپ کو مطلوبہ اخذ بیعت کی اجازت دیتا ہوں اور اپنے لیے باعث افتخار و مغفرت سمجھتاہوں—( سیدالاحرار ،ص:۱۵۶)
تصوف پر تصنیفی یاد گار:
مولاناعبد الباری ؒ کو طالب علمی کے زمانہ سے ہی تصنیف و تالیف کا ذوق تھا، چنانچہ آپ نے ہر موضوغ پر گراںقدر کتابوں کا ذخیرہ چھوڑاہے، فن تصوف اور اس کے متعلقات پر آپ نے آٹھ کتابیں تصنیف فرمائی ہیںجن کے نام درج ذیل ہیں:
(۱) افضل الشمائل (۲) سبیل الرشاد (۳) رسالۃ النصیحۃ (۴) رسالۃ التوبہ (۵) نظم الفرائد (۶) محاسن یوسفی (۷) حاشیہ فصوص الحکم (۸) رسالہ اذکار و اشغال۔
اول الذکرکتاب افضل الشمائل،مولانا عبد الرزاق فرنگی محلی کی تصنیف لطیف’’ احسن الخصائل ‘‘(فارسی)کا ترجمہ ہے، مولانا عبد الباری ؒنےاس کتاب کانہ صرف ترجمہ کیا ہے؛ بلکہ جگہ جگہ ’’ مترجم‘‘ کے عنوان سے ضروری باتوں کا اضافہ بھی کیا ہے، نیز خاندانی و موروثی مجربات و معمولات پر بھی روشی ڈالی ہے، اپنے شیوخ کے معمولات و مشاہدات بھی درج کیے ہیں: یہ ساری چیزیں اس بات کی غماز ہیں کہ آپ فن تصو ف میں ید طولی کے مالک اور اس میدان کے ماہر شہسوار تھے۔
ثانی الذکر کتاب محدث نبیل مولانا محمد عبدالباقی ؒ کی کتا ب الارشاد فی ترتیب الابواب کا اردو ترجمہ ہے، یہ اور اس کے علاوہ دیگر کتابیں مطبوعہ شکل میں راقم الحروف کونہ مل سکیں اس لیے ان کتابوں کےمشمولات معلوم نہ ہوسکے۔
مصادر و مراجع:
۱- حسرۃ الآفاق بوفاۃ مجمع الاخلاق ، مولانامحمد عنایت اللہ صاحب ؒ ۔
۲- التعلیق المختار مع کتاب الاثار، مولانا عبد الباری فرنگی محلیؒ۔
۳- ممتاز علمائے فرنگی محل لکھنؤ، یسین اختر مصباحی۔
۴- تذکرہ مشاہیر علمائے فرنگی محل ، مولانا خالد رشید فرنگی محلی
۵- احسن الخصائل شرح عمدۃ الوسائل، مولانا شاہ محمد عبدا لرزاق صاحب ؒ۔
۶- افضل الشمائل ترجمہ احسن الخصائل، مولانا عبد الباری فرنگی محلی صاحبؒ۔
۷- علمائے فرنگی محل حیات و خدمات، اسلامک فقہ اکیڈ می۔
۸- مزارات پر قبہ جات کی شرعی حیثیت، مولانا عبد الباری فرنگی محلی ؒ۔
۹- ارکان شریعت، مولانا عبد الباری فرنگی محلی ؒ۔
۱۰- رسالہ اثبات علم غیب، مولانا عبد الباری فرنگی محلی ؒ۔
۱۱- سید الاحرا ر، سید اشتیاق اظہر۔
۱۲- تصوف ایک تعارف، مولانا اعجاز احمد اعظمیؒ۔
۱۳- شریعت و طریقت کاتلازم، شیخ الحدیث مولانا زکریا ؒ۔
۱۴- نزھۃ الخواطر، مولانا عبد الحی الحسینی ندویؒ۔
۱۵- تصوف کیا ہے؟ ،مولانا منظور نعمانیؒ۔
۱۶- انورا رزاقیہ ، مولانا محمد الطاف الرحمن قدوائی۔
۱۷- شریعت و طریقت ، مولانا اشرف علی تھانوی ؒ۔
۱۸- حدائق الحنفیہ، مولوی فقیر محمد جہلمیؒ۔
۱۹- مولانا جمال میاں فرنگی محلی ،

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
×