سیاسی و سماجی
کرونا اور ہمارا تعلیمی نظام
ملک میں کرونا کا مرض بڑھتا جا رہا ہے، پورے ہندوستان میں گیارہ لاکھ پچپن ہزار ایک سو اکانوے (۱۱۵۵۱۹۱) لوگ اس مرض کے شکار ہو چکے ہیں، بہار میں چھبیس ہزار تین سو اناسی(۲۶۳۷۹) لوگ اس مرض میں مبتلا ہوئے، ایک سو اناسی(۱۷۹) لوگوں نے اپنی جان گنوائی، سترہ ہزار پانچ سو پینتس(۱۷۵۳۵) لوگ ٹھیک بھی ہوئے ہیں، صحت یابی کے فی صد میں اضافہ کے باوجود مرض کا بڑھنااور پھیلنا انتہائی تشویشناک ہے، جب مرض کا پھیلاؤ کم تھا تو ملک لاک ڈاؤن کے دور سے گذرا، اب مرض کا پھیلاؤ تیزی سے ہو رہا ہے تو سینما ہال اور تعلیمی اداروں کو چھوڑ کر سب کچھ کھل گیا ہے، سنیما ہال کی تو ضرورت ہی نہیں ہے، جو لوگ دیکھنے کے عادی تھے ان کا کام چھوٹے پردے سے چل رہاہے، ٹی وی اور وی سی آر کے ذریعہ وہ اپنا شوق پورا کررہے ہیں، حکومت نے بھی ہندتوا کے فروغ کے لیے بعض پرانے سیریل رامائن وغیرہ کا دوبارہ نشریہ شروع کر دیا ہے۔
لیکن تعلیمی ادارے بند پڑے ہیں، اساتذہ کو اسکول اور دیگر تعلیمی اداروں میں حاضری درج کرنی ہوتی ہے، وہ جاتے ہیں، بیٹھ کر چلے آتے ہیں، ان کے جانے آنے کا کچھ حاصل نہیں ہے،سوائے اس کے کہ بیماری کے دور میں ان کی زندگی کو معرض خطر میں ڈالا جائے، بعض اساتذہ دور دراز سے سفر کرکے اسکول جاتے ہیں اور یہ پورا سفر خطرات سے گھرا ہوتا ہے، چیرمین مدرسہ بورڈ نے مدارس کے اساتذہ کو بھی حاضری کا پابند بنا رکھا ہے، بلکہ انہوں نے ایک قدم آگے بڑھ کر روز کی تصویریں بھیجنے کا بھی صدر مدرس کو مکلف بنایا ہے، غیر ضروری آمد ورفت کی وجہ سے اساتذہ پریشان ہیں اور مدرسہ ہو یا اسکول، کام کچھ نہیں ہے، ابھی محکمہ نے طلبہ کے سروے اور جو بچے اسکول یا مدرسہ نہیں جا رہے ہیں، ان کے داخلہ کی ذمہ داری اساتذہ کو دی ہے، یہ ایک اور جوکھم بھرا کام ہے، عالمی تنظیم برائے صحت کے مطابق یہ مرض اختلاط سے ایک دوسرے میں منتقل ہوتا ہے، گھر گھر جا کر سروے میں وائرس کے منتقل ہونے کا امکان کئی گنا بڑھ جاتا ہے۔
بچوں اور بوڑھوں میں یہ مرض جلد منتقل ہوتا ہے،اس لیے تعلیمی اداروں کے کلاس نہیں لگ رہے ہیں، بعض ادارے آن لائن کلاس چلا رہے ہیں، لیکن یہ صرف علامتی ہے، اس سے کلاس روم جیسا نہ تو تعلیمی ماحول بنتا ہے اور نہ ہی تعلیم صحیح ہو رہی ہے، اس کام کے لیے جن لوگوں کی خدمات لی جا رہی ہیں، ان میں سے چند کو چھوڑ کر انہیں تعلیم وتدریس کا تجربہ نہیں ہے، ایسے میں معلومات صحیح طریقے سے منتقل نہیں ہو رہی ہیں، انٹرنیٹ پر جو درس موجود ہے، اس کو دیکھ کر بآسانی اسے سمجھا جا سکتا ہے، بعض محاضرین کی تحریریں اتنی خراب ہیں کہ ان کے شاگردوں میں تسلسل کے ساتھ یہ خرابی منتقل ہو سکتی ہے۔
ان حالات میں ایک مقامی اخبار نے اس مسئلہ پر ملکی سروے کرایا، جس میں تہتر ہزار (۷۳۰۰۰) سے زیادہ لوگوں نے حصہ لیا، سروے میں پچیس ہزار (۲۵۰۰۰) سے زیادہ مرد اور سترہ ہزار (۱۷۰۰) سے زیادہ عورتیں شریک ہوئیں، ان میں ترپن (۵۳) فیصد نے کہا کہ اسکول تونہ کھلیں، البتہ ہر مضمون کی تعلیم الگ الگ اساتذہ کے ذریعہ پورے اسکول وقت میں نظام الاوقات کے مطابق دی جائے، چوالیس(۴۴) فیصد گارجین کی رائے تھی کہ صرف نویں دسویں کے کلاس کے لیے اسکول کھولے جائیں، کیوں کہ ان درجات میں طلبہ وطالبات بچپن کی عمرسے باہر نکل چکے ہوتے ہیں، بقیہ درجات آن لائن رکھے جائیں، اسکول کھلنے کی صورت میں چھپن(۵۶) فی صدگارجین چاہتے ہیں کہ ایسے کھیل بچوں کو کھلائے جائیں، جس میں سماجی فاصلے کی رعایت ہو سکتی ہو، ۷۱/ فی صد لوگ یونیورسٹی، کالج،کوچنگ کلاس کو اس وقت تک کھولنے کے حق میں نہیں، جب تک اس بیماری کا خاتمہ نہ ہوجائے، ۶۱/ فی صد گارجین تعلیمی ادارے کھلنے کے باوجود بچوں کو اسکول بھیجنے کے حق میں نہیں ہیں۔ بیماری کی جو صورت حال ہے، اس میں تعلیمی اداروں کے کھلنے کے امکانات کم ہیں، جن صوبوں نے امتحان وغیرہ لینے کی بات کہی تھی وہ بھی، اس سے مُکر رہے ہیں، راجستھان نے اعلان کردہ امتحان کی ساری تاریخوں کو رد کر دیا ہے، دوسرے صوبے بھی اسی راہ پر گامزن ہیں، ایسے میں اس کا حل صرف یہ ہے کہ گارجین حضرات، گاؤں کے معلمین اور فکر مند حضرات اپنے اپنے علاقوں کی حالت کو سامنے رکھ کر طلبہ وطالبات کے لیے الگ سے کوئی نظام بنائیں جو مروجہ تعلیمی اداروں سے الگ تھلگ ہو، ان میں ان تمام ضابطوں کی رعایت کی جائے جو سرکار چاہتی ہے، تاکہ مرض سے بچا جا سکے اور تعلیمی نظام کی بحالی میں مدد بھی مل سکے