سیاسی و سماجی

یوم جمہوریہ اور دم توڑتی جمہوریت

15 اگست 1947 کو مجاہدین آزادی وطن کی ناقابل فراموش جدوجہد اور بے مثال قربانیوں کے بعد ہمارا ملک ہندوستان آزاد ہوا، ایک طویل اور صبرآزما جدوجہد کے بعد ہمیں آزادی جیسی عظیم نعمت حاصل ہوئی، کسی بھی ملک اور باشدگانِ ملک کیلئے آزادی کسی نعمت سے کم نہیں ہوتی، وطن عزیز کی آزادی میں جہاں ہر مذہب کے ماننے والوں کی قربانیاں شامل ہیں، وہیں مسلمانوں کی قربانیاں بھی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہیں، پہلے ملک کی آزادی کے حصول کی خاطر اور اسکے بعد جمہوریت کے قیام کیلئے ملک کے مسلمانوں اور خاص کر علمائے کرام نے جو کارہائے نمایاں انجام دیے اور جس انداز میں یہاں کے مسلمانوں کی جاں فشانی، حریت، شہادت اور قربانیاں شامل تحریک رہیں تو یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ یہاں کے مسلمان آزادی کے حصول اور جمہوریت کے قیام کی تحریک میں صفِ اول میں شامل رہے،

ہندوستان کا شمار دنیا کے سب سے بڑے جمہوری ملکوں میں ہوتا ہے، جہاں ہندومسلم، سکھ وعیسائی نیز دیگر سبھی مذاہب کے لوگ بڑی محبت سے رہتے چلے آرہے ہیں، آزادی کے بعد ہندوستان کو چلانے کے لیے 26 نومبر 1949ء کو ایسا قانون بنایا گیا جس میں ہر مذاہب کے لوگوں کو اپنے اپنے مذہب کے اعتبار سے رہنے کا حق دیا گیا اور 26 جنوری 1950ء کو قانون نافذ کیا گیا، اس قانون کے بعد ہندوستان میں جمہوری طرز کا آغاز ہوا۔

جمہوریت کا لفظ جمہور سے بنا ہے جو اکثر کا معنی دیتا ہے اور جمہوریت سے اکثریتی رائے مراد لی جاتی ہے جمہوری حکومت میں بھی کہیں نہ کہیں یہ معنی پنہاں ہیں یعنی اس کی تشکیل میں بھی اکثریتی رائے کا اعتبار کیا جاتا ہے،
جمہوریت کو انگریزی زبان میں Democracy کہا جاتا ہے جو یونانی زبان کے دو الفاظ سے مل کر بنا ہے جس کے معنی عوام اور طاقت کے ہیں اس لحاظ سے جمہوریت ایک ایسا نظامِ حکومت ہے جس میں اقتدار عوام کے ہاتھ میں ہوتا ہے اور ان کے منشاء کے مطابق حکومت فرائض انجام دیتی ہے۔

26 جنوری 1950 میں ہندوستان نے اپنے لئے جو دستور طے کیا اس کے آغاز میں ایک بہت خوبصورت جملہ لکھا گیا ہے "ہم ہندوستانی عوام تجویز کرتے ہیں کہ بھارت ایک آزاد، سماجوادی، جمہوری ہندوستان کی حیثیت سے وجود میں لایا جائے جس میں تمام شہریوں کے لئے سماجی، معاشی، سیاسی انصاف، آزادئ خیال، اظہار رائے، آزادئ عقیدہ ومذہب اور عبادات کا اختیار، مواقع اور معیار کی برابری، انفرادی تشخص اور احترام کو یقینی بنایا جائے اور ملک کی سالمیت و یکجہتی کو قائم ودائم رکھا جائے گا” یوم جمہوریہ کو ملک بھر میں ہر جگہ سرکاری چھٹی رہتی ہے اور تعلیم گاہوں و سرکاری اداروں میں جشن جمہوریہ کا پروگرام منعقد کرتے ہیں، ترانے پڑھے جاتے ہیں، راشٹریہ گیت گایا جاتا ہے، سیکولرازم کے عنوان سے بیانات ہوتے ہیں،
“یوم جمہوریہ” کے نام سے جس طرح کالج اور یونیورسیٹیوں میں تقریب کا انعقاد کیا جاتا ہے اسی طرح مدارسِ اسلامیہ میں بھی پرچم کشائی کے لیے جشن کی تقریب کا اہتمام کیا جاتا ہے اور طلبہ وعوام کو ہمارے اسلاف نے جو کارہائے نمایاں انجام دیئے اور وطن عزیز کی آزادی کی خاطر اپنی جانوں کا جو نذرانہ پیش کیا، جنہوں نے اپنے وطنِ عزیز کو غلامی کی زنجیروں سے نجات دلانے کے لئے ہنستے ہنستے اپنی جانیں قربان کردیں ان کی تاریخ سے باور کرایا جاتا ہے، اور یہ بھی بتایا جاتا ہے کہ ہندوستان کی آزادی میں مسلمانوں کا رول بہت ہی اہم رہا ہے اور یہ تحریک اصل میں مسلمانوں نے شروع کی تھی۔ اس کا اندازہ ہم اس طرح لگا سکتے ہیں کہ 1857ء کے ایک سال میں یہاں پر 24/ہزار مسلمانوں نے وطن عزیز کے لئے اپنی جانوں کو قربان کیا تھا، یومِ جمہوریہ کی مناسبت سے جنگِ آزادی کی قربانیوں کو عام کیا جاتا ہے اور عوام کو مجاہدینِ جنگِ آزادی کی قربانیوں سے روشناس کرایا جاتا ہے، انہوں نے ہمارے لئے یہ قربانیاں اس لئے پیش کیں تاکہ ہم آزاد فضا میں سانس لے سکیں، جب ہمیں آزادی ملی تو جو قانون ملک کے لئے بنایا گیا اس میں ہرمذہب وملت کے لوگوں کو اپنے اپنے مذہب پر چلنے کی آزادی عطا کی گئی اور یہ ہندوستان قانون کا اتنا اچھا ہے کہ اس میں کسی مذہب سے ٹکراؤ نہیں ہے، لیکن افسوس ہوتا ہے کہ برابری حقوق کے بعد بھی آج مسلمانوں پر ظلم کیا جارہا ہے کبھی گھر واپسی کے نام پر، کبھی لوجہاد کے نام پر، کبھی مسلمان کی اذان پر سوال اٹھایا جاتا ہے تو کبھی حج کی سبسڈی ختم کی جاتی ہے، اس کے باوجود کسی شرپسندوں کے خلاف کوئی کاروائی نہیں ہوتی ہے۔ الغرض ان حالات کا مشاہدہ کرنے کے بعد یہ معلوم ہوتا ہے کہ مسلم اقلیت کو آئین میں ملنے والے تمام حقوق سے محروم کر نے کی مکمل کوشش زور و شور سے جاری ہے اور مسلمانوں کے ساتھ مذہب کی بنیاد پر متعصبانہ رویہ کی تحریک چلائی جارہی ہے اور حکومت خاموش تماشائی بنی دیکھ رہی ہے۔
اس لیے ہر ہندوستانی مسلمان کے لیے ضروری ہے کہ وہ دستور ہند کو جانیں اور آئین ہند سے متعلق جو کتابیں دستیاب ہیں ان کو پڑھنے کی کوشش کریں اور ایسے لوگوں سے نبرد آزما ہوتے ہوئے دستور ہند کی روشنی میں ان کی ظالمانہ کوششوں کو ناکام بنائیں۔
اللہ سبحانہ وتعالی ہمارے وطن عزیز کو دشمنوں کے شرو فساد سے محفوظ رکھے، امن و شانتی، اخوت وبھائی چارگی کا گہوارہ بنائے رکھے، اور اسے مزید ترقیوں سے نوازے تاکہ وہ ہر میدان میں بلند مقام پر فائز ہو۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
×