سیاسی و سماجی
بہار اسمبلی انتخاب ۲۰۲۰ ء
بہار اسمبلی انتخاب ٢٠٢٠ء کے اعلان شدہ نتائج نے ایک بار پھر نتیش کمار کی قیادت پر پسندیدگی کی مہر لگادی ہے، حالاں کہ مقابلہ این ڈی اے اور عظیم اتحاد میں کانٹے کا رہا، این ڈی اے ایک سو پچیس سیٹ پر قبضہ جمانے میں کامیاب ہو گیا او رعظیم اتحاد کو ایک سو دس سیٹ پر ہی اکتفا کرنا پڑا، یعنی وہ حکومت بنانے کے لیے درکار ممبروں کی مطلوبہ تعداد سے بارہ عدد پیچھے رہ گئی اور راجد اسمبلی میں سب سے بڑی پارٹی ہونے کے باوجود حزب مخالف میں بیٹھنے کو مجبور ہو گئی، کانگریس انیس سیٹوں پر نہیں سمٹ جاتی تو مطلوبہ تعداد حاصل کرنے میں عظیم اتحاد کو دشواری نہیں ہوتی، چراغ پاسوان نے اپنا جھونپڑا جلا ڈالا، صرف ایک سیٹ پر اسے اکتفا کرنا پڑا، لیکن اس نے جدیو کو ہرانے میں اہم رول ادا کیا، جس کی وجہ سے اسمبلی اور حکومت میں جدیو کی حیثیت چھوٹے بھائی کی ہوگئی ہے، بی جے پی پہلی بار بہار میں اتنی نشستوں پر قبضہ کرنے میں کامیاب ہو پائی ہے، پپو یادو خود اپنی سیٹ نہیں بچا سکے اور ان کا کھاتا بھی نہیں کھل سکا، راجد کے بڑے لیڈر عبد الباری صدیقی کو ہار کا سامنا کرنا پڑا، مجلس اتحاد المسلمین نے اپنا جلوہ دکھایا اور سیمانچل کی پانچ سیٹوں پر جیت حاصل کرکے تاریخ رقم کی ہے، اور کئی مقامی سیاسی پارٹیوں کی بساط الٹ دی، وزیر اقلیتی فلاح خورشید عالم کی ہار کا غم مسلمانوں کو اس لیے نہیں ہوا کہ وہ پہلے ہی سیاست کے مندر میں اپنے ایمان کا سودا کر چکے تھے اور مندروں میں پوجا پاٹھ کے ان کے ویڈیو وائرل ہونے کی وجہ سے مسلمانوں کی دلچسپی ان سے ختم ہو گئی تھی، اس بار کے انتخاب میں انیس مسلم امید وار جیت کر آئے جو ٢٠١٥ء سے پانچ کم ہیں،٢٠١٥ء میں یہ تعداد چوبیس تھی،٢٠٠٠ء میں ٢٩/ ارکان اسمبلی مسلمان منتخب ہوئے تھے، ١٩٨٥ء میں بہار اسمبلی میں کل تین سو پینتیس ٣٣٥سیٹیں تھیں اور چونتیس مسلم ارکان انتخاب جیت کرا ٓئے تھے، اس اعتبار سے دیکھیں تو مسلم ممبران اسمبلی کی تعداد دن بدن گھٹتی جا رہی ہے، یہ موضوع بھی سیاسی تجزیہ نگاروں کے لیے غور وفکر کا ہے، صرف یہ کہنا کہ فلاں پارٹی کی وجہ سے مسلم ارکان کی تعداد کم ہو گئی، یہ”اپنا ٹھیکرہ دوسرے کے سر پھوڑنے“ جیسی بات ہے، سیکولر ووٹوں کی تقسیم کے جو وجوہات ہیں اس پر بھی ہمیں غور کرنا چاہیے۔
اس انتخاب کے لیے جو ایکزٹ پول سامنے آئے تھے، وہ سبھی کے غلط ثابت ہوئے، اس کی وجہ یہ رہی کہ جو خاموش رائے دہندگان تھے ان کی تعداد کا اندازہ ایکزٹ پول والوں کو نہیں تھا، اسی طرح خواتین کی حصہ داری پر ایکزٹ پول میں توجہ مرکوز نہیں کی گئی، جس کی وجہ سے ایکزٹ پول کے سارے اندازے دھرے کے دھرے رہ گئے۔
اس انتخاب نے یہ بھی ثابت کر دیا کہ ابھی بھی رائے دہندگان کے نزدیک جذباتی نعرے اور ذات پات کی برتری ہی اہم ہے، مُدّے اور مسائل چاہے جس قدر اٹھائے جائیں، آخر وقت میں سب دھرے رہ جاتے ہیں، اور ووٹ ذات پات اور جذباتی نعروں پر ہی مل پاتا ہے، بی جے پی کے پاس ہندوتوا، آر ایس ایس اور فرقہ پرستی کے حوالے سے بہت سے نعرے ہیں، جس سے وہ رائے دہندگان کو لبھالیتے ہیں اور مسائل پیچھے رہ جاتے ہیں، فرق انتخابی جلسوں میں کی جانے والی تقریروں کا بھی پڑتا ہے، وزیر اعظم، وزیر داخلہ، یوگی آدتیہ ناتھ اور اس جیسے دوسرے لوگوں نے جلسے کرکے لوگوں کے رجحان کو ہندتوا پر مرکوز کرنے کا کام کیا، نتیش جی نے تیسرے مرحلہ کے پرچار میں اپنے ترکش کا آخری تیر ”میرا آخری چناؤ“ کہہ کر چھوڑدیا، اس کا بھی تصویر بدلنے میں اہم رول رہااور تیسرے دور کے انتخاب میں اٹھہتر(٧٨) میں باون(٥٢) سیٹیں این ڈی اے کی جھولی میں جاگریں، جب کہ عظیم اتحاد کے پاس صرف تیجسوی پرساد یادو ایک چہرہ تھا، جس نے دن رات ایک کر دیا تیجسوی نے انتخابی دوروں کا رکارڈ قائم کیا اور اس معاملہ میں انہوں نے اپنے والد کو بھی پیچھے چھوڑ دیا، انہوں نے حکمت عملی سے اپنی ماں رابڑی دیوی اور بھائی تیج پرتاپ یادو کو انتخابی جلسوں سے الگ رکھا، راجد کے صدر جگدانند سنگھ بھی نظر نہیں آئے، یہ ون مین شو تھا جس میں تیجسوی تنہا دوڑتے رہے،، نوجوان ان کی طرف متوجہ بھی ہوئے، نوکری، پڑھائی دوائی اور سینچائی کے نام پر لوگوں کی بھیڑ بھی اجلاس میں خوب جُٹی اور اندازہ لگایا جارہا تھا کہ مسلم، یادواورنو جو ان مل کر تیجسوی کو اقتدار تک پہونچادیں گے، لیکن کمند جب دوچار گز لب بام آنے کو رہ گیا تھا ٹوٹ گئی، کمند ٹوٹنے میں ان کی بعض ناعاقبت اندیشیوں کا بھی قصور ہے۔اگر وہ مانجھی، سہنی اور کشواہا کو اپنے ساتھ رکھنے میں کامیاب ہوتے تو مودی اور نتیش کمار سے ناراض رائے دہندگان حالات کا رخ بدل سکتے تھے، راہل گاندھی نے بھی دورے کیے، لیکن وہ بھیڑ کو ووٹ میں بدلنے کے فن سے ناواقف ہیں، اس لیے پورے ملک میں کانگریس کی ناؤ ڈوبتی جارہی ہے، مختلف ریاستوں کے ضمنی انتخابات میں بھی ان کی پارٹی کی کارکردگی اچھی نہیں رہی، بھاجپا انٹھاون (٥٨)میں چالیس (٤٠)سیٹوں پر فتح درج کرانے میں کامیاب ہو گئی، اور مدھیہ پردیش میں کانگریس کی امیدوں پر پانی پھر گیا۔
آواز یں اٹھنے لگی ہیں کہ وزیر اعلیٰ بھاجپا کا ہونا چاہیے، اگر ایسا ہوتا ہے تو نتیش کمار اپنے سیاسی مستقبل کے بارے میں پھر سے غور کریں گے کہ انہیں کیا کرنا چاہیے، حکومت تک رسائی کے لیے ان کے یہاں بھی قول وقرار، عہدے، اعلانات کی کوئی حیثیت کبھی نہیں رہی ہے،٢٠١٥ء میں انہوں نے کہا تھا کہ ہم مٹی میں مل جائیں گے، لیکن بھاجپا سے سمجھوتہ نہیں کریں گے، جب کہ حکومت میں باقی رہنے کے لیے انہوں نے پلٹی ماری اوربھاجپا کی گودی میں جا گرے، موجودہ انتخاب میں ان کے قد کو چھوٹا اور جدیو کے ارکان اسمبلی کی تعداد کم کرنے کے لیے بھاجپا نے لوجپا کو ان کے مقابل کھڑا کر دیا، پیٹھ نتیش کی تھپتھپاتی رہی اور اندرونی حمایت لوجپا کو دیتی رہی، انتخابی اجلاس سے نتیش کمار کی تصویریں غائب کر دی گئیں، خود نتیش کمار نے لوگوں سے مودی کے نام پر ووٹ مانگنا شروع کر دیا، اپنے عہد میں کیے گیے کاموں کا تذکرہ وہ کم کرتے اورمودی کی ستائش میں زیادہ وقت لگانے لگے،اور یہ معاملہ اس قدر سنجیدہ ہو گیا کہ چراغ پاسوان نے اپنے چراغ سے اپنی جھونپڑی جلا ڈالی،کہناچاہیے کہ ”اس گھر کو آگ لگ گئی گھر کے چراغ سے“ لیکن نتیش کے قد اور جدیو کی سیٹ کو کم کرکے رکھ دیا، اس طرح اس بار کے انتخاب میں مجلس اتحاد المسلمین سے زیادہ لوجپا، پپو یادو، کشواہا،بسپا اور مکیش سہنی کی پارٹی نے ووٹ کٹوا ہونے کا کام کیا، عظیم اتحاد میں اگر کوئی پارٹی فائدے میں رہی تو وہ بائیں بازو کی کمیونسٹ پارٹی ہے، جس کی واپسی پھر سے بہار کی سیاست میں ہو گئی ہے۔
این ڈی اے کی سرکار میں وزیر اعلیٰ بننے کے باوجود نتیش کمار کی پوزیشن انتہائی کمزور رہے گی، پہلے دور میں بی جے پی ان سے مغلوب تھی، دوسرے دور میں وہ اس کے دباؤ میں رہے، جب کہ اسمبلی میں ان کے ارکان کی تعداد بی جے پی سے بہت زیادہ تھی، اب کی بار کی پارٹی کے ممبران صرف تینتالیس(٤٣) ہیں، ایسے میں بی جے پی چاہے گی کہ مکھوٹا نتیش کمار کار ہے اور ایجنڈہ سارا اس کا چلے، جیسا خود نتیش کمار نے ایک زمانہ میں جیتن رام مانجھی کو وزیر اعلیٰ بنا کر کیا تھا، لیکن جب جیتن رام مانجھی جیسا کمزور آدمی اس رویہ کو زیادہ دن برداشت نہیں کر سکا، تو نتیش کمار کس طرح اسے برداشت کر سکیں گے، یہ جگ ظاہر ہے، اس کا مطلب یہ ہے کہ حکومت این ڈی اے کی کمزور ہو گی اور حزب مخالف مضبوط رہے گا، ایسے میں ہندوستانی سیاست میں جوالٹ پلٹ کی گرم بازاری رہتی ہے اور جسے اس ملک میں خود بھاجپا والوں نے شروع کیا ہے اس کے امکان سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔
نتیش کمار کے وزیر اعلیٰ بننے سے ہو سکتا ہے کہ وہ اپنے ”سات نشچے“ پروگرام کو آگے بڑھائیں اور جو منصوبے پہلے سے چل رہے تھے ان کو تسلسل ملے، توقع کی جاتی ہے کہ وہ گذشتہ دور اقتدار میں جن مسئلوں کو
حل نہیں کر سکے تھے یا جن کی طرف ان کی توجہ نہیں گئی تھی، اس پر اپنی توجہ مرکوز کریں گے اساتذہ کی جانب سے مسلسل اٹھائے جانے والے مطالبہ”ایک کام، ایک تنخواہ“کو مان کر ان کے ساتھ انصاف کریں گے، ٹی ای ٹی امیدوار کامیاب ہونے کے بعد بھی ملازمتوں سے دور کھے گیے ہیں، انہیں ان کا حق دلایا جائے گا، جوانوں کے لیے روزگار، کسانوں کے لیے کھاد اور سینچائی کی سہولت کی فراہمی جیسے اہم امور پر توجہ دی جائے گی، اقلیتوں کے نام پر قائم جو ادارے کس مپرسی کا شکار ہیں اور جو دن بدن اپنی کارکردگی کھو تے جا رہے ہیں، ان کے اندر حرکت اور فعالیت پیدا کی جائے گی، سی اے اے، این آر سی اور این پی آر کے مسئلے پر نتیش جی کی رائے ماضی میں مذبذب رہی ہے، وہ حلیف پارٹی کی حیثیت سے بھاجپا کو ان منصوبوں کو سرد بستے میں ڈالنے یا اس میں مناسب ترمیم کرنے کے لیے تیار کرسکیں گے، گو یہ کام آسان نہیں ہے، بھاجپا اپنے ایجنڈے سے ایک قدم بھی پیچھے ہٹنے کو تیار نہیں ہے، بہار اور مختلف ریاستوں کے ضمنی انتخاب میں کامیابی نے اس کے قد کو کچھ اور اونچا کر دیا ہے، ایسے میں مضبوط حکمت عملی اور پختہ عزم وارادہ کے ساتھ آگے بڑھنے کی ضرورت ہے، امیدیں اور توقعات حکمراں طبقے سے ہی لگائی جاتی ہیں، مطالبات بھی اسی سے کیے جاتے ہیں، فی الوقت ہم نئی حکومت کے لیے نیک خواہشات ہی پیش کر سکتے ہیں